عورتوں کی تعلیم سے متعلق ایک روایت کا جائزہ
سنی و شیعہ مصادر میں اِس مضمون کی ایک روایت وارد ہوئی ہے “لا تنزلوا النساء بالغرف ولا تعلموهن الكتابة” کہ عورتوں کو بالا خانوں میں نہ بیٹھنے دیا کرو اور اُنھیں لکھنا نہ سکھاؤ۔ اِن جملوں کے علاوہ بعض مقامات پر ساتھ یہ بھی ہے کہ اُنھیں “کڑھائی/ کپڑا بننا” سکھاؤ، سورہ نور کی تعلیم دو، سورہ یوسف نہ پڑھاؤ۔ شیعہ کتب میں یہ روایت معمولی سی تبدیلی کے ساتھ نبی کریم اور امام علی سے الکافی اور تہذیب الاحکام میں مذکور ہے جبکہ سُنی کتب میں یہ روایت حضرت عائشہ کی زبانی، نبی کریم سے معجم الاوسط للطبرانی، مستدرکِ حاکم۔۔۔
اور شعب الایمان للبیھقی میں موجود ہے۔ اِس کی جہاں تک سند کا تعلق ہے تو شیعہ کتب میں اِس کے راوی نوفلی و سکونی اور سہل ابن زیاد جیسے ناقابلِ اعتبار راوی جبکہ سُنی کتب میں بھی اِس کی سند درست نہ ہے۔ چنانچہ حافظ ذہبی نے امام حاکم کی مستدرک کی تلخیص میں اِسے موضوع جبکہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں اِسے مُنکر قرار دیا ہے۔
علامہ البانی نے سلسلہ احادیثِ ضعیفہ میں اِس متن کی روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔ علامہ البانی نے بڑی دل چسپ بحث کی ہے، فرماتے ہیں کہ امام شوکانی نے اِس روایت کو نقل کرنے کے بعد اِس کی تاویل کی ہے کہ عورتوں کو لکھنا نہ سکھاؤ، اگر کتابت سکھانے سے اُن کے اخلاق بگڑنے کا اندیشہ ہو۔ علامہ البانی کہتے ہیں کہ اگر یہ بات ہے تو مردوں کو بھی لکھنا نہیں سکھانا چاہیے اگر فساد کا اندیشہ ہو؟ نیز فرماتے ہیں پہلے یہ روایت ثابت ہوتب ہی تاویل کی نوبت آئے گی۔
ہماری نظر میں یہ روایت ہی ثابت نہیں۔ اصل کلام ملاحظہ ہو فقال الشوكاني: وأما حديث: ” ولا تعلموهن الكتابة.. “، فالنهي عن تعليم الكتابة في هذا الحديث محمول على من يخشى من تعليمها الفساد “. أقول: هذه الخشية لا تختص بالنساء، فكم من رجل كانت الكتابة عليه ضررا في دينه وخلقه، أفينهى عن الكتابة الرجال أيضا للخشية ذاتها؟ ! ثم إن التأويل فرع التصحيح، فكأن الشوكاني توهم أن الحديث صحيح، وليس كذلك كما علمت، فلا حاجة للتأويل إذن. (سلسلة الأحاديث الضعيفة، جلد5، صفحہ 33، رقم 2017، ناشر: دار المعارف، الرياض) گویا شیعہ و سنی علماء کے اُن اصول و ضوابط پر یہ روایت نہیں اترتی جن کی روشنی میں کوئی حدیث قبول کی جاتی ہے- ہم نے ایک جگہ اِس حوالے سے عرض کیا: بظاہر شیعہ منابع میں اس روایت کی سند ضعیف ہے کہ اس کے راوی نوفلی اور سہل بن زیاد ضعیف راوی ہیں؛ اسی متن کی ایک روایت سُنی منابع سے حضرت عائشہ سے مروی ہے ؛جس کی سند بھی ناقابلِ اعتبار ہے- ایسی روایات، اگر سند کے لحاظ سے قابلِ قبول بھی ہوں تو اِن کی مناسب تطبیق یا تاویل بھی موجود نہیں ایسے میں انھیں ترک کرنا ہوگا- بسا اوقات احادیث، جن کی سند قابل قبول ہے، مخصوص پس منظر، شانِ نزول و سبب نزول کی حامل ہوا کرتی ہیں جن سے آگاہی لازم ہے، اس لیے ہر خبر سے از خود استنباط کرنا درست نہ ہوگا- قرآن و احادیث میں علم حاصل کرنے میں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا، اسلامی احکام کا جاننا بھی عورت اور مرد دونوں کے لیے لازم ہے-
نہج البلاغہ میں جنگ جمل کے تناظر میں عورتوں کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ عمومی نہیں ہیں کہ سبھی عورتوں پر لاگو ہوں- بعض روایات میں ارشادی اوامر بھی مذکور ہیں جنھیں حکم شرعی سمجھنا غلط ہوگا- ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم فقہ الحدیث، یعنی متن شناسی سے نابلد ہیں؛ ایک موضوع پر موجود ایک ہی روایت؛ جب کہ اس کی سند بھی مردود ہو، سے کوئی مطلب اخذ کرنے کے بجائے ایک موضوع کی تمام روایات کو ملا کر دیکھنا چاہیے وہ بھی ایسی روایات کو جن کی سند اور متن میں خدشہ نہ ہو، نہ ہی قرآن کی عمومی تعلیمات کے منافی ہوں تب ہی بات سمجھی جا سکتی ہے۔ اِس متن کی روایات میں ایک اخلاقی پہلو یہ بھی موجود ہے کہ لڑکیوں کو گھر کے کام کاج سکھاؤ تا کہ کچھ کما سکیں۔ کچھ کما سکنا اُس دور میں سلائی، کڑھائی تک محدود تھا، آج عورتیں سبھی شعبوں میں کام کر رہی ہیں، ایسے میں علت کو تعمیم دیتے ہوئے عورتوں کو جدید علوم کی تعلیم دینا تاکہ وہ معاشرے میں اپنا مثبت رول ادا کر سکیں، اچھا امر شمار ہوگا۔ آخر میں کہوں گا کہ “فقہ الحدیث” لازم ہے، دین کا بنیادی فہم حاصل کیے بنا، روایات سے مطلب نکالنا خود کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ (نوٹ: سُنی کتب کے حوالہ جات مکتبہ شاملہ جدید جبکہ شیعی کتب کے لیے الفکر ڈاٹ نیٹ سے پی ڈی ایف کتب سے مدد لی گئی ہے)۔
Share this content: