کتاب: تحفۂ درویش از ایران

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

میں ایران سے واپس آیا تو بچوں نے اپنی ماما سے پوچھا: بابا ایران سے کیا لائے ہیں؟ انھوں نے کہا: حسب معمول تسبیح، سجدہ گاہ اور کتابیں لائے ہوں گے۔ تسبیحیں اور سجدہ گاہیں تو بیگم کے حوالے کر دیں کہ جو تحفہ مانگے، اسے دے دیں اور کتابیں، کتابخانے کے مسئول مولانا عرفان حسین کے حوالے کر دیں کہ ان کا اندراج کرکے کتابخانے میں متعلقہ موضوع کے مطابق رکھ دیں۔ اس مرتبہ فیس بک پر بھی چند کتابوں کی تصاویر احباب کے اشتہائے مطالعہ کے لیے جاری کر دیں۔ ان میں سے ایک حضرت نورالدین عبدالرحمن جامی کا دیوان ہے، دوسری کتاب ایران کے معروف شاعر نظامی گنجوی کی زندگی اور ان کے دور کے بارے میں ہے، جو محمد امین رسول زادہ نے لکھی ہے اور تیسری ایران کی نامور شاعرہ پروین اعتصامی کا دیوان ہے۔

ایران میں کتاب دوستی کی روایت بہت گہری، وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ اس روایت کو 1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں آنے والے انقلاب کی وجہ سے بہت مہمیز ملی ہے۔ اس کے بعد سے ایران میں مسلسل ایسے لوگ برسراقتدار آرہے ہیں، جو خود اہل علم و فضل اور صاحبان تالیف و تصنیف ہیں۔ ان میں صاحب طرز اور صاحب دیوان شعراء بھی ہیں اور ادیب و خطیب بھی ہیں۔ امام خمینیؒ کے دیوان کو تو بہت شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی رحلت کے بعد اچانک ایک روز ان کی ایک غزل اخبارات کی زینت بنی تو بہت سے لوگوں کو پتہ چلا کہ امام خمینی شاعر بھی ہیں۔ اس کا پہلا شعر اب زبان زبان پر ہے:

من بہ خال لبت ای دوست گرفتار شدم
چشم بیمار تُرا دیدم و بیمار شدم

اصول و فقہ، دعا و مناجات، فلسفہ و عرفان، سیاست و ریاست، تفسیر و حدیث اور دیگر موضوعات پر ان کی کتابیں اس پر مستزاد ہیں۔ ان کے جانشین آیت اللہ خامنہ ای بھی ایک مسلم فقیہ اور کلام و تاربخ و سیرت کے بڑے عالم ہیں۔ ان کی خطابت تو عرب و عجم میں دلپذیر سمجھی جاتی ہے۔ پچھلی مرتبہ میں مشہد گیا اور ایک کتاب خانے میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ یہ کتاب فروشی آیت اللہ خامنہ ای کی کتابوں کے لیے مخصوص ہے۔ ان کی ایک کتاب کی فرمائش تو برادر عزیز سید نثار علی ترمذی نے کر رکھی تھی، وہ ان کے لیے خریدی، وہ تھی ’’دو سو پچاس سالہ انسان‘‘ دوسری کتاب میں نے اپنے لیے انتخاب کی وہ تھی ’’غنا و موسیقی۔‘‘

کچھ عرصہ پہلے تک میرے علم میں نہ تھا کہ امام خامنہ ای بھی شاعر ہیں۔ ان کی شعر دوستی اور شعری مجالس کا تو علم تھا لیکن یہ پہلو پنہاں تھا۔ ایک روز میں مشہد مقدس کے ایک ہوٹل کی لفٹ پر سوار تھا کہ لفٹ میں آویزاں ایک غزل پر نظر پڑی۔ بڑی دلآویز اور دلگداز شاعری تھی، صفحے کے آخر میں دیکھا تو معلوم پڑا کہ یہ آیت اللہ خامنہ ای کی غزل ہے۔ بعد میں تو پھر ان کے آثار کی جستجو کرتے کرتے ان کا بہت سا کلام سامنے آگیا۔ ایک مناجات کے دو شعر دیکھیے:

ما خیل بندگانیم ما را تو می شناسی
ہر چند بی زبانیم ما را تو می شناسی
ویرانہ ئیم و در دل گنجی ز راز داریم
باآنکہ بی نشانیم، ما را تو می شناسی

جو کتاب غنا و موسیقی میں لایا تھا، وہ اس کی چھٹی اشاعت ہے، جو دو ہزار کی تعداد میں چھاپی گئی ہے۔

اس مرتبہ میں اپنے پوتے سید مصطفیٰ کو کتابوں کی مختلف فروشگاہوں پر ساتھ لے گیا۔ اسے خود بھی کتاب بینی کا بہت شوق ہے اور اس کا مطالعہ متنوع ہے۔ عزیزم مفتی امجد عباس بھی ساتھ تھے۔ ایک کتاب مصطفیٰ کے کہنے پر خریدی ہے، جس کا عنوان ہے ’’سلام بر ابراہیم‘‘ یہ ایک نوجوان شہید ابراہیم ہادی کی زندگی اور ان کی یاد داشتوں کے بارے میں ہے۔ میں نے جو اس کا نسخہ لیا، وہ اس کتاب کی 145ویں اشاعت ہے۔ اس کی دوسری جلد بھی چھپ چکی ہے، میں نے اس کی تینتیسویں اشاعت کا نسخہ حاصل کیا۔ اس کی پہلی جلد 12 لاکھ 55 ہزار کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ اس کتاب کی پشت پر آیت اللہ خامنہ ای کا ایک جملہ درج ہے، وہ کہتے ہیں: ’’میں نے یہ کتاب پڑھی اور ایک عرصے تک میرا دل نہیں مانتا تھا کہ میں اسے اپنے کام کی میز سے اٹھا کر کتابخانے میں رکھ دوں۔ بہت ہی دلنشیں اور اپنی طرف کھینچ لینے والی کتاب ہے۔ یہ انسان کو مقناطیس کی طرح جذب کر لیتی ہے۔ ایسی شخصیات کو ڈھونڈیں، یہ کوئی جرنیل یا کمانڈر نہ تھا، ایک عام سپاہی تھا، وہ بھی ایسی ایسی حکایتوں کا حامل کہ انسان کو گرویدہ کر لیں۔‘‘

آیت اللہ سید علی قاضی طباطبائی کی شہرت ایک مرد عارف کی ہے۔ عصر حاضر کے بڑے بڑے علماء نے ان سے کسب فیض کیا ہے۔ نجف کی وادی السلام میں آسودہ خاک ہیں۔ ناچیز کو بھی وادی السلام میں ان کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ ان کے بارے میں ایک کتاب محمد ہادی اصفہانی نے لکھی ہے، جس کا عنوان ہے ’’کہکشانِ نیستی۔‘‘ میں جو کتاب لایا ہوں، وہ اس کی سترھویں اشاعت ہے۔ ایک کتاب ’’علیؑ از زبان علیؑ‘‘ ہے، جو محمد محمدیان کی تالیف ہے۔ میرے پاس اس کی چوبیسویں اشاعت کا نسخہ ہے۔ اس مولف کی ایک کتاب ’’حسینؑ از زبان حسینؑ‘‘ بھی لایا ہوں۔ یہ اس کتاب کی تیرھویں اشاعت کا نسخہ ہے۔

آیت اللہ مرتضیٰ مطہری کی بہت سی کتابوں کے اردو تراجم شائع ہوچکے ہیں، اردو دان طبقہ ان کے نام اور کتابوں سے کسی حد تک آشنا ہوچکا ہے۔ انھوں نے باقاعدہ پوری تفسیر قرآن کریم تو نہیں لکھی لیکن ان کے آثار میں بہت سے قرآنی مطالب کا ذخیرہ موجود ہے۔ انھیں آشنائی با قرآن کے نام سے مرتب کیا جا رہا ہے۔ اب تک اس کی چودہ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ تمام جلدیں اس سفر میں، میں اپنے ہمراہ لے آیا ہوں۔ اس کی پہلی جلد کا جو نسخہ میرے پاس ہے، یہ اس کی پچاسویں اشاعت ہے۔ ان میں سے چند جلدوں کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، البتہ زیادہ تر کام ابھی باقی ہے۔ مجھے جب بھی ایران جانے کا موقع ملا نو بہ نو کتب دیکھیں۔ قدیم و جدید موضوعات پر کتب میرے زیر مطالعہ آئیں۔ خالص لٹریچر بھی تازہ بہ تازہ تخلیق ہو رہا ہے۔ اعلیٰ درجے کی خوبصورت شاعری اور بامعنی ادب سامنے آرہا ہے۔ معاشرے میں اس کی پذیرائی بھی بہت زیادہ ہے۔

قرآنیات پر متنوع موضوعات پر کتابیں دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن دوستی نے یہاں کے اہل فکر کو نئے آفاق سے روشناس کروایا ہے۔ میں ایک کتاب ’’مصطفیٰؐ‘‘ کے عنوان سے لایا ہوں، یہ کاظم رجب علی نے قرآن کریم کی روشنی میں مرتب کی ہے۔ یہ کتاب ’’نشر قرآن و اہل بیت نبوت‘‘ نے شائع کی ہے۔ اس ادارے کی تمام کتابوں کا محورو مرکز قرآن حکیم ہے۔ جو نئی کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان میں سے چند ایک میں نے اس سفر میں انتخاب کیں، ان میں سے ایک ’’تاریخ کلیسا‘‘ ہے۔ یہ محمد صادق احمدی کی تالیف ہے۔

ایران میں دنیا بھر کی کتابوں کے تراجم کا سلسلہ اسلامی انقلاب سے پہلے سے جاری ہے۔ انقلاب کے بعد تو یہ سلسلہ اور بھی تیز رفتار ہوگیا۔ علامہ اقبال کے لیکچرز کے مجموعے ’’Reconstruction of Religious Thoughts in Islam‘‘ کا فارسی ترجمہ احمد آرام نے ’’احیائے فکر دینی در اسلام‘‘ کے نام سے کیا ہے، جو انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی شائع ہوچکا تھا۔ اس مرتبہ میں ایک کتاب ’’مسیحیت در جہان امروز‘‘ لایا ہوں، یہ Walls Andrew finely کی تالیف ہے۔ مسیحیت پر اس کا باب جان ہنیلز نے لکھا ہے۔ کتاب کا عنوان ہے “A New handbook of living religions” فارسی ترجمہ احمد رضا فتاح اور حمید بخشندہ نے کیا ہے۔

آیت اللہ محمد حسین کاشف الغطاء کو علمی دنیا میں بڑی شہرت حاصل ہے۔ عقائد پر ان کا مختصر رسالہ ’’اصل الشیعہ و اصولھا‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے کئی اردو تراجم بھی شائع ہوئے۔ علامہ ابن حسن نجفی نے اس کا نہایت عمدہ اردو ترجمہ کیا ہے۔ آیت اللہ کاشف الغطاء کی ایک کتاب ’’التوضیح فی بیان ماھو الانجیل ومن ھوالمسیح‘‘ اس کا فارسی ترجمہ ’’پژوھشی دربارہ انجیل و مسیح‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ترجمہ سید ہادی خسرو شاہی نے کیا ہے۔ اسے بھی میں نے اپنے حالیہ انتخاب میں شامل کیا ہے۔

اور بھی بہت سی کتب ہیں، جن میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر اہم ہے۔ سب کا ذکر اس نشست میں نہیں کیا جاسکتا، لیکن کتابیں جس مشکل سے اٹھا کر گاڑی میں رکھی گئیں اور پھر جس مشکل سے ایک گاڑی سے دوسری گاڑی، ایک ہوائی جہاز سے دوسرے ہوائی جہاز تک لائی گئیں، اس کا حال میں ہی جانتا ہوں اور جو رہ گئیں اور فروشگاہوں کے ریکس میں رہ گئیں، وہ کہیں زیادہ تھیں اور شاید ان سے بھی اہم تھیں، میرا حال تو غالب نے پہلے ہی بیان کر دیا ہے:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

آخر میں معاصر ایرانی شعراء میں سے سجاد سامانی کی ایک غزل نذر قارئین ہے۔

آخر میں معاصر ایرانی شعراء میں سے سجاد سامانی کی ایک غزل نذر قارئین ہے۔

به دیدارم نمی آیی چرا؟ دلتنگ دیدارم
همین بود اینکه می گفتی وفادارم وفادارم؟
تو آن لیلیٰ که لیلیٰ هم بیابانگرد عشقت شد
من آن مجنون که مجنون نیز حیران مانده در کارم
برای هر طبیبی قصه‌ام را شرح دادم، گفت:
چه میخواهی؟ که من خود عاشقم، من خود گرفتارم!
از آن گیسو که در دست رقیبان رایگان می گشت
اگر یک تار مو هم می فروشی، من خریدارم!
زمانی سایه‌ام بر خاک و حالا سایبانم خاک!
مرا در آسمان میجویی و من زیر آوارم
بشکریہ: اسلام ٹائمز