×

امریکہ میں غزہ کے حق میں طلبہ تحریک

syed asad abbas

امریکہ میں غزہ کے حق میں طلبہ تحریک

تحریر: سید اسد عباس

اس وقت امریکہ کی مختلف ریاستوں میں قائم یونیورسٹیوں میں غزہ اور فلسطین کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس کی رکاوٹوں، تشدد اور پکڑ دھکڑ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلبہ اور عام عوام غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مظاہرے ٹیکساس ریاست کی آسٹن یونیورسٹی، جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی، جارجیا کی ایموری یونیورسٹی اور بوسٹن ایمرسن کالج میں ہوئے، جس میں یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ کے علاوہ عوام نے بھی شرکت کی۔ جمعرات کے روز واشنگٹن میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ آسٹن یونیورسٹی اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کے گرفتار ہونے والے طلبہ سے اظہار یکجہتی نیز غزہ کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے جمع ہوئے۔

نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں انتظامیہ کے الٹی میٹم کے باوجود احتجاج کو ختم نہیں کیا گیا۔ یو ایس سی یونیورسٹی نے اپنی سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب کو معطل کر دیا ہے۔ جارجیا کی ایموری یونیورسٹی میں پولیس کو طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرنا پڑا۔ آسٹن، بوسٹن اور لاس اینجلس کی یونیورسٹیوں کے طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے ہاورڈ یونیورسٹی اور براؤن یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی احتجاج کی کال دی ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل سے روابط کو ختم کیا جائے اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جائے، جو غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی مددگار ہیں۔الجزیرہ کے مطابق یہ احتجاج امریکہ بھر کی 26 یونیورسٹیوں میں ہوا ہے، جسے روکنا اب امریکی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ احتجاج کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکی حکومت طلبہ کی اس تحریک پر بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی پریشان ہے کہ اگر یہ تحریک جاری رہتی ہے تو امریکی حکومت کے لیے اسرائیل کی حمایت کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرن جین پائری کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن آزادی اظہار، مذاکرات اور عدم مساوات کے قائل ہیں، جبکہ اس سے قبل بائیڈن نے ان مظاہروں کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ امریکی یونیورسٹیوں کے یہودی طلبہ ان مظاہروں کی وجہ سے تشویش کا شکار ہیں اور ان مظاہروں کو نسل پرستانہ قرار دے رہے ہیں۔ انھوں نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فی الفور اقدامات کریں، تاکہ یہودی طلبہ کی پشت سے ٹارگٹ بورڈ کو ہٹایا جا سکے۔

مظاہرہ کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ ابھی چند روز قبل بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 26 بلین ڈالر کی خطیر رقم بھیجی ہے۔ امریکی عوام کا یہ پیسہ فلسطینیوں کے قتل میں استعمال ہو رہا ہے۔ ہم اس ظلم کو قبول نہیں کرتے۔ ہم اگر اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے ہیں تو ہم اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ ان مظاہروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر پرامن ہیں۔ طلبہ ملکی قوانین اور شہری امن کا خیال رکھتے ہوئے مظاہرے کر رہے ہیں، تاہم امریکی ریاستوں کی انتظامیہ کو یہ پرامن مظاہرے بھی قبول نہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر حکومتی رویہ جاری رہا تو احتجاج کے مزید ریاستوں اور یونیورسٹیوں میں پھیلنے کے امکانات ہیں۔ احتجاج کے تنوع اور طلبہ کے عزم کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس تحریک کو ترک نہیں کریں گے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، طلبہ کا باہمی تعلق ان کو اس بات پر آمادہ کر رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھی طلبہ کی آزادی نیز اس کاز کے لیے میدان عمل میں اتریں۔ اب تو طلبہ کی آواز امریکی کانگریس میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ پاکستانی نژاد ڈاکٹر لالانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم زیر حراست طلبہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے، سپیکر مائیک جانسن نے اس دورے کے دوران کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ سپیکر نے کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔مائیک جانسن نے بُدھ کی سہ پہر کو نعمت شفیق سے ایک مختصر ملاقات کے بعد ایوان نمائندگان کے دیگر اراکین کے ہمراہ کولمبیا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ خیال رہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حمایتی مظاہرین نے بھی پولیس کی کارروائی پر نعمت شفیق کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

مائیک جانسن نے کہا کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم آزادی اظہار کا احترام کرتے ہیں۔ ہم مختلف نظریات کا احترام کرتے ہیں۔ مگر ان سب کے اظہار کا ایک طریقہ ہے اور اس طرح ان خیالات کی ترویج کرنے کی کوئی توجیہہ نہیں بنتی۔ انھوں نے اپنی پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ میرا طلبہ کے نام یہی پیغام ہے کہ وہ اپنی کلاسز میں واپس چلے جائیں اور اس بے تُکے احتجاج کو ختم کریں۔ اس پریس کانفرنس کے دوران قریب کھڑے طلبہ مسلسل نعرے بازی کرتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے کہ “ہم آپ کو نہیں سن پا رہے ہیں۔”

امریکی طلبہ کی یہ بیداری نہایت خوش آئند ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسانی ضمیر بیدار ہوچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی یہ تحریک امریکہ کے ساتھ ساتھ ان یورپی ممالک میں بھی شروع ہو، جو اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ باقی مسلمان آرام فرمائیں۔

Share this content: