تعصب، نسلی تعصب، تصادم اور نسل کشی (2)
گزشتہ تحریر میں ہم نے جانا کہ تعصب کیا ہے، نسلی تعصب کسے کہتے ہیں اور اس کے عوامل و مظاہر کیا ہو سکتے ہے۔ اسی تحریر میں ہم نے دیکھا کہ رسول اکرم ؐ نے تعصب کو ایک برائی قرار دیا اور کہا کہ جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے اور عصبیت کے سبب غضبناک ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ (سنن ابن ماجہ حدیث : ۳۹۴۸)۔ تعصب کی مذمت میں رسول گرامی قدرؐ کی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ ہم نے گزشتہ تحریر میں یہ بھی جانا کہ نسلی تعصب سے مراد نسل، مذہب، فرقے یا دیگر ایسے ہی عوامل کی بنیاد پر کسی قوم سے امتیازی رویہ روا رکھنا ہے اور نسل کشی انہی عوامل کے سبب کسی قوم کو ایک مخصوص علاقے سے بے دخل کرنا ہے۔
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی معروف کتاب The Punjab bloodied , partition and cleansed میں تقسیم پاکستان کے وقت ہونے والے واقعات کو نسل کشی کہتے ہیں جس کے نتیجے میں پنجاب میں رہائش پذیر 47 فیصد ہندو اور سکھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب اور سرحد سے ہندووں اور سکھوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا آغاز دسمبر 1946ء سے ہوا یعنی پاکستان بننے سے آٹھ ماہ قبل۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بحیثیت ماہر سیاسیات ان واقعات کے پس منظر اور عوامل کو بغور دیکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ کیا صورتحال ہوسکتی ہے جس میں نسلی تعصبات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ اقلیتی گروہ کو معدوم کرنے پر منتج ہیں۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی مذکورہ بالا کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ ہندو، سکھ اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ ان کے مابین اگرچہ مذہبی عقائد پر اختلاف موجود تھا اور معاشرتی رہن سہن میں بھی ان کے مذہبی عقائد کے سبب فرق تھا، تاہم اس کے باوجود دیگر مشترکات جیسا کہ نسل، زبان، ثقافت، لباس، رہن سہن، مشترکہ خطہ وہ چیزیں تھیں جس کی وجہ سے وہ اختلافات کے ساتھ بھی مل جل کر زندگیاں گزار رہے تھے۔ سکھوں کے مذہبی اجتماعات کے موقع پر مسلمان پانی کی سبیلیں لگاتے تھے اور مسلمانوں کے اجتماعات میں سکھ اور ہندو شرکت کرکے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ پھر اچانک تحریک خلافت اٹھی، تحریک خلافت اگرچہ خلافت عثمانیہ کو تو نہ بچا سکی تاہم اس نے برصغیر میں ایسے افراد کو جنم دیا جو دیگر مذاہب اور مسالک کی نسبت شدت پسند جذبات رکھتے تھے۔
تحریک خلافت سے منسلک علماء نے برصغیر کی مسلمان آبادی کو خالص اسلامی ریاست کے فضائل اور تبرکات گنوائے جو یقینا ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کا جذبہ مسلمان کے دل میں روشن کرتے ہیں۔ تحریک خلافت کے اراکین اس قدر شدت پسند تھے کہ انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور یہاں سے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر اکسایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد نے افغانستان کی جانب ہجرت بھی کی۔ جو جلد ہی وطن واپس لوٹ آئے اور یہاں آکر خالص اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع کردی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ تحریک خلافت عثمانیہ کی تو حفاظت نہ کر سکی تاہم برصغیر بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں اس نے ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کا تصور ضرور اجاگر کیا۔ اس وقت اگرچہ مسلمان اس ریاست کو کوئی نام تو نہ دے سکے تاہم خواب واضح تھا اور اس خواب کی راہ میں واحد رکاوٹ پنجاب اور برطانوی سرحد کے علاقے میں موجود ہندو اور سکھ آبادی تھی جو کسی بھی صورت مذہب کی بنیاد پرریاست کی تشکیل نہیں چاہتی تھی، یہی وجہ ہے کہ 1935ء تک پنجاب میں مسلم لیگ کے بجائے یونینسٹ پارٹی پنجاب کی نمائندہ جماعت تھی۔
تحریک خلافت کے واعظین جو علماء، گدی نشینوں، پیروں میں موجود تھے انہوں نے معاشرے میں خلافت کی بنیاد پر ایک خالص اسلامی ریاست کے قیام کی ترویج شروع کردی، اس سلسلے میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم سے فارغ ہوکر آنے والے تربیت یافتہ سپاہی ان کے لیے اچھا سرمایہ ثابت ہوئے۔ معاشرے میں مذہبی اختلاف کی لکیر گہری ہونی شروع ہوگی۔ سبیلیں، ایک دوسرے کے اجتماعات میں شرکت کم ہوگئی اور اس کی جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑوں نے لے لی۔ گرو ارجن کا جلوس اب راولپنڈی کی جامعہ مسجد کے سامنے سے گزرنا ممنوع قرار پایا جو برسوں سے یہاں سے گزر رہا تھا اور مسلمان مسجد کے سامنے جلوس کے شرکاء کو پانی پلاتے تھے۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات مختلف مقامات پر ہونے لگے۔
تعصب، نسل کشی یا نسلی صفائے کی جانب کیسے بڑھتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد لکھتے ہیں کہ نسلی تعصب کی بناء پر نسل کشی یا نسلی صفایا ایک ایسا مظہر ہے جو انسانی معاشرے میں صدیوں سے موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پندھرویں صدی میں کیتھولک چرچ کو خالص کرنے کے لیے جذبے اور عظیم عزم کے ساتھ ہسپانیہ سے مسلمانوں اور یہودیوں کا صفایا کیا گیا۔ صفوی دور حکومت میں اہلسنت عوام برصغیر اور افغانستان ہجرت کرگئے، صلاح الدین ایوبی کے دور میں مصر اور شمالی افریقہ میں شیعہ مسلمانوں کو جبراً عقیدہ تبدیل کروایا گیا۔ نسل کشی کو آج ایک عالمی طور پر جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بہت سی تحقیقات منظر عام پر آچکی ہیں۔ جنیوا کا جینوسائیڈ کنونشن نسل کشی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
مخصوص گروہ کے افراد کا قتل کرنا
اس گروہ کے افراد کو شدید ذہنی و جسمانی نقصان پہنچانا
اس گروہ کی مکمل یا جزوی تباہی کے لیے ارادتا حالات پیدا کرنا
اس گروہ کی آبادی میں اضافہ کو روکنے کے اقدامات کرنا
اس گروہ کے بچوں کو کسی جگہ سے زبردستی دوسری جگہ منتقل کرنا
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق ان اقدامات کے لیے ضروری نہیں کہ ہر حملہ آور کے پاس درکار وسائل بھی موجود ہوں۔ ڈاکٹر اشتیاق کہتے ہیں کہ بعض اوقات حملہ آوروں کو حکومتوں کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے، بعض اوقات حکومتیں خود اس اقدام میں ملوث ہوتی ہیں جیسے پہلے یہودیوں کو بے دخل کیا گیا اور جب اردگرد کے ہمدرد ملکوں نے یہودیوں کو لینے سے انکار کیا تو ان کو مارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر میں ہندو اور سکھ اسی طرح مسلمان چونکہ سرحد کی دوسری طرف قابل قبول تھے اس لیے اکثریت نقل مکانی کرگئی۔تاریخ میں موجود ہر نقل مکانی اور نسلی صفائے کے اپنے عوامل ہیں جن کا مطالعہ نقل مکانی اور نسل کشی کے کلی اصول اخذ کرنے میں مددکار ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی موجودہ ریاستی حدود میں اقتدار کی شراکت پر مذاکرات میں مکمل طور پر ناکامی کے بعد امن و امان کی مکمل تباہی کے نتیجے میں نسل کشی یا نسلی صفائے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اگرچہ پر امن طریقے سے بھی نسلی صفائے کا عمل ہو سکتا ہے لیکن ایسا بندوبست قابو میں نہیں رہتا بلکہ اس کے لیے دہشت، آگ لگانا، جنسی زیادتی اور دیگر انتہا پسندانہ طریقے وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس موضوع پر لکھنے کو بہت کچھ ہے میری یہ تحریر فقط اہل فکر کو اس موضوع کی گہرائی میں اترنے کا ایک راستہ فراہم کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تعصب، نسلی تعصب، تصادم اور نسل کشی (1) https://albasirah.com/urdu/tasub-nasli-tasub-1/
ہمیں اس موضوع اور اپنے معاشرے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارا معاشرہ پھر سے کسی نسلی تصادم، نسل کشی کی جانب تو نہیں بڑھ رہا ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جن سے کوئی بھی معاشرہ نسلی صفائے کی جانب بڑھ سکتا ہے اور ان عوامل کا کیسے سدباب کیا جاسکتا ہے۔ یہ قبل از وقت کرنے والا کام ہے اور وہ عوامل جو اس عمل کو تیز تر کر رہے ہیں ان کو روکنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا معاشرہ دوبارہ کسی حادثہ سے دوچار نہ ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنی تاریخ میں چھپی سیاہ حقیقتوں کو چھپانا نہیں بلکہ اس کو سامنے لانا ہے ان پر تحقیق کرنی ہے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
Share this content: