امام خمینیؒ مفسر قرآن کی حیثیت سے(2)

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر
ہم گذشتہ نشست میں امام خمینیؒ کے تفسیری منہج کے چند پہلوئوں کا اجمالی ذکر کرچکے ہیں۔ آج کی نشست میں اس حوالے سے کچھ مزید مطالب پیش کریں گے اور امام خمینیؒ کی کتب، مکتوبات اور بیانات سے ماخوذ قرآنی حوالے سے جو کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان کا بھی تعارف کروائیں گے۔
امام خمینیؒ کے تفسیری مطالب کے مصادر
جن کتابوں سے محققین و مرتبین نے امام خمینیؒ کے تفسیری مطالب کے لیے استفادہ کیا ہے، ان میں تفسیر سورہ حمد، شرح حدیث جنود عقل و جھل، آداب الصلاۃ، سر الصلاۃ، شرح چھل حدیث، کشف اسرار، مصباح الھدایہ، شرح دعای سحر اور صحیفہ امام شامل ہیں۔ اس سلسلے میں شائع ہونے والی تین کتب مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ تفسیر سورہ حمد
۲۔ تفسیر قرآن مجید برگرفتہ از آثار امام خمینیؒ
۳۔ تفسیر و شواہد قرآنی در آثار امام خمینیؒ

ان کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، اردو میں تفسیر سورہ حمد اور تفسیر و شواہد قرآنی کا ترجمہ ہمارے کتاب خانے میں موجود ہے۔ تفسیر شواہد قرآنی کا اردو ترجمہ جناب مولانا محمد علی توحیدی نے کیا ہے، جو دو جلدوں میں ہے۔ امام خمینیؒ کے آثار کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے ذمہ دار ادارے ’’موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ‘‘ نے یہ کتابیں شائع کی ہیں۔ امام خمینیؒ کے آثار میں 114 میں سے 91 سورتوں کے مطالب موجود ہیں۔ سورہ حمد سے متعلق مطالب نسبتاً تفصیل سے ہیں۔ آپ کی کتب میں سے جن سورتوں کے مطالب اخذ کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: سورہ فاتحہ، مریم، طہ، نور، نمل، لقمان، فاطر، یس، زمر، مؤمن، شوری، زخرف، جاثیہ، احقاف، ق، ذاریات، قمر، الرحمن، حشر، جمعہ، طلاق، تحریم، ملک، قلم، معارج، نوح، جن، مزمل، نباء، عبس، تکویر، انفطار، مطففین، طارق، غاشیہ، تکاثر، هھمزہ، ماعون، نصر، فلق اور ناس۔ آپ کے مکتوبات، پیغامات اور بیانات میں موجود تفسیری مطالب مندرجہ ذیل سورتوں کی آیات سے متعلق ہیں: سورہ اعلی، شمس، ضحی، عصر، بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انفال، هھود، مؤمنون، فتح، حجرات، یونس، رعد، صف اور فجر۔

امام خمینیؒ کے تفسیری مطالب کے کلی موضوعات
مرتبین نے امام خمینیؒ کے تفسیری مطالب کو مختلف پہلوئوں کے تحت ذکر کیا ہے۔ مثلاً:
* عرفانی و اعتقادی پہلو
* اخلاقی و تربیتی پہلو
* سیاسی و انقلابی پہلو
امام خمینیؒ اور تفسیر عرفانی
پہلی قسم کی تفسیر میں اس طرح کے الفاظ و اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے: تحقیق عرفانی، ایقاظ ایمانی، تنبیہ اشراقی، اشراق عرفانی، تنبیہ ایمانی اور تنبیہ عرفانی وغیرہ۔ تاہم عرفانی پہلو سے بات کرتے ہوئے بعض شرعی احکام بھی ’’فرع فقہی‘‘ کے عنوان سے بیان کیے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر عرفانی مطالب عام قارئین کی دسترس سے ماورا معلوم ہوتے ہیں، لیکن بعض مقامات پر آپ نے نسبتاً عام فہم انداز سے ان مطالب کو پیش کیا ہے۔ مثلاً آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی یہ عظیم کتاب عالم غیب اور قُربِ ربوبی سے نازل ہوئی ہے، تاکہ ہم ہجرت زدگان اس سے استفادہ کریں۔ ہم کہ جو عالم طبیعت کے قیدی ہیں، اس کی مدد سے رہائی پائیں اور ہوائے نفس اور لفظ و کلام کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ اس کی مدد سے آزادی حاصل کریں۔ یہ اللہ کی رحمت مطلق کے عظیم ترین مظاہر میں سے ہے، جس سے ہم اندھوں اور بہروں نے کچھ استفادہ نہیں کیا اور نہ استفادہ کرتے ہیں۔(آداب نماز، ص۶۶)

آپ کہتے ہیں کہ اہل معرفت کے نزدیک یہ کتاب حق تعالیٰ کے ذاتی و صفاتی و فعلی مراتب کے مبداء سے تمام تر جمالی و جلالی تجلیات کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ دیگر آسمانی کتب کو یہ مرتبہ و منزلت حاصل نہیں۔(آداب نماز) ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ قرآن نے تنزل کیا ہے، نیچے آیا ہے اور قلب رسولؐ پر نازل ہوا ہے اور وہاں سے پھر نازل ہوا ہے اور نیچے آیا ہے، تاکہ سب تک پہنچ جائے اور سب لوگ سمجھ جائیں۔(سورہ حمد) امام خمینیؒ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے سات مرحلوں میں تنزل کیا ہے، تاکہ قابل فہم ہو جائے اور سادہ تر ہو جائے۔ قرآن میں بھی یہ بات آئی ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے۔ مشکل مطالب میں سے ہم بطور مثال ایک جملہ نقل کرتے ہیں، جو شاید اہل عرفان کے لیے آسان مطالب میں سے ہو: ’’قرآن سِر است، سرِ سراست، سر مستتربہ سر است‘‘

امام خمینیؒ اور تفسیر اخلاقی و تربیتی
امام خمینیؒ کی تمام تر توجہ انسان کی روحانی بالیدگی اور انسان کو بلند روحانی مقام کی طرف دعوت دینے کی طرف ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسولوں کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانوں کو مقام روحانی تک پہنچانا ہے۔ تمام انبیاء کی کوشش رہی ہے کہ وہ انسانوں کو حیوانی مرحلے سے نجات دے کر انسانیت کی بلند چوٹی پر پہنچا دیں۔ امام خمینیؒ کے نزدیک تربیت کا مسئلہ تعلیم سے بالاتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تزکیہ نفس کی اہمیت تعلیمِ کتاب و حکمت سے زیادہ ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے تزکیہ کو علم و حکمت کی تعلیم پر مقدم رکھا گیا ہے۔ یہ بات انھوں نے قرآن حکیم کی اس آیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ(جمعہ۔۲) وہ کہتے ہیں، ایسا نہیں کہ کسی عام مصنف کی طرح اللہ تعالیٰ نے تقدم و تاخر کو ملحوظ رکھے بغیر بیان کر دیا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی علم انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے۔ کبھی علم توحید بھی انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے۔ کبھی علم اخلاق انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے، کبھی علم عرفان انسان کو جہنم میں لے جاتا، کبھی علم فقہ انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے۔ انسان کی اصلاح علم سے نہیں ہوتی، اسے تزکیے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے’’ یُزَكِّیْهِمْ‘‘ کو ہر چیز پر مقدم رکھا گیا ہے۔

امام خمینیؒ و تفسیر سیاسی و انقلابی
امام خمینیؒ نے قرآنی آیات ہی سے حکومت، سیاست، قیام عدل، جنگ، امن، آزادی، بنیادی حقوق، جزا و سزا کے احکام، ملک کے نظام کا دفاع اور بیرونی تسلط کے خلاف جہاد جیسے موضوعات کے لیے استفادہ کیا ہے۔ امام خمینیؒ قرآن حکیم کو سراسر قیام عدل کی دعوت سمجھتے ہیں۔ وہ قرآن کے فرعی و عبادی احکام کو بھی سیاسی و اجتماعی پہلوئوں کا حامل قرار دیتے ہیں۔ وہ قرآن کو ظالموں اور استعماری قوتوں کے خلاف کتاب جنگ و جہاد سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب عدل کے قیام کے لیے نازل ہوئی ہے۔ ان کی نظر میں قرآن کریم نے حکومت عدل کے قیام کو عظیم ترین واجبات اور بلند ترین عبادات میں سے قرار دیا ہے۔ وہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ قرآن میں اجتماعی امور اور عبادی امور سے متعلق آیات میں ننانوے اور ایک کی نسبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں آپ نے زیادہ تر قرآن سے اجتماعی و سیاسی مسائل اخذ کرتے ہوئے عصری مسائل کا حل پیش کیا ہے اور ان کی وضاحت قرآن حکیم کی روشنی میں کی ہے۔ اس سلسلے میں دفاع اور اقتصاد سے متعلق مسائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بینکوں کے سود کے حوالے سے بھی آپ نے قرآن حکیم کی آیات کی مدد سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔

تفسیر بالرائے اور امام خمینیؒ
قبل ازیں بھی ہم تفسیر بالرائے سے متعلق امام خمینیؒ کا نظریہ اجمال سے ذکر کر آئے ہیں۔ یہاں کچھ مزید مطالب پیش کرتے ہیں، تاکہ ان کا نقطہ نظر بالکل واضح ہو جائے۔ امام خمینیؒ کے نزدیک جہاں تفسیر بالرائے سے منع کیا گیا ہے، وہاں آیات الاحکام کی تفسیر بالرائے مراد ہے۔ یہ بات انھوں نے اپنی کتاب شرح چھل حدیث میں وضاحت سے ذکر کی ہے۔ ان کے نزدیک اگر ظاہرِ آیت براہین و اعتقاداتِ عقلی کے خلاف ہو تو ضروری ہے کہ اس کی ظاہر سے ہٹ کر تفسیر کی جائے، مثلاً قرآن کریم میں ہے جَآءَ رَبُّكَ (فجر۔۲۲) جس کا  لغوی معنی ہے ’’تیرا رب آیا۔‘‘ نیز قرآن حکیم میں ہے اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى(طہٰ -۵) یعنی اللہ رحمن عرش پر مستقر ہوا۔ ان آیات کا عرفی فہم خلافِ برہان ہے۔ لہٰذا اس کے ظاہر کا رد اور برہان عقلی کے مطابق ان آیات کی تفسیر، تفسیر بالرائے نہیں ہے اور اس کے ممنوع ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ (آداب نماز)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز