عمران خان کا امریکا کو جرات مندانہ جواب
پس منظر اور پیش منظر:
دنیا بھر میں ایک امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او کے پروگرام ’’ایکزیوس‘‘ کے میزبان صحافی جوناتھن سوان کے ساتھ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے انٹرویو کی دھوم ابھی باقی تھی اور عمران خان کا جملہ ’’Absolutely not‘‘ ہرگز نہیں، دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا کہ ایسے میں ان کا ایک اہم مضمون واشنگٹن پوسٹ میں سامنے آیا، جس میں رہا سہا پردہ بھی چاک کر دیا گیا اور امریکہ کو فوجی اڈوں کی نئی فرمائش پر صاف انکار کی وجوہات خود وزیراعظم کی طرف سے سامنے آگئیں۔
یہ کس پاکستان سے کیسی آوازیں آرہی ہیں اور اعلیٰ ترین حکومتی منصب پر فائز شخص کی طرف سے امریکہ کو کیسے کیسے جواب دیئے جا رہے ہیں؟ یہ امر اپنے اندر بڑی حیرت سامانیاں رکھتا ہے اور دور رس اثرات مرتب کرنے والی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔
امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی پاکستانی لیڈروں کی تاریخ شرمناک ہے۔ 12 ستمبر 2001ء کی رات ساڑھے بارہ بجے پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کو امریکہ سے کولن پاول کا فون آیا۔ یہ ایک سابق جنرل کا حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف کو فون تھا، انھوں نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن کے ساتھ اور اس کے بعد سات مطالبات پیش کر دیئے۔ باب ووڈ ورڈ اپنی کتاب ’’Bush at War‘‘ میں لکھتے ہیں: کولن پاول نے پرویز مشرف سے سات مطالبات کیے، جن کے نتیجے میں پاکستان امریکہ کے لیے War base میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے یہ بات (Bob Woodward) (باب ووڈ ورڈ) کو بتائی اور پھر اپنی خود نوشت میں بھی لکھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لیں گے لیکن ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ جب جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون و چرا مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتے ہیں کہ پاول کو حیرت ہوئی کہ جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔
ایسا پس منظر رکھنے والے پاکستان سے وزیراعظم عمران خان کا امریکہ کو دو ٹوک جواب ’’Absolutely not‘‘ بہت معنی خیز اور جرات مندانہ ہے۔ گذشتہ اتوار (20 جون 2021ء) کی رات کو سامنے آنے والے اس انٹرویو میں صحافی کے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں فوجی کارروائی کرنے کے لیے پاکستان ہرگز امریکا کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کے لیے نہیں دے گا۔ اس سے پہلے یہ خبر گردش کرتی رہی ہے کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان آئے، انھوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی کوشش کی، لیکن وزیراعظم نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس حوالے سے عمران خان نے صحافی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اسلام آباد میں ایک غیر اعلانیہ دورے پر آئے تھے، انھوں نے ان سے ملاقات نہیں کی تھی بلکہ آئی ایس آئی کے سربراہ ان سے ملے تھے۔
صحافی نے کہا امریکہ پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے، تاکہ افغانستان پر نظر رکھ سکے، کیا پاکستان اس کی اجازت دے گا۔ وزیراعظم نے کہا ’’Absolutely Not‘‘ ہرگز نہیں۔ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں کسی قسم کی سرگرمی کی ہم بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی جنگ میں شریک ہوکر پاکستان نے ستر ہزار جانیں گنوائیں، ہم اپنی سرزمین سے مزید فوجی کارروائیاں برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم امن میں شراکت دار ہوں گے، لڑائی میں نہیں۔ اس کے بعد 22 جون 2021ء کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وزیراعظم عمران خان نے اس موضوع کی مزید وضاحت کی اور امریکی نیز عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ جس میں انھوں نے لکھا: ماضی میں، پاکستان نے متحارب افغان گروہوں کے مابین انتخاب کرکے ایک غلطی کی تھی، لیکن ہم نے اس تجربے سے سبق حاصل کیا ہے۔ ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے اور ہم کسی بھی ایسی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے، جسے افغان عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان کو کبھی بھی باہر سے کنڑول نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ہمارے ملک کو افغان جنگ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ 70000 سے زیادہ پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ امریکہ نے ہمیں 20 بلین ڈالر کی امداد فراہم کی جبکہ پاکستانی معیشت کو پہنچنے والا نقصان 150 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں سیاحت اور سرمایہ کاری سوکھ گئی۔ امریکی کوشش میں شراکت کے بعد پاکستان کو بطور ساتھی نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے خلاف تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں نے دہشت گردی کی۔ انھوں نے مزید لکھا: اگر پاکستان افغانستان پر بمباری کے لیے امریکی میزبانی پر راضی ہو جاتا ہے اور افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے انتقام کا نشانہ بنے گا۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں۔ ہم نے پہلے ہی اس کی بہت بھاری قیمت ادا کر دی ہے۔ اگر امریکہ، تاریخ کی سب سے طاقتور فوجی مشینری کے ساتھ، 20 سالوں بعد بھی افغان جنگ نہیں جیت سکا تو ہمارے ملک میں اڈوں سے اسے کیسے جیتے گا۔؟
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان کا یہ موقف ان کے برسر اقتدار آنے سے بہت پہلے کا ہے، وہ ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں شرکت کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ وزیراعظم کے عالمی سطح کے کئی ایک فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن امریکہ کو اڈے دینے سے اس صریح انکار کو خراج تحسین پیش نہ کرنا انصاف پسندی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ اس جرات کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، اس کا جواب یہ ہے کہ کیا امریکہ کا ساتھ دینے کی صورت میں جو قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور جو رسوائی اٹھانا پڑی ہے، کیا اس سے بھی زیادہ؟ بعض تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ وزیراعظم نے ایسا چین سے اپنے بڑھتے ہوئے تعلقات اور چینی موقف کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ اس تبصرے سے انکار کی ضرورت نہیں، لیکن چین سے تعلقات اور سی پیک کی امریکہ پہلے ہی مخالفت کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں عمران خان کا یہ موقف نیا نہیں کہ کہا جاسکے کہ انھوں نے فقط چین کی وجہ سے ایسا کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کا خواب پورا کرنے والے اس موقف کی تمام وطن دوست افراد اور جماعتیں کھل کر حمایت کریں اور اس راستے میں آنے والی مشکلات کے لیے زندہ قوموں کی طرح تیار رہیں۔