درحقیقت توہین کس نے کی اور کس کی ہوئی؟

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس
asad
سید اسد عباس

جہالت انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے اور جاہل انسان کے ہاتھوں میں مقدسات اور مذہب کا جام تھما دیا جائے تو ایسا انسان انتہائی مہلک ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمیں سیالکوٹ میں دیکھنے کو ملا۔ راجکو فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن شہری انجینئر پریانتھا کمارا نے فیکٹری میں لگا ایک صفحہ اتار کر پھاڑ پھینکا، جس پر یاحسینؑ لکھا تھا۔ بس پھر وہاں موجود ملازمین کے مذہبی جذبات برانگیختہ ہوئے اور وہ احتجاج کے لیے نکل پڑے۔ غلطی تو پریانتھا نے کی کہ ایک صفحہ جو شاید مسلمانوں کے لیے بہت اہم تھا، اس کو کم اہم جان کر اس نے پھاڑ دیا۔ فیکڑی ورکرز نے کمارا سے معافی کا مطالبہ کیا، تاہم وہ اپنے عہدے کے زعم میں فیکڑی ورکرز کی بات کو غیر اہم جان کر بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کی یہ حرکت فیکٹری میں آگ کی مانند پھیل گئی۔ مجھے یقین ہے کہ اکثر کو تو یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ توہین کیا ہوئی ہے، تاہم مسلمان نکلے، پہلے تو احتجاج کیا اور پھر خود ہی انصاف کرنے کے لیے فیکٹری میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ناقابل بیان ہے۔ پریانتھا کو زد و کوب کرنے کے بعد اس کی لاش کو چوک میں رکھ کر جلا دیا گیا۔

یہ واقعات اس سرعت سے ہوئے کہ پولیس اور سکیورٹی اداروں کو بھی حالات کی سنگینی کا علم نہ ہوسکا۔ فیکٹری میں کچھ پولیس تو موجود تھی، تاہم وہ پریانتھا کو ہلاکت سے نہ بچا سکی۔ پریانتھا پاکستان میں 8 برس سے کام کر رہا تھا، یعنی وہ پاکستانی معاشرے اور اپنے ملازمین کی ذہنی کیفیت سے آگاہ تھا، تاہم اس نے بے احتیاطی کی، جس کے نتیجے میں یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، پریانتھا کی جان کا ضیاع، اس کے اہل خانہ پر گزرنے والی تکلیف اپنی جگہ، تاہم اس عمل سے پاکستا ن، مسلمانوں اور اسلام کو جتنا نقصان پہنچا ہے، اس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ اب تو دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سری لنکا میں رہنے والے پاکستانیوں نیز مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔

فیکٹری ورکر اور ان کے ساتھ جمع ہونے والے لوگ اگرچہ اس واقعہ میں براہ راست طور پر ملوث ہیں، تاہم اس واقعہ میں ہم فقط ان فیکٹری ورکز کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے، بحیثیت معاشرہ ہم سب ہی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔ احتجاج کرنے والے مولانا خادم حسین رضوی کی زبان پر جاری رہنے والے اس بیان کو دہرا رہے تھے ’’جس نے نبی ؐ کی توہین کی، اس کی سزا موت ہے‘‘، اسی طرح مظاہرین وہی نعرے لگا رہے تھے جو عموماً تحریک لبیک کے دھرنوں میں سننے کو ملتے ہیں، یعنی ورکرز ذہنی اور فکری طور پر مولانا خادم کی سوچ سے ہم آہنگ لوگ تھے۔ ان میں سے ہر کوئی غازی بننے کے چکر میں تھا۔ گالیاں بھی دیتے تھے اور مارتے بھی تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو قتل کرنے کی بعد اس کی لاش کو جلا دیا گیا اور انتہائی ڈھٹائی سے اس کی جلتی ہوئی لاش کے پاس سیلفیاں بنائی گئیں، نشریاتی اداروں کو انٹرویوز دیئے گئے۔ کسی کے چہرے پر ذرہ بھر ندامت نہ تھی کہ ان سے کتنا بڑا جرم سرزد ہوگیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ میں فیکٹری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ذمہ دار ہیں، جنہوں نے حالات کی سنگینی کو نہ سمجھا اور بروقت کارروائی نہ کی۔ اس واقعہ میں حکومت وقت بھی ذمہ دار ہے، جس نے گذشتہ دنوں تحریک لبیک کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور ان کو کالعدم سے دوبارہ ہیرو بنایا۔ اس واقعہ میں ہماری عدالتیں بھی ذمہ دار ہیں، جن کے سامنے توہین کے کیسز لائے جاتے ہیں اور وہ اس پر جلد منصفانہ فیصلے نہیں کرتے، تاکہ کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہو؛۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں توہین دین اور توہین مقدسات کا مسئلہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔ آئین پاکستان میں توہین مذہب اور مقدسات بالخصوص توہین رسالت ؐ کے حوالے سے قانون سازی موجود ہے، تاہم نہ تو توہین کا مقدمہ قائم کرنے کا کوئی منصفانہ نظام وضع ہے اور نہ ہی ان مقدمات پر بروقت فیصلے کیے جاتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1967ء سے 2014ء تک تقریباً 1300 افراد پر توہین سے متعلق مقدمات قائم ہوئے، جن میں سے فقط 80 افراد کو سزا سنائی گئی ہے۔باقی مقدمات اب تک فیصلوں کے منتظر ہیں۔ اکثر مقدمات میں بیرونی قوتیں دخل اندازی کرتی ہیں اور حکومت نیز عدالتوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ نرم فیصلہ کیا جائے۔ پاکستان میں اس حساس ترین مسئلے کے حوالے قوانین اکثر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مذہبی تنظیمیں ان قوانین کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین اکثر اقلیتوں کے استحصال اور بعض اوقات ذاتی عناد کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ مذہبی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قوانین کے خلاف سازش رچا رہی ہیں، جسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یوں ایک قانونی اور سماجی مسئلہ سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے اور اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو پاتی۔ مقدمات کی بہتات، عدالتوں کی سست روی، انسانی حقوق کی تنظیموں کی بیان بازی، بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے سبب عوام میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ معاملہ حکومت اور عدالت کے اختیار سے باہر ہے، لہذا وہ خود ہی انصاف کی تلوار ہاتھوں میں تھامے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔

اسی تاثر کے سبب ایک رپورٹ کے مطابق 1987ء سے 2017ء تک 75 کے قریب افراد توہین کے الزام میں عوام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اسلام اور وطن عزیز کی عزت کا درد رکھنے والے افراد خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، ان کو اس سلسلے میں اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قانونی اور سماجی مسئلے کو سیاسی مسئلہ نہ بنائیں۔ کم از کم ایک ایسی چیز رہنے دیں، جس میں قانون پر عمل ہوتا ہوا نظر آئے۔ توہین کے مقدمات اور الزامات جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بجا طور پر اعتراض اٹھاتی ہیں، ان کو درج کروانے کے لیے جلد از جلد واضح اور شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے، تاکہ یہ الزام لگانا اتنا آسان نہ ہو، جتنا ہمیں سیالکوٹ اور اس طرح کے کئی ایک واقعات میں نظر آیا۔ اسی طرح وہ مقدمات جن پر تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں، ان کے بارے میں کسی بھی دباؤ کو قبول کیے بغیر منصفانہ فیصلے کیے جائیں اور ان فیصلوں پر عملدآمد کو یقینی بنایا جائے، تاکہ آئندہ کسی کو بھی قانون سے کھیلنے نیز وطن عزیز اور اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی جرات نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: امام حسین علیہ السلام مولانا طارق جمیل کی نظر میں https://albasirah.com/urdu/imam-hussain-molana-tariq-jameel1/

علماء کو بھی چاہیئے کہ وہ اس حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے ذمہ داری کا ثبوت دیں، معاشرے کی ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے بیانات داغیں، تاکہ کسی بھی انسانی جان کا ضیاع ان کے کھاتے میں نہ آئے۔ حالیہ واقعہ کے حوالے سے حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ فی الفور متاثرہ خاندان سے اپنے سفارت خانے کے ذریعے رابطہ کرے اور ان سے بحیثیت حکومت معافی طلب کرے نیز ان کو اس قیمتی جان کے ضیاع پر ہرجانہ ادا کرے، تاکہ متاثرہ خاندان اور سری لنکن سرکار کی اذیت کا کچھ مداوا ہوسکے۔ ملک میں موجود مذہبی تنظیمیں جو بیانات کی حد تک اس واقعے کی مذمت کر رہی ہیں، ان کو بھی چاہیئے کہ وہ کھل کر سامنے آئیں اور اس واقعہ کی مذمت میں پریس کانفرنسیں کریں، تاکہ عوام میں نچلی سطح تک یہ پیغام جائے کہ سیالکوٹ میں ہونے والا واقعہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے، تاکہ آئندہ ایسے واقعات وقوع پذیر نہ ہوں۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ ہمیں دین مبین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بشکریہ: اسلام ٹائمز