شدت پسندی ہر مذہب اور ہر شعبے میں

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

مولویوں پر تنقید کا سبب
سانحہ سیالکوٹ کا غم تو ہے اور غم بھی بہت گہرا، راتوں کی نیندیں اچاٹ کر دینے والا۔ اس پر مختلف انداز سے اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ وحشت آور ویڈیوز نے غصے، غم اور مختلف انداز کا ردعمل پیدا کیا ہے۔ گاہے محسوس ہوتا ہے کہ ایک شدت پسندی کے ردعمل میں دوسری شدت پسندی جنم لے رہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے مولوی صاحبان کو نشانہ تنقید بنایا ہے۔ تجزیہ کاروں نے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے بہت سے حوالے دیے ہیں۔ اس کی فوری وجہ تو یہ ہے کہ سیالکوٹ کے سانحے کی روح میں بھی مذہبی شدت پسندی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس موضوع پر کچھ مزید سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اس کے پس منظر کا ذرا ٹھہر کر جائزہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اندر اور باہر شدت پسندی کے مظاہر پر نظر ڈالے بغیر حقیقت تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی۔

دکھ کے اور بھی عناوین ہیں
پہلے مرحلے میں تو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اندر شدت پسندی کی تند و تیز، لہورنگ اور شعلہ افگن بہت سی صورتیں گذشتہ چند دہائیوں سے دکھائی دے رہی ہیں، کبھی طالبان کے نام پر اور کبھی القاعدہ کی صورت میں، کبھی داعش کے عنوان سے اور کبھی بوکو حرام کے روپ میں، لیکن شدت پسندی کے دیگر عناوین بھی ہیں اور دیگر ادیان و مذاہب میں بھی اس کی وحشی گری دیکھی جا سکتی ہے۔

بھارت میں اقلیتوں کی غمناک داستان ہمارے ہمسایہ ملک، جو بظاہر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، میں کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، کیا اسے ریاستی دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق کشمیر میں موجود مسلمانوں سے ٹیلی فون پر رابطہ بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کسی سرکاری اہلکار کو بیرون ملک سے فون بھی چلا جائے تو اس کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کتنے ہی مسلمان ہیں، جو صرف اس لیے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں کہ بیرون ملک سے انھیں کوئی ٹیلی فون کال گئی ہے، خاص طور پر کسی ایسے فرد کی، جو کشمیر میں بھارت کے سفاکانہ ہتھکنڈوں پر تنقید کرتا ہے۔ کشمیر کی داستان تو ویسے ہی خون میں لتھڑی ہوئی ہے، آپ بھارت کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر گزرنے والی اذیتوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں، آپ کے سینے میں انسان کا دل دھڑکتا ہے تو آپ کو بے خواب کر دینے کے لیے کافی ہے۔ گائے کی محبت اور عشق کے نام پر انسانوں پر توڑے جانے والے ظلم، جب تاریخ کے صفحوں پر نقل کیے جائیں گے تو سر ورق پر لکھا جائے گا کہ کمزور دل والے افراد اس کا مطالعہ نہ کریں۔ بی جے پی کے دور ہی کو لے لیجیے، غریب کسانوں پر کئی مہینوں تک جو قیامت گزری ہے، اس کا جواب کس کے ذمے ہے۔ بنگال کے مسلمانوں، ناگا لینڈ کے عیسائیوں اور پسماندہ غریب ہندوؤں کے درد کی کہانی سننے کے لیے شاید ابھی دنیا آمادہ نہیں ہے۔

بدھا کے نام لیواؤں نے اپنی تاریخ سیاہ کر دی
روہنگیا کے مسلمانوں پر بدھا کے نام لیواؤں نے جو ستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں، وہ بدھ مت کے پیروکاروں کی پوری تاریخ میں دکھائی نہیں دیتے۔ بدھا کی انسان دوستی اور محروم لوگوں کے لیے اس کے ایثار کی کہانیاں انسانی روحوں پر صدیوں سے اثر کر رہی ہیں۔ اس میں کسی علاقے اور مذہب و ملت کی بھی قید نہیں ہے۔ اپنی اسی ایثارگری کی وجہ سے بدھا اقوام عالم میں محترم ہے، لیکن دیکھیے کس طرح سے گھروں کو اور صرف مسجدوں کو نہیں انسانوں کو وحشی بدھوں نے جیسے خاک و خون میں غلطاں کیا ہے، اس کے قصے اور خبریں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

مغرب زمین میں شدت پسندی کے مظاہر یہ تو ابھی مشرق زمین کی کہانیاں ہیں، مغرب زمین کی داستانیں بھی کچھ کم افسوسناک نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے وحشیانہ اقدامات، اسلاموفوبیا کے مختلف مظاہر، قرآن حکیم کو اعلانیہ آگ لگانے کے واقعات، پیغمبر اکرم ؐ کی توہین اور اس پر سرکاری سرپرستی، مسجدوں کے میناروں کو میزائلوں سے تشبیہ دینا اور انھیں گرانے اور پھر نہ بنانے کے قوانین، سکارف اور اسلامی حجاب کے خلاف ملکوں ملکوں میں شدت پسندانہ واقعات اور تبعیض و تفریق پر مشتمل قوانین و قواعد، یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں سکارف اوڑھنے پر پابندی، محکموں سے اخراج، سکارف پہنے خواتین پر حملے یہ سب واقعات وہاں ہو رہے ہیں، جسے آزاد دنیا کہتے ہیں، جہاں انسانوں کی آزادی کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔

شدت پسند تنظیموں کی تشکیل میں مغربی حکومتوں کا کردار
اسی آزاد دنیا کے قائدین مختلف انداز سے تسلیم کرچکے ہیں کہ وہی القاعدہ کے بانی ہیں، وہی داعش کی تخلیق میں محرک اول ہیں، وہی طالبان کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ جھبہۃ النصرۃ انہی کے مقاصد کی آلہ کار ہے۔ یہ اعتراف شدہ اور عریاں حقیقت سب کے سامنے ہے، پھر بھی وہ اپنی ان خود ساختہ وحشی تنظیموں کے واقعات کو اسلام اور مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔

اسرائیل کی تشکیل اور شدت پسندی کا مرکز
مغرب زمین کے حکمرانوں ہی کے استعماری ذہنوں نے اسرائیل کی تشکیل کا منصوبہ بنایا ہے، وہی اسرائیل جو مشرق وسطیٰ میں تمام تر شدت پسندی اور قتل و غارت کے طوفانوں کا مرکز و محور ہے۔ مغرب میں اگر یہودیوں پر ظلم ہوا تو اہل مشرق کو اس کی سزا کیوں دی گئی اور فلسطینیوں کو بے گھر کرکے صہیونی ریاست کی بنا کیوں ڈالی گئی۔ معاملہ صاف ہے کہ یہ ریاست استعماری مقاصد کے لیے بنائی گی اور اس کے لیے مذہبی جذبات کو انگیخت کیا گیا۔ یہودیوں میں مذہبی جنونیت کو ابھارا گیا، فلسطین کی مقدس سرزمین کے سپنے دکھائے گئے اور حقیقت یہ ہے کہ انھیں موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔ ظاہر ہے کہ جتنی بھی تسلیحاتی یا مالی مدد کی جائے، آخر کار اسرائیل جس زمین کا نام ہے، اسے بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہودیوں نے خود اپنے گرد ایسی دیواریں کھڑی کر دی ہیں، جو برق و بارود کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ مضبوط ریاست کے نام پر ان کو آتش و آہن میں محصور کر دیا گیا ہے۔ جرمنی یا کسی اور مغربی ملک میں یہودیوں کے قتل میں کسی مسلمان کا ہاتھ نہ تھا، لیکن مسئلہ مسلمان و یہود کی آویزش کا بنا دیا گیا ہے۔

مذاہب و ادیان کے نام پر جنگیں مذاہب کے مابین اور مذاہب کے اندر مختلف فرقوں کی جنگیں بھی وحشت و دہشت کی کہانیوں میں بہت نمایاں ہیں۔ مسیحیوں کی باہمی جنگیں ہوں، مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین صلیبی جنگیں ہوں، شیعہ سنی فسادات ہوں، اشعریوں اور معتزلیوں کی خون بھری تاریخ ہو، یہ سب مذہبی یا مذاہب و ادیان کے مابین معرکوں کی غمناک داستانیں ہیں، لیکن کیا بربریت کی کہانیاں فقط مذہب کے عنوان سے رقم ہوئی ہیں؟ نہیں! بلکہ قوموں اور ملتوں کے درمیان قومیتوں اور علاقوں کے سبب، زبانوں کے اختلاف کی بنیاد پر، تہذیبوں کے فرق کے عنوان سے جنگیں ہی جنگیں ہیں۔

مختلف کارڈز ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بلوچ کارڈ استعمال کر رہا ہے تو کوئی سندھی کارڈ، کسی کو کشمیر کا موضوع ملا ہے تو کسی کو پنجاب کی پگ مقدس نظر آتی ہے۔ انسانوں کو باہم لڑانے کے پیچھے اقتدار کے حریص اپنے ذہن کے شیطانی منصوبوں کو بروئے کار لا رہے ہوتے ہیں۔ سیاست کے نام پر، ریاست کے نام پر، حقوق کے نام پر، عزت کے نام پر، مذہب کے نام پر، دھرم کے نام پر انسان انسانوں کا خون بہائے چلا جا رہا ہے۔

مقدس ناموں کا غلط استعمال
غم و اندوہ کی شدت اس وقت بڑھ جاتی ہے، جب انسان دیکھتا ہے کہ انسان دوست راہنماؤں اور شرف انسانیت کے محافظوں کے نام پر دوسروں کا خون بہایا جاتا ہے۔ بدھا کا نام تو ہم ذکر کر ہی چکے ہیں، رحمت للعالمین ؐ کا پاک نام بھی اس ناپاک دھندے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کربلا جو ظلم کے خلاف ایک معرکے کا نام ہے، اس کی یاد منانا بھی کبھی جرم بن جاتا ہے۔ صحابیت اور اہل بیت کا عنوان کن کن مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔

کیا صرف قانون کافی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قانون کے ذریعے امن قائم کیا جاسکتا ہے، ہم مناسب قانون اور اس کی عمل داری کی ضرورت سے انکار نہیں کرتے، لیکن یہ جانتے ہیں کہ قانون بناتے چلے جائیں، مگر اس خون آشام سلسلے کو نہیں روکا جا سکتا، تاوقتیکہ انسان اپنے وجود کی حیثیت کو پہچان لے۔ دوسرے انسانوں کے احترام کا قائل ہو جائے، عقل کو جذبات پر فوقیت دے، اپنے آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ سمجھے یعنی انسانوں میں روح انسانی بیدار ہو جائے اور انسان یہ جان لے کہ اس کا اصلی مقام فرشتوں سے سوا ہے اور اسے زمین پر خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجا گیا ہے، فریب کاروں کو پہچانے، جو مقدس عناوین کو ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان پر نظر رکھے، کیونکہ یہی وہ بد روحیں اور اولاد ابلیس ہے، جس نے ابو البشر کو دھوکا دیا۔ اب اولاد آدم کو ان سے ہوشیار رہنا ہے، ورنہ زمین کبھی جنت نظیر نہیں ہوسکے گی۔

بشکریہ: اسلام ٹائمز