قائداعظم کی بہن کے قتل کا مقدمہ بھی درج نہ ہوسکا

Published by ثاقب اکبر on

saqib akbar

ان دنوں اس امر پر بہت اعتراض کیا جا رہا ہے کہ وزیرآباد میں سابق وزیراعظم پر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر ان کی شکایت پر درج نہیں کی گئی بلکہ سپریم کورٹ کے اصرار پر پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی ہے، جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی کولیشن گورنمنٹ بھی برسرکار ہے۔ اس امر پر پورے ملک میں احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ ہر روز سپریم کورٹ سے اس مقدمے کے اندراج اور تحقیقات کے لیے مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں، لیکن تاحال اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس موقع پر ہمیں تاریخ کا یہ اندوہناک واقعہ یاد آیا کہ قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، جنھیں بہت سی شہادتوں کے مطابق قتل کیا گیا تھا، ان کا مقدمہ بھی درج نہ کیا گیا، جبکہ اس کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں۔

اس مقصد کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کے بھانجے مشہور ماہر قانون اکبر پیر بھائی جی بھارت سے تشریف لائے اور انھوں نے اس دور کے صدر مملکت جنرل ایوب خان سے ملاقات بھی کی۔ ان کی درخواست پر مقدمہ تو درج نہ کیا گیا، لیکن صدر ایوب نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی انکوائری کروائیں گے، لیکن یہ انکوائری نہ ہوسکی۔ اس وقت کے وزیر خارجہ سید شریف الدین پیر زادہ کا کہنا ہے کہ اکبر پیر بھائی جی کی صدر ایوب سے ملاقات کے موقع پر وہ بھی موجود تھے۔

بہت سی گواہیاں تاریخ کے حافظے میں محفوظ ہیں، جن کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا، البتہ اس موضوع کو بھی اختلافی بنایا گیا، جیسا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے جب ہم ٹی وی پر لائیو دیکھ رہے تھے، وزیرآباد میں عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ کے دوران میں ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ ایک کارکن موقع پر شہید ہوگیا۔ عمران خان سمیت تیرہ سے پندرہ تک افراد گولیوں کی بوچھاڑ سے زخمی ہوئے، لیکن پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو کوئی گولی نہیں لگی اور اگر انھیں کوئی گولی لگی ہو تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ گولیاں لگنے کے سارے حقائق اور زخمی ٹانگیں جن میں گولیاں پیوست ہونے کے نشانات موجود ہیں، سامنے آچکے ہیں، لیکن رانا صاحب نے وزارت چھوڑی نہ سیاست۔

اگست 2003ء کے اوائل میں اس وقت کے وزیراعظم کے سینیئر مشیر اور آئینی امور کے ماہر سید شریف الدین پیرزادہ نے بیان دیا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی موت طبعی نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ 14 اگست 2003ء کو یا اس سے پہلے ایک پریس کانفرنس کرکے اس بارے میں تفصیلات ضرور بے نقاب کریں گے۔ ان کے بقول انھوں نے خود محترمہ فاطمہ جناح کا خون میں لت پت بستر اور کٹا ہوا گلا دیکھا تھا۔ انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ پولیس نے اس واقعے کو دبا دیا اور اس معاملے کی تحقیقات کرنے کے بجائے موت کو طبعی قرار دے دیا۔ راقم نے ان کے اس بیان کے بعد روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں ایک کالم لکھا، جس کا عنوان تھا ’’کیا شریف الدین پیر زادہ خطرے میں ہیں۔؟‘‘ بہرحال ممکن ہے کسی دبائو یا خطرے کے پیش نظر انھوں نے پریس کانفرنس کرکے حقائق سامنے لانے کا وعدہ پورا نہ کیا ہو۔

محترمہ فاطمہ جناح 9 جولائی 1967ء کو فوت یا شہید ہوئیں۔ اس سے پہلے والی رات 8 جولائی بروز ہفتہ شام ساڑھے چھ بجے وہ حیدرآباد دکن کے سابق وزیراعظم میر لائق علی کی بیٹی کی تقریب میں شریک ہوئی تھیں۔ میر لائق علی کا بیان ہے کہ وہ اس موقع پر ہشاش بشاش اور صحت مند تھیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم یہ بھی لکھ دیں کہ جن کی تقریب میں وہ شریک تھیں، ان کے مطابق تو وہ صحت مند تھیں، لیکن اس پر بھی اس کے خلاف ایک گواہی پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ ان کی طبیعت اس رات ٹھیک نہیں تھی۔ میر لائق علی کا بیان 10 جولائی 1967ء کو روزنامہ امروز لاہور میں شائع ہوا، جس میں ان کے یہ الفاظ نقل کیے گئے تھے: ’’کل رات مادر ملت خوش و خرم تھیں، انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔‘‘ اس واقعے کو سمجھنے کے لیے اس دور کے ملکی حالات اور سیاست کی اونچ نیچ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خاں کے بیہمانہ قتل، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور دیگر بڑے سانحات کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے عالمی اور ملکی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔

ہم فی الحال یہاں پر ان گواہیوں کو پیش کرتے ہیں، جن سے زیادہ بہتر اور چشم دید گواہیاں نہیں ہوسکتیں۔ 8 اگست 1971ء کو جسٹس پارٹی کے سربراہ میاں منظر بشیر نے جو مادر ملت میموریل کے کنوینئر تھے، روزنامہ جسارت کے ذریعے حکومت سے ٹربیونل قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی روز جسارت نے ایک اداریہ لکھا، جس کا عنوان تھا ’’مادرِ ملت کا قتل۔‘‘ شیخ عبدالرشید نے 14 جولائی 2020ء کو ’’مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح قتل یا طبعی موت؟‘‘ کے زیر عنوان اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون لکھا، جو اس وقت بھی ’’ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے‘‘ پر موجود ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: "اس حوالے سے 1971ء میں حیرت انگیز انکشافات اس وقت سامنے آئے، جب غسالوں کے انٹرویو سامنے آئے۔ 16 اگست 1971ء کو غسال 67 سالہ شیخ ہدایت حسین عرف حاجی کلو کے مطابق، مجھے مسلم چانڈیو نے تجہیز و تکفین کی تیاری کی ہدایت کی، میں نے تینوں غسالوں کو ساتھ لیا اور ضروری سامان لے کر قصر فاطمہ پہنچ گیا۔ اس وقت رات تھی، غسالوں فاطمہ سید، فاطمہ قاسم اور فاطمہ بائی بچو کے ساتھ کفن تیار کرنے لگا۔

غسل کے دوران معلوم ہوا کہ مادر ملت کے جسم پر گہرے زخم ہیں، جگہ جگہ چوٹ کے نشان ہیں۔ غسالوں نے احتجاج کرنا چاہا، لیکن کچھ لوگوں نے کہا خاموشی اختیار کی جائے۔ غسالہ سیدہ فاطمہ ظفر نے بتایا ”جب میں خواب گاہ میں داخل ہوئی تو لاش سے دور ایک کرسی پر ایک خاتون بیٹھی تھی، جو غمگین اور پریشان تھی۔ وہ فاطمہ جناح کی بھانجی بیگم رضا چانڈیو تھیں، قریب ہی اصفہانی کھڑے تھے، لاش مسہری پر پڑی ہوئی تھی اور اس کے گرد برف کی سلیں رکھی ہوئی تھیں۔ جب میں نے غسل کے لیے میت کا جائزہ لیا تو میری روح لرز گئی، مادر ملت کی گردن پر چار انچ سے لمبا زخم تھا، جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ ان کے گھٹنے پر بھی زخم تھا، دایاں رخسار سوجھا ہوا تھا اور جسم نیلا ہو کر اکڑ گیا تھا۔ ان کی چادر اور لباس خون میں لت پت تھا اور خون کے خشک دھبوں سے کپڑا سخت ہوگیا تھا۔ اس پر میں نے منہ کھولنا چاہا تو مجھے سختی سے منع کر دیا گیا۔

خون آلود کپڑے میں گھر لے گئی۔ انتقال کے تین دن بعد میں نے خواب میں فاطمہ جناح کو دیکھا، وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ ’’فاطمہ تو نے بھی کچھ نہیں بتایا۔‘‘ [کہ شائع شدہ پیش نظر مضمون میں ’’کچھ‘‘ کے بجائے ’’تک‘‘ لکھا ہوا ہے]۔ اسی طرح ایک اور غسالہ فاطمہ بائی بچو نے فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کی تصدیق کی۔ مزید بتایا کہ مادر ملت کے پیٹ میں ایک معین سوراخ تھا، جس سے متعفن پانی بہہ رہا تھا۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹ کے نیل پڑے ہوئے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے انھیں کسی نے زد و کوب کیا ہو۔ (بحوالہ نوائے وقت 16 اگست 1971ء) تیسری غسالہ فاطمہ قاسم نے بھی ان تفصیلات کی تصدیق کی۔ ان بیان کردہ معلومات کی روشنی میں خیال کیا جاتا ہے کہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا۔ ملاحظہ کیجیے:
https://www.humsub.com.pk/331725/sheikh-abdul-rashid-18/

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جو لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا، ان میں سے بھی بعض قتل کی وجوہات کو کسی انفرادی فیصلے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ہم نے سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کے سانحے میں دیکھا کہ اس واقعے کو بھی کسی شدت پسند یا مذہبی جنونی کے ذاتی اقدام سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ حالانکہ حقائق بالکل ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ماڈل ٹائون سانحے کی ساری فلم اور تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، لیکن طاقتور حکمرانوں نے مظلوموں کی داد رسی نہیں ہونے دی۔ سیاست دان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سب حقائق جانتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ اور ان کے دور حکومت میں ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا سانحہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ کسی کو سزا ہوئی، نہ کسی مقدمے کا نتیجہ سامنے آیا۔

یہ تمام مقدمات آج بھی کھولے جائیں اور کسی کا دبائو نہ ہو، آزادانہ تحقیقات کی جائیں تو سارے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ جیسے عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے لے کر ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے تک کی کہانی مراسلے سے شروع ہوتی ہے، خدا جانے کون کون سی المناک داستانیں ایسے ہی کسی مراسلے سے شروع ہوتی ہوں گی۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سیاسی معاملات و حالات کو سامنے رکھے بغیر ایسے واقعات کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ محترمہ فاطمہ جناح 1964ء میں ہمہ مقتدر آمر مطلق فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل انتخابات میں اتریں، غدار قرار پائیں، پختونستان کے قیام کی سازش میں ملوث قرار دی گئیں، عورت کے اقتدار کو اسی زمانے میں غیر اسلامی کہنے والے بھی میدان میں اتارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال اور حقیقی آزادی

محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت کا ایجنٹ بھی کہا گیا، ان پر گندے اور رقیق الزامات بھی لگائے گئے۔ ایسے بہت سے الزامات ایوب خان نے خود اپنی تقریروں میں لگائے، ان کی کردار کشی کی گئی، انھیں آزادانہ ریڈیو پاکستان پر تقریر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ان کی بعض تقاریر کو بجلی چلے جانے کے بہانے کاٹ کر نشر کیا گیا۔ انھوں نے اپنے بھائی قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں کتاب لکھی، جس کا عنوان تھا ’’My Brother‘‘۔ اس کی اشاعت کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ جب چھپ کر آئی تو اس کے بہت سے صفحات غائب تھے۔ آج بھی تاریخی حقائق کے بہت سے صفحات ہماری آنکھوں سے غائب رکھے گئے ہیں اور رکھے جا رہے ہیں۔ ظلم، دھونس اور دھاندلی، جھوٹ، منافقت اور بیرونی آقائوں کی کاسہ لیسی، خود پرستی اور خود غرضی، ہوس اقتدار اور خوف ان سب کا راج ختم کرنا ہوگا اور "پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” کی حقیقت کو اس ملک میں ظہور کرنا ہوگا۔