قرآن کریم اور 19 کا عدد

Published by fawad on

تحریر: سید ثاقب اکبر

یہ دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے کہ 19 کا عدد کس طرح سے قرآن حکیم کے پورے نظام پر چھایا ہوا ہے۔ اس امر کی نشاندہی خود قرآن حکیم کی سورہ مدثر میں ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ O‏ إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ O‏ سَأُصْلِيهِ سَقَرَ O‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ Oلَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ O‏ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ‎O‏ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ‎O‏ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۔۔۔ "آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ کھال جھلس دینے والی انیس کارکن اُس پر مقرر ہیں، ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے۔” یہ ترجمہ ہم نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے لیا ہے۔ 19 کا عدد اس سیاق و سباق میں کس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس پر مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ 19 کی تعداد کو یہاں پر جہنم کے پورے نظام پر محیط قرار دیا گیا ہے۔ یہ فرشتے ہیں یا کوئی اور مخلوق ہے یا پھر یہاں اس سے مراد ایک عدد ہی ہے۔ اس پر فی الحال گفتگو نہیں کرتے۔

جن لوگوں نے قرآن حکیم کے نظام اعداد پر غور و فکر کیا ہے، انھوں نے بہت سے عجیب و غریب حقائق کا سراغ لگایا ہے۔ یہ حقائق ایسے نہیں ہیں کہ جن کے حیرت انگیز ہونے کے بارے میں کوئی دوسری رائے ہو۔ اعداد کے اس سارے نظام میں 19 کا عدد چونکہ عجیب و غریب سیاق و سباق میں آیا ہے، اس لیے بعض مفسرین اور قرآن سے متعلق علم الحساب کے ماہرین نے اس پر بہت غور کیا ہے۔ جن امور کا سراغ اس غور و خوض کے نتیجے میں لگایا گیا ہے، وہ تمام تر ماضی میں شاید ممکن نہ تھے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد علم الاعداد کے ماہرین کو ان امور پر توجہ کرنا اور ان کے حوالے سے حقائق تک پہنچنا نسبتاً آسان ہوگیا ہے۔ یہ حقائق قرآن کی حقانیت اور اس کے الہیٰ کتاب ہونے پر شواہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان بھی برحق ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ہر دور میں تازہ بہ تازہ حقائق سامنے لے کر آتا ہے۔

19 کے عدد کے حوالے سے قرآن حکیم کے چند امور ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ یہ کل 19 کلمات پر مشتمل ہیں اور اگر قرآن کی موجودہ ترتیب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آخر سے اس سورہ کا نمبر انیسواں ہے۔ یہ 19 کلمات 74 حروف پر مشتمل ہیں جو (19×4) بنتے ہیں۔ قرآن حکیم کی کل 114 سورتیں ہیں، جو 19×6 کے برابر ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن حکیم میں 114 مرتبہ آئی ہے۔ اگرچہ سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے، تاہم سورہ نمل میں 2 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آئی ہے۔ ایک شروع میں اور اس کے بعد حضرت سلیمانؑ کے بلقیس کے نام مکتوب میں۔ بسم اللہ کے کل حروف بھی 19 ہیں۔ بسم اللہ کے بارے میں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن حکیم میں کلمہ ’’اسم‘‘ 19 مرتبہ، کلمہ ’’اللہ‘‘ 2698 (19×42) مرتبہ، کلمہ ’’الرحمن‘‘ (19×3) مرتبہ اور کلمہ ’’الرحیم‘‘ 114(19×6)مرتبہ آیا ہے۔

سورہ قٓ میں حرف ’’ق‘‘ 57 (19×3) مرتبہ آیا ہے۔ اس سورہ کے حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس میں حضرت لوط کی قوم کا ذکر اخوان لوط کے نام سے کیا گیا ہے، جب کہ قرآن حکیم کے دیگر مقامات پر ان کے لیے قوم لوط کے الفاظ آئے ہیں۔ اگر اس سورہ میں بھی اخوان لوط کے بجائے قوم لوط کے کلمات آتے تو یہ سورہ 19 کے نظام سے نکل جاتی، جو پورے قرآن حکیم پر محیط ہے۔ سورہ ن والقلم میں حرف ’’ن‘‘ 133(19×7) مرتبہ آیا ہے۔ سورہ نصر جسے بعض مفسرین آنحضرتؐ پر نازل ہونے والی آخری سورہ کہتے ہیں، کے کلمات کی تعداد 19 ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 19 کا عدد قرآن حکیم کے آغاز و اختتام تک قرآنی حروف و الفاظ و سور کے نظام پر چھایا ہوا ہے۔ قرآن حکیم نے ہر وہ سورہ جس کے آغاز میں حروف مقطعات آئے ہیں، اس میں ان حروف کی تعداد 19 کا حاصل ضرب ہے۔

اس حوالے سے بہت سے حقائق ہیں، جنھیں ہم ایک نشست پر پوری طرح بیان نہیں کرسکتے۔ جن احباب کو قرآن کے معجزات سے دلچسپی ہے، وہ اس کے بارے میں مفسرین اور ماہرین علم الحساب کی طرف رجوع کریں، جنھوں نے قرآن حکیم کے اعداد کے حوالے سے تفصیلات بیان کی ہیں۔ بعض ماہرین نے یہ توجہ بھی دلائی ہے کہ قرآن حکیم میں دنیا و آخرت دونوں کلمات 115 مرتبہ آئے ہیں۔ شیاطین و ملائکہ دونوں الفاظ 88 مرتبہ آئے ہیں۔ موت و حیات بھی دونوں 145 مرتبہ آئے ہیں۔ کفر و ایمان کے کلمات 25 مرتبہ آئے ہیں۔ لفظ ’’شہر‘‘ جس کا معنی مہینہ ہے، 12 مرتبہ آیا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک سال 12 مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ’’یوم‘‘ کا لفظ قرآن حکیم میں 360 مرتبہ آیا ہے اور اگر قمری مہینہ کامل ہو تو وہ 30 دن کا ہوتا ہے۔ اس طرح بارہ کامل مہینے 360 دنوں پر مشتمل ہوں گے۔

قرآن حکیم میں 19 کے عدد کے حوالے سے جو حقائق ہم نے پیش کیے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت قرآن حکیم میں الفاظ کی املاء جس انداز سے موجود و محفوظ ہے، وہی اس کا حقیقی انداز ہے اور اگر الفاظ کی املاء کو اس طریقے سے ہٹا دیا جائے تو قرآن حکیم کا یہ اعجاز ختم ہو جائے گا۔ مثلاً لفظ ’’الرحمن‘‘ اسی انداز سے لکھا جاتا ہے اور اگر اسے ’’الرحمان‘‘ لکھا جائے گا تو بسم اللہ کے حروف بیس ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن حکیم اپنی املاء اور لفظوں کے لکھنے کے انداز کے لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور معجزہ بھی۔ قرآن شریف کی کل سورتیں 114 ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تعداد 19 x6 کے برابر ہے۔ یعنی یہ تعداد بذات خود معجزہ ہے اور اتنی ہی سورتیں نبی کریمؐ پر نازل ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/%d9%82%d8%b1%d8%a2%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b9%d9%82%d9%84/

قرآن حکیم کی کل آیات 6346 ہیں۔ ان میں 114 مرتبہ بسم اللہ بھی شامل کی گئی ہے۔ وہ احباب جو بسم اللہ کو الگ سے ایک آیت تسلیم نہیں کرتے، ان کے مطابق بھی سورہ حمد میں آنے والی بسم اللہ ایک آیت کے طور پر شمار کی جاتی ہے، نیز سورہ نمل کے اندر آنے والی بسم اللہ کے آیت ہونے پر بھی شک نہیں کیا جاسکتا، جبکہ سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے۔ دیگر 112 سورتوں کے شروع میں آنے والی بسم اللہ کو عامۃ المسلمین آیت کے طور پر شمار نہیں کرتے، جبکہ اہل بیت رسالت علیہم السلام سے مروی احادیث میں سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ کے شروع میں آنے والی بسم اللہ ایک آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی قانون کے مطابق قرآن حکیم کی کل آیات 6346 ہیں، جو 19×334 کے برابر ہیں۔ سچ فرمایا ہے نبی کریمؐ نے کہ قرآن و اہل بیت ؑکو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

مجموعی طور پر ہماری پیش کی گئی ان معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے حروف، الفاظ، آیات، ان کی تعداد، حروف مقطعات، سورتوں کی ترتیب اور سورتوں کے آغاز میں بسم اللہ کا ہونا سب معجزہ ہیں اور قرآن حکیم کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں اور ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم ہر لحاظ سے ایک غیر تحریف شدہ کتاب ہے اور کسی بھی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ 23 سال مختلف مواقع پر اور مختلف حالات میں گفتگو کرے اور وہ حروف و الفاظ کی تعداد کے لحاظ سے اس طرح کا اہتمام کرسکے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ رسول کریمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچے رسول ہیں۔ ان کی کتاب ایک الہیٰ کتاب ہے۔ ربیع الاول کے مہینے میں قرآن مجید کے ان حقائق کو سامنے رکھیں تو قرآن اور صاحب قرآنؐ سے ہماری محبت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔