×

ایرانی صدر کا دورہ روس یونی پولر دور کے خاتمے کی طرف ایک اور اشارہ

سید ثاقب اکبر

ایرانی صدر کا دورہ روس یونی پولر دور کے خاتمے کی طرف ایک اور اشارہ

ایرانی صدر کا دورہ روس یونی پولر دور کے خاتمے کی طرف ایک اور اشارہ

ویسے تو مجموعی طور پر دنیا کا نظام تبدیلی کی طرف گامزن ہے لیکن یہ تبدیلی کہیں سست ہے، کہیں امریکی پابندیوں اور مغربی شور شرابے میں دبی ہوئی معلوم ہوتی ہے، تاہم تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی اور امریکہ کی پیہم فوجی شکستیں اس کی قدرے نمایاں علامتیں ہیں۔ دوسرے ملکوں کی اقتصادی ترقی کو روکنے کے لیے امریکہ نے طرح طرح کی ناروا پابندیوں کا سہارا لے رکھا ہے۔ شاید سب سے المناک پابندیاں ایران پر عائد کی گئی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، سب سے اہم وجہ ایران کا نظام اور استعمار و صہیونیت کے خلاف اس کا ناقابل شکست موقف ہے۔ ایران پر پابندیوں کے لیے زیادہ تر اس کے جوہری پروگرام کو بنیاد بنایا گیا ہے، لیکن ایرانی جوہری تنصیبات کے بار بار معائنوں سے بھی یہ بات ثابت نہ ہوسکی کہ وہ ایٹم بمب بنانا چاہتا ہے۔

مغرب اس بات کو نہیں سمجھ پا رہا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی یہی استبدادی حرکتیں اور انسان دشمن ہتھکنڈے بدلتی دنیا کی بنیاد ہیں۔ امریکہ کا یونی پولر دور زوال پذیر ہے اور چین، روس اور ایران سمیت کئی ایک ممالک کا ایک نیا طاقتور بلاک تشکیل پذیر ہے۔ چین اور روس سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران میں سید ابراہیم رئیسی کی قیادت میں بننے والی نئی حکومت نے مغرب سے مذاکرات جاری رکھتے ہوئے اس پر انحصار کو ترک کرکے مشرقی بلاک اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ان کے حالیہ دورہ روس کی اہمیت اور پس منظر اس سے آشکار ہو جاتا ہے۔

ایران کی گذشتہ حکومت کے بارے میں ناقدین کہتے رہے ہیں کہ اس کی ساری توجہ مغرب کی طرف رہی ہے، مشرق اور اپنے ہمسایوں کی طرف اس نے کم ہی توجہ دی۔ مغرب نے بھی صدر روحانی کی حکومت کو لارے لگائے رکھے اور طویل و بے ثمر مذاکرات میں الجھائے رکھا۔ جوہری معاہدے کا جو حال ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس معاہدے سے باہر نکلنے کے بعد یورپی ممالک نے بھی ایران پر پھر سے پابندیاں عائد کر دیں اور تجارتی روابط کی سطح بہت نیچے چلی گئی۔ سید ابراہیم رئیسی کی موجودہ حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ تعلقات میں اپنے ہمسایوں کو ترجیح دے گی۔ روس اور چین سے ایران کے روابط پہلے ہی اچھے ہیں۔ ایران، چین کے مابین ایک 25 سالہ تزویراتی اور اقتصادی معاہدے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ روس اور ایران کے مابین بھی چین جیسے معاہدے کی امید کی جا رہی ہے۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورہ روس میں اسی معاہدے کو عملی صورت دی جانے کی خبریں ہیں۔

اس معاہدے کی اگرچہ باقاعدہ تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئی ہیں، تاہم سفارتکاروں کے مطابق روس ایران میں مختلف پراجیکٹس میں بہت بڑی سرمایہ کاری پر آمادہ ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت ان دونوں ممالک کے درمیان تقریباً دو ارب ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں اضافے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، اس سلسلے میں طرفین بہت سنجیدہ ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ پر ایرانی صدر کا اہم حکومتی وفد کے ہمراہ روس کا سرکاری دورہ شہ سرخیوں کا حصہ ہے(یاد رہے کہ یہ تین روزہ تاریخی دورہ 19 جنوری 2022ء کو شروع ہوا)۔ صدر رئیسی کے ہمراہ حکومتی وفد میں وزیر امور خاجہ، وزیر پیٹرولیم، وزیر تجارت اور بعض دیگر اہم عہدیدار شامل تھے۔ اس دورے میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے روسی پارلیمنٹ ڈوما سے بھی خطاب کیا۔

صدر رئیسی نے کہا کہ شام میں دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کا کامیاب تجربہ قفقاز اور افغانستان میں بھی مفید ہوسکتا ہے۔ ڈوما سے صدر رئیسی کے خطاب کو عالمی سطح پر بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے اسے ایک شاذ و نادر واقعہ قرار دیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس دورے کے حوالے سے جو مقالہ لکھا ہے، اس کا عنوان ہے ’’امریکہ کے مقابلے میں روس اور ایران اتحاد۔‘‘ اخبار لکھتا ہے کہ رئیسی اور پیوٹن کی ملاقات امریکہ کے مقابلے میں دو ملکوں کے اتحاد کی ایک نمائش تھی۔ یہ ملاقات کریملین میں واشنگٹن اور اس کے مخالفین کے مابین ایک حساس دور میں جیو پولیٹیکل نمائش تھی۔ یہ ملاقات ولادی میر پوٹین کے لیے اس امر کی نشاندہی کا موقع تھا کہ مغرب سے تنازعے کے وقت روس کے پاس ایسے دوست موجود ہیں، جن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی کے بارے ایک روسی خبر رساں ادارے نے لکھا کہ وہ ایک متدین اور نہ جھکنے والے انسان ہیں۔ روسی صدر اور ایرانی صدر کے مابین ملاقات تین گھنٹے جاری رہی، جس میں سید ابراہیم رئیسی نے چند منٹ نماز کا وقفہ کیا، جس کی تصاویر سوشل اور پرنٹ میڈیا پر بہت معروف ہوئیں۔

ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کی نماز بھی ماسکو کی جامع مسجد میں ادا کی۔ روس کے مفتی اعظم راویل عین الدین نے سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی اور کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ روسی صدر سے آپ کی ملاقات کس قدر اہم ہے۔ ہم روسی مسلمانوں کے لیے بھی یہ ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ مفتی عین الدین نے کہا کہ کریملین میں آپ کی نماز بہت نمایاں مثال اور حیران کن علامت تھی۔ انھوں نے کہا کہ فن لینڈ کے لوگوں نے اس بارے میں مجھے لکھا ہے کہ برکت کریملین میں داخل ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور روس کو اس وقت مغرب کی دشمنی درپیش ہے اور دونوں مغرب کی یک طرفہ پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اسی دشمنی نے عالمی مسائل میں ایران اور روس کو ایک دوسرے سے نزدیک کر دیا ہے اور دونوں کے درمیان باہمی تعاون کے بہت سے مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز

Share this content: