دین اورمعاشرہ

Published by fawad on

ڈاکٹر سید محسن نقوی

ڈاکٹر محسن نقوی

سب سے پہلی اوراہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ’’دین‘‘ کا اصل ماخذ معاشرہ ہے۔ معاشرہ ہی وہ اکائی ہے جسے کسی بھی علاقے اور قوم میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ معاشرہ فرد کی ضروریات کی تکمیل اور مفادات کے تحفظ کے لئے کچھ’’حدودوقیود‘‘ طے کرتا ہے اور یہی ’’حدود وقیود‘‘معاشرے کے تہذیبی اورتمدنی ارتقا کے ساتھ اس معاشرے کا قانون بن جاتی ہیں۔ اگر ان قوانین کو ایک بالاتر ہستی کی طرف سے مانا جانے لگے تو انھیں اس معاشرے کا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔

مذاہب یا ادیان معاشرے میں آتے ہیں اورمعاشرے کے لئے آتے ہیں اورمعاشرے کے لئے ہوتے ہیں۔مثلاً تخلیقِ آدم علیہ السلام ہی کو لیجئے اورغور کیجئے کہ قرآن ان کے بارے میں کیا کہتا ہے:
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ(۱)
جب تمھارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں ’’زمین پر‘‘ خلیفہ مقرر کررہا ہوں۔

اس مقام پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کو زمین پر مقرر کیوں کیا۔وہ ’’رب العالمین‘‘ تو اورسیاروں پر بھی خلیفہ مقرر کر سکتا تھا لیکن ’’انسانی معاشرہ‘‘ کیوں کہ زمین پر قائم ہوناتھا اور ہدایات اس کے مطابق آنی تھیں لہٰذا’’زمین‘‘ کو منتخب کیا گیا اور حضرت آدمؑ کو پہلا ہادی بھی بنایا گیا۔
وَ لَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ(۲)
اورزمین پر تمھارا ٹھکانا ہوگا اورایک مدت تک تم اس سے بہرہ اندوز ہوگے۔
پھر حضرت آدمؑ کی ذریت کو بھی منصبِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرَھِیْمَ وَ اِسْرَآئِ یْلَ وَ مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا۔۔۔(۳)
یہ وہ لوگ ہیں نبیوں میں سے جن پر ہم نے اپنا انعام کیا ،ذریتِ آدم میں سے اور جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کروایا، نیز ابراہیم، یعقوب کی ذریت میں سے بھی جنھیں ہم نے ہدایت دی اورجنھیں ہم نے چُن لیا۔

دیکھئے حضرت نوح علیہ السلام کے سلسلہ میں آیات کا اسلوب کتنا واضح ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ۔۔۔ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَO اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ O(۴)
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ اے میری قوم! میں کوئی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں جو عالمین کا رب ہے تاکہ میں تم تک اللہ کے پیغامات پہنچائوں اورتمھیں نصیحت کروں۔
سورہ ھود(۵) میں فرمایا ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تمھیں ڈرانے والا ہوں، واضح طور پر۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
’’وَاِِذْ قَالَ اِِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖٓ اِِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ‘‘(۶)
اورجب ابراہیم نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہا کہ جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔
پھر سورۃ الانعام(۶) میں آیت۷۴ تا ۸۰ حضرت ابراہیمؑ کا اپنی قوم سے جو مناظرہ نقل ہوا ہے وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی تعلیم ان کی قوم کے حالات کے مطابق تھی۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے اس امر سے باخبر ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا پس منظر فرعون کی طاغوتیت تھی:
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی(۷)
’’فرعون کی طرف جائو کہ اس نے حد سے تجاوز کیا ہے‘‘
اور بنو اسرائیل کی غلامی تھی۔(۸) جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام انھیں نجات دلانا چاہتے تھے۔

اس طرح انبیائے ماسبق کی حکایات قرآن میں پڑھتے جائیے اورآپ کو یہ اندازہ ہوتا جائے گا کہ دین کی بنیاد قومیں اورمعاشرے ہوا کرتے ہیں اوراس کی تعلیمات ان معاشروں میں موجود اعلیٰ اقدار کے استحکام اوررذیل و استحصالی رسوم ورواج کی بیخ کنی کے لئے وارد ہوتی ہیں۔ گویا دین یا مذہب کی تعلیمات کا دنیاوی ماخذ معاشرے ہوتے ہیں لیکن معاشرے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے جامد نہیں ہوا کرتے بلکہ ان میں تغیر کا عمل جاری رہتا ہے۔اس تغیر کو’’ارتقا‘‘ کہا جائے گا یا نہیں اس کا فیصلہ تو تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم’’ارتقا‘‘ کے کسی خاص مفہوم کو متعین کر سکیں۔

لہٰذا ہم ’’ارتقا‘‘ کی بجائے تغیر کا لفظ استعمال کریں گے۔ یہ تغیر تمام اطراف و جوانب میں روپذیر ہوتا ہے لہٰذا’’معاشرتی‘‘ ضروریات بھی بدل جاتی ہیں اوران میں تعلیمات کا نقطۂ ارتکاز بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کے لئے بھی قرآن مجید نے وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ(۹)استعمال کیاہے۔ یعنی وہ بنی اسرائیل کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے۔
بعینہ یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کہی جاسکتی ہے کیوں کہ آپؐ کے اولین مخاطب اہل عرب اوراہل عرب بھی نہیں بلکہ اہل مکہ تھے جومختلف قبائل پر مشتمل تھے لہٰذا اس تعلق کو سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ(۱۰)
وہی ہے جس نے امییوں کے درمیان انہی میں سے رسول بھیجا۔
خاص طور پر وہ مکی سورے جو جز ۲۹ اور جز ۳۰ میں موجود ہیں ان کا گہرا مطالعہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ آنحضرتؐ کی تعلیمات کا مرکز ومحور یا ابتدائی ماخذ مکے کا معاشرہ ہی تھا۔

جب ہم اس امر کو سمجھ چکے کہ دین یا مذہب کی تعلیمات کا گہرا تعلق ان معاشروں سے ہوتا ہے جن میں یہ مذاہب ظہورکرتے ہیں اور وہی ان کا ماخذ ہوتے ہیں تو یہ بات بھی سمجھنا اب چنداں مشکل نہیں کہ ’’ماخذ تبدیل ہونے سے قانون یا شریعت یا مذہب یا دین کا عمومی مزاج بھی تبدیل ہوجاتا ہے‘‘ اور بنیادی تعلیمات کا فوکس (focus) یا محور بھی تبدیل ہوجاتا ہے، ان تعلیمات کی معنویت بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ کسی دور اورمعاشرے میں ظہور کرنے والے مذہب کے بارے میں اور اس کی تعلیمات کے متعلق اپنے فہم کو تیار کرتے وقت’’زمان ومکان اورحالات‘‘ کی تثلیث کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس میں ایک اور عامل یا عنصر کا اضافہ ہم کرنا چاہتے ہیں گو کہ وہ بھی اس مثلث میں موجود ہے لیکن اس کا علاحدہ سے تشخص دین کے فہم کے لئے انتہائی اہم ہے ۔وہ عامل ہے کسی بھی دور کی ’’معاشرتی یا سماجی عقل‘‘’’Collective wisdom of Society‘‘ جسے اکثر و بیشتر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
نبی کریمؐ سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
نحن معاشر الانبیاء أمرنا أن تکلم الناس علیٰ قدر عقولھم (۱۱)
ہم گروہ انبیاء کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کیا کریں۔

اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ نے اس میں ایک اہم اصول تعلیم فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاء ورسل سائنسی، منطقی اورفلسفیانہ زبان میں گفتگو نہیں فرماتے بلکہ وہ عوام اور معاشرے کے مسائل حل کرنے کے لیے آتے ہیں لہٰذا عوام اورمعاشرے ہی کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ بعد میں آنے والے لوگ ہیں جو ان سادہ اورمؤثر بیانات کو سائنس، فلسفہ اور قانون کی ’’زبان‘‘ عطا کر دیتے ہیں۔

گو کہ اس حدیث کے اسناد قوی نہیں لیکن اس کا متعدد طرق سے روایت ہونا اسے قوی ضرور بنا دیتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء اپنی عقلوں کے مطابق نہیں(جو کہ مہبطِ وحی ہونے کی وجہ سے کامل ہوتی ہیں) بلکہ لوگوں کی عقلوں میں ان کے لیے قابل فہم زبان میںگفتگو کرتے ہیں۔ اس ضمن میں امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ:
ماکلم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) العبادبکنہ عقل(۱۲)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بندوں سے اپنی کنہ عقل کے مطابق گفتگو نہیں کی۔

یہ روایات بھی اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ رسول و نبی معاشرے سے متصل اوران کی ضروریات و عقلی استعداد کا لحاظ رکھتا ہے لہٰذا اس کی گفتگو اس معاشرے کی ’’علمی و عقلی سطح‘‘ کے مطابق ہوتی ہے اور اس مقصد کے لئے وہ اسی سطح کے مطابق امور کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ پرارشاد ہوتا ہے۔
وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ۔(۱۳)
ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر خود اس کی قوم کی زبان میں تاکہ ان لوگوں کے لیے پیغام کو واضح کر سکے۔

اس آیۂ مبارکہ کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ ’’وحی الٰہی‘‘ میں اس قوم کی زبان استعمال کی جاتی ہے جس کے لیے وحی کی جاتی ہے تاکہ وہ قوم واضح طورپر اس کا مطلب سمجھ لے۔
ابن عطیہ الاندلسی نے لکھا ہے کہ :
یہ آیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کو غریب سمجھنے والوں پر ایک طعن ہے یعنی اے محمد! آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں، ہم نے آپ کو محض اس لیے بھیجا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نور کی طرف نکال کر لائیں، رسولوں کے بارے میں ہماری عادت یہی رہی ہے کہ ہم انھیں ان کی قومی زبان میں مبعوث کرتے ہیں تاکہ بیان اورعبارت دونوں قابل فہم ہوں پھر تمام غیر اہل زبان اس کی وضاحت کے لیے اہل زبان کے محتاج ہوں، یہ منصب نبی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ان کی قومی زبان میں بھیجنے کی علت یہ ذکر کی ہے کہ وہ وضاحت سے بات کو سمجھ سکیں۔ (۱۴)
علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں اس آیۂ مبارکہ کے ذیل میں لکھا ہے :
وقیل ان معناہ ان کما ارسلناک الی العرب بلغتھم لتبینھم الدین ثم انھم یبینونہ للناس، کذالک ارسلنا کل رسول بلغۃ قومہ لیظھرلھم الدین۔(۱۵)
کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ہم نے آپ کو اہلِ عرب کی طرف ان کی زبان میں پیغام دے کر بھیجاتا کہ آپ ان پروین کو واضح فرمادیں پھر وہ لوگ باقی مسلمانوں کے لیے اسے واضح کریں، اس طرح ہم نے ہر رسول کو اس کی قومی زبان میں ارسال کیا تاکہ وہ دین کو اُن کے لیے واضح کر سکے۔
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’زبان‘‘ کے خالص عربی ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶)
اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اس رسول کو ایک آدمی سکھا کرجاتا ہے، جس شخص کی طرف وہ سکھانے کی نسبت دیتے ہیں اس کی زبان تو عجمی (مبہم) ہے جب کہ یہ قرآن تو بہت واضح عربی زبان ہے۔

اختلاف روایات کی بنا پر اس شخص کے مختلف نام بتائے گئے ہیں جس سے ہمیں اس لیے سروکار نہیں کہ یہ قضیہ بدیہی طور پر غلط ہے کہ کوئی شخص آپؐ کو تعلیم دیا کرتا تھا البتہ ہم اس امر پر زور دیں گے کہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ قرآن اپنے علاقے کی فصیح ترین زبان’’عربی‘‘ میں نازل کیا گیا اور اس کی صفت یہاں’’مبین‘‘ قراردی گئی ہے یعنی بالکل واضح۔یہ لفظ خود ظاہر کررہا ہے کہ ’’اعجمی‘‘ کے مقابلے پر کہ جس میں’’ابہام‘‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ لفظ ’’مبین‘‘ ہے یعنی ’’واضح‘‘۔ عوام کے لیے انتہائی علمی،فکری اور قانونی مسائل کی زبان ان کی اپنی زبان ہونے کے باوجود’’اعجمی‘‘ ہوتی ہے جبکہ عام فہم زبان ’’مبین‘‘ یعنی واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ’’مبین‘‘ کا ایک معنی ہم ’’عوام کے لیے قابلِ فہم‘‘ اورواضح ہونا کریں گے۔ قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنے والوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ اسے بار بار ’’عربی‘‘ کہا گیا ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا(۱۷)
ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا۔
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ(۱۸)
یہ واضح عربی زبان میں ہے۔
ایک اورمقام پرفرمایا کہ:
وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا لَوْلاَ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ (۱۹)
اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ کہتے کہ اس کی آیات کھول کر بیان نہیں کی جاسکتی تھیں؟ کیا خوب کہ قرآن تو عجمی ہو اور مخاطب عربی ہوں۔
یا فرمایا:
کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۲۰)
ایسی کتاب جس کی آیتیں واضح ہیں، عربی قرآن اس قوم کے لیے جو جانتی ہے۔
یہ آیۂ مبارکہ بھی واضح طور پر ہمیں بتا رہی ہے کہ قرآن کو عربی میں بھیجا اسی لیے گیا کہ یہ قرآن کے اولین مخاطبین کی زبان تھی اوراسے عام فہم رکھا گیا اور ابہام سے اسے دور رکھا گیا تاکہ عام اہل عرب اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔
سطور بالا میں سورۂ یوسف کی جو آیت نقل کی گئی ہے اس کا تتمہ ’’لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن‘‘ (۲۱) ہے۔ یعنی تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔اسی طرح سورۃ الزخرف میں ہے:
اِِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲۲)
ہم نے اسے عربی قرآن دیا تاکہ تم عقل سے کام لو۔
علامہ ابو اسحاق الشاطبی(ف:۷۹۰ھ) نے اس موضوع کی چند آیات نقل کرکے تحریر فرمایا ہے:
الیٰ غیر ذالک ممایدل علیٰ انہ عربی وبلسان العرب لا أنہ أعجمی ولا بلسان عجم۔فمن أراد تفھمہ فمن جھۃ لسان العرب یفھم ولا سبیل الیٰ تطلب فھمہ من غیر ھٰذہ الجھۃ۔(۲۳)
یہ اوران جیسی دوسری آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن عربی اورعربوں کی زبان میں ہے، یہ نہ عجمی ہے نہ عجموں کی زبان پر ہے جو اسے بہ سعی سمجھنا چاہتا ہے تو عربوں کی زبان کے لحاظ سے اسے سمجھنا ہوگا سوائے اس کے فہم قرآن کی کوئی دوسری راہ نہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن مجید کے مطابق ہر نبی کی ہدایت اُس کی قوم کی زبان میں تھی اورخود قرآن کی زبان اہل عرب کی زبان رکھی گئی۔ ایسا کیوں کیا گیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہرقوم کی زبان اس کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ بہت سی وہ باتیں،رسوم و رواج اورمعاملات کی وہ صورتیں جو ایک قوم میں پائی جاتی ہیں دوسری قوموں میں نہیں پائی جاتیں لہٰذا جس قوم میں وہ امور پائے جاتے ہیں اس کی قومی زبان ان کا احاطہ کرتی ہے اورجو امور اس میں نہیں پائے جاتے قومی زبان بھی اس کا احاطہ نہیں کرتی۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی زبان کا لٹریچر،تحریر یا تقریر،نظم یا نثر،مذہبی یا غیر مذہبی’’زبان اورثقافت‘‘ کی محدودیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی زبان میں اگر تاریخ کے کسی مرحلے پر کچھ تصورات یا کچھ امور نہیں پائے جاتے تو دوسری قوموں سے اختلاط کے بعد اس قوم کے تصورات وامور نئے الفاظ کے ساتھ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے رہتے ہیں، اس طرح زبان کی ’’ساخت اورذخیرۂ الفاظ‘‘ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

مثلاً ہم بائبل کا مطالعہ کریں اوربنو اسرائیل کی تاریخ پر نظر کریں تو تاریخ کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ہمیں اس میں سو میری، عکادی، بابلی، اشوری،ایبنی، آموری، آگار تھی، عبرانی،آرامی، سائریک،یونانی اورلاطینی زبانوں اور تہذیبوں کے اثرات مل جائیں گے۔

ان زبانوں کا’’کتابِ مقدس‘‘ میں وجود ان تہذیبوں کے بنو اسرائیل سے ملاپ و اختلاط کا پتہ دیتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ ہائبل کے بیانات میں ان تہذیبوں کے احوال اوررسومات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغۃ میں اس پر عمدہ گفتگو کی ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن شرائع کے اسباب اختلاف پر اپنی طویل گفتگو کے بعد وہ ان اسباب کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان أسباب نزول المناھج فی صورۃ خاصۃ کثیرۃ، لکنھا ترجع الی نوعین: أحدھما کالاـمر الطبیعی الموجب لتکلیفھم بتلک الأحکام، فکما أن لأفراد الانسان جمیعھا طبیعۃ وأحوالا، ورثتھا من النوع توجب تکلیفھم بأحکام۔(۲۴)

مخصوص صورتوں میں مناہج (شریعتوں) کے نزول کے اسباب بہت ہیں البتہ وہ دوقسموں کی طرف لوٹتے ہیں ان میں سے ایک امر طبعی کی طرح ہے جن کی وجہ سے وہ ان احکام کے مکلف بنتے ہیں۔ پس جس طرح تمام انسانوں کی انفرادی طور پر ایک طبیعت اوراس کے احوال ہیں جو ایک نوع کا فرد ہونے کی حیثیت سے انھیں ورثہ میں ملا ہے لہٰذا یہی ان کے لیے احکام کی تکلیف کا موجب بنتا ہے۔
علامہ سعید احمد پالنپوری اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
ایک تو وہ اسباب جو فطری امرکی طرح ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو احکام کا مکلف بنایا جاتا ہے یہ وہ علوم و حالات اور عقائد ہیں جو لوگوں کے سینوں میں پائے جاتے ہیں خاص طور پر وہ علوم جن پر یہ لوگ پروان چڑھے ہیں اورجو ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ اسباب جو عارضی و طاری ہیں جیسے کسی خاص معاملے میں لوگوں کا حکم شرعی کو دریافت کرنا اور پیغمبرؐ کا اس کے لیے دعا کرنا۔(۲۵)

یہ بھی پڑھیں: قرآن اور عقل و استدلال https://albasirah.com/urdu/quran-aqal/

پس معلوم ہوا کہ ہر زمانے میں شریعتوں اورمناہج کا اصل ماخذ ’’معاشرہ اوراس کے لوگ‘‘ ہوتے ہیں اورشریعتیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ نبی کریمؐ کے معاشرے سے تعلق کو قرآن نے مختلف مقامات پر اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ اُمی ہیں اور امیین میں سے ہیں۔ یعنی آپ اور آپ کی شریعت ’’اُمی‘‘ ہے اور قرآنی بیانات میں اس معاشرتی تعلق کو بہت واضح طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔مثلاً ارشاد خداوندی ہے:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ(۲۶)
وہی (اللہ) ہے جس نے امیین میں رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے۔
اوراس رسولِ امی پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ(۲۷)
پس ایمان لائو اللہ پراوراس کے رسول پر جو ایک اُمی نبی ہے جو ایمان لایا ہے اللہ پر اور اس کے کلمات پر۔
اس طرح بعض احادیث میں یہ مضمون روایت ہوا ہے۔ ہم یہاں اس موضوع پر علامہ شاطبیؒ کا بیان نقل کرتے ہیں:
وفی الحدیث: ’’بعثت الیٰ اُمۃ اُمیۃ‘‘لانھم لم یکن لھم علم بعلوم الأقدمین، والأمی منسوب الی الأم، وھوالباقی علیٰ أصل ولادۃ الأم لم یتعلم کتابا ولا غیرہ وھوعلیٰ أصل خلقتہ التی ولدعلیھا۔ وفی الحدیث’’نحن أمۃ أمیۃ لا نحسب ولانکتب، الشھر ھکذاوھکذا وھکذا‘‘ وقد فُسّر معنی الأمیۃ فی الحدیث أی لیس لنا علم بالحساب ولا الکتاب۔ونحوہ قولہ تعالیٰ: وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ (۲۸)وما أشبہ ھذا من الأدلۃ المبثوثۃ فی الکتاب والسنۃ الدالۃ علیٰ أن الشریعۃ موضوعۃ علیٰ وصف الأمیۃ لأن أھلھا کذالک۔(۲۹)

یعنی حدیث میں آتا ہے کہ ’’میں امی امت کی طرف بھیجا گیا ہوں(۳۰) کیوں کہ یہ لوگ گذشتہ قوموں کے علوم کے وارث نہیں تھے۔
’’الامی‘‘ منسوب ہے ’’الام‘‘ کی طرف، امی ایسا شخص ہے جو اپنے حالِ ولادت پر باقی ہو ،نہ اس نے کتاب کا علم حاصل کیا ہو نہ کوئی دوسرا یعنی وہ اپنی اصلِ خلقتِ ولادت پر باقی ہو۔ اس طرح حدیث میں ہے: ’’ہم امی قوم ہیں ، نہ حساب جانتے ہیں اورنہ لکھنا۔ مہینہ اس طرح کا ہے، یوں ہے اوریوں ہے۔(۳۱) حدیث میں ’’امی‘‘ ہونے کے معنی واضح کر دیے گئے ہیں یعنی نہ ہمارے پاس حساب کا علم ہے نہ کتاب کا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تم اس سے پہلے کتاب نہیں پڑھتے تھے اورنہ ہی اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لکھا کرتے تھے۔ اسی طرح کے اوردلائل بھی ہیں جو کتاب و سنت میں پھیلے ہوئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شریعت کو ’’امی‘‘ کے وصف پر وضع کیا گیا ہے کیوں کہ اس کے اہل امی ہی تھے۔

شریعتِ اسلامیہ کے امی ہونے کے امر کو اگر صحیح طرح سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کے ’’مواد اصلی‘‘کی بنیاد ’’امی‘‘ معاشرہ ہے۔ مکی دور کی آیتوں اور سورتوں کا مطالعہ کریں تو یہ تعلق بالکل صاف اور واضح نظر آتا ہے۔

اس کے بعد اگر ہم ’’مدنی‘‘ دور کا مطالعہ کریں جس میں نہ صرف غیر مذاہب سے بلکہ اردگرد کی اقوام سے بھی تعلقات قائم اور استوار ہوتے ہیں تو واضح طور پر قرآن مجید کے انداز بیان میں تبدیلی آتی ہے۔ مدنی زندگی کے قرآنی بیانات اوراحادیث پر غور کریں تو اس دور میں مکی دورکی آیات کے بارے میں یہ صورتیں ممکن تھیں:
۱۔ مکی دور کے احکام کو بالکل نظرانداز کردیا جاتا کیونکہ معاشرتی حالات تبدیل ہوگئے تھے۔
۲۔لہٰذا شریعت کی بنیاد صرف مدنی دور کاماحول اوراس کے تقاضے رہتے۔
۳۔مکی دور کی آیات سے جو اصول پتہ چلتے ہیں انہی کو نئے ماحول میں برتا جاتا اورنئے پیش آمدہ معاملات میں ان سے رہنمائی لی جاتی۔
واضح طور پر نظر آتا ہے کہ تیسری صورت ہی کو ’’وحی‘‘ نے بھی اختیار کیا اورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کو ترجیح دی ۔

مکی دور میں’’زمان،مکان اورحالات‘‘ کے تقاضے اورتھے جنھیں ملحوظ خاطر رکھا گیا جبکہ مدنی دور کے ’’زمان،مکان، وحالات‘‘ مختلف تھے جنھیں اس نئے دور میں مدنظر رکھا گیا۔ دونوں عہدوں میں شریعت کی بنیاد ’’معاشرہ‘‘ ہی رہا۔ اصول اورحکمتیں ایک رہیں احکام و بیانات میں تغیر آگیا۔

یہ روش بعد میں خلفائے راشدین خاص طور پر حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کے عہد میں جاری و ساری نظر آتی ہے۔ علامہ ابن القیم الجوزی(ف:۷۵۱ھ) حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کے بعض ایسے ہی اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فھذا مماتغیرت بہ الفتویٰ لتغیر الزمان، وعلم الصحابۃ رضی اللہ عنھم حسن سیاسۃ عمروتأدیبہ لرعیتہ فی ذلک فوافقوہ علی ماالزم بہ و صرحوالمن استفتاھم بذلک۔(۳۲)
یعنی پس یہی وہ سبب ہے کہ جس سے زمانے کے بدلنے سے فتویٰ بدل جاتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضرت عمرؓ کی عمدہ سیاست اس دور میں ان کی طرف سے رعیت کی تادیب سے واقف تھے لہٰذا انھیں جوشئے لازم کردی اس میں ان کی موافقت کی اورجس نے ان صحابہ سے اس کے بارے میں پوچھا ان سے وضاحت کردی۔

نتیجۂ کلام یہ نکلا کہ دین کے ابدی اصول ناقابل تغیر ہیں لیکن شریعتوں میں معاشرتی حالات اور زمانے کی رعایت کرتے ہوئے اس طرح تغیر کیا جاسکتا ہے کہ بنیادی اصول برقرار رہیں۔ ’’نص‘‘ کو اصل نہیں قرار دینا چاہیے بلکہ اس سے وابستہ روح کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’معاشرے‘‘ کے حالات کو بنیاد بنا کر اجتہاد کو جاری رکھنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

۱۔ (۲۔البقرۃ:۳۰)
۲۔ (۲۔البقرہ:۳۶)
۳۔ (۱۹۔مریم:۵۸)
۴۔ (۷۔الاعراف:۵۹۔۔۔۶۳)
۵۔ (۱۱:۲۵)
۶۔ (۴۳۔الزخرف:۲۶)
۷۔ (۲۰۔طہ: ۲۴و۷۹۔الزارعات:۱۷)
۸۔ (۲۶۔الشعراء:۲۲)
۹۔ (۳۔آل عمران:۴۹)
۱۰۔ (۶۲۔الجمعہ:۲)
۱۱۔ (علامہ مرتضیٰ زبیدی، اتحاف السادۃ المتقین، ۲:۶۵)
یہ حدیث الدیلمی نے الفردوس میں (۱:۴۸۳ح۱۶۱۴) ابن عباسؓ کے طریق سے نیزح ۶۳۳ (۱:۲۱۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکے طریق سے روایت کی ہے۔امام غزالی نے باب ۵(آداب العالم والمتعلم) احیاء العلوم الدین۔ج۱،ص:۷۱،وظیفۂ سادسۃ میں اس کو نقل کیا ہے۔ یہ حدیث مکتب امامیہ کی کتب میں بھی روایت ہوئی ہے۔ مثلاً اصول الکافی، کتاب العقل والجھل، ح۱۵،عن ابی عبداللہ علیہ السلام، نیز البرقی نے کتاب المحاسن الباب اول (العقل)ج:۱،ص:۱۹۵، ح:۱۷، والکلینی فی الروضۃ،۸:۲۶۸ برقم ۹۳۴۔ ابن شعبۃ الحرانی نے تحف العقول (قصار مواعظ النبیؐ) ص:۳۷پر اسے روایت کیا ہے۔ نیز الصدوق فی الأمالی، المجلس ۶۵، ح:۸الطوسی، الأمالی، المجلس۱۷ح:۲۰،۲۱)
۱۲۔ (الکافی،کتاب العقل والجھل،ح۱۵ والروضۃ(۸:۲۶۸)برقم ۳۹۴،الصدوق، الأمالی المجلس ۶۵،ح:۷)
۱۳۔ (۱۴۔ابراہیم:۴)
۱۴۔ (المحررا لوجیز، ج۳ص۲۳۸ تحت الایۃ)
۱۵۔ (ج:۱۳،ص:۲۳۷)
مزید مطالعے کے لیے دیکھیں علامہ زمخشری کی الکشاف اور علامہ طوسیؒ کی تبیان القرآن ج:۶،ص:۲۷۴۔
۱۶۔ (۱۶۔النحل:۱۰۳)
۱۷۔ (۱۲۔یوسف:۲)
۱۸۔ (۲۶۔الشعراء:۱۹۵)
۱۹۔ (۴۱:حمٰ سجدہ:۴۴)
۲۰۔ (۴۱:حمٰ سجدہ:۲)
۲۱۔ (۱۲:۲)
۲۲۔ (۴۳:۳)
۲۳۔ (الموافقات،ج:۱؍۲،ص:۵۰: النوع الثانی فی بیان قصد الشار ع فی وضع الشریعۃ للافہام۔ المسألۃ الاولیٰ ،دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
۲۴۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ فی شرح حجۃ اللہ البالغۃ، جلد دوم: ص ۱۰۷)
۲۵۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ۲:۱۰۴)
۲۶۔ (۶۲۔الجمعۃ:۲)
۲۷۔ (۷۔الأعراف:۱۵۸)
۲۸۔ (۲۹۔العنکبوت۴۸)
(الموافقات، ج۱؍۲، ص:۵۳۔دارالکتب العلمیۃ بیروت)
۳۰۔ رواہ الأحمد فی المسند۵:۱۳۲،’’انی بعثت الیٰ اُمۃ الأمیینٔٔ رواہ الترمذی، القرآن باب:۹من ابواب القراء ات،ح:۲۹۴۴۔
۳۱۔ رواہ أحمد فی المسند ۲:۱۲۲،والبخاری فی صحیحہ کتاب الصوم، باب ۱۴،ح۱۹۱۳،و ابی داد کتاب الصوم، باب۴،ومسلم، کتاب الصیام، باب۱۵۔
۳۲۔ (أعلام الموقعین، ج:۳، ص:۳۵، منشورات محمد علی بیضون، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)