علامات سے زبان تک

Published by fawad on

ڈاکٹر سید محسن نقوی

ڈاکٹر محسن نقوی
تلخیص: زبان سے پہلے علامات تھیں کیوں کہ اظہار مدّعا کا عمل علامات ہی سے شروع ہوا۔ زبان انسانی معلومات، استعمالات اور فکری سطح کی مظہر ہوتی ہے۔ہر زبان کا گہرا تعلق اس کے بولنے والوں کے سماجی شعور و تعقل سے ہوتا ہے۔لہٰذا انسان کے سادہ ماحول میں زبان بھی سادہ تھی ماحول کی پیچیدگی نے زبان کو پیچیدہ کردیا۔زبان کا ارتقا اوراُس کا ذخیرۂ الفاظ ماحول، رویوں اور کائنات کے بارے میں انسان کے نظریات پر مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی ’’مقدس نص‘‘ کا مطالعہ اُس وقت مفید ہوگا جب اس علاقے کے نظریات اور اس کے اظہار کے اسالیب سے واقفیت ہو۔ قرآن مجید عہد جاہلیت کی صحیح فنی نثر کو پیش کرتا ہے کیونکہ یہ ان جاہلین کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا اورانھیں اسی زبان میں مخاطب کیا جاسکتا تھا جو وہ سمجھتے تھے۔اہل عرب کی معاشرتی برائیوں اور ان کی اصلاح کے بیانات قرآن مجید میں بارہا نظر آتے ہیں۔ جو مسائل اس زمانے میں موجود نہیں تھے ان کا ذکر بھی نہیں ملے گا۔ عہد خلفائے راشدین میں جب غیر اہل کتاب کا مسئلہ درپیش ہوا تو اہل کتاب کے احکام پر بنیاد رکھ کر غیر اہل کتاب کے ساتھ بھی جزیے میں وہی سلوک کیا گیا۔ معاشرتی ضرورت نے نئے حکم کو ایجاد کردیا ۔ اگر موجودہ معاشرے کو شریعت کا ماخذ قرار دیا جائے اور یہ فرض کیا جائے کہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ اس دورمیں مبعوث ہوتے تو شریعت کی صورت کیا ہوتی، وہ معاشرے کی کن چیزوں اورکن اقدار کو مخاطب کرتے؟ بظاہر یہ بہت بڑا اورپیچیدہ سوال ہے لیکن ہمارے خیال میں احکامِ اسلامی کی روح کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو ایک نئی اورڈائنامک صورت سامنے آئے گی۔
______________
قرآن مجید اور اُس کے عہد نزول کے معاشرے سے اس کی زبان کے ربط کو ہم نے واضح کرنے کی کوشش کی، اس موضوع کو آگے بڑھانے سے قبل ہم خود ’’زبان اوراس کی ماہیت‘‘ کے بارے میں چند بنیادی باتیں عرض کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان میں ایک اہم مطلب علامات اورزبان کا باہمی تعلق اورعلامت سے زبان تک کا سفر ہے۔

الفاظ اورمعنی پر گفتگو کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم ’’زبان‘‘ کی کیفیت اورارتقا کو بھی سمجھیں کیوں کہ ’’زبان‘‘ سوائے ذریعۂ اظہار کے اور کچھ نہیں اورذریعۂ اظہار کے لحاظ سے زبان سے پہلے ’’علامات‘‘ کا نمبر آتا ہے کیوں کہ انسان نے سب سے پہلے علامات کے ذریعے ہی اظہار مدعا شروع کیا۔ جسمانی علامات،تصویری علامات،پھر تلفظ اوراس کے بعد سادہ زبان اورپھر پیچیدہ زبان کا نمبر آتا ہے۔
زبان کا یہ ارتقا دراصل انسان کے طبعی ارتقا( Biological Evolution )اورتمدنی ارتقا( Cultural Evolution) سے جڑا ہوا ہے۔ گویا زبان اورمعاشرے کا تعلق بہت گہرا ہے۔

تاریخ اورمطالعۂ تہذیب سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جسمانی حرکات اورمختلف آوازوں کی کہیں مرتب اور کہیں غیر مرتب صورت تھی جسے پہلی علامتی زبان قرار دیا جاسکتا ہے اس مرحلے پر’’حرکات اورآواز‘‘ کا اس شے یا امر سے مشابہ ہونا ضروری نہیں تھا جس کا اظہار مقصود ہوتا تھا۔ مثلاً جانور مختلف خواہشوں اوررویوں کے اظہار کے لیے مختلف آوازیں نکالتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ امور کے لیے محض علامات ہوتی ہیں اوران سے کوئی خاص مشابہت نہیں رکھتیں۔ یہ امر بھی محققین کے درمیان زیر بحث رہا ہے کہ ’’زبان‘‘ اپنی ماہیت کے اعتبار سے انسانی فطرت میں ودیعت شدہ ہے یا نہیں؟ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان سے نچلے درجے کے جانداروں میں بھی سیکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔مثلاً چمپانزیوں پر کیے جانے والے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں مثلاً انگریزی سیکھنے کی صلاحیت انسانوں کی اس صلاحیت سے زیادہ ہے کہ وہ جانوروں کی زبان سیکھ سکیں۔

انسان نے تقریباً ۲۰سے۳۰ہزار سال قبل’’باقاعدہ علامتی زبان‘‘ استعمال کرنی شروع کی ۔یہ زمانہ پتھرکے اوزار بنانے کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں چیزوں اورحرکات کی حقیقی تصویریں ’’علاماتی لغت یا فرہنگ‘‘ کا پتہ دیتی ہیں جنھیں بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ پتھر کے اوزار بنانے کا زمانہ ایک طرف تو نسبۃً بڑے پیمانے پر اشیا کو تیار کرنے کا پتہ دیتا ہے تاکہ وہ اشیا لوگوں کے کام آسکیں پھرمصنوعات کا تنوع یہ بتاتا ہے کہ لوگ معاشرے کی شکل میں رہتے اور ایک دوسرے سے اشیا کا تبادلہ کرتے ہوں گے جس کے لیے انھیں ’’متفقہ ذریعۂ اظہار‘‘ کی ضرورت ہوگی جو اس ’’علاماتی فرہنگ‘‘ کے ذریعے انھوں نے ایجاد کی۔غاروں کے اندراور دیواروں یا پہاڑوں پر علامتی زبان میں بہت کچھ لکھا ہوا ملتا ہے اوران میں بہت سی علامات مشترک ہیں مثلاً’’P‘‘یا اس سے ملتی جلتی شکل اس پتھر کے زمانے میں بہت جگہ پائی گئی جو عورت کے لیے استعمال ہوتی اوراس کی جسمانی ساخت کو بیان کرتی تھی۔ اسی دور میں مختلف اشیاء اورحالات کے نام(اسماء) رکھنے کی ابتدا ہوئی۔ تخلیقِ آدم کی مختلف حکایتیں جو مختلف مقدس کتابوں اورمختلف تہذیبوں میں ملی ہیں ان میں ’’نام‘‘ رکھنے یا تعلیم دینے کا بیان موجود ہے۔یہ’’نام رکھنا‘‘یا ’’نام تعلیم کرنا‘‘ دراصل ’’علامت‘‘ کو مقدر کرنا ہے۔ ان امور کو تفصیل سے سمجھنا ہو تو ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن کے نام اس مقصد سے آخر میں شامل کیے گئے ہیں۔

محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ پتھروں کے اوزاروں کے زمانے میں انسان اجتماعی شکل میں رہتے تھے۔ یہ گروپ ستّر سے اسّی افراد پر مشتمل ہوتا تھا اور یہ اپنی ضروریات باہمی سوجھ بوجھ سے پوری کرتے تھے ۔گویا یہ معاشرتی گروپ ایک طرح ’’مشترکہ ادرا کی گروپ‘‘(cognitive group) بھی ہوتا تھا۔ یہی باہمی معاشرت انسان کے ’’سماجی تعقل‘‘ اوراس ارتقا کی بنیاد بنی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں انسانی معاشرت ترقی کرتی گئی اس کے ’’سماجی تعقل‘‘ میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور اسی سماجی تعقل نے زبان کو بہ حیثیت ذریعۂ اظہار ترقی دی۔

کیونکہ انسانی گروہوں اوراقوام کے رہن سہن اوربودوباش میں علاقے، زمانے اورماحول کا فرق موجود ہوتا ہے لہٰذا ان کے سماجی شعور اورمعاشرتی تعقل میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اسی لحاظ سے ’’اظہار‘‘ کے ذریعے، اُن کی ماہیت،ذخیرۂ علامات یا الفاظ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ نتیجۃً یوں کہنا چاہیے کہ ہرزبان کا گہرا تعلق اس کے بولنے والوں کے ’’سماجی شعوروتعقل‘‘ سے ہوتا ہے اوروہ باتیں یا امور ان کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں جو خود ان کے ذخیرۂ الفاظ میں نہیں پائے جاتے کیوں کہ ان کا ذخیرۂ الفاظ ہی تو ان کی معاشرت کی وسعت کا پتہ دیتا ہے اوریہی ان کی ’’دماغی گرائمر‘‘ کا آئنہ دار ہوتا ہے۔(۱)

جہاں تک زبان سیکھنے الفاظ کو محفوظ رکھنے اورکسی زبان کے قواعد(گرائمر) کو سیکھنے کی فطری استعداد کا تعلق ہے تو حال ہی میں محقق سوانتے پا آبو(Svante Paabo) اوران کی ٹیم نے اُس مخصوص جینز کا پتہ چلایا ہے جو زبان سے متعلقہ امورکی ذمہ دار ہیں اس جین کا نام FORP2 ہے۔ اس جین میں ایک پروٹین کے 715امینو ایسڈز کا کوڈ موجود ہے۔ اس مخصوص پروٹین کے ایک ٹریک میں معمولی تبدیلی آدھے خاندان میں زبان کو سمجھنے،قواعد کی پابندی اورمربوط گفتگو کو متاثر کر دیتی ہے۔(۲)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانوں میں زبان یا زبانیں سیکھنے کی فطری صلاحیت موجود ہوتی ہے اور وہ سب سے پہلے اپنے ماحول کی زبان سیکھتا ہے۔ بغیر قواعد وضوابط کو جانے وہ زبان کا استعمال کرتا ہے اوراس کے استعمال، الفاظ یا جملوں کی غلطیاں یا ان کی صحت اس امر پرمبنی ہے کہ وہ جملوں کو کس طرح سنتا رہا یا اپنے ماحول میں الفاظ کو کن معنیٰ میں استعمال ہوتے ہوئے اُس نے دیکھا۔ اسی طرح الفاظ اورجملوں کو سمجھنے کا انحصار پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل شدہ معلومات پر بھی ہے۔ اس موضوع پروقیع کام برانسفورڈ اور جانسن نے کیا ہے۔(۳)

اگر ہم ان معروضات کو مدنظر رکھیں تو پتھر کے اوزاروںکی تخلیق کے زمانے میں انسان نے جو لسانی ترقی کی وہ اپنے دور کی آئنہ دار تھی اور جوں جوں ترقی کے زینے انسان طے کرتا گیا اس کے ماحول میں وسعت اور تغیر آتا گیا، زبان کی ساخت پیچیدہ ہوتی گئی اور فہم آگے بڑھتا گیا۔ انسان کے سادہ ماحول میں زبان بھی سادہ تھی ماحول کی پیچیدگی نے زبان کو پیچیدہ کیا اوران پیچیدہ زبانوںکے حامل افراد جب ایک دوسرے سے تاریخ کے مختلف موڑوں پرمخلوط ہوئے تو زبانیں بہت پیچیدہ ہوگئیں۔

خسروبادشاہ نے تھیمس ٹوکلیس کو اجازت دی کہ وہ یونان سے متعلق اپنے افکار کو کھل کر بیان کرے۔ تھیمس ٹوکلیس نے کہا کہ انسان کی زبان ایک دبیز قالین کی طرح ہے جس کے انسجام کو صرف قالین کو پھیلا کر ہی دکھایا جاسکتا ہے، جب قالین طے شدہ ہوتو اس کے ڈیزائن اوربنائی مبہم اور بے کار ہوتے ہیں۔ اسی سبب سے اس نے مہلت مانگی، بادشاہ مسکرایا اور کہا تمھیں وقت دیا جاتا ہے، اس نے ایک سال کی مہلت مانگی چنانچہ ایک سال تک فارسی پڑھنے کے بعد اس نے بادشاہ سے اپنے افکار بیان کیے۔(۴)

زبان اور اس کے استعمال کے بارے میں بہت پیجیدہ مسائل ہیں جن پر ہم سردست گفتگو نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف چند اہم امورکی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:
۱۔زبان کے ارتقا میں جس طرح ماحول اوراُس کی تبدیلی کا ہاتھ ہے اُسی طرح کائنات کے بارے میں اس کی فکر کا ہاتھ بھی ہے۔
۲۔انسان تقریباً اپنی ابتدا ہی سے اپنے اردگرد قابل مشاہدہ کائنات کے بارے میں غوروفکر کرتا رہا ہے کہ یہ کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی؟ اسے کون چلا رہا ہے؟ اس کا خاتمہ کیوں کر اور کیا ہوگا؟ اس دنیا میں خود اس کی حیثیت ومقام کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
۳۔ان سوالات کے جوابات جو مختلف تہذیبوں میں ملتے ہیں وہی اُس دورکا مذہب کہلاتے ہیں۔
۴۔نتیجۃً زبان کا ارتقا اوراُس کا ذخیرۂ الفاظ ماحول، رویوں اور کائنات کے بارے میں انسان کے نظریات پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی ’’مقدس نص‘‘ کا مطالعہ اُس وقت مفید ہوگا جب اس علاقے کے نظریات اوراس کے اظہار کے اسالیب سے واقفیت ہو۔
۵۔ذخیرۂ الفاظ کو ہم دو بڑے حصوں میں تقسیم کریں تو یہ’’مذہبی اورغیرمذہبی‘‘ میں منقسم ہوں گے۔
تاہم مذہبی الفاظ وعبارات جہاں کائنات کی تخلیق یا تصورِ عبادت وغیرہ پر مبنی ہیں وہیں اخلاقی تعلیمات بھی ہمیں ملتی ہیں جواشخاص کے انفرادی اوراجتماعی کردار سے متعلق ہیں۔
۶۔انسان نے جس طرح پتھر کے اوزار کے زمانے سے سائنس کے موجود ارتقا تک سفر کیا ہے زبان کا سفرِ ارتقا بھی اسی مناسبت سے ہے۔ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کسی معاشرے میں سائنسی فکر، فلسفہ، منطق اورآرٹ و لٹریچر نے کتنی ترقی کی ہے تو ہمیں اس کا ذخیرۂ الفاظ و محاورات دیکھنا چاہیے کیوں کہ معاشرتی ارتقا اور زبان میں خاص نسبت پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم دنیا کے قدیم ترین یعنی سو میری ادب پر غور کریں تو اس میں ہمیں مذہبی اوراخلاقی عبارات واشعار کا معتدبہ حصہ مل جاتا ہے۔ اس میں ایک انتہائی اہم امر کُدال کی پیدائش اوراس کا استعمال ہے، اسی طرح تہذیب کی منتقلی،باغبان کا گناہ، چرواہا اورکسان، سیلاب عظیم، اسکول کا زمانہ، تعلیم کی اہمیت، علم کائنات اوراعمال کی پرسش،ماں کُدال اورہل کا مناظرہ اوردیگر چیزیں بہت اہم ہیں۔ اس میں بعض حصے تو وہ ہیں جنھوں نے بائبل کے بیانات کو متاثر کیا اوران بیانات کی قدیم سومیری ادب سے مماثلتیں بیان کی جارہی ہیں۔ اسکول کا زمانہ اورتعلیم کی اہمیت انتہائی اہم تحریریں ہیں۔ اسی طرح دیگر عناصر کا تعلق ایک زرعی تہذیب سے ہے۔ جب ہم اس تناظر میں اسی دور کے مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے دیوتا اوردیویاں بھی’’زرعی تہذیب‘‘ کے دیوی دیوتا نظر آتے ہیں اور ان کی خدائی وہیں تک محدود ہے۔ یہاں ہم تعلیم کی اہمیت پر ایک مضمون کا اقتباس نقل کررہے ہیں۔اصل مضمون ایک سو اسّی سطروں پر مشتمل ہے اوراس لحاظ سے اہم ہے کہ چار ہزار سال قبل اس میں پہلی بار لفظ ’’انسانیت‘‘ استعمال ہوا۔ ایک اقتباس یہ ہے:
باپ بیٹے سے پوچھتا ہے :’’تم کہاں گئے تھے؟‘‘
’’میں تو کہیں بھی نہیں گیا تھا‘‘

اگر تم کہیں نہیں گئے تو پھر بے کار کیوں ہو۔ اسکول جائو،’’بابائے مدرسہ‘‘ کے سامنے ادب سے کھڑے ہو، سبق دہرائو، اسکول کا بستہ کھولو، تختی لکھو،’’بڑے بھائی‘‘سے اپنے لیے نئی تختی لکھوائو اورجب اپنا کام ختم کرلینا تو اس کی اطلاع اپنے’’اگولا‘‘(مانیٹر) کودے دینا اورپھر میرے پاس آجانا، گلی میں آوارہ مت پھرنا۔ اب بتائو میں نے کیا کہا؟(۵)

اب جب یہ بات واضح ہوگئی کہ معاشرے اوران کی زبانیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں تو یہ اوربھی واضح اورروشن ہے کہ کسی بھی’’نص‘‘[text] کو سمجھنے کے لیے اس دور کے معاشرے کا مطالعہ کرنا ہوگا جس دور میں وہ لکھا گیا، جس ماحول میں وہ تحریر ہوا اوراس مرحلے پر متعلقہ تہذیب ارتقا کی کس منزل میں تھی۔اس کے بغیر ہم ٹیکسٹ کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکتے اوراگرہم اسے سیاق وسباق سے ہٹا کر مفہوم متعین کرنے کی کوشش کریں گے تو عبارت کے اصلی مفہوم سے دور کردیں گے۔

عربی ادب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مشاہدے پر مبنی ہے اوراس مشاہدے سے وہ معنویت کو کشید کرتی ہے۔عربی نظم اورنثردونوں کاحال یہی ہے۔ اہل عرب صحرانشین تھے، ان میں سے ایک طبقہ بدواورجوّال تھا جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تھے، درختوں،باغوں، چٹیل زمینوں،اجرام فلکی کی گردش وحرکت، لیل، نہار کی تبدیلی وغیرہ ان کے مشاہدے کے بھی بنیادی اجزاتھے اوران کی زبان کے بھی۔ قبائلی تفاخر، شجاعت وتہوراورعشق ومحبت ان کے اخلاقیات میں شامل تھے لہٰذا ان کی زبان میں انہی امورسے متعلق الفاظ، محاورات اورتخلیقی ادب کثرت سے ہے۔

مذہبی اعتبار سے وہاں تین طبقے وجود رکھتے تھے۔ بے دین وملحد،مشرک،دین حنیف کے ماننے والے جوانبیاء ماسبق کی تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات کے وارث تھے۔ اہل عرب کی نظم ونثر میں یہی اجزا نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔عہد جاہلیت میں لغتِ عرب کے اغراض کو ہم تین باتوں سے ظاہر کرسکتے ہیں:
(۱) زبان بدوی معیشت کے لیے استعمال ہوتی تھی،کسی مقام پر پڑائوکرنا اور بعد میں وہاں سے چل دینا، زرعی پیداوار کا حصول، بارش کا تسلسل اورحیوانات سے استفادہ۔
(۲) باہمی جھگڑوں اورچپقلش کو ہوا دینا اور اس کے نتائج،باہمی تفاخراور مدد کرنا یا مانگنا، اپنے حسب ونسب پرفخر کرنا۔
(۳) مشاہدات وکیفیات کی شرح اورواقعات وقصص کا بیان۔(۶)
ہم استاد ذکی مبارک کے اس بیان کوغوروفکر کے لیے پیش کرتے ہیں کہ قرآنِ مجید عہد جاہلیت کی صحیح فنی نثر کو پیش کرتا ہے کیونکہ یہ ان جاہلین کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا اورانھیں اسی زبان میں مخاطب کیا جاسکتا تھا جو وہ سمجھتے تھے۔(۷)
اگر ہم قرآن مجید کے بیانات پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استدلال کا ایک بہت اہم پہلو کائنات کا مطالعہ اوراس پر غور وفکر ہے۔ عرب پہلے بھی کائنات کا مطالعہ کرتے تھے اوران کی نظم ونثر میں بھی مناظر قدرت (اراضی وفلکی) خوب ملتے ہیں لیکن اس مطالعے کے نتیجے میں اس کے واحد خالق تک رسائی اوراس کے وجود پراستدلال قرآن مجید نے انھیں سکھایا۔

اہل عرب کی معاشرتی برائیوں اوران کی اصلاح کے بیانات قرآن مجید میں بار ہا نظر آتے ہیں۔ یتیموں، مسکینوں،بیوائوں،فقرا اورمعاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق اوران کا خیال رکھنے کی ہدایات بھی تعداد میں کچھ کم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قرآن اور عقل و استدلال https://albasirah.com/urdu/quran-aqal/

اعمال کی بجائے حسب ونسب پرفخرو مباہات ایک معاشرتی مسئلہ تھا جس کی بجائے’’ایمان وعمل‘‘کی بنیاد فراہم کی گئی اوربتایا گیا کہ فضیلت صرف تقوے کو حاصل ہے۔تجارتی برائیوں اورمالی استحصال کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جتنا اس موضوع کو پھیلاتے چلے جائیں گے دینی ہدایات کا ’’معاشرتی‘‘مسائل سے ربط آپ پر واضح ہوتا چلا جائے گا اورجومسائل اس زمانے میں موجود نہیں تھے ان کا ذکر بھی نہیں ملے گا۔ مثلاً اہل کتاب سے میل جول اورتعلقات کا قرآن مجید میں متعدد نوعیتوں سے ذکر ہے اسی طرح ان سے جزیہ لینے کے کچھ قواعد احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہیں۔ لیکن اہل کتاب کے علاوہ دیگر مذاہب کے بارے میں دونوں ماخذ خاموش ہیں۔ چنانچہ عہد خلفائے راشدینؓ میں جب غیر اہل کتاب کا مسئلہ درپیش ہوا تو اہلِ کتاب کے احکام پر بنیاد رکھ کے غیر اہل کتاب کے ساتھ بھی جزیے میں وہی سلوک کیا گیا۔ معاشرتی ضرورت نے نئے حکم کو ایجاد کردیا۔

ہمارے خیال میں موجودہ دور میں اس نہج پر بھی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر موجودہ معاشرے کو شریعت کا ماخذ قرار دیا جائے اور یہ فرض کیا جائے کہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ اس دورمیں مبعوث ہوتے تو شریعت کی صورت کیا ہوتی، وہ معاشرے کی کن چیزوں اورکن اقدار کو مخاطب کرتے؟ بظاہر یہ بہت بڑا اورپیچیدہ سوال ہے لیکن ہمارے خیال میں احکامِ اسلامی کی روح کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو ایک نئی اورڈائنامک صورت سامنے آئے گی۔

حوالہ جات
(۱) (Paul Mellar and Chris Stringer, The Human Revolution, Edinburgh University Press, 1989, Page 451)
(۲) (Paabo, S.Nature,(vol.418,pp.869-72),2002)
(۳)(Bransford and Johson[1973] in W.G. Chase [Ed] Visual Information Processing-Orlando, FL.Academic Press.)
(۴) (Phitarch, Themistocles,29.5)
(۵) (ابن حنیف،دنیا کا قدیم ترین ادب،ج:۲،ص:۳۷،بیکن بکس،گلگشت،ملتان)
(۶) (أحمد الھاشمی،جواہر الأدب فی أدبیات وانشاء لغۃ العرب، ص:۳۳۲،انتشارات استقلال،قم ،ایران)
(۷) (انشرالفنی،۱:۴۴)