کیا عراق سے امریکا کے ذلت آمیز انخلا کے دن آ پہنچے ہیں؟

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

3 جنوری 2020ء کی صبح بغداد ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے ایران اور عراق کے دو محبوب کمانڈروں اور ان کے ساتھیوں کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایما پر شہادت کے بعد ایران نے اپنے انداز سے انتقام لینے کا اعلان کیا اور عراق کی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے امریکی افواج کو عراقی سرزمین چھوڑ جانے کے لیے کہا۔ عراقی عوام امریکا کے ہاتھوں جس قتل و کشتار کے سمندر کو عبور کرکے آئے ہیں، اس کی کی مثال پوری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔

بڑے پیمانے پر انسانی قتل عام کا سبب بننے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ کرکے امریکہ عراق میں داخل ہوا اور ایک اندازے کے مطابق اس نے 2 ملین سے زیادہ عراقیوں کو شہید کر دیا، انفراسٹرکچر تباہ کر دیا، عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے اپنے منصوبے پر عملدآمد شروع کر دیا، داعش جیسے وحشت آفریں عفریت کو جنم دیا اور پھر اسی کے خاتمے کا بہانہ کرکے لمبے عرصے کے لیے وہاں رہنے کا منصوبہ بنایا۔ وہیں سے شام میں بھی داخل ہوگیا۔ عراقی کردستان کو الگ ملک بنانے کی سازش کی۔ ان ساری کارستانیوں کا مقصد اسرائیل کو مضبوط کرنا اور اس کے اردگرد موجود مسلم ممالک کو مزید کمزور کرنا تھا۔

 اس دوران میں جب داعش نے عراق کے وسیع خطوں پر قبضہ کر لیا تو عراق کے سب سے بڑے مذہبی اور موثر ترین راہنماء آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس قائم کی گئی، جسے عربی میں “الحشد الشعبی” کہتے ہیں۔ عراق کے شیعہ سنی عوام کے اندر اس رضا کار فورس نے اعتماد کی روح پھونک دی، وہ بڑی تعداد میں تربیتی مراکز تک پہنچے۔ پھر اسی رضا کار فورس نے داعش سے اپنے علاقے خالی کروانے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکا کی تربیت یافتہ فوج اور اس کے عراقی جرنیل تو امریکی مفادات کے آلہ کار ثابت ہوئے۔ مسلسل ایسی خبریں آتی رہیں کہ امریکا جہاں ایک طرف بظاہر داعش کے خلاف سرگرم عمل تھا، وہاں اسے اسلحہ کی فراہمی اور ضرورت پڑنے پر محفوظ راستہ دینے کا کام انجام دیتا رہا۔ الحشد الشعبی، عراقی عوام اور اپنے ملک کے وفادار عراقی فوجی امریکا کی یہ تدابیر قریب سے دیکھ رہے تھے اور وہ اس کے مقاصد بھانپ چکے تھے۔

امریکہ اور اس کے حواریوں نے الحشد الشعبی کے خاتمے کا مطالبہ کرنا شروع کیا اور کہا کہ اس رضا کار فورس سے اسلحہ رکھوا لیا جائے، لیکن عراقی حکومت کے اندر موجود ذمہ دار اور موثر افراد نے الحشد الشعبی کو وزارت دفاع کے ماتحت کرکے اسے قانونی حیثیت دے دی۔ بالکل اسی طرح جیسے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد شاہ کی تربیت یافتہ فوج صدامی فوج کے مقابلے میں دفاع میں اس انداز سے جذبے کا مظاہرہ نہ کر پا رہی تھی، جس کا اظہار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے پرجوش جوان کر رہے تھے۔ 3 جنوری 2020ء کو بغداد میں ہونے والے واقعے کے بعد عراق کی مزاحمتی قوتیں اس نکتے پر متفق ہوگئیں کہ امریکا ہمارا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے اور اسے عراق کی سرزمین سے نکالا جانا ضروری ہے۔ پہلے تو انھوں نے قانونی راستہ اختیار کیا۔ پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل کا انتظار کیا۔ عوام اور سیاسی راہنماوں کی جانب سے امریکہ سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ اپنی فوج کو عراق سے نکالے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق بلکہ عراقی حکومت کے اندر بھی امریکہ کے حامی افراد موجود ہیں، لیکن عوام اور مزاحمتی قوتیں اس بات پر متفق ہیں کہ امریکا کو بہرحال عراق سے نکلنا ہے۔ چند ہفتے انتظار کے بعد عراق کی مزاحمتی قوتوں نے جسے اس خطے میں استعمار اور صہیونیت کے خلاف وجود میں آنے والی مقاومت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، فوجی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے امریکا کے فوجی کاروانوں، تنصیبات اور اڈوں پر حملوں کا آغاز کر دیا۔ اس مقصد کے لیے چھوٹے چھوٹے مزاحمتی گروپ تشکیل دیئے گئے ہیں۔ مختلف ناموں سے قائم ان گروہوں نے مختلف واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ابھی تک پندرہ گروہوں کے نام سامنے آچکے ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ قاصم الجبارین ۲۔ اصحاب کہف ۳۔ سرایا اولیاء دم ۴۔ فصیل المقاومۃ الدولیہ ۵۔ سرایا ثورۃ العشرین الثانیہ ۶۔ عصبۃ الثائرین ۷۔ مقاومت اولو العزم ۸۔ قوات ذوالفقار ۹۔ ثار المہندس ۱۰۔ الشہید کریم درعم ۱۱۔ ابا الفضل العباس ۱۲۔ سرایا المنتقم
۱۳۔ کتیبۃ السابقون ۱۴۔ لواء المنتقمون ۱۵۔ لواء خیبر

ان گروہوں نے گذشتہ ایک سال میں امریکی لاجسٹک کاروانوں، اڈوں اور مفادات پر کم از کم 110 حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کی تعداد دن بدن زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ رواں سال اپریل کے آغاز سے لے کر اب تک اوسطاً روزانہ ایک حملہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم ہر روز کی خبروں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے کھل کر آجائے گی کہ اس میں فقط کاروانوں پر کیے گئے حملے شامل نہیں بلکہ “عین الاسد” اور “البلد” جیسے مضبوط امریکی اڈے بھی شامل ہیں۔ بعض حملے مزاحمتی گروہوں نے ڈرونز کے ذریعے کیے ہیں۔ دو روز پہلے بغداد کے قریب ایک امریکی اڈے کے پاس کیے گئے حملے کے نتیجے میں چار امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا، امریکہ کے لیے عراق میں رہنا مشکل ہی نہیں ہو جائے گا بلکہ زیادہ ذلت آمیز طریقے سے عراق سے نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔

امریکہ کی مشکل صرف عراق سے نکلنا ہی نہیں ہے بلکہ عراق سے شکست کی حالت میں نکلنے کا اثر پورے خطے میں امریکا کی موجودگی اور اس کے فوجی انفراسٹرکچر، اڈوں اور بحری بیڑوں پر پڑے گا، کیونکہ جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں کہ امریکا اور صہیونزم کے خلاف معرض وجود میں آنے والی یہ تحریک سرحدوں سے ماوراء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران میں عراق کی الحشد الشعبی کے بعض گروہوں نے بھی اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ یہاں تک کہ یمن کی انصار اللہ نے بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے واضح اعلان کر دیا تھا، ایسے میں یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ امریکہ کی حالت اس خطے میں اب یہ ہوگئی ہے کہ جیسے:
خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا