کیا طالبان واقعی بدل گئے ہیں؟
یوں لگتا ہے کہ پوری دنیا میں بس یہی سب سے اہم سوال گردش میں ہے کہ کیا طالبان واقعی بدل گئے ہیں۔ علامہ اقبال کہ تو کہہ گئے ہیں:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں
‘‘
لیکن طالبان کے بارے میں جو کوئی بھی کچھ کہہ رہا ہے، بچ بچا کر اور دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا زیادہ تر اس طرف میلان ہے کہ وہ واقعی بدل گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بدلے نہیں فی الحال ’’حکمت‘‘ سے کام لے رہے ہیں۔ شریعت کی خاص شدت پسندانہ تعبیر کے لیے مشہور مولانا عبد العزیز کا خیال تو یہی ہے کہ طالبان بدلے نہیں بلکہ ’’حکمت‘‘ سے کام لے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ چونکہ شریعت تبدیل نہیں ہوسکتی اور طالبان اگر شریعت کا نظام چاہتے ہیں تو وہ حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔ ایک صحافی نے جب پوچھا کہ کیا وہ تقیہ سے کام لے رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ حکمت سے کام لے رہے ہیں۔ سوال کا پس منظر یہ تھا کہ طالبان نے اہل تشیع کو محرم الحرام کے جلوس نکالنے کی اجازت دی ہے بلکہ عزاداری کے پروگراموں میں بھی شرکت کی ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ فقط میں ہی نہیں ہزاروں علماء یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے غلط کیا ہے۔ امید ہے کہ جب ان کا اقتدار پوری طرح سے قائم ہو جائے گا تو وہ اپنے پرانے طرز عمل پر لوٹ آئیں گے۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک جن میں روس، چین، ایران اور پاکستان شامل ہیں، بظاہر یہ سمجھ رہے ہیں کہ طالبان تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب وہ پہلے سے انتہاء پسند نہیں رہے۔ خواتین کے بارے میں اور دیگر اسلامی مسالک کے بارے میں ان کا رویہ پہلے سے مختلف ہوگیا ہے۔ یہ وہی استنباط ہے جو طالبان راہنماوں کے بیانات اور ان کے بعض کاموں سے کیا جا رہا ہے۔ امید افزاء اظہارات کے باوجود ان ممالک میں سے کسی نے ابھی تک طالبان کے اقتدار کو سرکاری سطح پر جائز تسلیم نہیں کیا۔ شاید خود طالبان کو بھی اس کی اتنی جلدی نہیں، وہ امریکی افواج کے 31 اگست تک انخلاء کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک طالبان راہنماء نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے اپنے اعلان کے مطابق وہ 31 اگست تک ان کے انخلاء کا انتظار کریں گے، اگر اس روز تک امریکی افواج موجود ہوئیں تو ان کو قابض فوج سمجھ کر ان سے سلوک کیا جائے گا۔ طالبان شمالی اتحاد کے راہنماؤں سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان کے اہم وفد نے کابل میں سابق صدر کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ سے بھی ملاقات کی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک طالبان اور ان کے مقابل دیگر راہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔ ایک اہم وفد ابھی تک پاکستان میں بھی موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی تشکیل میں کیا دیگر گروہوں اور راہنماؤں کو طالبان مناسب طور پر شریک کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔
عالمی سطح پر بڑی شہرت حاصل کرنے والے سابق مقتول مجاہد کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود افغانستان کے ایک اہم علاقے پنج شیر میں مورچہ زن ہیں۔ طالبان کے لڑاکا دستے بھی ان کے مقابل صف آرا ہوچکے ہیں۔ کسی بڑے معرکے کی تو ابھی تک خبر نہیں آئی، تاہم مذاکرات کی خبریں آرہی ہیں۔ بظاہر دونوں طرف یہ خواہش موجود ہے کہ مذاکرات سے مسائل حل ہو جائیں۔ البتہ یہاں اگر کوئی معرکہ ہوا تو وہ پنج شیر کی جغرافیائی کیفیت کے پیش نظر طویل بھی ہوسکتا ہے اور طالبان سے غیر مطمئن گروہ احمد مسعود کے ساتھ مزاحمت میں شریک بھی ہوسکتے ہیں۔ افغانستان کے مختلف صوبوں میں اس کے لیے آمادگی دکھائی دیتی ہے۔ کسی بڑے معرکے سے بچنے کے لیے طالبان، جن کے پاس اقتدار کا بڑا حصہ موجود ہے، انھیں دل کھول کر دوسروں کو شریک اقتدار کرنا ہوگا، ورنہ جس علاقے اور صوبے میں بھی کسی گروہ کو عوامی حمایت حاصل ہے، وہاں کسی بھی وقت جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ گذشتہ چار دہائیوں سے جنگ کی بھٹی سے گزرنے والی یہ سرزمین ٹھنڈا ہونے میں کچھ وقت لے گی۔ اس کے لیے افغانستان اور اس کے عوام کی زیادہ سے زیادہ خیر خواہی کو پیش نظر رکھنا پڑے گا۔
افغانستان کو داخلی جنگ سے بچانے کے لیے ہمسایہ ممالک کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اس میں جتنی دیر ہوگی، ان قوتوں کو مداخلت کا پھر سے زیادہ موقع ملے گا، جن کا مفاد افغانستان میں خون خرابے اور بد امنی سے جڑا ہوا ہے۔ یقیناً ان قوتوں کا سرخیل امریکا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت جو زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے، اس کی دلچسپیوں کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ ترکی جو نیٹو کے فوجی اتحاد میں امریکہ کا شراکت دار اور حلیف ہے، بظاہر کابل ایئر پورٹ پر موجود رہنے کے اپنے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کرچکا ہے، لیکن فیصلے پر نظر ثانی کا مطلب خواہش پر نظر ثانی نہیں ہے۔ مختلف ملکوں میں اس کی فوجی مداخلت اور فوجی موجودگی کے پیش نظر اس کے عالمی ارمانوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس کی اب تک دوسرے ملکوں میں فوجی مداخلت یا موجودگی سے کن طاقتوں کے مفادات کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔
طالبان نے اگرچہ ترکی سمیت دیگر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ معاشی حوالے سے اس کی مدد کریں۔ اس سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کا تعاون باہمی اشتراک اور دوطرفہ مفاد کے دائرے میں آتا ہے اور کس کا تعاون مداخلت کی شکل اختیار کرسکتا ہے، کیونکہ بعض صورتوں میں تو امریکہ بھی طالبان سے ’’تعاون ‘‘ کے لیے پھر تیار ہوسکتا ہے۔ ان پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کی دانائی اور دانش کو بڑے امتحانوں سے گزرنا ہے۔ ان کے سنبھلے ہوئے بیانات حوصلہ افزا بھی ہیں، قابل قدر بھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے انھوں نے اپنی طویل جدوجہد سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دوسری طرف طاغوتی طاقتوں کے بارے میں یہ سمجھنا بھی درست نہیں کہ وہ شرارتوں سے توبہ کر لیں گی۔ ماضی کے تجربات میں دانش و بینش کے لیے بڑا سرمایہ موجود ہے۔ افغانستان اور طالبان کو ضرور نئی مشکلات درپیش ہیں، لیکن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بقول ’’مردوں کے جوہر مشکلات میں ہی کھلتے ہیں۔‘‘ ہم آج کی نشست اس جملے پر ختم کرتے ہیں کہ ربع صدی کے تجربات سے گزرنے والی طالبان کی قیادت سے ہمیں مثبت امید رکھنی چاہیے اور علاقے کی طاقتوں کو انہیں مثبت فیصلے تک پہنچانے میں مخلص مددگار کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔