×

بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں(2)

سید ثاقب اکبر

بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی پیشگوئیاں(2)

4۔ عراق کے کویت پر حملے کی پیشگوئی
1980ء میں عراق کے صدر صدام حسین نے عالمی طاقتوں کے ایما پر ایران پر حملہ کر دیا۔ اسے علاقے کے رجعت پسند حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کی حمایت حاصل تھی، جن میں کویت کی شاہی حکومت بھی شامل تھی۔ امام خمینیؒ نے ان حکمرانوں کو مختلف مواقع پر ان کے انجام سے خبردار کیا۔ کویت کے حکمران اس زمانے میں عراق کی بے پناہ مالی امداد کرتے رہے۔ امام خمینیؒ نے انھیں اس کام سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کام سے باز آجائو کیونکہ ایک دن فتنے کی آگ تمھارے دامن تک آپہنچے گی۔۔۔ صدام کی درندگی کی اس عادت میں ذرہ بھر فرق نہیں پڑا بلکہ وہ عالمی اداروں اور لٹیروں کی خاموشی کے باعث ایک زخمی بھیڑیے میں تبدیل ہوچکا ہے، وہ آگے بڑھتا جا رہا ہے، تاکہ جنگ کی آگ کو علاقے کے دیگر ممالک اور خاص طور پر خلیج فارس میں بھڑکا سکے۔‘‘ (صحیفہ امام، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج20، ص328و329)

پھر ایسا ہی ہوا۔ صدام حسین ایران پر حملے اور طویل جنگ کے نتائج سے مایوس ہوگیا اور الٹا اس نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ اس نے کویت پر حملہ کر دیا۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس نے کویت پر قبضہ کر لیا اور اسے عراق کا ایک صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ اسی کے نتیجے میں امریکہ کو اس علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت کا موقع ملا۔ اگرچہ بعدازاں سامنے آنے والے حقائق سے یہ بات آشکار ہوگئی کہ پس پردہ اس حملے کے لیے صدام حسین کو امریکہ ہی کی آشیرباد حاصل تھی۔ خلیج کی پہلی جنگ امریکہ نے بظاہر کویت کو آزاد کروانے کے لیے برپا کی تھی۔

5۔ کیمونزم کے زوال کی پیشگوئی
دنیا کی سیاسی تاریخ میں امام خمینیؒ کی طرف سے کیمونزم کے زوال کی پیش گوئی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ امام خمینی ؒنے ایک خصوصی مکتوب سویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف کے نام تحریر کیا، جس میں آپ نے لکھا: ’’جناب گوربا چوف! یہ امر سب پر واضح ہے کہ اب اس کے بعد کمیونزم دنیا کی سیاسی تاریخ کے عجائب گھروں میں ہی ڈھونڈنا پڑے گا۔‘‘ یکم جنوری 1989ء کو یہ خط لکھا گیا اور 3 جنوری 1989کو گوربا چوف کے حوالے کیا گیا۔ آپ نے یہ خط آیت اللہ جوادی آملی کی قیادت میں ایک وفد کے ذریعے روانہ کیا۔ اس وفد میں ایران کے معروف دانشور اور آیت اللہ خامنہ ای کے عالمی امور میں مشیر محمد جواد لاریجانی اور محترمہ دباغ شامل تھیں۔ کریملن کے حکام نے آیت اللہ جوادی آملی پر زور دیا کہ وہ یہ خط ان کے حوالے کر دیں، تاکہ وہ اسے سویت یونین کے صدر کے سپرد کر دیں۔ آیت اللہ جوادی آملی نے جواب دیا کہ مجھے یہ حکم ہے کہ میں یہ خط جناب گوربا چوف کے سامنے کھولوں گا اور انھیں خود پڑھ کر سنائوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

سویت یونین کے صدر نے اس کے جواب میں اس وقت کے وزیر خارجہ شیوارڈ ناڈزے کے ہاتھ ایک مکتوب امام خمینیؒ کے نام روانہ کیا۔ انھوں نے امام خمینیؒ کے مکتوب کو سویت یونین کے داخلی امور میں مداخلت قرار دیا۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ مجھے تمھارے داخلی امور سے کیا سروکار ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ جہان دیگر کی ایک کھڑکی تمھارے لیے کھولوں۔ گویا امام خمینیؒ سمجھتے تھے کہ مادی کائنات کے محدود اور منفی تصور نے سویت یونین کو زوال کے قریب پہنچا دیا ہے اور اس کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ان کے سامنے عالم باطن کی حقیقت کو آشکار کیا جائے۔ چنانچہ اسی مکتوب میں امام خمینیؒ نے انھیں خبردار کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بعد پھر تم امریکہ اور مغرب کے فریب میں آجائو۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ سویت یونین ٹوٹ گیا، پندرہ ریاستیں اس سے جدا ہوگئیں، پھر ایک عرصے تک روس مغرب سے امیدیں باندھے رہا اور اس کے فریب کا شکار رہا، یہاں تک کہ پھر امام خمینیؒ ہی کے جانشینوں نے اسے زوال و سقوط نیز مغرب کی فریب خوردگی سے باہر نکالا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں اس ملاقات نے بنیادی کردار ادا کیا، جو صدر پیوٹن سے شہید جنرل قاسم سلیمانی نے ان کے دفتر میں کی تھی۔

6۔ آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کے بارے میں پیشگوئی
امام خمینیؒ کے رہبر منتخب ہونے کے بعد ایران کی مجلس خبرگان نے ان کے جانشین کے طور پر آیت اللہ منتظری کا انتخاب کر لیا تھا۔ آیت اللہ منتظری امام خمینیؒ کے شاگرد تھے، وہ ان کے قریب سمجھے جاتے تھے، ولایت فقیہ کے موضوع پر ان کی علمی کتاب کو آج بھی بہت اہمیت حاصل ہے، لیکن ان کے مزاج کی اثرپذیری اور زود رنجی نے صورت حال بہت خراب کر رکھی تھی۔ ان کے بعض قریبی عزیزوں نے ’’جانشین امام‘‘ کے عنوان سے بہت سوئے استفادہ کیا۔ ملک کے اندر اور بیرون ملک مسائل میں ناروا مداخلت نے کئی مشکلات پیدا کر دیں۔ یہاں تک کہ ان کی مداخلت کی وجہ سے سپاہ پاسداران کے اندر دھڑے بندیوں نے جنم لے لیا۔ امام خمینیؒ نے انھیں اس طرف متوجہ کیا اور ان سے کہا کہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے خبردار رہو۔ امام خمینیؒ نے یہ بھی کہا کہ آپ بہت سادہ لوح ہیں اور بہت جلد دوسروں کے زیراثر آجاتے ہیں، لہٰذا سیاسی امور میں بالکل مداخلت نہ کریں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اور آخرکار انھیں معزول کرنا پڑا، امام خمینیؒ نے انھیں یہ بھی لکھا تھا کہ کہ آپ بالآخر ایسی چیزیں لکھنے میں مشغول ہو جائیں گے، جن کی وجہ سے آپ کی آخرت خراب ہو جائے گی۔ پھر وہی کچھ ہوا، جس کا اندیشہ امام خمینیؒ نے ظاہر کیا تھا۔ اس کے بعد ایرانی عوام اور دنیا بھر کے انقلاب دوست اس امر کی طرف متوجہ تھے کہ امام خمینیؒ کا جانشین کون ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں امام خمینیؒ کی زندگی میں کوئی قانونی اقدام تو نہیں کیا گیا لیکن امام خمینیؒ نے مختلف طریقوں سے یہ پیشگوئی کر دی تھی کہ اسلامی انقلاب کے آئندہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای ہوں گے۔ چنانچہ انقلاب کے تیسرے برس تہران کی مسجد ابو ذر میں جب آیت اللہ خامنہ ای خطبہ دے رہے تھے تو ان کے قریب پڑے ہوئے ایک ٹیپ ریکارڈر میں رکھا گیا بم پھٹ گیا، جس سے وہ بہت زخمی ہوئے، لیکن ان کی جان بچ گئی۔ اس موقع پر امام خمینیؒ نے فرمایا: ’’خداوند ذخیرہ انقلاب را حفظ کرد‘‘ اللہ نے انقلاب کے اثاثے کو بچا لیا ہے۔

امام خمینیؒ کے فرزند مرحوم سید احمد خمینی کہتے ہیں کہ جب آیت اللہ خامنہ شمالی کوریا کے دورے پر تھے تو امام خمینیؒ ٹیلی ویژن پر ان کے دورے کی رپورٹ دیکھ رہے تھے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ کیسے کوریا کے عوام ان کا والہانہ استقبال کر رہے ہیں، اسی طرح انھوں نے ان کی تقریروں کو سنا اور ان کے مذاکرات میں شرکت کو دیکھا تو فرمایا: ’’الحق ایشان لیاقت رھبری را دارند‘‘ حق یہ ہے کہ یہ رہبری کی قابلیت رکھتے ہیں۔ اور پھر امام خمینیؒ کی رحلت کے بعد آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو ایران کی منتخب مجلس خبرگان نے اتفاق رائے سے رہبر اور امام خمینیؒ کے جانشین کے طور پر منتخب کرلیا۔ امام خمینیؒ کی زندگی کی کئی اور پیشگوئیاں ہیں، جو پوری ہوچکی ہیں اور ایسی بھی ہیں، جن کے پورا ہونے کا انتظار ہے۔ اس سے ان کی روحانی و عرفانی شخصیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ لوگ زیادہ تر ان کے سیاسی یا فقہی پہلو کو نظر میں رکھتے ہیں۔ امام خمینیؒ کی شخصیت کے تمام ابعاد کو پیش نظر رکھ کر ہی ان کی شخصیت کے کمال اور جامعیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ شہید امام باقر الصدرؒ نے سچ فرمایا تھا: “امام خمینیؒ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امام علیؑ فقط ایک شخص نہ تھے، جو تاریخ میں آئے اور گزر گئے بلکہ ایک شخصیت تھے جو آج بھی زندہ ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this content: