×

خالق بھی جس کے حسن کا قائل دکھائی دے

سید اسد عباس

خالق بھی جس کے حسن کا قائل دکھائی دے

سید المرسلین، اگر غور کیا جائے تو یہی ایک لقب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم انسانیت پر عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے، تاہم اللہ کریم نے اپنے کلام میں اپنے محبوب کو مختلف اسماء، القاب اور صفات سے پکارا ہے۔ احمد، محمود، محمد، عبد اللہ، صادق، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، بشیر و نذیر، داعی، سراج منیر، الامی، کافۃ للناس، رسول، شہید، خلق کی انتہاء، لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے والا، لوگوں کے لیے نرم دل، تزکیہ کرنے والا، حکمت سکھانے والا، لوگوں کے لیے طلب مغفرت کرنے والا، لوگوں کے لیے رضائے پروردگار طلب کرنے والا، استقامت والا، امر و نہی کرنے والا، نماز اور صبر کی تلقین کرنے والا، تسبیح کرنے والا، در یتیم، کریم، توکل کرنے والا، امین، صادق، آیات تلاوت کرنے والا، مشورہ کرنے والا، طہ، یٰس، مدثر، مزمل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

جب خالق کائنات اس ہستی کے محاسن بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتا تو انسان کی کیا مجال ہے کہ اس ہستی کی نعت و منقبت لکھے۔ ہم نے تو اسی کی نقالی کرنی ہے، جسے خالق کائنات نے قرآن میں جابجا لکھا ہے اور ہماری تعریف کسی طور بھی خالق کائنات کی تعریف کا بدل نہیں ہوسکتی۔ رسالت مآب ؐ کا کمال و جمال جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے، وہ آپ کی شان کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے، اس کے بعد نہ کسی راوی کی ضرورت رہ جاتی ہے، نہ کسی بیان کرنے والے کی۔ تعریف کا معیار یہ نہیں ہے کہ کتنے لوگوں نے ایک شخص کی تعریف کی بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ کتنے اہل خبرہ نے ایک شخص کے محاسن کو گنوایا۔ جب تعریف کرنے والا خود خالق کائنات ہو تو پھر اس کے مقابل کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ شاعر جو قرآن کو پڑھے گا، وہ تو فقط یہی کہ سکتا ہے کہ

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری


رسالت مآب ؐ نے خود اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا:

يَا عَلِيُّ مَا عَرَفَ اللَّهَ إِلَّا أَنَا وَ أَنْتَ‏، وَ مَا عَرَفَنِي إِلَّا اللَّهُ وَ أَنْتَ، وَ مَا عَرَفَكَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَا؛ [1] “اے على! میرے اور آپ کے علاوه الله تعالىٰ کو کسى نے نہیں پہچانا، خداوند اور آپ کے علاوه مجھے کسى نے نہیں پہچانا اور آپ کو الله تعالىٰ اور میرے علاوه کسى نے نہیں پہچانا ہے۔”

حقیقت بھی ایسے ہی ہے، ان ہستیوں کی حقیقی معرفت خاکی انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اپنا اپنا ظرف ہے، جس کے مطابق معرفت کی عطا نصیب ہوتی ہے۔ ان ہستیوں کی معرفت ہی کو تو ایمان کہا گیا ہے، جس قدر ان کی معرفت ہوگی، انسان کا ایمان اسی قدر کامل ہوگا، جس کو اس قلزم سے ایک بھی قطرہ نصیب ہو جائے، اس کے لیے دنیاوی مصائب و مشکلات، تکالیف و علائم بے معنی ہو جاتے ہیں۔

بلال کو یہ عشق عطا ہوا تو ریگزار عرب کی دہکتی مٹی پر سینے پر پڑے بھاری پتھر کے نیچے بھی وہ احد احد پکارتا رہا۔ بلال چاہتے تو اپنی تکلیف کو فوراً رفع کر لیتے، لیکن جو الاؤ بلال کے سینے میں روشن تھا، اس کی تپش ہر حرارت سے سوا تھی۔ عمار کے والد یاسر اور والدہ سمعیہ ایک لفظ ادا کرکے اپنی جان شکنجوں سے بچا سکتے تھے، تاہم انھوں نے عرفان کی وہ مے چکھی تھی کہ جس کے سامنے سب تکالیف حتیٰ کہ موت بھی ہیچ تھیں۔ بدر کے شہداء، مکہ کے اسراء، احد و خندق میں تکالیف اٹھانے والے، سب سے بڑھ کر کربلا میں اپنا سب کچھ لٹانے والے معرفت کے سبب ہی تو عالم انسانیت سے ممتاز ہوئے۔ معرفت چیز ہی ایسی ہے، یہ وہ تجربہ ہے، جو انسان کو کچھ اور ہی بنا دیتا ہے۔ میں نے علم نہیں کہا، تاکہ قاری یہ نہ سمجھے کہ معرفت کتابوں سے حاصل ہونے والی کوئی چیز ہے، تجربہ بھی تو علم ہی ہوتا ہے، تاہم یہ علم لفظی علم کی مانند نہیں ہے۔

سوچا تو یہ تھا کہ اس تحریر میں رسالت مآب ؐ کی زندگی کے کسی پہلو پر روشنی ڈالوں گا اور ان کی ایک منفرد انداز سے مدح سرائی کرکے داد و تحسین سمیٹوں گا۔ اس کے لیے انسانوں کی فکری جولانیوں کے دفاتر بھرے پڑے ہیں، تاہم جب خالق کائنات کے ختمی مرتبت کے حوالے سے بیان کردہ الفاظ کو قرآن کریم میں پڑھا تو اپنی اور انسانیت کی فکر، علم، معرفت اور الفاظ کی کم مائیگی اور بے وقعتی کا احساس ہوا، ذہن حیرت زدہ ہوگیا اور اس تحریر کو اسی حیرت کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ کیا ایک کم علم و کم فہم انسان اس ہستی کی تعریف بیان کرسکتا ہے، جس کا خالق ثناء خواں ہے(نعوذ باللہ)۔ اللہ کریم میری اس فکر پر مجھے معاف فرمائے کہ میں اس کے ممدوح کی کوئی ثناء بیان کرسکتا ہوں۔ آمین

[1] حسن بن سليمان بن محمد حلی،مختصر البصائر، قم:مؤسسة النشر الإسلامي،چ، اول، 1421 ق، ص336۔

Share this content: