عالمی اربعین واک، یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں
بشکریہ : اسلام ٹائمز
بشکریہ : اسلام ٹائمز
بشکریہ : اسلام ٹائمز
انسانی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے قوانین، قراردادوں، اداروں اور پابندیوں کے سلسلے کے باوجود کیا دنیا سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا خاتمہ ہوسکے گا یا نہیں۔؟ اس سوال کا سادہ ترین جواب ہے کہ نہیں۔ دنیا ہتھیاروں کو کوستی بھی رہے گی، ان پر پچھتاتی بھی رہے گی، اس کے بارے میں قوانین بھی بناتی رہے گی، تاہم اس وقت تک ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتی، جب تک ان کے ذہنوں سے تسلط، عدم اعتماد اور سبقت لے جانے کی فکر محو نہیں ہوتی۔ ابھی حال ہی میں روس نے ایک سیٹلائیٹ شکن میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ اس میزائل نے خلا میں 420 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنی ہی ایک ناکارہ سیٹلائیٹ کوسموس کو نشانہ بنایا۔ اس دھماکے کی وجہ سے سیٹلائیٹ کے 1500 کے قریب ٹکڑے پوری خلا میں پھیل گئے، جس کے سبب عالمی خلائی مشن آئی ایس ایس خطرے سے دوچار ہوگیا اور اس پر موجود خلابازوں، جن میں دو روسی خلا باز بھی تھے، کو حفاظتی کیپسول میں جانا پڑا۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور ہم
گذشتہ تحریر میں ہم نے دیکھا کہ طلبہ تنظیمیں کیا ہیں؟ ان کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کسی بھی علاقائی، بین الاقوامی اور نظریاتی تحریک میں طلبہ تنظیم کا کیا کردار ہے۔؟ طلبہ کو کس قیمت پر ان تنظیموں کا حصہ بننا چاہیئے۔؟ ہم نے یہ بھی جانا کہ پاکستان میں اسلامی فکر کی حامل تنظیمیں کیوں معرض وجود میں آئیں۔؟ ان تنظیموں کی مشکلات کیا رہیں۔؟ ایک اسلامی طلبہ تنظیم کے سابق رکن کی حیثیت سے میں نے مشاہدہ کیا کہ طلبہ تنظیمیں بہت سے موارد میں طلبہ اور معاشرے کے لیے مفید ہوتی ہیں، اگرچہ طلبہ کی تعلیم کی جانب عدم توجہی کے حوالے سے ان تنظیموں کے کچھ برے اثرات بھی ہوتے ہیں، جن کا سدباب کیا جانا چاہیے۔ تاہم بالعموم تنظیمی ماحول انسان کی فردی صلاحیتوں منجملہ خود اعتمادی، نظم، تحرک، عزم، سماجی برتاؤ، بصیرت، قیادت، سیاسی سوجھ بوجھ، مدیریت، ایثار، قربانی، انسانوں اور معاشرے کی پہچان کو بہتر بنانے نیز سماجی خدمت، معاشرے کی بہتری کا شعور، مختلف صلاحیتوں کے حامل لوگوں کے ہمراہ کام کرنا اور دیگر مہارتوں کو جلا بخشنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(2)
طلبہ کا کام تو فقط تعلیم حاصل کرنا ہونا چاہیئے، جس مقصد کے لیے والدین ان کو کالج یا یونیورسٹی میں بھیجتے ہیں۔ عالمی سیاست، علاقائی سیاست، سماجی خدمات، طلبہ کو مدد فراہم کرنا، تنظیم سازی اور اس جیسے کام طلبہ کو نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ ایک نکتہ نظر ہے، جو اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، جس قدر دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں طلبہ تنظیم، سوسائٹی، کلب کا تصور بہت پرانا ہے۔ پندھرویں صدی عیسویوں میں یورپ میں طلبہ سوسائٹیوں کا آغاز ہوا۔ دنیا کی اکثر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کی سوسائٹیاں موجود ہیں، جن میں ڈیبیٹ سوسائٹی، انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ سوسائٹی، راک سوسائٹی، پروفیشنل سوسائٹیاں قابل ذکر ہیں۔ یہ تنظیمیں اور سوسائٹیاں ساتھی طلبہ کو مختلف موارد میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(1)
تحریک لبیک پاکستان ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت تحریک لبیک کیساتھ ہونیوالے معاہدے پر عمل کرے۔ حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے مابین ہونیوالےمعاہدے کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجے اور فرانسیسی سفارتخانے کو بند کرے، یہ مطالبات اس وقت سامنے آئے جب فرانسیسی جریدے چارلی ہبڈو نے رسالت ماب ؐ کا نعوذباللہ استہزاء کرنے کی غرض سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا اور فرانسیسی صدر نے اس اشاعت کا سیاسی آزادی کے نام پر دفاع کیا۔ تحریک لبیک کا مطالبہ اور بوسیدہ ریاستی مشینری
ڈاکٹر عبد القدیر خان، آخر کار اپنی مجاہدانہ زندگی کو خیر باد کہ کر آج 10 اکتوبر 2021ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا تعلق پشتونوں کی معروف نسل یوسفزئی سے تھا۔ عبد القدیر خان 1936ء میں بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے، ان کے والد عبد الغفور ایک سکول ٹیچر تھے۔ خان صاحب کے خاندان کے کئی افراد تقسیم ہند کے وقت پاکستان آگئے تھے، تاہم قدیر خان اپنے والد کے ہمراہ ہندوستان ہی رہے۔ بھوپال سے ہی ڈاکٹر قدیر نے میٹرک کیا، تاہم 1952ء میں وہ پاکستان آگئے۔ ڈاکٹر قدیر جو اس وقت فقط قدیر خان تھے، انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے فزکس میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ وہ کچھ عرصہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں انسپکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ مغربی جرمنی سے سکالرشپ ملنے تک جاری رہا۔ الزامات کی دھول سے اٹا محسن پاکستان
’’مشی‘‘ ان دنوں تو ہر زبان پر ہے اور اس کا پس منظر اربعین حسینی کے موقع پر کربلائے معلیٰ کی طرف زائرین کا پاپیادہ سفر ہے۔ اس پاپیادہ سفر ہی کو عربی زبان میں ’’مشی‘‘ (واک) کہتے ہیں۔ دنیا میں روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر کوئی نیا نہیں بلکہ صدیوں سے مختلف ملکوں میں اور مختلف قوموں میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ خانۂ کعبہ کی طرف پیدل جانے کی رسم بھی بہت قدیمی ہے۔ اگرچہ آنحضرتؐ، آپؐ کے صحابہؓ اور اہل بیتؑ سوار ہو کر بھی خانۂ خدا کی طرف جاتے رہے ہیں، لیکن وہ سالہا سال پیدل چل کر بھی حج اور عمرہ سے شرفیاب ہوتے رہے ہیں۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ نے پچیس مرتبہ مدینہ منورہ سے پاپیادہ زیارت خانہ خدا کے لیے سفر کیا۔ امام حسینؑ کے بارے میں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پچیس حج پاپیادہ کیے۔ اسی پس منظر میں یہ شعر ہے:
ذرا یہ سوچو جو حج کو پچّیس بار آیا ہے پا پیادہ
وہ ترکِ احرام کر رہا ہے تو کس الم سے گزر رہا ہے
روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر
بصرہ سے کربلا کا فاصلہ تقریباً 519 کلومیٹر ہے۔ یہ سفر اگر تیز رفتار بسوں پر بغیر توقف کے کیا جائے تو نجف تک تقریباً چھے گھنٹے لگتے ہیں، لیکن پیدل وہ بھی 45 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ساتھ یہ واقعی ناقابل یقین اور ناممکن سفر معلوم ہوتا ہے۔ ایسے ہی ناصریہ، سماوہ، دیوانیہ، حلہ، کوفہ، نجف، سامرہ غرضیکہ عراق کے گوش و کنار سے عشاق کے اکثر قافلے پیدل ہی کربلا زیارت کے لیے آتے ہیں۔ سفر زیارت کے دوران میں نے دیکھا کہ زائرین کی خدمت کے لیے اقامت گاہیں، جن کو عراق میں موکب کہا جاتا ہے، جا بجا موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ موکب پختہ عمارتوں پر مشتمل ہیں، جہاں زندگی کی سبھی ضروریات میسر ہیں اور کچھ عارضی ہیں۔ نجف سے کربلا تک تو ان موکبوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جو ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے سوال پیدا ہونا چاہیئے کہ فقط اربعین پر زائرین امام حسین علیہ السلام کی خدمت کے لیے اتنے عالی شان موکب تعمیر کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے، جبکہ یہ کام عارضی موکب سے بخوبی لیا جاسکتا ہے۔ سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(2)
جوں جوں اربعین حسینی نزدیک آرہا ہے، ساری دنیا سے بے قرار دلوں کا رُخ کربلا کی طرف ہوگیا ہے۔ کرونا کی وبا کا یہ دوسرا برس ہے۔ اس وبا کے بعد سے پوری دنیا کے معاملات درہم برہم ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے طاقتور ملک اس آسمانی بلا کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں۔ زمینی ٹریفک کبھی جام ہو جاتی ہے اور کبھی رینگنے لگتی ہے۔ آسمانی ٹریفک بھی کبھی پرواز کا ارادہ کرتی ہے اور کبھی اس کا حوصلۂ پرواز مدہم پڑ جاتا ہے، لیکن عشق کے معمولات وہی ہیں بلکہ جب غم ہجراں کی آنچ تیز ہوتی ہے تو بے قراری سِوا ہو جاتی ہے۔ دو سال پہلے تو نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ سب راستے کربلا کو جاتے ہیں۔ کروڑوں انسان ہزاروں رکاوٹیں عبور کرکے کربلا جا پہنچے تھے۔ اربعین حسینی دنیا کے لیے ایک نیا عالم گیر عنوان بن کر ابھر آیا تھا۔ اربعین حسینی ویسے تو شہادت کبریٰ کے بعد سے خانوادہ نبوت کے مریدوں اور عاشقوں کے لیے ظلم یزیدی کے خلاف احتجاج و عزاء کا عنوان رہا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ روز روز عاشورہ کی مانند دنیا بھر میں عزادارانِ حسینی کے لیے اظہار جذب و عشق کے باقاعدہ اور منظم عوامی سلسلوں کا ایک روز بن گیا۔ بے قرار دل تو کربلا میں ہیں
2016ء میں مجھے اربعین حسینی کے موقع پر کربلا جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ عراق گیا تو عشق امام حسین ؑ میں تھا، تاہم دل نجف میں ہار آیا۔ یہ ایک کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے زیادہ عرصہ نجف اشرف ہی رہنے کا موقع ملا، تقریبا 9 روز روزانہ میرا یہ معمول تھا کہ میں اپنی اقامت گاہ سے پیدل حرم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب چل پڑتا تھا، وہاں سارا دن بیٹھا رہتا۔ کبھی ایک ہال میں، کبھی دوسرے ہال میں، کبھی ایک صحن میں، کبھی دوسرے صحن میں۔ کبھی حرم مطہر کے باہر کی دنیا کو محسوس کرتا۔ واقعات کا ایک اژدہام تھا جو میرے اردگرد وقوع پذیر ہو رہا تھا اور میں اس سب کو جذب کرنے کی ناکام کوشش میں تھا۔ سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(1)
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔ طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں