شام سے روابط کی بحالی چین معاہدے کے اثرات
تحریر: سید اسد عباس
شام اور سعودیہ کے مابین روابط کی بحالی کے عمل کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ان دونوں عرب ممالک میں تعلقات 2012ء کے بعد ختم ہوئے، جب سعودیہ، خلیجی و افریقی ریاستوں، ترکی اور مغربی ممالک نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک اتحاد قائم کیا اور اس آپریشن کو ایک ہی کمانڈ اینڈ اسٹرکچر کے تحت انجام دیا۔ دنیا بھر سے ہزاروں جنگجوؤں کو شام میں انقلاب کے نام پر جمع کیا گیا۔ ایک وہ وقت بھی آیا کہ بشار الاسد کی حکومت فقط دمشق اور اس کے مضافات تک باقی رہ گئی تھی۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ نے خطے کی عرب ریاستوں جن میں سعودیہ، عرب امارات، قطر، اردن، بحرین، مصر اور ترکیہ قابل ذکر ہیں، کو ساتھ ملا کر شامی افواج سے باغی پیدا کیے، جن کو فری سیرین آرمی کا نام دیا گیا، ایسے ہی شامی سیاستدانوں پر مشتمل ایک باڈی بھی تشکیل دی گئی، جس کا کام بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے انتظامات کو سنبھالنا تھا۔ مغربی اور عرب اتحادیوں کا یہ آپریشن ایک لمبے عرصے تک شام میں جاری رہا۔ شام کو تمام سفارتی اور سیاسی چینلز سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔
ایسے میں فقط ایران اور روس تھے، جنھوں نے شام کا ساتھ دیا اور بشار الاسد کی حکومت اور افواج ایک مرتبہ پھر پورے شام کا کنٹرول واگزار کروانے میں کامیاب ہوئیں۔ شام میں اس وقت بھی مکمل طور پر امن بحال نہیں ہوسکا ہے۔ شام کے شمالی علاقوں میں کردوں کا کنٹرول ہے جبکہ کچھ علاقے اب بھی مغرب اور عرب اتحادیوں کی بنائی ہوئی فورس جھبۃ النصرۃ، فری سیرین آرمی اور شامی افواج کے مابین میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اچانک شامی صدر کا دورہ عرب امارات ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے، جس کا تعلق یقیناً ایران اور سعودیہ کے مابین بحال ہونے والے روابط سے ہے۔ سعودیہ اور ایران کے مابین روابط کے خاتمے سے نہ فقط متعدد عرب ریاستوں کے ایران سے روابط معطل ہوئے بلکہ شام اور یمن میں چلنے والی جنگیں بھی شاید انہی روابط میں تعطل کے سبب سے دو آتشہ ہوئیں۔ اب جبکہ چین کی کوششوں سے ایران اور سعودیہ نے روابط کی بحالی کا اعلان کیا ہے تو خطے میں اس کے مثبت اثرات ابھی سے دکھائی دینے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شہید مقاومت کے انتقام کی قسطیں، ایران شام معاہدے https://albasirah.com/urdu/maqamoat-k-inteqam-ki-qisten/
اطلاعات کے مطابق شام عید الفطر تک اپنا کونسل خانہ سعودیہ میں کھول دے گا اور اسی طرح سعودیہ کا کونسل خانہ بھی شام میں کھل جائے گا۔ امید ہے کہ شام کو دوبارہ خلیج تعاون کونسل میں بھی شامل کر لیا جائے گا اور ان ممالک کے مابین سیاسی، اقتصادی اور تجارتی روابط بھی بحال ہو جائیں گے، جس سے خطے کی معیشت اور سکیورٹی مستحکم ہوگی۔ اپنے خطے کے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی پالیسی عالمی سیاست بالخصوص عالمی پابندیوں کے منظر نامے میں بہت اہمیت کی حامل ہے، جس کا عملی مشاہدہ ہم نے ایران میں کیا۔ ایران جس پر مغربی ممالک نے متعدد شعبہ جات میں پابندیاں لگا رکھی ہیں، نے اسی ہمسایہ ممالک سے اچھے روابط کی پالیسی کے تحت آج تک اپنی معیشت کو سہارا دیا ہے۔
ہم آج اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ عرب ریاستیں مغرب دوستی میں اس حد تک آگے بڑھیں کہ انھوں نے تمام ہمسایوں سے روابط بگاڑے، جن میں ایران کے بعد شام، پھر قطر اور یمن شامل تھے۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ اب عرب حکمرانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا ہے۔ انھیں محسوس ہوگیا ہے کہ ہمسایوں سے روابط بگاڑ کر کوئی بھی ملک ترقی اور استحکام حاصل نہیں کرسکتا۔ چین کی خطے میں سرمایہ کاری اس معاملے میں ایک اہم عامل کے طور پر سامنے آئی اور اب ایران و عرب، عرب و عرب تعلقات میں مغربی ممالک کی مخالفت کے باوجود تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔
امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کبھی بھی نہیں چاہتے کہ مشرق وسطی میں ہمسائے اچھے روابط کے حامل ہوں۔ وہ ان ممالک کے لیے سکیورٹی خدشات، سیاسی و سفارتی مسائل، دفاع اور تجارتی مفادات جیسے مسائل کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کی دفاعی، سفارتی اور سیاسی مصنوعات فروخت ہوتی رہیں۔ ان کی اس مخالفت کے باوجود عرب ریاستوں اور ایران کا ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت خوش آئند امر ہے۔ ان روابط کے جہاں سفارتی، تجارتی اور معاشی فوائد ہوں گے، وہاں سیاسی مسائل بھی حل کی جانب بڑھیں گے۔ آج ہم نے دیکھا کہ شام سے اچھے روابط کا آغاز ہو رہا ہے، یقیناً اگلی باری یمن کی ہے۔ سعودیہ خلیجی ریاستوں اور یمن کے مابین حالات بہتر ہوں گے اور یمنیوں کی کسمپرسی کا بھی مداوا ہوسکے گا۔
یہ دیکھیں: https://urdu.sahartv.ir/news/islamic_world-i421443
Share this content: