پاکستان کی سربلندی میں خواتین کا کردار

Published by fawad on

سیدہ ہما مرتضی
سیدہ ہما مرتضی

پروردگار کا احسان عظیم ہے کہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو قیام میں آئے 71برس ہو رہے ہیں۔ اس مملکت خداداد کی اساس ان گنت قربانیوں پر استوار ہے جو ہمارے آبائو اجداد نے اپنے لہو سے بنائی ہے اور ان قربانیوں کے ضمن میں مرد و خواتین دونوں نے آزادی کے حصول کے لیے مال و جان کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ ہمارے قائد محمد علی جناح کو اپنی خواتین کی اہمیت کا کامل اندازہ اور ان کی ہمت و جرأت کا پورا ادراک تھا۔ 1947ء کے اواخر میں کراچی میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا:


’’آدھا پاکستان آپ خواتین کا ہے کیونکہ اس کے حصول میں آپ کا حصہ مردوں سے کم نہیں ہے۔‘‘


اکیسویں صدی کی پاکستانی خواتین کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ان کے اس سفر کا آغاز محترمہ فاطمہ جناح کی راہنمائی میں ہوا۔ آزادی کی اس جدوجہد میں خواتین مادر ملت کی راہنمائی میں مردوں کے شانہ بشانہ تھیں۔ بہرحال یہ کوئی آسان سفر نہ تھا۔ آگ اور خون کے درمیان سے عورتوں کو گزرنا پڑا۔ کتنی اغوا ہوئیں، کتنی کی عصمت دری ہوئی اور کتنی عورتوں نے جان بچانے کے لیے کنوئوں میں چھلانگ لگا دی۔ پاکستان میں اگر خواتین کی قربانیوں کی بات کی جائے تو تحریک آزادی اور پاکستان بن جانے کے بعد تو پیپلز پارٹی اس دوڑ میں صف اول پرنظر آتی ہے کیونکہ مسلم امہ میں پہلی خاتون وزیراعظم بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا تعلق بھی اسی پارٹی سے تھا جنھوں نے اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بطور خاتون پارٹی کی چیئرپرسن منتخب ہو کر ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالی اور بھرپور طریقے سے اپنا کام سرانجام دیا۔


یہ بات تاریخی اعتبار سے ناقابل تردید ہے کہ پیپلز پارٹی جو پاکستان کی خواتین کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کی مدعی ہے پاکستانی سیاست میں بھٹو کا دور پاکستانی خواتین کے لیے ترقی کا دور ثابت ہوا۔ 1972 میں ساری سرکاری ملازمتوں کے دروازے عورتوں کے لیے کھول دیے گئے۔ پہلی مرتبہ 70خواتین کو یونیورسٹیز کا وائس چانسلر، صوبوں کی گورنر اور قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر ہونے کا موقع ملا۔ پہلی مرتبہ وزارت خارجہ میں عورتوں کو ملازمتوں کے مواقع ملے۔ میکسیکو میں عورتوں کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستانی وفد کی قیادت بیگم نصرت بھٹو نے کی۔ اس کانفرنس میں پیش کی گئی تجاویز کے نتیجے میں 1976 میں حکومت پاکستان نے ویمن ڈویژن کے قیام کی منظوری دی۔ 1988میں بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران میں انھوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور ویمن پولیس اسٹیشنز بنوائے۔ عورتوں کو اعلیٰ عدالتوں میں ججز بنایا۔ محترمہ ماجدہ رضوی کو سندھ ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اکرم خاتون فرسٹ ویمن بینک کی پہلی صدر بنیں، فرسٹ ویمن بینک کا قیام بھی 1989میں عمل میں آیا۔ اس کا مقصد عورتوں کی مالی ضروریات کے حوالے سے کام کرنا تھا۔ اس لیے قومیائے کیے گئے کمرشل بینک کو ترقی مالیاتی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی فلاحی تنظیم کا درجہ بھی دیا گیا۔ اس بینک کو عورتیں ہی چلا رہی ہیں اور ملک میں اس کی 36شاخیں کام کررہی ہیں۔


اکیسویں صدی کو سماجی اور معاشی طور پر خواتین کو بااختیار بنانے کی صدی کہا جارہا ہے۔ اس میں خواتین کو سفارتکاری اور خارجہ امور سے دور رکھنے کے تصورات اور نظریات کوبتدریج ناقابل قبول قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں جن خواتین نے سفارتکاری کے شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ان میں بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم شائستہ اکرام اللہ، سیدہ عابدہ حسین، شیری رحمن، حنا ربانی کھر، ملیحہ لودھی اور تہمینہ جنجوعہ قابل ذکر ہیں۔


واضح رہے حنا ربانی کھر کو پاکستان کی پہلی وزیر خارجہ ہونے اعزاز بھی حاصل ہے۔ شیری رحمن اس وقت سینٹ میں پیپلز پارٹی کی رکن ہیں۔ شیری رحمن نے سیاست اور سفارتکاری کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ 2002 میں پہلی بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کی گئیں۔ شیری رحمن اور ان کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے دیگر اراکین نے 2003 میں تحفظ و بااختیاری خواتین بل 2003 کے نام سے واحد پرائیویٹ ممبرز بل پیش کیا۔ 2004 میں شیری رحمن نے غیرت کے نام پر قتل کے معاملے سے متعلق بھی ایک بل پیش کیا۔ اسی سال 30جولائی کو غیرت کے نام پر قتل کے خاتمہ کا ایک سرکاری بل بھی پیش کیا گیا۔ اس بل پر اس وقت کے وزیراعظم کی مشیر برائے ترقی نسواں نیلوفر بختیار عورت فائونڈیشن کے اشتراک سے ایک عرصہ سے کام کررہی تھیں۔ اس میں قصاص اور راضی نامے کی دونوں دفعات شامل نہیں تھیں۔ محترمہ نیلو فر بختیار،محترمہ مہناز رفیع اور مسز کشمالہ طارق جن کا تعلق اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ق سے تھا، نے ان مثبت ترامیم کو بل کا حصہ بنانے کے لیے آخری لمحہ تک کوشش کی لیکن حکومت اور بعض حلقوں کی مزاحمت کی وجہ سے انھیں کامیابی نہ ہوئی خیر شیری رحمان آج کل سینیٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں۔


ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا شمار نہ صرف پاکستان کی معروف اور تجربہ کار سفارتکاروں میں ہوتاہے بلکہ اقتصادیات، سماجی سیاست اور صحافت کے شعبوں سمیت تدریس کے میدان میں بھی انھوں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ نائلہ چوہان بھی پاکستان کی خواتین سفارتکاروں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ نائلہ چوہان حقوق نسواں کی بڑی علمبردار ہیں۔ انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز پاکستانی دفتر خارجہ میں پاک چائنہ ڈیسک سے کیا تھا۔ یہ اب تک مختلف ممالک بشمول ملائیشیا، مشرق وسطی، ارجنٹائن اور ایران میں سفارتکاری کے 8 مختلف مناصب پر فرائض انجام دے چکی ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ میںاس وقت 39خواتین ہیں جن میں 19خواتین افسران اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں تعینات ہیں، جب کہ 20خواتین بیرون ملک خدمات انجام دے رہی ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین کو امریکا میں پاکستان کی پہلی خاتون سفیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ 26نومبر 1991 سے 24جنوری 1997 تک امریکا میں سفیر ۔ سیدہ عابدہ حسین ایک ایسے وقت میں امریکا کی سفیر مقرر کی گئی تھیں جب امریکا نے پہلی مرتبہ شدت کے ساتھ پاکستان کے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور ایف 16فیلکن طیاروں کی فراہمی کا معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔ ایسے نازک موقع پر سیدہ عابدہ حسین نے موثر سفارتکاری کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کی با اثر خواتین بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کررہی ہیں اور ان کے پاکستانی معاشرے کی ترقی و فلاح میں فعال کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 2016 میں کئی پاکستانی خواتین نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ترقی یافتہ شہروں سے لے کر پسماندہ اور روایت پسند علاقوں تک کئی خواتین اپنے عزم و حوصلہ کے سبب دنیا کی نظروں کا مرکز بنیں اور یہ پیغام دیا کہ وہ وقت بدلا گیا جب خواتین کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا تھا، اب ذہن بدلنا ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مزید خواتین نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا۔

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/jadeed-tehzeeb-ka-zawal/


فروری 2016کی ایک روشن صبح پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ شخصیت شرمین عبید چنائے دوسرا آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’’آگرل ان دی ریور پرائس آف فورگیونیس‘‘(A Girl in the river price of forgiveness) غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی جس نے پاکستانی قوانین پر بھی واضح اثرات مرتب کیے۔


اسی سال 2016 میں پاک نیوی کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ذکیہ جمالی پاکستان نیوی کی پہلی کمیشن آفیسر بن گئیں۔ سوات سے تعلق رکھنے والی تبسم عدنان کو خواتین کے حقوق کے لیے انتھک جدوجہد پر کولمبیا میں نیلسن منڈیلا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستانی نژاد خاتون نرگس ماولہ والہ نے اس وقت پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا جب انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کرنے کا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ ثمینہ بیگ یہ نوجوان خاتون پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو کے۔ٹو کو سر کر چکی ہیں جسے دنیا کا کٹھن ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ثمینہ بیگ دنیا کے سات براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیوں کو بھی سر کر چکی ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انھوں نے عزم وہمت کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔


نفیس صادق ایک اور پاکستانی خاتون ہیں 1987 میں ڈاکٹر صادق اقوام متحدہ میں انڈر سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ یہ دنیا کی پہلی خاتون تھیں جو اقوام متحدہ میں اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئیں۔ انھوں نے مائوں اور بچوں کی صحت پر بے پناہ کام کیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی شمولیت پر زور دیا ہے۔


ایک اور قابل فخر پاکستانی خاتون جہاں آرا پاکستان سافٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن فار انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدرکی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ وہ پاکستان کی سافٹ ویئر انڈسٹری کو بین الاقوامی رسائی دلوانے میں اہم کردار ادا کر چکی ہیں۔ 29سالہ تجربہ رکھنے والی یہ خاتون ایک مقررہ اور سماجی کارکن ہیں۔ یہ معلومات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کمیونٹیز کو خود مختار بنانے کے لیے بھی کام کررہی ہیں۔ اسی طرح کوئٹہ کے اسلامیہ گرلز کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورینہ شاہ نے اس وقت ملک بھرکی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی جب علم فلکیات پر اپنے مطالعے اور تجربے کے باعث اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دنیا بھر کے ماہرین فلکیات نے ان کی مہارت کو سراہا۔ آج کی پاکستانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے میں کام کرتے ہوئے ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا رول پلے کررہی ہیں اور پاکستان کے لیے فخر کا باعث بن رہی ہیں ۔طب سے لے کر مسلح افواج، سیاست، صحافت، فلم سازی، ادب، تعلیم، بزنس، سیاست، کھیل، فنون لطیفہ اور سماجی خدمت کے ہر شعبے میں خواتین وطن کا نام روشن کررہی ہیں۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا اہم کردار رہا ہے کیونکہ یہ صرف ریاست نہیں معاشرے کو بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کررہی ہیں ۔جہاں ایک طرف اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو کر ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنے حصہ ڈال رہی ہیں وہاں دوسری طرف خاندان کی دیکھ بھال بھی خود کرتی ہیں۔ ایک نئی نسل کو معاشرے کا بہترین فرد بنانے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔