شہید مقاومت کے انتقام کی قسطیں، ایران شام معاہدے

Published by fawad on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

امریکہ اور اسرائیل کی خواہش تھی کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہو، اس مقصد کے لیے باراک اوباما کی حکومت میں 2011ء کے دوران عرب بہار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں بھی مزاحمت کو تشکیل دیا گیا۔ شامی فوج میں باغی عناصر کو لالچ دے کر شامی فوج سے الگ ایک گروپ فری سیرین آرمی کے عنوان سے تشکیل دیا گیا۔ اسی طرح سیاسی میدان میں بھی نئے مہرے وارد کیے گئے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے امریکہ اس کے حواریوں اور ترکی نے مل کر پوری دنیا سے دہشت گرد شام منتقل کیے۔ ان کی تربیت، اسلحہ کی فراہمی، منصوبہ بندی کا انتظام کیا گیا۔ اس تمام معرکے میں اردن، ترکی، عرب امارات، قطر، سعودیہ اور مصر نے اہم کردار ادا کیا۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے مشن کو "ہنٹ دی پرے” کا عنوان دیا گیا اور اس مقصد کے لیے قطر کے وزیراعظم کو ٹاسک سونپا گیا۔

قطر کے وزیراعظم نے اس آپریشن کی ناکامی اور سعودی حکومت سے اپنے اختلافات کے بعد اس تمام منصوبے پر سے پردہ اٹھایا۔ عراق میں اچانک داعش کے ظہور اور شمالی عراق کے مختلف علاقوں پر سریع قبضے نیز عراقی افواج کی پسپائی کے بعد داعش نے شام کے شمالی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ ایک وقت آیا کہ شام میں فقط دمشق کے علاوہ کوئی ایسا علاقہ نہ تھا، جو حکومتی عملداری میں ہو۔ دمشق پر چاروں اطراف سے حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ داعش کا کہنا تھا کہ ہم دمشق میں قائم بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے روضہ اقدس کو مسمار کریں گے، تاکہ یہاں بدعت کا سلسلہ بند ہو۔ اس سلسلے میں انھوں نے شام کے مقبوضہ علاقوں میں بہت سے مزارات کو مسمار بھی کیا۔ داعش کی دہشتگردی کے سبب لاکھوں افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، جو لوگ ہجرت نہ کرسکے، وہ ان کی اطاعت پر مجبور تھے۔ شام میں گلے کاٹنے اور لونڈیاں تقسیم کرنے کا رواج عام ہوا۔ شام کے شمالی اضلاع سے نکلنے والا تیل ترکی کے راستے یورپ جانے لگا۔

ایسے میں عراق کے چند غیور افراد روضہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اترے، تاہم داعش کی تعداد کے سامنے یہ مٹھی بھر مجاہد کچھ نہ تھے۔ بدامنی اور خلفشار کو ہوا دینے کے لیے ظاہراً داعش کے مقابل ایک اور گروہ جبہۃ النصرہ بھی شام میں تشکیل دے دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب بیرونی جنگجو موجود تھے، جن کو لیبیا اور ترکی کے راستے اسلحہ فراہم کیا جا رہا تھا، جس میں کیمیائی ہتھیار بھی شامل تھے۔ اس تمام منصوبے کا مقصد فقط بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور شام میں ایسی حکومت کا قیام تھا، جو مغرب کے زیر اثر ہو، تاکہ عراق اور شام سے تیل کی پائپ لائن ترکی پہنچائی جاسکے، نیز اس آپریشن کا دوسرا بڑا مقصد اسرائیل کے بارڈر سے حماس، جہاد فلسطین اور حزب اللہ لبنان کی حامی حکومت کا خاتمہ تھا۔

اسرائیل کے قیام کے وقت سے شام اسرائیل کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ لبنان پر اسرائیلی قبضے کے دوران میں شامی افواج نے لبنانیوں کو تحفظ فراہم کیا، اسرائیل سے براہ راست جنگ کے علاوہ تمام تر مقاومتی گروہوں کو شام نے اپنے ملک میں پناہ دی اور ہمیشہ مقاومت کی پناہ گاہ کا کردار ادا کیا۔ شام کے روس سے قریبی تعلقات بھی اس آپریشن کی ایک اہم وجہ تھے، امریکہ چاہتا تھا کہ شام میں بعثی رژیم کا خاتمہ ہو اور یہاں ایک ایسی حکومت لائی جائے، جس پر مغرب کا زیادہ رسوخ ہو۔ اس مقصد کے لیے شام کو شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک برباد کر دیا گیا۔ لاکھوں افراد پناہ گزینی پر مجبور ہوئے۔ وہ ملک جو آئی ایم ایف کا مقروض نہیں تھا، اس کو خط غربت سے نیچے پہنچا دیا گیا۔

خطے میں آنے والی اس بڑی تبدیلی کو ایران میں بیٹھے ذمہ داران نے بہت جلد درک کیا اور اس مقصد کے لیے اقدامات لینے شروع کیے۔ ایرانی قدس فورس کے جرنیل جنرل قاسم سلیمانی نے حزب اللہ کے جنگجوؤں اور سپاہ پاسداران کی مدد سے مہینوں میں عراق اور شام میں ایک مقاومتی قوت کھڑی کی، جس نے اپنی جرات و بہادی اور قربانیوں سے داعش کی پیشرفت کو روکا۔ عراق میں حشد الشعبی جو متعدد عراقی مقاومتی گروہوں کا مجموعہ ہے اور شام میں فاطمیون، زینبیون اور حیدریون کے نام سے مقاومتی فورسز تشکیل دیں، جنھوں نے شامی افواج کے شانہ بشانہ نہ فقط مقامات مقدس کا دفاع کیا بلکہ عراق اور شام کی سرحدی حدود کا بھی دفاع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں حشد الشعبی نے عراق سے داعش کو مار بھگایا اور ان کے بچے کھچے لشکر شام پہنچ گئے۔

شام میں بھی شہید قاسم کے کھڑے کیے ہوئے مقاومتی محاذوں نے داعش، جبہۃ النصرۃ، فری سیرین آرمی اور کرد فورسز کی پیش قدمی کو روک کر آپریشن "ہنٹ دی پرے” کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔ اس مقاومتی کاوش میں تبدیلی کا مرحلہ تب آیا، جب روس نے شامی حکومت کی استدعا پر اپنی افواج شام بھیجیں اور شام میں داعش کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا۔ فقط ایک ماہ کی کم ترین مدت میں روسی جنگی جہازوں نے داعش کی سپلائی لائن اور ٹھکانے تباہ کر دیئے، جس کے سبب شامی افواج اور مقاومتی گروہ بآسانی شہروں کو آزاد کروانے میں کامیاب ہونے لگے۔ تیل کی ترکی کو سپلائی ختم ہونے سے داعش کو ملنے والا زرمبادلہ بھی ڈوبنے لگا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ شام کے شمالی خود مختار علاقوں کے علاوہ بشار افواج کی رٹ پورے شام پر بحال ہوچکی ہے۔ "ہنٹ دی پرے” منصوبہ ہوا ہوچکا ہے۔ اس منصوبے کے اتحادی تتر بتر ہوچکے ہیں۔

عرب ریاستیں ایک مرتبہ پھر شام کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی کی کوششیں کر رہی ہیں۔ عرب امارات نے تو بشار الاسد کو سرکاری دورے پر بھی بلا لیا ہے۔ سعودیہ بھی شام سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اسی اثناء میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایران کے ہمسائے ملک آذربائیجان میں ایران کی سرحد کے قریب ایک سفارت خانہ کھولا، جس کا جواب ایرانی وزیر خارجہ نے لبنان جا کر اسرائیلی سرحد کے دورے کی صورت میں دیا۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے شام کا دو روزہ دورہ کیا ہے، جو کسی بھی ایرانی صدر کا گذشتہ تیرہ برس میں پہلا دورہ ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد نے صدر رئیسی کے الشعب پیلس میں استقبال کے دوران کہا کہ ایران نے خون دے کر شام کا ساتھ دیا ہے، شامی عوام اس حمایت کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ صدر رئیسی کا شام کے مختلف علاقوں میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ صدر رئیسی نے اس دورے کے دوران تقریباً پندرہ اہم منصوبہ جات پر دستخط کیے، جس میں دونوں ممالک کے مابین تجارت کو آسان بنانا، سکیورٹی، ٹرانسپورٹ، دفاعی منصوبے شامل ہیں۔

شام میں اہم مغربی منصوبے کی ناکامی کے بعد ایران کے ساتھ شام کے یہ معاہدے عام نوعیت کے نہیں ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں مغربی قوتوں اور منصوبوں کی واضح شکست کی علامت ہیں۔ ایران سعودیہ، ایران اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات کی بحالی بھی نہایت اہم پیشرفت ہے، جس سے خلیج پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ شام میں ہونے والے ایران شام معاہدے فتح کے معاہدے ہیں، جس سے نہ صرف دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مزید قریب آنے کا موقع ملے گا بلکہ خطے میں موجود ان کے مشترکہ دشمن اسرائیل کی نیندیں حرام ہوں گی۔ ان معاہدوں کے سبب فلسطینی اور لبنان میں موجود مقاومتی گروہ بھی مزید مضبوط ہوں گے، جس سے اسرائیل کے خلاف کارروائیوں میں مزید تیزی آئے گی۔ یہی شہید مقاومت سردار قاسم سلیمانی کا انتقام ہے۔ ایک امریکی جرنیل کا قتل اور خطے میں امریکی مفادات پر ضرب کسی طور برابر نہیں ہیں۔ اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈالنا اس سے بھی بڑا اقدام ہے، جو ایران کی جانب سے اٹھایا جا چکا ہے۔