عظمت رسول ؐ قرآن کی روشنی میں

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

بسلسلہ ہفتہ وحدت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اسلامؐ، نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ، اور عیسٰی ؑ جیسے انبیائے الہیٰ کے تسلسل میں ہی تشریف لائے۔ آپ ؐ اسی ایک خالق مالک کے فرستادہ تھے، جس نے پہلے نبیوں کو بھیجا، تاکہ وہ نوع انسانی کی ہدایت کرسکیں۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر قرآن حکیم میں آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْہُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ اور یقیناً ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں۔ ان میں بعض تو ایسے ہیں، جن کی داستان ہم نے آپ سے بیان کی ہے اور بعض ایسے ہیں، جن کا تذکرہ ہم نے آپ سے نہیں کیا۔

(المؤمن:۴۰۔۷۸) ان تمام انبیاء کی تعلیمات اپنے اصولوں کے حوالے سے ایک سی تھیں۔ سب نے انسانوں کو زمزمہ توحید سنایا۔ سب نے شرک کی بدانجامی سے ڈرایا۔ سب نے بے اعتدالیوں پر متنبہ کیا۔ سب نے انسانوں کو بتایا کہ وہ ذمہ دار اور جواب دہ مخلوق ہیں۔ ان سب انبیاء کی بنیاد میں ہم آہنگی اور سب کے فرستادہ الہٰی ہونے ہی کی طرف قرآن مجید کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔
لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھتے (البقرہ:۲۔۲۸۵) تاہم جب ابھی دنیا میں قبائل بکھرے ہوئے تھے۔ مختلف سرزمینوں کے باسیوں کے درمیان باہمی ارتباط کم تھا تو انبیاء کی سرگرمیاں بھی بعض خاص علاقوں اور قبیلوں تک محدود رہتی تھیں، نیز جب ابھی انسانی تہذیب اپنی ابتدائی منزلیں طے کر رہی تھی تو بشریت کو اس کی اسی سطح پر راہنمائی اور ہدایت کی ضرورت تھی۔ جیسے ابتدائی کلاسوں کے طلبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جوں جوں انسانی تہذیب و تمدن نے ارتقائی منزلیں طے کرنا شروع کیں تو اسے اسی سطح کے ہادیوں کی ضرورت پڑنے لگی۔ اس ساری صورت حال کو ہم یوں بیان کرتے ہیں کہ سب انبیاء کا دین تو ایک ہی تھا، لیکن ان کی شریعتیں مختلف تھیں۔ حالات زمانی بدلے اور مسائل مکانی تبدیل ہوئے تو شریعت بھی بدل گئی۔ انسان انبیاء کے لائے ہوئے صحیفوں سے کچھ سبق حاصل کرتے، لیکن آہستہ آہستہ وہ صحیفے بھی کمی بیشی کا شکار ہو جاتے۔ جیسے ابتدائی کلاس کے بچے اپنی کتاب کے بعض صفحے پھاڑ دیتے ہیں۔ بعض صفحوں پر اپنے ہاتھوں سے کچھ لکھ دیتے ہیں، پھر انھیں نئی کتاب کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح نئے نبی آتے رہے۔ پہلی کتاب دگرگوں ہوتی تو نئی کتاب نازل ہو جاتی۔

یہاں تک کہ انسانی تہذیب کمال کے ایک خاص مرحلے تک پہنچ گئی۔ فرزند تہذیب بالغ ہوگیا۔ انسانوں کے عالمی روابط پہلے سے زیادہ فعال ہوگئے۔ مختلف ملکوں بلکہ مختلف براعظموں سے روابط قائم ہونے لگے۔ ایسے میں قدرت کی طرف سے ایک انسان کامل کا ظہور ہوا، جو ایک کتاب جامع لے کر نوع بشر کے پاس آیا۔ یہ انسان کامل حضرت محمدؐ تھے۔ قرآن حکیم کے بقول آپؐ کو ساری نوع انسانی کے لیے پیغمبرؐ بناکر بھیجا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا۔ "کہیے: اے انسانو! میں اللہ کی طرف سے تم سب کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔”(الاعراف:۷۔۱۵۸) بالواسطہ ہی نہیں بلاواسطہ بھی اللہ تعالیٰ نے نوع بشر کو پیغام دیا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْ وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔ "اے انسانو! بے شک تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے برحق رسول آیا ہے۔ پس ایمان لے آئو، اس میں تمھاری بھلائی ہے لیکن اگر تم انکار کر دو تو یقیناً جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اللہ ہی کی ملکیت ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔”(النساء:۴۔۱۷۰)

بعض آیات میں آپ ؐ کی مسٔولیت کی حدود عالمین کو قرار دیا گیا ہے، ارشاد الہیٰ ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن "آپ کو سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔” (الانبیاء: ۱۰۷) نیز ارشاد فرمایا: "تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا۔ "بابرکت ہے، وہ ذات جس نے حق و باطل کی تمیز کرنے والا (قرآن) اپنے بندے پر نازل کیا، تاکہ وہ سب جہانوں کا متنبہ کرنے والا بن جائے۔”(الفرقان:۱) نبی کریمؐ پر نازل ہونے والی کتاب بھی ایسی ہی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کا پیغام اور دعوت بھی انسانوں کے لیے ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر انسانوں کو مخاطب قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ آیت دیکھیے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ "اے انسانو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور انھیں بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، شاید کہ اس سے تم متقی اور پرہیز گار بن جائو۔”(البقرہ:۲۔۲۱)

یہ کتاب گذشتہ تمام کتب الہیٰ کے معارف کی جامع ہے اور ان سے بڑھ کر نوع انسانی کو اگلے مرحلے پر جو مزید ہدایت کی ضرورت تھی، وہ بھی اس میں موجود ہے۔ رسول اسلام ؐ پر نازل ہونے والی یہ کتاب اب وحی کی انسانی ضرورت کے لحاظ سے ہر اعتبار سے مکمل ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم میں مختلف انداز سے صراحت سے بات کی گئی ہے۔ چنانچہ دین کی تکمیل اور نعمت کے تمام ہو جانے کو یوں بیان کیا گیا ہے: اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ "آج میں نے تمھارے لیے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اس دین اسلام سے وابستہ ہونے پر میں تم سے راضی ہوں۔”(المائدۃ:۵۔۳) قرآن حکیم نے اس امر کی بھی وضاحت کی ہے کہ انسان کو جس مرحلے پر آسمانی ہدایت کی ضرورت پڑے گی، اس کی مثال اور اس سلسلے میں راہنمائی اسے قرآن مجید میں مل جائے گی۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ۔ "یقیناً ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر طرح کی مثال بیان کر دی۔”(الروم:۳۰۔۵۸)

پھر جب آپ ؐ کی نبوت کو ہمیشہ تمام انسان کے لیے باقی رہنا تھا تو ضروری تھا کہ آپؐ پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی باقی رہتی۔ اس کا حال گذشتہ کتب آسمانی کا سانہ ہوتا۔ اس کے لیے حق تعالیٰ نے انتظام کرنا اپنے ذمے لے لیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ "یقیناً یہ ذکر ہم نے نازل کیا اور بلا شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔”(الحجر:۱۵۔۹) آپ ؐ کی امت کو بھی سارے انسانوں تک پیغام ہدایت پہنچانے اور حدا عتدال کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ۔ "اور ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا، تاکہ تم سب انسانوں کے لیے شاہد قرار پائو۔”(البقرۃ:۲۔۱۴۳) اللہ تعالیٰ نے رسول اسلامؐ کو حاتم النبیین بنا کر بھیجا۔ گویا انبیاء و رسل کا سلسلہ جو حضرت آدم ؑ سے چل رہا تھا، اس کے آخری فرد اور اس کی آخری کڑی آپ ؐ کو قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم میں ارشاد الہی ہے: مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔ "محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ تو اللہ کے رسول ؐ اور خاتم النبیین ہیں۔”(الاحزاب۔۳۳۔۴۰)

اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء سے ممتاز کر دیا، چونکہ مقام ختم نبوت، نبوت کے مقام سے بالا اور رسالت کے ہر درجے سے اونچا ہے۔ اس سے آپ ؐ کی جامعیت کبریٰ کا اظہار ہوتا ہے۔ گویا آپ ؐ نبیوں کے وارث ہیں۔ آپ ؐ کو ان الہیٰ اقدار کا محافظ بنا کر بھیجا گیا، جن کی علم برداری گذشتہ انبیاء کے ہاتھ رہی۔ آپ ؐ پر ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ؐ کی سیرت کے بنیادی نقوش رہتی دنیا تک محفوظ رہیں گے۔ ختم بنوت درحقیقت آپ ؐ کے کردار کی نورانی شعاعوں کی تابنا کی کی ہمیشہ کے لیے ضمانت کا نام ہے۔ ورنہ بندوں پر اللہ کی حجت ہی قائم نہ رہتی اور نبوت کی ضرورت کماکان باقی رہتی۔ ختم نبوت کے نظر یے ہی سے تمام اعصار و ادوار اور تمام سرزمینوں پر آپ ؐ کے پیغام اور دعوت کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔ آپ ؐ کو معراج کا حاصل ہونا بھی باانداز دیگر آپ ؐ کی ذات میں عروج آدمیت کا مظہر ہے۔ معراج النبی ؐ کے حوالے سے مفسرین نے قرآن حکیم کی متعدد آیات کی نشاندہی کی ہے۔

ان میں سے ایک آیت ملاحظہ فرمایئے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ "پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے اس مسجد اقصیٰ کی طرف لے گئی، جس کے اطراف کو ہم نے برکت والا بنایا ہے۔ اس سیر کا مقصد یہ تھا کہ اسے اپنی آیات دکھائیں۔ یقیناً وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔”(بنی اسرائیل:۱۷۔۱) قرآن مجید میں آپ ؐکے لیے انتہائی عظیم اور دل آویز القابات ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں بعض کا بلاواسطہ اور بعض کا بالواسطہ تعلق آپ ؐ کے منصب سے ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت ملاحظہ کیجیے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا[33:45] وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ "اے نبی ہم نے آپ ؐ کو شاہد، بشارت دینے والا، متنبہ کرنے والا، حکم الٰہی سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور خورشید تاباں بنا کر بھیجا۔”(الاحزاب:۳۳،۴۵-۴۶)

آپ ؐ نے اپنے منصب کی ذمہ داریاں کچھ یوں حسن خوبی سے ادا کیں کہ اللہ نے آپ ؐ کے ذکر اور آپؐ کی یاد کو کی بلندی و رفعت عطا فرما دی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ "اور ہم نے تیرے ذکر کو بلند کیا۔”(الم نشرح:۹۴۔۴) نیز آپ کے کردار کو رہتی دنیا تک کے لیے حسین نمونہ عمل قرار دے دیا اور سچائی کو قبول کرنے کے لیے اپنے دل کے دریچے کھول دینے والوں کو خطاب کر کے فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔ "یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ عمل موجود ہے۔”(الاحزاب:۳۳۔۲۱) آپؐ کی عظمت شان اور بلندی کردار ہی کی وجہ سے اللہ اور اس کی سب مطیع مخلوقات آپؐ پر تحسین و آفرین میں مصروف رہتی ہیں۔ جو انسان اس حقیقت اور نبی کریم ؐ کے اس مقام ارفع پر ایمان رکھتے ہیں، انھیں بھی ہدیۂ عقیدت پیش کرنے کی دعوت کچھ یوں دی گئی ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے بنی ؐ پر درود بھیتجے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اس پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔”(سورہ الاحزاب:۳۳۔۵۶)