×

امریکہ پر حاکم نظام اور مظلوم امریکی عوام(2)

سید ثاقب اکبر

امریکہ پر حاکم نظام اور مظلوم امریکی عوام(2)

امریکہ پر حکمران نظام سفید فام امریکیوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہا ہے کہ ملک میں ان کے خصوصی حقوق ہیں اور انھیں خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ملک کی بڑی آبادی کی ہمدردیاں ریاست اور اس کے نظام کے ساتھ وابستہ رکھی جائیں۔ اس کی مثال بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی سے دی جاسکتی ہے، جو بڑی ہندو آبادی کو یہ تاثر دیتی ہے کہ حکومت ان کے حقوق کی محافظ ہے اور وہی بھارت کے حقیقی باشندے اور حکمران ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ایسا نہیں کرتی، ماضی میں بھی حکومتیں یہی کچھ کرتی رہی ہیں۔

بی جے پی نے صرف اس مسئلے کو ابھارا ہے اور زیادہ کھل کر اقلیتوں کو دبانے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ امریکہ میں ٹرمپ کے دور میں ہوتا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے وہی کام کیا ہے، جو ماضی کی حکومتیں نسبتاً پردے میں کرتی رہی ہیں۔

سیاہ فام امریکیوں پر ہونے والے مظالم پوری امریکی تاریخ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے اپنے لیبر ڈپارٹمنٹ کے ستمبر 2020ء میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیروزگار افراد کی مجموعی تعداد میں سیاہ فام سفید فاموں سے دگنے ہیں۔ یعنی کُل بے روزگاروں کا 67 فیصد سیاہ فام ہیں، جب کہ اپنی آبادی کے تناسب سے انھیں 13فیصد ہونا چاہیے۔ ینگ امریکنز سے متعلق ایک سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک چوتھائی ایشین امیریکنز کو 2020ء میں نسلی غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا، یعنی ہر چوتھے ایشین امریکی کو نسلی غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا نام لے کر امریکہ نے پاکستان سمیت کئی ممالک کے خلاف ماضی میں اقتصادی پابندیاں عائد کیے رکھی ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ برقرار ہے۔ پاکستان کی قالین بافی اور کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی صنعتیں اس وجہ سے بہت مشکلات سے گزر چکی ہیں۔

دوسری طرف لاس اینجلس ٹائمز کی ویب سائٹ پر جاری 18 نومبر 2020ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ نے 8 ہزار 8 سو بچوں کو امریکہ سے اس حال میں ڈی پورٹ کیا کہ ان کے ہمراہ ان کا کوئی بھی عزیز نہ تھا۔ ان بچوں کو ان کے والدین سے جدا کیا گیا۔ والدین سے جدا کئے گئے میکسیکو اور سینٹرل امریکی ممالک کے یہ بچے آج اپنے ممالک میں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے سب سے زیادہ شور شرابا امریکہ کی طرف سے کیا جاتا ہے جبکہ امریکی میڈیا کے کئی اداروں میں رپورٹ ہوچکا ہے کہ لاطینی امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی درجنوں خواتین نے امریکی ریاست جارجیا کی وفاقی عدالت میں کیس دائر کیا ہے کہ جب وہ امریکہ کے امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ کی تحویل میں تھیں تو جبراً ان کے ایسے آپریشن کئے گئے، جن سے ان کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کر دی گئی۔ ان خواتین میں سے بعض کی بچہ دانیاں تک نکال دی گئیں۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کی موم بتی آنٹیوں نے کبھی بھی امریکہ میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے ان جرائم کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔

مذکورہ رپورٹ میں کئی حقائق کو پیش کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ میں امن عامہ کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی عوام کے پاس جتنی بڑی تعداد میں اسلحہ موجود ہے، دنیا کے کسی ملک میں اس تناسب سے لوگوں کے پاس اسلحہ موجود نہیں ہے۔ اس اسلحے کی خرید و فروخت کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اوباما انتظامیہ نے اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اسلحہ ساز کمپنیوں کا اس قدر اثر و رسوخ ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ کروا سکے اور اسلحے کی عوام کو فروخت کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں خود امریکیوں کے ہاتھوں قتل عام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ قتل عام کے بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں، لیکن اسلحے کی فروخت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی، کیونکہ امریکی نظام کی ماہیت بڑے سرمایہ داروں کے تحفظ اور ان کے سرمائے کے فروغ پر مشتمل ہے۔ اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق کا مطالعہ کیجیے:

صرف 2020ء میں امریکی شہریوں نے 2 کروڑ 30 لاکھ ہتھیار خریدے۔ شہریوں کی جانب سے ہتھیاروں کی ہونے والی اس خریداری میں 2019ء کے مقابلے میں 64 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ کے ایما پر امریکی پارلیمان پر جن لوگوں نے حملہ کیا، وہ مسلح تھے اور ان کی فائرنگ سے سیکورٹی کے بہت سے مامورین سمیت کئی افراد زخمی ہوئے۔ 2020ء کے دوران میں امریکہ بھر میں ہتھیاروں سے مرنے والوں کی تعداد 41 ہزار 5 سو سے متجاوز رہی۔ یہ شرح اوسط کے لحاظ سے یومیہ تقریباً 110 اموات بنتی ہیں، جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ امریکہ بھر میں 2020ء کے دوران قتل عام کے 592 واقعات ہوئے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلحے کے خرید و فروخت کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ امریکہ میں قتل عام کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔

2020ء میں جاری ہونے والی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق 2019ء میں امریکہ بھر میں پرتشدد جرائم کی 12 لاکھ وارداتیں ہوئیں، جن میں قتل کی 16 ہزار، جنسی زیادتی کی ایک لاکھ 40 ہزار، ڈکیتی کی 2 لاکھ 70 ہزار اور شدید مار پیٹ کی 8 لاکھ 21 ہزار سے زائد وارداتیں ہوئیں، جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اپنے شہریوں کی جان، مال، عزت اور ہر طرح کے انسانی حقوق کے تحفظ میں کس حد تک ناکام ملک ہے۔ دوسری جانب آپ دیکھیں کہ امریکی اور یورپی میڈیا پر کئی دنوں سے پاکستان میں ایک خاتون نور مقدم کے افسوسناک قتل پر بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ خبریں اور تجزیے شائع کیے جبکہ پاکستان میں وزیراعظم کی سطح پر اس واقعے کا نوٹس لیا گیا ہے اور پاکستان کے ادارے پوری توجہ اور تیزی رفتاری سے اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کر رہے ہیں۔ یہی امریکی اور یورپی ادارے امریکہ میں ہونے والے ان مظالم کے خلاف اس انداز سے کبھی آواز نہیں اٹھاتے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان جائے امن نہیں اور دوسری جانب پوری دنیا یہ عام تاثر ہے کہ امریکہ ایک پرامن ترین ملک ہے۔ یہ سب میڈیا کی مہربانیوں کی وجہ سے ہے اور یہ میڈیا عالمی ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہے۔

ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ امریکہ جس کے اندر نسل پرستی اور امتیازی رویوں کا یہ عالم ہے، وہ ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹس شائع کرتا رہتا ہے۔ بعض اوقات ان رپورٹس کی بنیاد پر ملکوں کے خلاف پابندیاں بھی عائد کرتا ہے۔ یہ صورت حال امریکی حکمرانوں کی منافقت کا پتہ دیتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر منافقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر پابندیاں اپنے فرمانبردار اور دوست ریاستوں کے خلاف عائد نہیں کی جاتیں بلکہ جن ملکوں کو دبانا مقصود ہوتا ہے، ان کے خلاف امتیازی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس کا نمونہ سعودی عرب کے ساتھ امریکی رویے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب پر انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید تو کی جاتی ہے لیکن اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی، کیونکہ امریکہ کے اقتصادی مفادات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یمن جس مصیبت سے گزر رہا ہے اور جس پر دن رات امریکی گولہ بارود برسایا جاتا ہے، اس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد ہیں۔ نہ آسمان سے ان کے لیے مدد جاسکتی ہے، نہ زمین سے اور نہ پانی کے راستوں سے۔ خدا جانے انسانیت کب بیدار ہوگی اور ظلم اور منافقت کے اس نظام سے نجات پانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز

Share this content: