اسلامی حکومت یا اہل اسلام کی حکومت؟
تحریر: سید اسد عباس
فلسفہ و سیاسی اسلام کے مغربی مفکر اور کئی کتابوں کے مصنف رائے جیکسن اسلامی تحریکوں کے بارے لکھتے ہیں: “یہ درست ہے کہ سیاسی اسلام کی زیادہ تر تحریکیں براعظم افریقہ سے نمودار ہوئیں، لیکن اس کی باقاعدہ نظریاتی بنیاد برصغیر میں رکھی گئی۔ احیائے اسلام کے لیے ان چاروں (محمد عبدہ، حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی) کا بہت کام ہے، لیکن ان چاروں میں “مودودی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔” رائے جیکسن کے مطابق عہد حاضر کی سب اسلامی تحریکوں کی نظریاتی آبیاری فلسفہ مودودی سے کی گئی ہے۔ فلسفہ مودودی قومیت، زبان اور فرقہ وارانہ سرحدوں سے ماوراء ہے۔ رائے جیکسن کا کہنا تھا کہ پولیٹیکل اسلام کو سمجھنا ہے تو مودودی کو سمجھو۔ مودودی سمجھ آگیا تو پولیٹیکل اسلام بھی سمجھ آجائے گا۔
جمال الدین افغانی، علامہ محمد اقبال، محمد عبدہ، حسن البنا، سید قطب اور مولانا سید ابو الاعلی مودودی کا دور مسلمانوں کے انحطاط کا دور ہے۔ جب خلافت عثمانیہ کے نام سے قائم ایک مرکزی مسلم ریاست کا خاتمہ ہو رہا تھا اور سرمایہ دارانہ قوتیں مسلم معاشروں میں کالونیاں بنا رہی تھیں یا بنا چکی تھیں۔ دوسری جانب اشتراکی نظریہ ایک وائرس کی مانند مسلم معاشرے میں سرائیت کر رہا تھا۔ ایسے میں درج بالا شخصیات نے امت کے مسائل کا اندازہ کرتے ہوئے اس کا حل مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو قرار دیا۔ یہ سیاسی اقتدار صالح معاشرے، اتحاد و وحدت کا متقاضی تھا، جسے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے “درد مشترک و قدر مشترک” کے الفاظ سے بیان کیا۔ درج بالا شخصیات چونکہ ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتی تھیں، لہذا ان کے مدنظر اسلامی حکومت کا تصور خلافت راشدہ کے طرز کی حکومت تھا۔
مولانا مودودی نے اس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: “ملوکیت کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، ایک استبداد بالرائے، دوسرے حکومت کا ایک نسل اور خاندان کے ساتھ مخصوص ہونا، یہ دونوں چیزیں سنت رسولؐ اور سنت خلفائے راشدین کے خلاف ہیں۔ بہ خلاف اس کے جمہوریت کی اصل شوریٰ اور استخلاف صالح پر ہے اور یہ دونوں چیزیں قرآن، سنت رسولؐ اور سنت خلفائے راشدین سے ثابت ہیں۔ پس اگرچہ جمہوریت کی کسی خاص شکل کو ہم اسلام کا طریق حکومت نہیں کہہ سکتے، لیکن نفس جمہوریت کے متعلق ہم بلاشک و ریب کہہ سکتے ہیں کہ وہ اور صرف وہی اسلام کا بتایا ہوا طریق حکومت ہے اور ملوکیت یقیناً ایک جاہلی نظام ہے، جس کے بت کو توڑنا اسلام کے اصلاحی پروگرام کے سب سے پہلی دفعہ ہے۔(ابو الاعلی مودودی، جلوہ نور، جمہوریت و ملوکیت، ناشر معارف اسلامی، لاہور،۱۹۹۳ء، ص ۱۱۰)
درج بالا نظریہ کے تناظر میں مذکورہ بالا شخصیات کا خیال تھا کہ اگر معاشرے میں اسلامی احکام نافذ ہو جائیں اور ریاستی ادارے اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل پا جائیں تو ایسی حکومت کو اسلامی حکومت اور ایسی ریاست کو اسلامی ریاست کہا جائے گا۔ اپنی ایک گذشتہ تحریر میں راقم آئین پاکستان سے ایسا ہی ایک حوالہ پیش کرچکا ہے، جس میں عوام کو خلیفۃ اللہ اور ان کے منتخب شدہ نمائندوں کے اقتدار کو الہیٰ حاکمیت و اقتدار قرار دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں راقم نے تاریخی شواہد کے تناظر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایسی حکومت مسلمان حکومت تو ہوسکتی ہے، تاہم اسے اسلامی حکومت کہنا درست نہیں، کیونکہ اسلام ایک الہیٰ دین ہے اور تاریخ انبیاء و سنت الہیہ کے مطابق دین کا ہادی، رہبر و نمائندہ متعین کرنا خود خدا کا حق ہے، عوامی نمائندے کو کبھی بھی الہی نمائندے کا درجہ نہیں دیا گیا۔
اہل تشیع اور اہل سنت میں یہی نظری اختلاف تھا، جس کے سبب عالم اسلام میں دو نظریاتی گروہ معرض وجود میں آئے۔ جہاں تک امت مسلمہ کے مفادات کے لیے اپنے نظری اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنے کسی حق کے حصول کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا ہے، یہ ایک بالکل الگ مسئلہ ہے، تاہم نظری اختلاف کو باہم خلط ملط کرنا درست نہیں ہے۔ مولانا مودودی اپنی مجوزہ اسلامی حکومت کے قیام کو معجزہ نہیں سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا: “اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے، جس کی بنیاد میں وہ نظریۂ حیات، وہ مقصدِ زندگی، وہ معیارِ اخلاق وہ سیرت و کردار ہو، جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں، جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں۔ پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے، جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے۔
اس سے مسلم سائنٹسٹ، مسلم فلسفی، مسلم مورخ، مسلم ماہرین مالیات و معاشیات، مسلم ماہرین قانون، مسلم ماہرین سیاست، غرض ہر شعبۂ علم و فن میں ایسے آدمی پیدا ہوں، جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں، جن میں یہ قابلیت موجود ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اور عملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصول پر مرتب کرسکیں اور جن میں اتنی طاقت ہو کہ دنیا کے ناخدا شناس ائمہ فکر کے مقابلہ میں اپنی عقلی و ذہنی سیادت (intellectual leadership) کا سکہ جما دیں۔ اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظامِ زندگی کے خلاف جدوجہد کرے، جو گرد و پیش کی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے علم بردار مصیبتیں اٹھا کر، سختیاں جھیل کر، قربانیاں دے کر، مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں اور ایسا سونا بن کر نکلیں جسے پرکھنے والا ہر طرح جانچ کر بے کھوٹ کامل المعیار سونا ہی پائے۔”
درج بالا عبارت سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو، تاہم یہاں دوبارہ اس ساری مشق کا حتمی ہدف بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ ساری ایکسرسائز اس لیے انجام دی جا رہی ہے کہ عوام کو خلیفۃ اللہ سمجھ کر حق حاکمیت و اقتدار کو استعمال کرنے کا حق عوام کو تفویض کیا جائے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاست کو اسلامی ریاست اور حکومت کو اسلامی حکومت قرار دیا جائے تو مسئلہ پھر بنیادی نظریاتی اختلاف پر منتج ہوگا۔ یہ ظاہراً تو اصطلاحات کا ہیر پھیر دکھائی دے رہا ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اسی الفاظ کے ہیر پھیر نے امت مسلمہ کو دو نظریاتی گروہوں میں تقسیم کیا اور اسی الفاظ کے ہیر پھیر سے بننے والی حکومتوں اور ریاستوں کی تاریخ اموی و عباسی تاریخ کہلاتی ہے۔ الفاظ کا یہی ہیر پھر کربلا جیسے واقعہ کا باعث بنا اور الفاظ کے اسی ہیر پھیر کے نتیجے میں ائمہ اہلبیت ؑ پوری زندگی سختیوں اور صعوبتوں کا نشانہ بنتے رہے۔ اگر یہ الفاظ کا ہیر پھیر ہی تھا تو حکومت و ریاست کی زمام ان کے ہاتھوں میں کیوں نہ دے دی گئی، جن کے بارے میں رسول اکرم ؐ کی واضح نص موجود تھی۔
درج بالا شخصیات منجملہ جمال الدین افغانی، علامہ محمد اقبال، سید قطب، حسن البنا اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کے نظریات اور افکار نے اصلاح معاشرہ میں اگرچہ اہم کردار ادا کیا اور اشتراکیت کے مسلم معاشرے میں فروغ کے سامنے بند باندھا، لیکن جب یہ تحریکیں اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوں گی تو ان کی وہ بھیانک تصاویر ہمارے سامنے ظاہر ہوں گی، جو عوام کو اقتدار الہیٰ کا حقدار اور اس کو خلیفۃ اللہ قرار دینے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ مکتب امامیہ کے اکثر احباب کسی بھی چیز کے ہمراہ اسلامی کا سابقہ لگے دیکھ کر اس کے بارے تصور کرتے ہیں کہ یہ واقعی کوئی اسلامی چیز ہے، جو حقیقت میں اسلامی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بنیادی عقائد کے مطابق ہے۔ یہ مسلمانوں کا ایک فہم ہے، جس کی تفصیلات کے بارے بات کی جاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو اموی حکومت کو اسلامی حکومت قرار دیں، یا عباسی حکمرانوں کو اسلامی حاکم سمجھیں، کیونکہ ان کے زمانے میں عدالتی نظام، معاشی نظام اور معاشرتی روایات اسلامی تھیں۔
لیکن ہم اموی و عباسی حکام کو اسلامی حاکم نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے برعکس غاصب سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی آج بھی کسی ایسے نظام کو اسلامی کہنا جس میں خدا کی جانب سے متعین نمائندہ حاکم نہیں، کسی طور درست نہیں، عمر بن عبد العزیز یا ایسے ہی دیگر حکام کی مانند کسی بھی حکومت کو اچھا یا برا کہا جاسکتا ہے، لیکن اسلامی نہیں۔ مولانا مودودی کی تحریر کو کچھ رد و بدل کے ساتھ دوبارہ پیش کرتا ہوں: “اہل اسلام کی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے، جس کی بنیاد میں وہ نظریۂ حیات، وہ مقصدِ زندگی، وہ معیارِ اخلاق وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں، جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں۔ پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔
پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے، جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے۔ اس سے مسلم سائنٹسٹ، مسلم فلسفی، مسلم مورخ، مسلم ماہرین مالیات و معاشیات، مسلم ماہرین قانون، مسلم ماہرین سیاست، غرض ہر شعبۂ علم و فن میں ایسے آدمی پیدا ہوں، جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں، جن میں یہ قابلیت موجود ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اور عملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصول پر مرتب کرسکیں اور جن میں اتنی طاقت ہو کہ دنیا کے ناخدا شناس ائمہ فکر کے مقابلہ میں اپنی عقلی و ذہنی سیادت (intellectual leadership) کا سکہ جما دیں۔ اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظامِ زندگی کے خلاف جدوجہد کرے، جو گرد و پیش کی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے علم بردار مصیبتیں اٹھا کر، سختیاں جھیل کر، قربانیاں دے کے، مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں اور ایسا سونا بن کر نکلیں، جسے پرکھنے والا ہر طرح جانچ کر بے کھوٹ کامل المعیار سونا ہی پائے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت اور ریاست کا مذہبی تصور تاریخ انبیاء کے تناظر میں(1)
https://albasirah.com/urdu/hakomat-aur-siasat-ka-mazhabi/
Share this content: