طالبان امریکہ امن معاہدہ اور داعش

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت داعش کے بہانے افغانستان میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے اشارے سامنے آرہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کو فوجی مداخلت بہت مہنگی پڑی ہے۔ گویا ان کے نزدیک امریکی فوجیوں کے عراق اور افغانستان سے انخلاء کی بنیادی وجہ امریکی فوج اور مشینری کی وہاں موجودگی کا مہنگا ہونا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کے لیے یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے کہ دہشت گرد گروہوں سے کام لیا جائے اور ملکوں کو غیر مستحکم کرکے وہاں سے اپنے مالی اور تزویراتی مفادات حاصل کیے جائیں۔

شام میں مختلف گروہوں کے سرکاری افواج سے معرکوں کے دوران میں امریکی مزے سے شامی سرزمینوں سے تیل لوٹ کر لے جاتے رہے ہیں اور اب بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ عراق میں بھی جہاں ایک موقع پر امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی ملا کر دو لاکھ سے زیادہ فوج موجود تھی، اسے آہستہ آہستہ کم کر دیا گیا ہے، کیونکہ داعش کی موجودگی میں امریکہ کے ذمے اس کی سرپرستی کا کام رہ گیا اور ملک کو تقسیم کرنے اور غیر مستحکم کرنے کی ذمہ داری داعش کے کندھے پر آگئی۔ یمن سے آنے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو زمینی جنگ میں ایک مکمل شکست کا سامنا ہے۔ صنعا کی افواج نہایت اہم شہر ماٰرب کے نزدیک پہنچ چکی ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب کے اتحادی اسے روکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے صحرائی علاقوں میں پہلے سے موجود القاعدہ اور دیگر خطوں سے آنے والے داعش کے دہشت گردوں سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر دہشت گردوں سے نمٹنے کے بہانے امریکہ کی کچھ فوج کو ان علاقوں میں باقی رکھا جائے گا، جو اپنا کام کرتی رہے گی۔

یہی صورت حال افغانستان میں دکھائی دے رہی ہے۔ خطے میں موجود امریکی کمانڈر پہلے سے صدر ٹرمپ سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ایک مختصر فوج دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے افغانستان میں باقی رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں یہی نظریہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا بھی رہا ہے۔ تاہم 29 فروری 2020ء کو دوحہ میں طے پانے والے طالبان امریکہ معاہدے کی رو سے چودہ ماہ کے اندر امریکہ کی تمام تر فوج کو افغانستان سے نکل جانا ہے۔ اس وقت افغانستان میں پچیس سو امریکی فوجی موجود ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ نے یہ کہہ کر کہ ٹرمپ انتظامیہ کے طالبان سے طے پانے والے امن معاہدے کا پھر سے جائزہ لیا جائے گا، اپنی نئی حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے علاوہ نیٹو اتحادیوں کے فوجی بھی ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں، جن کی کل تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔ کابل میں برسراقتدار حکومت کی بھی خواہش ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی صورت میں باقی رہے، کیونکہ صدر اشرف غنی ہوں یا چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، جانتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں عملاً طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی، کیونکہ امریکی کمانڈر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ دو تہائی سے زیادہ افغانستان پر ایک طرح سے طالبان کی عملداری قائم ہے۔

امریکہ طالبان معاہدے کی رو سے کابل حکومت اور طالبان کو آپس میں مذاکرات کرکے افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسی عبوری حکومت کی تجویز پیش نظر ہے، جس میں طالبان کو بھی موثر نمائندگی حاصل ہو۔ ظاہر ہے اس عبوری حکومت میں اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ شامل نہیں ہوں گے۔ یہی بات صدر اشرف غنی جیسے امریکی ایما پر حکومت میں موجود افراد کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ لہٰذا اشرف غنی جو بائیڈن انتظامیہ کی اس بات پر خوش ہیں کہ انھوں نے امن معاہدے کا ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات وہ گذشتہ دنوں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کے علاوہ نیٹو افواج کا تعلق ہے، انھوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کے فیصلے کی روشنی میں ہی فیصلہ کریں گے۔ یعنی امریکہ پوری طرح نکلے گا تو وہ بھی نکل جائیں گے اور اگر امریکہ رہے گا تو ان کی نمائندگی بھی رہے گی۔ افغان صدر اشرف غنی نے مذکورہ انٹرویو میں اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ابھی نیٹو فوج نہیں جا رہی، یعنی ان کا اقتدار کہیں نہیں جا رہا۔

دوسری طرف طالبان نے بھی واضح کر دیا ہے کہ نئی امریکی حکومت نے امن معاہدے کو ختم کیا تو بڑی جنگ ہوگی۔ یاد رہے کہ طالبان نے معاہدے کی رو سے گذشتہ پورے سال میں نیٹو افواج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسی طرح نیٹو افواج نے بھی طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس دوران میں کابل کے ہسپتال میں زچہ بچہ وارڈ میں جو دہشتگردانہ کارروائی ہوئی ہے، طالبان نے اس کی مذمت کی ہے اور داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ خود امریکہ کا بھی کہنا ہے کہ اس واقعے میں طالبان میں ملوث نہیں ہیں۔ اسی طرح دیگر کئی دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ داعش کی یہی کارروائیاں امریکہ کے لیے افغانستان میں باقی رہنے کا جواز بن رہی ہیں۔ یا شاید بہتر الفاظ میں ان کارروائیوں کے ذریعے امریکہ کے افغانستان میں باقی رہنے کا جواز مہیا کیا جا رہا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ شام اور عراق میں شکست کے بعد ہزاروں داعشیوں نے افغانستان کا رخ کیا تھا۔ انھوں نے ننگرہار صوبے کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے بقول ان کی تعداد دس ہزار پر مشتمل تھی۔ حامد کرزئی اور دیگر کئی ایک افغان راہنمائوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ امریکہ داعش کو افغانستان میں لا رہا ہے اور وہی انھیں لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کر رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان، جو کچھ عرصہ پاک فوج کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو کر فرار کرگئے تھے، انہوں نے اپنے بیان میں یہ بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی اور را کے آپس میں قریبی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں متعین امریکی کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش موجود ہے، ان کے بقول اس کے ستر فیصدی جنگجوئوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔

یہ جنگجو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے، خاص طور پر اورکزئی ایجنسی سے فرار کرکے صوبہ ننگر ہار میں داعشی جنگجوئوں سے ملے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے داعش میں شامل ہونے والے ارکان کی تعداد چھ ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے، جو پاک فوج کے آپریشن سے بچنے کے لیے فرار کر گئے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان بھی کہہ چکے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور داعش افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ افغانستان میں منشیات کی پیداوار دہشتگردی کی مالی امداد میں استعمال ہوتی ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھی یہ بات آچکی ہے کہ ٹی ٹی پی کی تربیت اور مالی امداد بھارت کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ بھارت امریکہ تعلقات اور قربت کے پیش نظر یہ ممکن نہیں کہ بھارت یہ سب کچھ امریکی تائید کے بغیر کر رہا ہو۔

عین ممکن ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ بھی کہا جائے کہ طالبان معاہدے پر عملدرآمد نہیں کر رہے، اس لیے ہم بھی افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جا رہے۔ بہرحال امریکہ کے لیے اپنے معاہدوں سے مکر جانا اور نئے بہانے بنا لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ افغانستان سے چلا جائے اور روس، چین، پاکستان، افغانستان اور ایران امن و سلامتی کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کریں۔ امریکی نظام کی ماہیت کو جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ ایسا نہیں کرے گا، مگر یہ کہ بہت مشکل میں پڑ جائے۔