داعش کی ماں کب تک خیر منائے گی؟

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

افغانستان کے بعد امریکا کو عراق سے بھی اپنے پر پرزے سمیٹنے ہوں گے، امریکہ نے عراق سے اپنی واپسی کے پروانے پر دستخط اس روز کیے جب اس نے عراقی سرزمین پر عراقی رضاکار فورس کے کمانڈر ابو مہدی المہندس اور القدس بریگیڈ کے  معروف سربراہ جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کیا۔ یہ جنوری 2020ء کی بات ہے۔ الحشد الشعبی نے ایک برس انتظار کیا کہ امریکا ہماری سرزمین کو قانونی انداز سے چھوڑ جائے۔ پارلیمان کی قراردادوں، سیاسی شخصیات کے بیانات کے باوجود امریکہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا نے داعش کے مقابلے کے نام پر عراق میں تقریباً 2500 فوجی رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا کی عراق میں آمد صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ہوئی اور اس وقت سے وہ عراق میں موجود ہے۔ عراق کی مانند ایک امریکی اڈہ شام اور عراق کی سرحد پر بھی موجود ہے، جہاں سے وہ بشار الاسد کے مخالفین کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ امریکا کا داعش، ابو بکر البغدادی، جھبہۃ النصرۃ، فری سیرین آرمی، کرد الائنس کی تشکیل میں کردار اس قدر واضح ہے کہ اب اس پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، تاہم امریکا بہادر عراق اور شام میں داعش کے خاتمے کے نام پر موجود ہے۔

امریکا کی ہمیشہ سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ پہلے وہ مصیبت کو جنم دیتا ہے اور اس کے بعد اس مصیبت کے خاتمے کے لیے میدان میں کود پڑتا ہے۔ اپنے جنم دیئے ہوئے ناسور کو ختم کرنا تو اس کا مقصد ہوتا نہیں، وہ اس ناسور کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری رکھتا ہے، جب تک کہ اس کے حقیقی مقاصد یعنی متاثرہ ممالک کے وسائل کی لوٹ مار حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ افغانستان کی مانند عراق میں بھی امریکہ کو شکست کا سامنا ہے۔ اس نے کوشش کی کہ ابو بکر البغدادی کو تخلیق کرکے عراق کی جمہوری حکومت، جو ناتجربہ کار بھی تھی اور کمزور بھی، اس کا خاتمہ کیا جائے اور پھر داعش کے مقابلے کے نام پر عراق کے وسائل پر شب خون مارا جائے۔ افغانستان میں اسے کامیابی ملی، لیبیا میں وہ اب تک کامیاب ہے، لیکن شام اور عراق میں وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ جس ناسور کو اس نے عراق اور شام میں تخلیق کیا تھا، وہ وہاں کی آبادی کے سب سے مقدس مقام پر حملہ آور ہوا۔ جس کے دفاع کے لیے بہرحال عراقی، ایرانی، شامی اور افغانی مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے۔

عراق سے داعش نامی ناسور کا خاتمہ ہوا، شام میں اس ناسور کو اپنے زخم چاٹنے پڑے اور اس ناسور کی منحوس ماں اس وقت عملی طور پر اپنے منصوبے میں ناکام ہو کر ایک جانب چھپی بیٹھی ہے۔ ایسے میں امریکا نے ان افراد کو قتل کیا، جو داعش نامی ناسور کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بن گئے تھے۔ عراقی عوام کے لیے یہ ناقابل برداشت حملہ تھا۔ اس حملے کے جواب میں حشد الشعبی قانون اور سفارتکاری کی منتظر تھی، تاہم گذشہ چھے ماہ سے عراقی رضاکاروں کے گروہوں نے امریکی تنصیبات پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔ اب تک جن گروہوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، ان میں قاصم الجبارین، اصحاب کہف، سرایا اولیاء دم، فصیل المقاومۃ الدولیہ، سرایا ثورۃ العشرین الثانیہ، عصبۃ الثائرین، مقاومت اولو العزم، قوات ذوالفقار، ثار المہندس، الشہید کریم درعم، ابا الفضل العباس، سرایا المنتقم، کتیبۃ السابقون، لواء المنتقمون اور لواء خیبر نامی گروہ شامل ہیں۔ عراقی مزاحمتی تحریک عصائب اہل الحق کے سیکرٹری جنرل اور حشد الشعبی کے اہم کمانڈر شیخ قیس الخز علی نے گذشتہ دنوں واضح کیا ہے کہ عراقی مزاحمتی فورسز اس وقت تک قابض امریکی فوج کے خلاف عسکری کارروائیاں کرتی رہیں گی، جب تک کہ وہ ملکی سرزمین چھوڑ نہیں دیتی۔

کل امریکہ نے کتائب حزب اللہ اور سید الشہداء کے مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں۔ پینٹاگون کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج پر اس ملیشیا کے ڈرون حملوں کے جواب میں آپریشنل اور ہتھیار ذخیرہ کرنے والی سہولیات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ وہ امریکی افواج کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں گے۔ پینٹاگون کے بیان کے مطابق ان فضائی حملوں کے دوران شام میں دو اور عراق میں ایک ہدف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ میں مقیم مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ شام میں امریکی جنگی طیاروں کے حملے میں پانچ رضاکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ امریکہ اب الحشد اور اس کے گروہوں پر جتنے بھی حملے انجام دے، عراقی اور شامی عوام کے اس تاثر کو مزید گہرا کرے گا کہ امریکہ کا ہمارے ممالک میں وجود ہمارے مستقبل کے لیے ضرر رساں ہے۔ یقیناً ان فضائی حملوں کے بعد داعش کا خاتمہ کرنے والے شہادت کے پروانوں کے لیے داعش کی ماں پر حملوں کی راہ کھل گئی ہے۔ جیسی ذلت امریکا کو افغانستان میں نصیب ہوئی ہے، اس سے بڑی ذلت عراق اور شام میں اس کی متنظر ہے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز