بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ، فلسفی پہلو(1)
Published by ثاقب اکبر on
بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ، فلسفی پہلو(1)
بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ، فلسفی پہلو(1)
انقلاب اسلامی ایران کی تینتالیسویں سالگرہ نزدیک آرہی ہے۔ پوری دنیا میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مشکلات کی بھی کمی نہیں، وہ بھی ہر روز سوا ہیں، پھر بھی دنیا والوں کے لیے یہ سوال نہایت اہمیت رکھتا ہے کہ ایک نسبتاً چھوٹے سے ملک میں آنے والے انقلاب کی اس قدر روحانی تاثیر اور مستضعف قوموں میں اس کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کی وجوہ کیا ہیں۔ ہماری رائے میں اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انقلاب کے بانی حضرت امام خمینیؒ کو بہتر طور پر جاننا اور پہچاننا بہت ضروری ہے، کیونکہ روح انقلاب امام خمینیؒ ہی کے افکار اور روح سے پھوٹی ہے اور یہ انقلاب کم و بیش ابھی تک ان کے دم مسیحائی سے پیش رفت کر رہا ہے۔ امام خمینیؒ کی ہمارے ہاں پہلے شہرت ایک اصولی فقیہ کی حیثیت سے پہنچی۔ پھر ان کے سیاسی افکار ان کی کتاب ’’ولایت فقیہ یا اسلامی حکومت‘‘ کے ترجمے سے سامنے آئے۔ اُن کے بعض اخلاقی مضامین کا بھی اردو ترجمہ ہوا۔ پھر ستر کی دہائی میں اچانک اُن کی انقلابی تحریک کا غلغلہ اٹھا، جو ہر طرف چھا گیا۔ اگرچہ جو لوگ عالمی سیاست اور علاقائی تحریکوں پر نظر رکھتے تھے، وہ گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں امام خمینیؒ کی قیادت میں ایران میں شاہی استبداد، دینی انحراف اور امریکی استعمار کی مداخلت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کو جانتے تھے اور بعض کے تو امام خمینیؒ سے روابط بھی تھے۔
انقلاب آیا تو امام خمینیؒ کے انقلابی افکار ہی کی ہر طرف گونج تھی۔ عالمی سیاست میں ان کے بعض نعرے زبان زد خاص و عام تھے۔ مسلمانوں کو بھی ان کے پیغام نے وسیع پیمانے پر متاثر کرنا شروع کیا۔ پھر بھی آپ کی شخصیت کے کئی اہم پہلو عام لوگوں کے سامنے نہ آسکے۔ ان میں سے ان کے عرفانی و فلسفی پہلو کا خاص طور پر ذکر کیا جانا چاہیے، کیونکہ ان کی عملی اور فکری شخصیت کی ساخت میں اس پہلو کا سب سے اہم کردار ہے اور یہی وہ اصل شخصیت ہے، جو آج تک انقلابی وجود اور جدوجہد میں کارفرما ہے۔ عالم اسلام میں اسلام کی شناخت اور تعبیر پر اختلاف ہمیشہ رہا ہے۔ بعض علوم بعض کے نزدیک ناگزیر ہیں تو بعض کے نزدیک مردود۔ بعض شخصیات کی کچھ لوگ بہت قدر افزائی کرتے ہیں تو کچھ لوگ انھیں نفرت و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس فرق کی بنیاد دین کی شناخت کا منہج ہے۔ بشکریہ : اسلام ٹائمز
عرفان و فلسفے سے سروکار رکھنے والے اعاظم روایت اور حرفیت پسند گروہوں کی طرف سے ہمیشہ تہمتوں اور فتووں کی زد میں رہے ہیں۔ یہ معاملہ کسی ایک اسلامی مکتب فکر کا نہیں رہا بلکہ تمام اہم مکاتب فکر میں یہ فکری تشنج اور بعض مقامات پر افراط و تفریط دکھائی دیتی ہے۔ امام خمینیؒ اپنی جوانی ہی سے فلسفے کی تحصیل اور بعدازاں تدریس کی طرف راغب رہے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے دیگر علوم پر بھی وسیع دسترس حاصل کی، یہاں تک کہ فقاہت کے میدان میں بھی اپنے دور کے چوٹی کے فقہاء میں شمار ہونے لگے، لیکن خود حوزہ علمیہ قم میں علماء اور ان کے پیروکاروں کا ایک موثر گروہ موجود تھا، جو فلسفے کی تحصیل و تدریس کو کفر جانتا تھا اور اس فتوے کی زد میں امام خمینیؒ بھی آتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے ایک معروف مکتوب منشور روحانیت میں لکھتے ہیں: ’’حوزہ علمیہ میں یہ حالت ہوگئی کہ جو بھی ٹیڑھا چلتا زیادہ دیندار سمجھا جاتا۔ غیر ملکی زبان یاد کرنا کفر سمجھا جاتا تھا۔ فلسفہ و عرفان کو گناہ و شرک شمار کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مدرسہ فیضیہ میں میرے خرد سال بیٹے مرحوم مصطفیٰ نے کوزے سے پانی پیا تو اسے پھر سے دھویا گیا کیونکہ میں فلسفے کا درس کہتا تھا۔‘‘
یعنی فلسفے کا درس کہنے کی وجہ سے امام خمینیؒ ان علماء اور طلبہ کی نظر میں کافر تھے اور ان کا چھوٹا بیٹا بھی باپ کے ’’حکم‘‘ میں تھا، گویا وہ بھی کافر تھا، اس لیے کوزۂ آب اس کے پانی پینے سے نجس ہوگیا اور اب سے شرعی طور پر پاک کرکے استعمال میں لانا ضروری تھا۔ عالمی سطح پر امام خمینیؒ کا یہ پہلو اس وقت نمایاں ہو کر سامنے آیا، جب آپ نے سوویت یونین کے آخری صدر گوربا چوف کے نام ایک مکتوب عرفان و فلسفہ اور قرآنیات کے عظیم عالم اور اپنے شاگرد آیت اللہ جوادی آملی کے ہاتھ روانہ کیا۔ اس میں انھوں نے جہاں کیمیونزم کے زوال کی صریح پیش گوئی کی، وہاں کیمیونزم کے تصور کائنات کی خامیوں کو بہت ہی خوبصورت اور سادہ فلسفی اور فطری دلائل کے ساتھ واضح کیا اور ماورائے مادہ کائنات کی شناخت کی دعوت دی۔ اسی مکتوب میں انھوں نے مختلف عظیم الشان اسلامی فلاسفہ اور عرفاء کے نام بھی لیے اور فرمایا کہ اگر آپ حقیقت کائنات کو پہچاننا چاہتے ہیں تو ان شخصیات کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔
انھوں نے اپنے مکتوب میں یہ بھی دعوت دی کہ اس سلسلے میں آپ اپنے کچھ ذہین علماء قم روانہ کریں، تاکہ وہ کچھ عرصہ یہاں رہ کر ان مطالب کا ادراک حاصل کرسکیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’قرآن عزیز و کریم اور وحی و نبوت و قیامت سے متعلق دلائل سے میں صرف نظر کرتا ہوں، کیونکہ آپ کے حوالے سے ابھی یہ اولِ کلام ہے۔ اصولاً میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو مسائلِ فلاسفہ کے پیچ و تاب اور خاص طور پر فلاسفہ اسلامی کے مسائل میں ڈالوں، صرف ایک دو سادہ فطری و وجدانی مثالوں پر قناعت کرتا ہوں کہ جن سے سیاسی لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ امر بدیہیات میں سے ہے کہ مادہ اور جسم جو بھی ہوں، خود سے بے خبر ہیں۔ ایک پتھر کا مجسمہ یا مادی مجسمہ یا انسان کا مادی مجسمہ اس کی ہر طرف دوسرے سے چھپی ہوئی ہے، جبکہ ہم یہ امر واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ انسان اور حیوان اپنے تمام اطراف سے آگاہ ہے، وہ جانتا ہے کہ کہاں ہے اور اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے، دنیا میں کیا شور شرابا ہے۔
لہٰذا حیوان اور انسان میں کوئی دوسری چیز موجود ہے، جو مادہ سے ماورا ہے اور عالم مادہ سے جدا ہے، مادہ کے مرنے سے نہیں مرتی اور باقی رہتی ہے۔ انسان فطرتاً ہر کمال کو مطلق طور پر اپنے لیے چاہتا ہے۔ آپ خوب جانتے ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی مطلق طاقت بن جائے اور ہر وہ قدرت جو ناقص ہو، اس سے دل نہ باندھے۔ اگر پوری دنیا انسان کے اختیار میں ہو اور کہا جائے کہ ایک اور دنیا بھی ہے تو فطرتاً وہ مائل ہے کہ اس جہان پر بھی اختیار حاصل کرے۔ انسان کتنا بڑا عالم بھی ہو، اگر کہا جائے کہ اور علوم بھی ہیں تو وہ فطرتاً مائل ہے کہ ان علوم کو بھی سیکھے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قدرت مطلق اور علم مطلق ہو، تاکہ آدمی اس سے دل باندھے اور یہ قدرت و علم اللہ تعالیٰ ہے کہ جس کی طرف ہم سب متوجہ ہیں، اگرچہ نہ جانتے ہوں۔ انسان چاہتا ہے کہ حق مطلق تک پہنچ جائے، یہاں تک کہ خدا میں فانی ہو جائے۔ اصولاً ہر انسان کی فطرت میں ابدی زندگی کا اشتیاق ایک ایسے عالم کے وجود کی نشانی ہے، جو جاوداں ہو اور موت سے محفوظ ہو۔
اگر جناب عالی خواہش رکھتے ہوں کہ ان مسائل میں تحقیق کریں تو ایسے علوم سے دلچسپی رکھنے والے افراد فلاسفۂ مغرب کی کتب کے علاوہ اس سلسلے میں لکھی گئی فارابی اور بو علی سینا رحمۃ اللہ علیہما کی حکمت مشاء پر مشتمل کتب کی طرف رجوع کریں، تاکہ واضح ہو جائے کہ علیت و معلولیت کا قانون جس پر ہر طرح کی معرفت استوار ہے، معقول ہے محسوس نہیں۔ اسی طرح معانی کلی اور قوانین کلی کہ جن پر ہر طرح کا استدلال منحصر ہے معقول ہیں محسوس نہیں۔ اسی طرح حکمتِ اشراق میں لکھی گئی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کی طرف رجوع کریں اور آپ کے سامنے واضح کریں کہ جسم اور ہر دوسرا مادی موجود ایک ایسے خالص نور کا نیاز مند ہے، جو حسِ سے منزہ ہے اور ذات انسان کا اپنی حقیقت کے بارے میں ادراک شہودی مظہر حسی سے مبرا ہے۔
عظیم اساتیذ سے تقاضا کریں کہ وہ صدر المتالہین(رضوان اللہ تعالیٰ علیہ و حشرہ اللہ مع النبیین و الصالحین) کی حکمت متعالیہ کا مطالعہ کریں، تاکہ معلوم ہو کہ حقیت علم مادہ سے مجرد وجود ہے۔ میں آپ کو مزید مشکل میں نہیں ڈالتا اور عرفا بالخصوص محی الدین ابن عربی کی کتابوں کا نام نہیں لیتا کہ اگر آپ چاہیں کہ اس عظیم انسان کے مباحث کو جانیں تو پھر چند ذہین اہل علم کو جو ایسے مسائل میں مضبوط دسترس رکھتے ہوں، قم روانہ کریں، تاکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے چند سال بعد بال سے باریک تر لطیف و عمیق منازل معرفت سے آگاہ ہوں اور یاد رہے کہ ایسے سفر کے بغیر ان مسائل سے آگاہی ممکن نہیں۔‘‘ اس مکتوب سے جہاں دنیا کے سامنے امام خمینیؒ کا فکری و فلسفی پہلو نمایاں ہوا، وہاں یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان کی ساری اسلامی انقلابی تحریک کے پیچھے ان کا یہی تصور کائنات اور معرفت پروردگار کارفرما ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔