وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ

Published by fawad on

nisar 1
تحریر: سید نثار علی ترمذی


23 نومبر 2016ء میں وزارت حسین نقوی صاحب بھکر میں انتقال فرما گئے۔ ﺍﻧﺎ ﻟﻠﮧ ﻭﺍﻧﺎ ﺍﻟﯿﮧ ﺭﺍﺟﻌﻮﻥ
ان کے انتقال سے اس دور کا خاتمہ ہوا کہ جب غیر روحانی بھی قومیات میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ تقریبا ختم ہو گیا ہے۔


وزارت حسین نقوی کا خاندان انڈیا سے ہجرت کر کے بھکر میں رہائش پذیر ہوا۔ سید وزارت حسین نقوی (پیدائش 1928ء) کاتعلق سہارن پور سے تھا-وہ اپنے سید خاندان کےسربراہ تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے بہت سرگرم رکن تھے اور جب مہاجرین کی ریل گاڑیاں سہارن پور سے گزرتی تھیں تو وہ اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کی مدد سے مہاجرین کو کھانا پینا اور دوسری بنیادی اشیاء فراہم کرتے تھے- ا نہیں اس کام سے روکنے کے لیے سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے تین دفعہ حملہ کیا گیا-حتیٰ کہ انہیں مارنےوالے کے لیے انعام کا اعلان کردیا گیا- اس کے بعد انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور بریلی سے آنے والی ریل گاڑی پر سوار ہوکر پاکستان کے لیے روانہ ہوگئے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی تحریک آزادی پاکستان میں حصہ لینے پر گولڈ میڈل بھی دیا ۔

آپ بنیادی طور پر وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ اس پیشے میں اپ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ قانونی معاملات کے علاوہ وکلاء سیاست میں بھی کافی اثر رکھتے تھے۔ یہ کہا جا سکتا یے کہ اپنے علاقہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ دین داری اور دین کے کاموں میں ہمیشہ پیش رو رہے۔ بھکر میں شاندار مرکز ” قصر زینب ” کے نام سے تعمیر کرایا جو علاقہ کی مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس کے معاملات کی نگرانی آخر تک کرتے رہے۔ اس میں مسجد امام بارگاہ اور ضریع مبارک اور تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ اپنے علاقے کی مذہبی سرگرمیوں اور سیاست میں کام کرتے رہے۔

wazarat hussain
وزارت حسین نقوی


1979 میں ضیاء الحق نے اپنی من پسند طرز کے فقہی قوانین کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ملک میں سناٹے کا سماں تھا۔ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں خاموشی کی پالیسی پر گامزن تھیں۔ ایسے میں وزارت حسین نقوی صاحب نے بھکر میں ملک گیر مرکزی شیعہ کنونشن کا اعلان کردیا۔ اس سے قبل علماء کرام اور زعماء قوم کو اعتماد میں لیا۔ اس کے لیے ملک بھر کا دورہ کیا۔ یہ ایک تاریخی اور ملت کے لیے اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کنونشن کے انتظامات اپ کے مہارت کا ثبوت ہے۔ جو اس کنونشن میں شریک ہوا وہ انتظامات کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کنونشن نے اپ کو ملک بھر میں متعارف کروا دیا۔ اس کنونشن میں طے پایا کہ ملت کےلیے ایک پلیٹ فارم ” تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ملت کی قیادت کے لیے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کو چنا گیا۔ اس عمل نے ملت کو ایک تسبیح میں پرو دیا۔ مخالفت کی کمزور سی آواز دب کر رہ گئی۔ 1980 میں اسلام آباد کنونشن منعقد ہوا جو ملت کے حقوق کے حصول کا مرحلہ قرار پایا۔ مفتی جعفر حسین صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم کیوں کہ مرکزی سینئر نائب صدر تھے وہ قائم مقام صدر بن گئے۔ لیکن انہوں نے اپنا ایجنڈا طے کر لیا تھا اور اس پر عمل درآمد کرنے کےلیے کوشاں تھے۔ ان نے خود بتایا کہ علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب اور وزارت حسین نقوی صاحب ایک ہفتہ ان کے پاس رہے اور انہیں قائل کیا کہ ملی پلیٹ فارم کا احیاء ہونا چاہیے۔ ان سے تائید لے کر ملک بھر کا دورہ کیا۔ دستور کے مطابق ہر ضلع میں نمائندے مقرر کیے۔ ان کا اجلاس بھکر میں دس گیارہ فروری 1984 منعقد کیا جس میں علامہ عارف الحسینی شہید کا بطور قائد ملت چناو عمل میں آیا۔ شہید نے آپ کو مرکزی جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ چھ جولائی 1985 کو جب سانحہ کوئٹہ پیش آیا تو آپ بھکر سے براستہ سڑک کوئٹہ پہنچے تو آرمی آ چکی تھی ۔ جیسے ہی آپ شہر میں داخل ہوئے گرفتار ہو گے۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جس کا آپ کی صحت پر برے اثرات پڑے۔ شہید کے دور میں مرکزی جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود پھر اس طرح کی فعالیت نہ کر سکے۔ مرکزی اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ بعض اوقات غیر حاضر رہتے۔شہید کے دور میں دیو سماج لاہور کا دفتر فعال تھا۔ ان کی کمی گو پوری ہوتی رہتی۔ شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کے اجلاس کنڈکٹ کیے جس نے نئے سربراہ کا انتخاب کیا۔

علامہ ساجد نقوی صاحب نے جب 1988 میں الیکشن میں حصہ لیا تو اپ نے اس کی حمایت نہ کی۔ بلکہ پیپلز پارٹی کی مقامی سطح پر سپورٹ کیا۔ الیکشن کے بعد جب مرکزی دفتر میری ملاقات ہوئی تو اپ نے دل کھول کر الیکشن پر تنقید کی۔ اپ سپریم کونسل کے رکن رہے۔ نواز شریف کی حکومت جب ختم ہوئی اور نگران حکومت میں منیر حسین گیلانی صاحب مرکز میں وزیر ہو گۓ اس پر اپ سخت نالاں تھے اور گلہ کرتے تھے کہ ” قربانیاں میں نے دیں اور جب اعزاز دینے کی باری ہوئی تو کسی اور کو نواز دیا۔ ” فعالیت اور عدم فعالیت کا نشیب و فراز ان کی تنظیمی زندگی کا حصہ رہا۔وہ روائتی تشیع اور انداز کے نمائندے تھے۔ قومیات سے وابستگی انہوں نے کسی نہ کسی طرح برقرار رکھی۔ وہ تشیع کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ دور دراز علاقے میں رہنے کے باوجود مرکزی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ وہ رواداری کا مرقع تھے۔ انہوں نے پوری زندگی بامقصد گزاری۔ ان کے اس دنیا سے جانے سے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ آخری دور میں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سینئر نائب صدر تھے ۔ آپ 23 ، نومبر 2016ء خالق حقیقی سے جاملے ۔

اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/ijaz-ali-shah/