پاکستان کی پارلیمان میں آزاد روح کا خطاب
30 جون 2021ء کو اسلام آباد میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان خطاب کر رہے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پارلیمان میں قائداعظم کی آزاد روح کی آواز گونج رہی ہے۔ خود عمران خان نے قائداعظم کا ذکر ان الفاظ میں کیا: “قائداعظم غلام ہندوستان میں ایک آزاد انسان تھے۔” پاکستان کی تشکیل کا پس منظر اور اس سلسلے میں پاکستان کے بانیوں کا ویژن بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
“ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کتنا بڑا خواب تھا، ہمیں کس مقام پر پہنچنا تھا، جو اللہ کے سامنے جھکتا ہے وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا، خواہ رومن سلطنت ہو یا فارس کی ریاست۔ لا الہ الا اللہ انسان میں غیرت بیدار کرتا ہے۔ غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان بڑے کام کرتا ہے اور نہ ہی قومی غیرت کے بغیر ملک اٹھتا ہے۔” وزیراعظم نے امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا حصہ بننے پر سخت تنقید کی اور پاکستان پر پڑنے والے اس کے برے اثرات کو بیان کیا۔ انھوں نے کہا: “کیا کوئی قوم کسی اور کی جنگ میں شریک ہو کر اپنے ستر ہزار افراد کی قربانی دیتی ہے؟ ڈیڑھ سو ارب سے زائد ڈالر ہم نے قربان کیے۔”
انھوں نے مزید کہا: “جو وہ (امریکی) کہتے رہے ہم کرتے رہے۔ اپنے لوگ ان کو پکڑا دیے۔ جو (حکومت) اپنے لوگوں اور قوم کی حفاظت نہیں کرتی، کسی اور نے ان کی کیا حفاظت کرنی ہے۔ چند سو القاعدہ کے (افراد) کے پیچھے ہم نے اپنی فوج اپنے قبائلی علاقوں میں بھیج دی۔ ایک طرف ڈرون حملے ہو رہے تھے اور دوسری جانب فوج (تھی) جسے پتہ ہی نہیں تھا کہ دشمن کون ہے۔ آدھے سے زیادہ قبائلی عوام نے نقل مکانی کی۔” عمران خان نے پاکستان کے امریکہ کی اتحادی ریاست بننے کے باوجود امریکی ڈرونز کی پاکستانی علاقوں پر حملے کی پرزور مذمت کی اور اس کا پس منظر بھی بیان کیا۔ انھوں نے کہا: “وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا کیونکہ اس وقت ہمیں دوست دشمن کا پتہ نہیں تھا۔ امریکہ دوست تھا لیکن کبھی (آپ نے) سنا ہے کہ کوئی دوست آپ کے ملک میں ڈرون حملے کر رہا ہو؟”
وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی امریکی جنگ میں شمولیت کو غلط قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ 30 سال سے لندن میں ہمارا مطلوب دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، لیکن کیا برطانوی حکومت ہمیں وہاں ڈرون حملے کی اجازت دے گی اور اگر نہیں تو پھر ہم نے کیوں اپنے ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت دی؟ جنرل پرویز مشرف اور بعد کی حکومتوں کے دوران میں امریکی ڈرونز کی پاکستانی علاقوں میں وحشیانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے حکمرانوں کی منافقت کو تاریخی حوالوں سے آشکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ حکمران بظاہر ڈرون حملوں کی مذمت کرتے تھے لیکن اندر خانے امریکہ سے ملے ہوئے تھے اور انھوں نے امریکیوں کو اس حملے کی اجازت دے رکھی تھی۔
وزیراعظم نے کہا: “وہ دور ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا، جن لوگوں کے بیوی بچے ڈرون حملوں میں مرتے تھے، وہ بدلہ پاکستانی فوج سے لیتے تھے۔ (حکمران) ڈرون حملوں کی اجازت دیتے تھے اور پھر ان حملوں کی مذمت کرتے تھے۔ سینیٹر کارل لیول (امریکی) سینیٹ کی اوپن ہیئرنگ میں ایڈمرل ملن سے کہتا ہے کہ آپ پاکستان میں کیوں ڈرون حملے کر رہے ہیں جبکہ حکومت مذمت کرتی ہے؟ ایڈمرل ملن اوپن ہیئرنگ میں کہتا ہے کہ ہم پاکستانی حکومت کی اجازت سے کر رہے ہیں۔ سینیٹر کارل لیول کہتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے لوگوں سے سچ کیوں نہیں بولتی؟” حکمرانوں کے اس طرز عمل سے پاکستان کے حصے میں جو ذلت آئی اس پر وزیراعظم نے بہت دکھ کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا: “ہم نے خود اپنے آپ کو ذلیل کیا، ہم امریکہ کو کیا برا بھلا کہیں۔ جب اسامہ بن لادن پر ایبٹ آباد میں حملہ ہوا تو ہمارے اورسیز پاکستانی چھپ گئے کہ ہمارا اتحادی ہم پر اتنا اعتماد نہیں کرتا کہ وہ ہمیں کہے کہ اسامہ کو مارو۔ ملک کے عوام کی عزت نفس ہی مجروح ہوگئی۔”
اس سارے تاریخی پس منظر کے بعد انھوں نے جرات کے ساتھ سر اٹھا کر اعلان کیا کہ ہم نے (آئندہ) کبھی کسی کے خوف سے اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا نہیں کرنا۔ اپنی آئندہ کی افغان حکمت عملی کو وزیراعظم نے جچے تلے اور صریح الفاظ میں بیان کیا۔ امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے نہ دینے کے اپنے عزم کی وجہ بھی انھوں نے اس حکمت عملی میں آشکار کر دی۔ انھوں نے کہا: “مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ امریکہ کو فوجی اڈے دیں گے، ہمیں تو ان سے پوچھنا چاہیے کہ اتنی قربانیوں کے بعد کیا امریکا نے ہماری کبھی تعریف کی بلکہ انھوں نے تو الٹا ہمیں برا بھلا کہا۔ جنگ خود نہیں جیت پا رہے تھے اور برا بھلا ہمیں کہا گیا۔ اب قومی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔”
عمران خان نے مزید کہا: “امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں۔ کاش وہ پہلے اسے سمجھ جاتے تو اتنا خون نہ بہتا۔ افغانستان پر کبھی بھی باہر سے کوئی قابض نہیں ہوسکا۔ اگر ہم خودداری کا مظاہرہ کرتے تو اس کشت و خون کو روک سکتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو، نہ ہم اسٹریجک ڈیپتھ چاہتے ہیں، نہ ہم کسی کی سائیڈ لینا چاہتے ہیں، جو افغانی چاہتے ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ ہم امریکہ کے ساتھ امن کے لیے شراکت تو کرسکتے ہیں، Conflict میں شراکت نہیں کرسکتے۔ ویسے تو یہ وزیراعظم کی بجٹ تقریر تھی، جس میں انھوں نے بجٹ کے اہم پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو کی، انھوں نے مسئلہ کشمیر پر بھی بات کی۔ انھوں نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے اپوزیشن کو متفقہ راہ عمل اختیار کرنے کے لیے مذاکرات کی بھی دعوت دی۔ ملک کے لیے اپنے آئندہ منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔ تاہم ہم نے سطور بالا میں ان کی تقریر کے ان حصوں کی نشاندہی کی ہے، جو ایک بدلے ہوئے پاکستان کی عکاسی کرتے ہیں۔
مغرب میں بھی دانشور یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مستقبل کی قیادت ایشیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر بدلی ہوئی خارجہ پالیسی کو ظاہر کرتی ہے اور نئی دنیا کی تشکیل میں پاکستان کے شعوری کردار اور شمولیت کا عزم ظاہر کرتی ہے۔ تاہم عمران خان کے بارے میں بہت سے لوگوں کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ کہیں یوٹرن نہ لے لیں۔ خارجہ پالیسی کے ان خطوط کے حوالے سے بھی بعض لوگوں کی یہی رائے ہے، تاہم افغان پالیسی کے بارے میں انھوں نے جو کچھ بیان کیا ہے، یہ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے کہتے چلے آئے ہیں۔ کم از کم افغان پالیسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انھوں نے اس پوری مدت میں کوئی یو ٹرن لیا ہے۔ امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے بارے میں بھی ان کا یہی نقطہ نظر رہا ہے۔ لہٰذا اس میں بھی ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے۔
انہی دنوں میں وزیراعظم نے چینی میڈیا کے نمائندوں سے بھی بات کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے نئے خطوط سی پیک کی لائن اینڈ لینتھ کے مطابق ہیں۔ روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ کیمونسٹوں کی زبان میں اسے جبر تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے اور بدلے ہوئے زمینی حقائق کا تقاضا بھی۔ ہندستان سے بڑھتے ہوئے اور گہرے ہوتے ہوئے امریکی روابط بھی پاکستان کو نئے خطوط پر سوچنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ ادھر مشرق وسطیٰ میں بھی نئے حقائق ابھر رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے نئے خطوط ان سے بھی ہم آہنگ معلوم ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں دور حاضر میں پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین جو یکجہتی دکھائی دیتی ہے، وہ بھی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ وزیراعظم نے اپنے بیانات میں فقط اپنا ذاتی یا حکومتی نظریہ بیان نہیں کیا بلکہ ریاستی حکمت عملی کی ترجمانی کی ہے۔ اسی لیے ہمیں یہ بات درست لگتی ہے کہ 30 جون کو پاکستان کی پارلیمان میں ایک آزاد روح نے خطاب کیا ہے۔