×

ادراکِ زوال امت،نفسِ مسئلہ کا ادراک

ادراکِ زوال امت،نفسِ مسئلہ کا ادراک

راشد شاز
تلخیص : اگر کسی وجہ سے پیغام الٰہی کے آخری وارثین دنیا کے منظر نامے سے ہٹ جائیں اوردوبارہ منصبِ سیادت پر ان کی واپسی کا کوئی امکان نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب تاریخ اپنا سفر مکمل کر چکی ہے۔امتِ مسلمہ کی وقتی معزولی سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے تاریخی اسباب کا صحیح پتہ لگانے اورمنصب سیادت کی طرف دوبارہ مراجعت کا طریقہ دریافت کرنے میں ہم نے اب تک سست روی اورمایوسی کا اظہار کیا ہے۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ اصل مسئلہ ہے کیا اس کے حل کے لیے اقدامات کا سوچنا ایک نئی خود کشی کو دعوت دینا ہوگا۔ اس مسئلہ پر متقدمین کے خیالات اوران کے طریقۂ تحقیق وتدبر سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔اگر کوئی جواب نظری اعتبار سے صحیح تر ہونے کے باوجود عملی methodologyکی وجہ سے ناقابل عمل ہے تو اسے بھی جواب کی خامی پر ہی محمول کیا جائے گا۔تاریخ کے سلسلے میں ہمارے جدید دانش وروں کا رویہ بڑی حد تک تاریخ کی اس تفہیم پر منحصر ہے جس کی پرورش وپرداخت گذشتہ تین سو سالوں میں مغرب میں ہوئی ہے۔ ہماری تفہیم کے مطابق رسول اکرمؐ کی بعثت کے بعد انسانی تاریخ آخری رسولؐ کی امت سے عبارت ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ میں جو کچھ بھی ہے وہ خود اس کے اندر کا بگاڑ ہے جس کی درستگی کا فریضہ ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے۔یہودیوں کے مطابق تاریخ ایک مفصل پلان ہے جس کا خالق Yahweh ہے۔دیکھا جائے تو مارکس کا جدلیاتی مادیت کا خدا، Yahweh سے بڑی حد تک مشابہ ہے۔ جبری تاریخ میں کسی انقلابی کے لیے جواز ہی کب ہے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ محض اتفاقات اورحادثات کے نتیجے میں بنتی ہے۔ ہمارے مؤرخین نے عہد زوال کا محققانہ تجزیہ کرنے اورہماری بھیانک لغزشوں اورتاریخی غلطیوں سے پردہ اٹھانے کے بجائے اس کی تمام تر ذمہ داری سازشیوں کے بعض گروہوں پر ڈال دی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تاریخ کو تاریخی سطح سے کہیں بلند ہوکر مابعد التاریخ (meta historic) کی سطح پر سمجھنے کی کوشش کریں۔تاریخ کے بارے میں یہ تصور کہ وہ اپنے بندھے ٹکے راستے پر گامزن ہے جو دراصل خدائی فیصلہ ہے، بڑی حد تک اس جبریہ رجحان کی پیداوار ہے جسے بوجوہ بالکل ابتدائی عہد میں ہی مسلم فکر میں داخلہ مل گیا تھا۔ اموی اورعباسی حکمرانوں کے لیے اس خیال میں زندگی کا سامان تھا۔جب یہ عقیدہ دل ودماغ میں سرایت کرجائے کہ تاریخ کا سفر پہلے سے طے شدہ ہے، فیصلے کی سیاہی خشک ہوچکی ہے تو پھراصلاح احوال کی کوئی کوشش شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہے۔اس قبیل کی احادیث کی کمی نہیں جن میں یہ بات تفصیل سے بتائی گئی ہے کہ اللہ نے ہر نفس کی پیدائش کے وقت ہی اس کے لیے یہ مقدر کردیا ہے کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔جب ذہنوں پر یہ خیال حاوی ہوکہ جوکچھ ہورہاہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر افراد کے لیے اس چیلنج سے کنارہ کشی اورایام فتنہ میں صرف اپنی ذاتی نجات کی فکر کی گنجائش نکل آتی ہے۔
_____________
امت مسلمہ کا موجودہ زوال جودراصل منصب سیادت سے اس کی معزولی سے عبارت ہے محض ایک ملی یا Pan-Islamicمسئلہ نہیں ہے بلکہ کارِ نبوت کے آخری حاملین کی حیثیت سے یہ ایک خالصتاً کائناتی مسئلہ ہے جس سے اقوامِ عالم کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے پیغام الٰہی کے آخری وارثین دنیا کے منظر نامے سے ہٹ جائیں اوردوبارہ منصبِ سیادت پر ان کی واپسی کا کوئی امکان نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب تاریخ اپنا سفر مکمل کر چکی ہے، انسانی زندگی اپنی معنویت کھو چکی ہے۔ مغرب کے بعض مفکرین گذشتہ سو سال سے تاریخ کے خاتمے کی پیش گوئی کرتے رہتے ہیں۔ Spenglerکے مطابق موجودہ تہذیبِ مغرب جو سولھویں صدی سے ریاست اورکلیسا کے مابین پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے زوال سے دوچار ہے، ہر لمحہ اپنی موت کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔حالیہ دنوں میں مغرب کے بعض اہل فکر جمہوری کلچر کے فروغ اوراس کی بظاہر فتح سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب تاریخ اپنی انتہائی ترقی یافتہ بلندیوں کو چھو رہی ہے جس کے بعد شاید اب کرنے کو کچھ نہیں رہ جائے گا۔یہ وہی Post-historic عہد کا خطرہ ہے جس کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیا ہے اورجواب ہمارے سروں پرمنڈلا رہا ہے۔

یہ خیال کہ تاریخ اپنی منطقی منزل تک پہونچنے سے پہلے ہی انتشار کا شکار ہوگئی ہے دراصل منصبِ نبوت کے غیر متوقع طور پر اچانک خالی ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔یہ فکری خلا اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ ہم نے اب تک تاریخ کو صرف تاریخ کی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی ہے جب کہ ضرورت اس کو meta-historic یعنی اساطیر کی سطح پر سمجھنے کی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ خود مسلمان علماومفکرین تاریخ کی اس تفہیم سے نابلد ہیں۔ امتِ مسلمہ کی وقتی معزولی سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے تاریخی اسباب کا صحیح پتہ لگانے اورمنصب سیادت کی طرف دوبارہ مراجعت کا طریقہ دریافت کرنے میں ہم نے اب تک سست روی اورمایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ امتِ مسلمہ کی معزولی کے صحیح اسباب کا پتہ لگایا جائے، ان عوامل کی نشاندہی کی جائے جن کے نتیجے میں آخری نبی کی امت کتاب اللہ کی موجودگی کے باوجود انتشار وانحراف کا شکار ہوگئی ہے۔ یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ حادثہ کب اور کہاں پیش آیا۔ تاریخ کے کس مرحلے میں کس چھوٹی سی لغزش نے بڑے انحراف کا راستہ ہموار کردیا اور یہ تبدیلی دبے پائوں کچھ اس طرح آئی کہ ہمارے اہلِ فکراس کے ادراک سے قاصر رہے۔

ہمارے خیال میں مسئلہ کا نہ سمجھنا اور اس کا صحیح ادراک نہ ہونا اس مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ہے جس سے یہ امت گذشتہ صدیوں میں دوچار رہی ہے۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ اصل مسئلہ ہے کیا اس کے حل کے لیے اقدامات کا سوچنا ایک نئی خود کشی کو دعوت دینا ہوگالیکن افسوس کہ ہم میں ایسے سرگرم نفوس کی کمی نہیں جو ان اہم سوالوں کا جواب معلوم کیے بغیر زوال کے عمل کو روکنے میں شب وروز سرگرم ہیں۔ یہی حضرات بالعموم اعداد وشمار کی روشنی میں مختلف میدانوں میں امت کا میزانیہ ترتیب دیتے ہیں۔empiricalطریقۂ researchنے ہمیں صرف سطح پر نظر آنے والے مسائل سے آگہی دی ہے اور ہم اس بات کے خوگر ہو گئے ہیں کہ چیزوں کو جیسی کہ وہ نظر آتی ہیں اسی شکل میں دیکھیں نہ یہ کہ جیسی کہ وہ ہیں۔

زوال کے مسئلہ پر ہمارے دانشوروں نے اب تک جو کچھ غوروفکر کیا ہے یقیناً اس میں بہت سی مفید باتیں موجود ہیں جو ہمارے لیے نفسِ مسئلہ کے ادراک میں معاون ہوسکتی ہیں۔ البتہ اس مسئلہ پر متقدمین کے خیالات اوران کے طریقۂ تحقیق وتدبر سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بالکل کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسئلہ کو نئے انداز سے دیکھ سکیں اورہمارے لیے متقدمین کی تشخیص سے الگ ہوکر نئی تشخیص تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو۔ہمیں یہ بات مان کر چلنا ہوگا کہ اس سوال پر متقدمین کے جوابات اپنی تمام تر صحت کے باوجود شافی اورconclusive نہیں ہیں۔اگر کوئی جواب نظری اعتبار سے صحیح تر ہونے کے باوجود عملی methodologyکی وجہ سے ناقابل عمل ہے تو اسے بھی جواب کی خامی پر ہی محمول کیا جائے گا کہ ہر کامیاب جواب اپنے ساتھ مستقبل کی methodologyبھی لاتا ہے۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بالکل ابتداء سے ہی ہمارا رویہ عملی جواب کی جستجو کا ہوناچاہیے۔ ورنہ اگر ہماری مساعی فکر وخیال کی سطح پر محض ایک علمی مشغلہ بن کر رہ جائے تو یہ کوئی مفید عمل نہیں ہے۔ جب تک کہ ہم اپنی تاریخ کے سلسلے میں ایک غیر جانب دارانہ اور غیر معتقدانہ رویہ پیدا نہ کریں ، ہمارے لیے اپنی تاریخ کی بھیانک غلطیوں کا ادراک ممکن نہ ہوگا اور جب تک ہم متقدمین کی تاریخ شناسی، عملی اورعلمی زندگی میں ان کی دانش اورتفقہ کے سلسلے میں معتقدانہ رویہ ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے، اسباب زوال کو سمجھنے کی ہماری تمام تر کوشش احمقوں کی نئی جنت آباد کرنے کے مترادف ہوگی۔

ہمارے لیے صرف زوال کے اسباب دریافت کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ فی زمانہ ہمارے پاس عہد رسولؐ کو Recreateکرنے کی methodologyکیا ہوگی اوراگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اسے اپنے متقدمین کے مقابلے میں زوال وانحراف کے سابقہ تجربات سے کیسے بچا سکیں گے؟ بلکہ اگر ممکن ہوسکے تو متاخرین کی غلطیوں سے بھی ہمیں اپنا دامن بچانا ہوگا۔ بالفاظ دیگر ہمیں اپنے تجدیدی عمل سے متاخرین کے فکری انحراف کا راستہ روک دینا ہوگا اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم موجودہ تحریر کو متقدمین کے کارتجدید کامحض ایک توسیعہ بنانے سے گریز کریں۔ ایک ایسے وژن کا recreateکرنا اس وقت ممکن ہے جب ہم متقدمین اورمتاخرین دونوں کو زمان ومکان کی قیود سے بلند تر ہوکر دیکھ سکیں۔ تخیلاتی طور پر ہمارا تاریخی شعور نہ صرف یہ کہ ماضی کو مجسم ہوکر دیکھ سکے بلکہ مستقبل بھی اپنی تمام تر تفصیلات، جزئیات اورابعاد کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہو۔ کسی ایسےvision(وژن) کے بغیر عہد رسولؐ میں واپسی کا نعرہ محض مسخ شدہ تاریخ میں گمشدہ اسلامی ورثے کی تلاش بن کر رہ جائے گی۔ رسولؐ کے عہدمیں واپسی کا انداز زمانی اورمکانی سطح پر نہیں بلکہ مجسم ماحولیاتی سطح پر ہونا چاہیے۔ ہمارا مطالعۂ قرآنی جب تک ہمیں نزول قرآن کے ماحول اورخود قرآن کے اندر موجود عمرانیات اورآثارواحادیث رسولؐ کی تفصیلات کی بنیاد پر اس ماحول کودوبارہ اسی طرح اپنے دل و دماغ پر مترشح نہیں کرتا، گویا ہم خود کو ذہنی اور قلبی طورپر نزول قرآن کے عہد میں پاتے ہوں، تب تک نہ تو اس زوال کا حقیقی ادراک ممکن ہے۔۔۔جس سے آج ہم دوچار ہیں۔۔۔اورنہ ہی رجوع الی منصب النبوۃ کی کوئی شکل پیدا ہوسکتی ہے۔

چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ہم اب تک اس سوال کا کوئی شافی جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں کہ آیا تاریخ کسی معلوم خدائی منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہی ہے اور یہ کہ کیا امت مسلمہ کی منصب امامت سے معزولی خدا کے اسی طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے یا یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوگیا ہے کہ بعض فکری التباسات،نظری مغالطے اورعملی حادثات کی وجہ سے تاریخ ہماری مٹھی سے نکل گئی ہے۔ اس سوال کے حتمی جواب کے بغیر ماضی کی دریافت اورمستقبل کی بازیافت کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔

تاریخ کے سلسلے میں ہمارے جدید دانش وروں کا رویہ بڑی حد تک تاریخ کی اس تفہیم پر منحصر ہے جس کی پرورش وپرداخت گذشتہ تین سو سالوں میں مغرب میں ہوئی ہے۔ شاید ایسا اس لیے بھی کہ زوال کی صدیوں میں ہم نے تاریخ کو اسباب زوال کی methodology کے طورپر برتنے کی کوشش کم ہی کی ہے۔ ہمارے یہاں تاریخی شعور کا سب سے بڑا سنگ میل اب بھی ابن خلدون ہے۔ جس کے تاریخی شعور’’عصبیۃ‘‘ نے ہماری ملی زندگی کے احیاء کے سلسلے میں ایک عملی مایوسی کی فضا عام کردی ہے۔

تاریخ مقصد ومعنویت سے خالی نہیں، ہماری تفہیم کے مطابق رسول اکرمؐ کی بعثت کے بعد انسانی تاریخ آخری رسولؐ کی امت سے عبارت ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ میں جو کچھ بھی ہے وہ خود اس کے اندر کا بگاڑ ہے جس کی درستگی کا فریضہ ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے۔ ہم آج جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ دراصل تاریخ کے داخلی بحران کا ایک عہد ہے جس کی درستگی کے بعد اسے اسی سمت میں آگے بڑھنا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے استخلاف فی الارض کی شکل میں کیا ہے۔ یوں سمجھئے کہ بعثت نبویؐ کے بعد تاریخ کا pre-ordained الٰہی فریضہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، کہ وہ ہر لمحہ نور توحید کے اتمام کی طرف اپنا سفر جاری رکھے اورمدینے کی (micro society)مائیکروسوسائٹی کو macroانداز سے برتنا ممکن ہوسکے۔یہی ہے اسلام کا وہ un-finishedایجنڈا جس کی ابتدا تو مکہ میں آپؐ کے ہاتھوں ہوئی البتہ اسے منطقی اتمام تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری امت کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ کا اگر کوئی اوربھی مقصد ہے یا اس کا کسی متعینہ راستے پر آگے بڑھنا طے کردیا گیا ہے تو اس قسم کی باتیں ہمارے لیے اجنبی ہیں اس کے لیے نہ تو کوئی عقلی سند ہے اورنہ اس قسم کی تاریخی mythکو ہمیں کوئی وقعت دینی چاہیے۔ یہ خیال کہ تاریخ ایک جبری منطقی انجام کی طرف آگے بڑھ رہی ہے، دراصل اہل مغرب نے اپنے status quo کو برقرار رکھنے کے لیے تراشا ہے۔ مغرب میں اس مفروضے کو سب سے مدلل اورمنظم انداز سے مارکس نے پیش کیا۔ جس نے اسے کسی قدر خام حالت میں ہیگل سے لیا، ہیگل نے جان اسٹریٹ مل سے اوراس نے کومے سے یہ خیال مستعارلیا۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کی ایسی liniar تعبیر کے قائل Platoبھی تھے بلکہ اس سے بھی پہلے HeraditusاورHesoid اسی انداز سے سوچتے تھے۔ لیکن ہمارے خیال میں تاریخ کی معنویت اورطے شدہ متعین راستوں پر چلنے والی بات دراصل یہودی اثرات کے ذریعہ پیدا ہوئی۔ یہودیوں کا اپنے بارے میں منتخب اوربرگزیدہ قوم کا خیال ہونا فی نفسہ ایک تاریخی معنویت کا حامل ہے۔یہودیوں کے مطابق تاریخ ایک مفصل پلان ہے جس کا خالق Yahweh ہے۔ اس منصوبے سے انبیاء کسی حد تک ہی آگاہی لیتے ہیں، بقیہ حصہ پیش بینوں اورقیافہ شناسوں کے سپرد ہے۔ تاریخ کی اس تعبیر کے مطابق پیش بینوں کی اس لیے بھی اہمیت ہے کہ اگر ہمیں مستقبل کے حالات کی تھوڑی بھی آگاہی ہوجائے تو ہم خود کو اس کے لیے ڈھالنے کی کوشش کر سکتے ہیں اوراس طرح مستقبل کی تاریخ میں کہیں زیادہ موثر رول ادا کرسکتے ہیں۔

دیکھا جائے تو مارکس کا جدلیاتی مادیت کا خدا، Yahweh سے بڑی حد تک مشابہ ہے۔ خود مارکس کا کام قیافہ شناسی کا ہے جو پیش آمدہ مستقبل سے بہتر انداز سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرولتاریوں کو خبردار کررہا ہے۔ ورنہ جبری تاریخ میں کسی انقلابی کے لیے جواز ہی کب ہے۔ مارکس کی اس تاریخ شناسی کو مسلم حلقوں میں اصولی طورپر خواہ قبول کیا گیا ہو یا نہیں، البتہ اس کی بازگشت مسلم علماء کی ان تحریروں میں ملتی ہے جو جبری فلسفے کے تسلسل میں لکھی گئی ہیں۔ البتہ ان پر نئی سائنسی مارکسی تعبیر نے ایقان کا رنگ غالب کردیا ہے۔ اس قسم کی تفہیم کے عام ہونے میں ان غیرمارکسی مغربی دانشوروں کی تحریروں کا بھی دخل ہے جسے علم کے حتمی ماخذ کی حیثیت سے مسلم مفکرین نے فیض واکتساب کے لیے رجوع کرنے میں سند کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس میں ٹوأین بی کی The Study of Historyخاص طورپر قابل ذکر ہے۔ جسے عام طورپر تاریخ کی کتاب سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اس سے گمراہ کن اورغیر سائنسی مطالعۂ تاریخ کی مثال اس سے پہلے کم ہی ملتی ہے۔ اسپنگلر ہوں یا ٹوأین بی ان کے یہاں ایک patternکی دریافت کی کوشش تو یقیناً ہے لیکن جہاں چھ ہزار سال کی تاریخ میں صرف بیس اکیس تہذیبوں کو مطالعے کے لیے منتخب کیا گیا ہو وہاں ان تہذیبوں کے انتخاب کا مقصد کسیpre-conceived pattern کو سند اورجواز فراہم کرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوسکتا۔ ہاں ان کوششوں سے یہ ضرور ہوا کہ مشرق کی مغلوب تہذیب کو یہ یقین سا آنے لگا کہ تاریخ اپنے جس متعینہ راستے پر آگے بڑھ رہی ہے، اس میں ان کا رول اب کلیدی اورمرکزی نہیں رہ گیا ہے۔ حالانکہ ٹوأین بی کے دریافت شدہ قانون چیلنج اورریسپانس (challenge and response) کے نتیجے میں خوابیدہ مسلم فکر میں مثبت انقلاب آنا چاہیے تھالیکن جس قوم کا انبیائی ایجنڈا نگاہوں سے اوجھل ہوچکا ہو وہ اس عظیم چیلنج کو اس وقت قبول کرسکتی تھی جب اس کی دریافت ممکن ہوسکے۔ جب تک چیلنج نگاہوں میں مستحضر نہ ہو اس کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ محض اتفاقات اورحادثات کے نتیجے میں بنتی ہے۔ امیر علی کے مطابق اگر مسلمانوں کی فوج فرانس کے دروازوں پر روک نہ دی جاتی تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوئی۔ یقیناً تاریخ کو فیصلہ کن موڑ دینے میں بسا اوقات چھوٹے چھوٹے عوامل فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں لیکن ان کا رول فیصلہ کن اسی وقت ہوتا ہے جب پہلے سے بڑے عوامل تاریخ کو ان متعینہ راستوں پر ہانکے لیے چل رہے ہوتے ہیں۔رسل(۱) کا یہ کہنا کہ اگر کمیونسٹ انقلاب کو لینن نہ ملا ہوتا تو روسی انقلاب کی تاریخ مختلف ہوتی یا Prussiansکو Valmy کی جنگ میں کوئی بہتر جرنل ہاتھ آگیا ہوتا تو وہ انقلاب فرانس کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ یا یہ کہ Henry VIIIاگر Anne Bolin کی محبت میں گرفتار نہ ہوتا تو آج امریکہ کا وجود نہ ہوتا،دراصل اسی قسم کی بات ہے جس طرح ہمارے یہاں سنیوں کے بعض حلقے شیخین کے غلو میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اگرابو بکرؓ و عمرؓ نہ ملے ہوتے تو اسلام کی یہ عظیم الشان تاریخ نہ ہوتی۔ حالانکہ اصولی طورپرکسی انقلاب کا برپا ہونا اس کے پیش آمدہ لوازمات کاحصہ ہوتا ہے۔ جو کچھ آگے آتا ہے یا جیسے لوگ اس انقلاب کو ملتے ہیں دراصل اسی انقلاب کا منطقی لازمہ ہوتے ہیں۔ ایک کودوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔(۲)

ہمارے مؤرخین نے عہد زوال کا محققانہ تجزیہ کرنے اورہماری بھیانک لغزشوں اورتاریخی غلطیوں سے پردہ اٹھانے کے بجائے اس کی تمام تر ذمہ داری سازشیوں کے بعض گروہوں پر ڈال دی ہے۔ لہٰذا عہد عثمانی سے لے کر زوال بغداد تک ہماری تاریخ کے صفحات یہودی، سبائی اورایرانی سازشیوں کے تذکروں سے پر ہیں۔ اس قسم کی تاریخ فہمی سے اپنی غلطیوں کی نشاندہی ناممکن ہوجاتی ہے۔ سازشی گروہ اپنی حیاتی تصویر(life-size)سے کہیں زیادہ بڑا نظر آتا ہے اورایسا محسوس ہوتا ہے گویا بالکل ابتدائی دنوں سے ہی تاریخ ہماری مٹھی سے پھسل چکی تھی۔ عبداللہ بن سبا کی larger-than-life-size تصویر اس قبیل کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سازشیں جنھیں اگر اسی قدر بڑی تسلیم بھی کرلیا جائے، اگر نہ ہوتیں تو اسلامی تاریخ کا رخ کچھ مختلف ہوتا، اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہ ہمارے اندرون کی خامی تھی جو سازشوں کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ورنہ ہمارا فکری اورملی ڈھانچہ اصل مدنی ماڈل کے مقابلے میں کمزور نہ پڑتا، تو کسی بھی سازش کا فوری قلع قمع کیا جاسکتا تھا۔ اگر ہم واقعی زوال کی ماہیت سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اس قسم کے مفروضات کو خیر باد کہنا ہوگا کہ ہمارے خلاف ہمارے اردگرد جوکچھ بھی ہورہا ہے وہ محض سازشوں کا ظہور ہے۔بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اپنے اندرون کی خامی تلاش کرنا گراں گزرتا ہے یا جنھیں اس بات پر اصرار ہوتا ہے کہ ہمارے متقدمین کا فکری ڈھانچہ اوران کی علمی کاوشیں آج بھی اس سرزمین کو الٰہی انقلاب سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہیں، اس پر مزید کسی غوروفکر کے اضافے کی ضرورت نہیں، ان کے لیے اپنی ناکامی کی تمام ذمہ داری سازشیوں پر ڈال دینا آسان ہوتا ہے۔ جن لوگوں کواس بات پر اصرار ہوکہ ان کے پاس آج بھی جنت بنانے کا فارمولہ موجود ہے وہ غیاب جنت کے لیے اس کے علاوہ اورکیا دلیل پیش کر سکتے ہیں کہ ان کی اسکیم شیطان کی سازش کی نذرہوگئی ہے۔ جس طرح قدیم روما میں ٹروجن وار(Trojen war) دیوتائوں کی سازش کا نتیجہ سمجھے جاتے تھے اسی طرح آج مسلمانوں نے اپنی تمام تر ناکامیوں اورمحرومیوں کا الزام یہودیوں کے سرتھوپ رکھا ہے۔ اس قسم کی سازشی theoriesبھی دراصل ایک بڑی سازش کا حصہ ہیں۔ جو بڑی حد تک ہماری اپنی پیدا کردہ ہے دوسروں کی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: علامات سے زبان تک https://albasirah.com/urdu/alamat-se-zuban-tak/


ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تاریخ کو تاریخی سطح سے کہیں بلند ہوکر مابعد التاریخ (meta historic) کی سطح پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن نے اسے اساطیر سے تعبیر کیا ہے۔ عادوثمود کے واقعاتmythبھی ہیں اورتاریخ بھی۔ تاریخ اس لیے کہ یہ واقعات عملی دنیا میں ظہور پذیر ہوئے ہیں اورmyth اس لیے کہ ان کا تمام تر جزئی تفصیلات کے ساتھ خیال یا عمل کی سطح پر re-createکرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ ہم تاریخ کی اپنی تفہیم اورفریضۂ تاریخ کے مراحل میں ان اساطیر سے یہ سبق لے سکتے ہیں کہ جس طرح راہ ہدایت سے دوری نے عادو ثمود کے ہاتھوں سے تاریخ کی لگام کھینچ لی تھی یا جس طرح اپنی پے درپے غلطیوں کے باعث اہل یہود منصب سیادت سے معزول کردیے گئے تھے اسی طرح اس قسم کی غلطیاں امت مسلمہ کو بھی امت مامور سے امت معزول میں تبدیل کر سکتی ہیں۔

تاریخ کے بارے میں یہ تصور کہ وہ اپنے بندھے ٹکے راستے پر گامزن ہے جو دراصل خدائی فیصلہ ہے، بڑی حد تک اس جبریہ رجحان کی پیداوار ہے جسے بوجوہ بالکل ابتدائی عہد میں ہی مسلم فکر میں داخلہ مل گیا تھا۔ اموی اورعباسی حکمرانوں کے لیے اس خیال میں زندگی کا سامان تھا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہماری منحرف حکومتیں خدائی فیصلے کی حیثیت سے لوگوں کے لیے قابل قبول ہوجائیں تو مخالفین کو قابو میں رکھنا اورخاموش اکثریت کو مطمئن کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس خیال نے آگے چل کر ’’السلطان ظل اللّٰہ‘‘ جیسے خیالات کے لیے راستہ ہموار کیا۔حکومت بنو امیہ کے سیاسی انحراف پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسی وضعی روایتیں سامنے لائی گئیں جن میں سمندر پر جہاد کرنے والوں کے لیے بشارت دی گئی تھی اورجن کے مطابق بنوامیہ کا برسراقتدار آنا گویا انھیں سلطنت اسلامی کی توسیع کے لیے استعمال کرنے کی ایک خدائی اسکیم تھی۔ لہٰذا ان پیش بینیوں کی موجودگی میں لوگوں کے لیے حکومت کے اس منحرف قالب کو قبول کرنا نسبتاً آسان ہوگیا۔ جب یہ بات اصولی طور پر مان لی گئی کہ اموی حکمراں اوراس کے بعد بڑی حد تک عباسیوں کی حکومت خدائی مشن کی تکمیل کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، جو رسول اللہؐ کی پیشن گوئیوں کے مطابق تاریخ کو ظہور میں لارہی ہے، تو پھر اصلاح احوال کے لیے کسی کوشش کا کوئی اخلاقی جواز تھا اورنہ ہی مسلح جدوجہد کے لیے کوئی نظری بنیاد فراہم ہوتی تھی۔ تاریخ کے اس جبری فلسفے کی حمایت میں وضعی اقوال رسولؐ کے ڈھیر لگا دیے گئے۔آگے چل کر اس رویے نے صوفیاء کے لیے خانقاہوں کا جواز پیدا کیا اورامت میں یہ عام ذہن بن گیاکہ تاریخ جس راستے پر جارہی ہے اسے چھیڑا نہ جائے، کہ یہ سب دراصل خدائی فیصلہ ہے۔(۳)

جب یہ عقیدہ دل ودماغ میں سرایت کرجائے کہ تاریخ کا سفر پہلے سے طے شدہ ہے، فیصلے کی سیاہی خشک ہوچکی ہے تو پھراصلاح احوال کی کوئی کوشش شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہے۔ پھر کرنے والے کے لیے جوکارِ لایعنی تفویض ہوتا ہے اس میں وہ اپنا رول اس کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتا کہ وہ اپنی دانست بھر نیکی کے عمل میں لگا رہے، اس اطمینانِ قلب کے ساتھ کہ اس کی یہ تمام کوشش صورت حال پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ دیکھا جائے تو اس نوع کی تمام ضعیف احادیث جو مستند اور غیر مستند کتابوں میں راہ پا گئی ہیں ،ان کا ہمارے دل ودماغ کو shapeدینے میں کلیدی رول ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نظام اسلامی کے انحراف کو جو لوگ واضح طور پر محسوس کرتے تھے اورجنھوں نے اس کی اصلاح کے لیے اپنی تمام تر قوت جھونک دینے کا تہیہ کر لیا اورجنھوں نے جابر حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا اپنا عین دینی فریضہ سمجھا، وہ بھی اگر اپنے حق میں عوامی حمایت فراہم نہ کر سکے تو اس کی بھی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ امت میں ایک عمومی انداز فکر پیدا ہوچلا تھا کہ جمل اورصفین کی جنگ کے بعد بھی جب اصلاح احوال کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی، حسین ابن علیؓ اورزین العابدینؒ کی قربانیاں بھی جب نظام کو اصل منہج نبوت کی طرف واپس نہ لے جاسکیں تو بھلا ہما شما لوگ اب کوئی قابل ذکر تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں۔ یہ سب جو کچھ بھی ہے خدائی فیصلہ ہے جسے ہمیں قبول کرلینا چاہیے اوراپنے اپنے دائروں میں اپنی استطاعت بھراصلاح احوال کی ذاتی کوشش تک محدود رہنا چاہیے۔ رہے وہ لوگ جو اب بھی نظام کی اصلاح کی باتیں کرتے ہیں اورجو یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی کوشش نظام حکومت کو دوبارہ منہاج النبوۃ پر قائم کر سکتی ہے تو یہ دراصل تاریخ کے خلاف جنگ کررہے ہیں، جو گویا خدائی فیصلے کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔ ایسے لوگ جو تاریخ کی اس تفہیم میں یقین رکھیں ان کو مطعون کرنے کے لیے ان روایات کا سہارا لیا گیا۔مثلاً ’’القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ‘‘۔(۴) عوام الناس کو ان اصحاب سے دو رکھنے کے لیے یہ حدیثیں بھی سامنے لائی گئیں کہ ’’لاتجالسوا اھل القدر ولا تفاتحوھم‘‘۔(۵)

ایک ایسے مرحلے میں جب دوسری نسل کے مسلمانوں کوصاف محسوس ہوتا تھا کہ تاریخ ان کی مٹھی سے پھسلنے لگی ہے اورجب وہ واضح طور پر یہ دیکھ رہے تھے کہ بعثت نبویؐ سے قیامت تک کے لیے جس امت کو منصب سیادت پر فائز کیا گیا ہے اب وہ نظری التباس کا شکار ہورہی ہے، اُس وقت اگر اصلاح احوال کی کوشش کو فوری طور پر وسیع حمایت نہ مل سکی تو اس کی وجہ کچھ سابق مصلحین کی ناکامی اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فتنے تھے، جمل اورصفین کا زخم ابھی تک رِس رہا تھا،حسینؓ کی شہادت کا واقعہ بالکل تازہ تازہ تھا، اس لیے لوگوں میں ان خیالات نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں کہ اب اصلاح احوال کی کوئی کوشش بہت زیادہ سود مند عمل نہیں ہے۔ بخاری اور مسلم میں ایک حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ابن آدم کے لیے اللہ نے یہ پہلے سے طے کررکھا ہے کہ اس سے کس قدر زنا سرزد ہوگا۔(۶) اس قبیل کی احادیث کی کمی نہیں جن میں یہ بات تفصیل سے بتائی گئی ہے کہ اللہ نے ہر نفس کی پیدائش کے وقت ہی اس کے لیے یہ مقدر کردیا ہے کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔ ان روایتوں نے جو اس وقت مسلم دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں ہمارے اہل دانش کو ایک عمومی قنوطیت اورغیر حرکتیت میں مبتلا کردیا۔حالانکہ انہی کتابوں میں اس قبیل کی احادیث کی بھی کمی نہیں تھی جس میں اصلاح احوال کو بھی خدائی اسکیم کا ہی حصہ بتایا گیاتھالیکن جب فیصلے کی روشنائی کا خشک ہونا ذہنوں پر مسلط ہوجائے تو چھوٹی چھوٹی انسانی کوشش اس بڑی اسکیم میں اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ ترمذی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک صحابی نے جب آپؐ سے یہ پوچھا کہ ہم بیماریوں سے بچنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر یا دوائیں استعمال کرتے ہیں وہ خدائی فیصلے میں مداخلت تو نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، بلکہ ایسا کرنا خود خدائی فیصلے کا حصہ ہے۔(۷) کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں جب طاعون پھیلا اورآپ نے مسلم فوج کو اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم دیا، تو اس پر کسی شخص نے یہ اعتراض کیا کہ کیا ہم خدائی فیصلے سے بھاگنا چاہتے ہیں: افراراً من قدراللہ؟ عمرؓ کا جواب تھا:یقیناًہم خدائی فیصلے کی طرف بھاگ رہے ہیں: ’’نعم من قدر اللہ الی قدر اللہ‘‘۔ بظاہرعمرؓ کا یہ قدم ایک اعتدال اورsynthesis کاا علامیہ ہے جس نے آگے چل کراس مسئلے پراہل سنت والجماعت کے عقائد کو ترتیب دینے میں مدد دی۔البتہ مسئلے کی یہ تفہیم بھی ہمارے دل ودماغ سے اس کیفیت کو محو کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس کے مطابق تاریخ کا راستہ طے ہے اورفیصلے کی روشنائی خشک۔

کتب احادیث میں فتنہ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان پر بھی وسیع سماجی اورتاریخی پس منظر میں ازسرنوغوروفکر کی ضرورت ہے۔ فتنہ ایک ایسی صورت حال کا بیان ہے جب اجتماعی امور پر باہمی نزاع civil war کی شکل اختیار کرلے، افہام وتفہیم کی صورت حال ناکام ہوجائے، جھوٹی افواہوں اورمصدقہ خبروں میں تمیز مشکل ہوجائے اور بسا اوقات یہ محسوس ہونے لگے کہ معاشرے کی سمت کھوئی گئی ہے۔ ایسی صورت حال میں عقل اور دین کا تقاضا تو یہی ہے کہ کتاب وسنت سے روشنی طلب کی جائے اور پھر اپنی سی تمام ترکیبیں اورتمام قوت اصلاح احوال کے لیے جھونک دی جائیں۔ البتہ جب ذہنوں پر یہ خیال حاوی ہوکہ جوکچھ ہورہاہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر افراد کے لیے اس چیلنج سے کنارہ کشی اورایام فتنہ میں صرف اپنی ذاتی نجات کی فکر کی گنجائش نکل آتی ہے۔ یہ بات قطعیت کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ اسلام میں صوفیا کے باقاعدہ ظہور سے پہلے ترکِ دنیا کو باضابطہ معتبر دینی رویے کی حیثیت سے سب سے پہلے کس نے متعارف کرایا۔ البتہ آج کے pacifistترکِ دنیا کے لیے اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریوں سے اپنا دامن بچانے کے لیے ان احادیث کا سہارا لیتے ہیں جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورجس میں ایام فتنہ میں بیٹھنے والے شخص کو کھڑے ہونے والے پر فوقیت دی گئی ہے، کھڑے ہونے والا چلنے والے سے بہتر بتایا گیا ہے اورچلنے والا دوڑنے والے سے بہتر(۸) پھراس قبیل کی حدیثیں بھی موجود ہیں جن میں اجتماعی مسائل سے دور رہنے اور سماجی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کی باضابطہ ترغیب ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے ایک حدیث منقول ہے جس کے مطابق آپؐ نے فرمایا: اے ابوذر! امارت ایک بڑی ذمہ داری ہے، جس کا نتیجہ یوم آخرت میں ندامت اور رسوائی کی شکل میں ہوگا الا یہ کہ اس عہدے کو صحیح طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اوراس کا واقعی حق ادا کردیا گیا ہو۔ جن لوگوں نے اس قسم کی حدیثوں کی بنیاد پر pacifistرویے کی بنا ڈالی، انھوں نے کہیں تو تشریح میں اور کہیں متن میں اس خیال کا اظہار بھی کردیا کہ منصب کا حق ادا کرنا چونکہ عملی طور پر ممکن نہیں اس لیے سماجی نوعیت کی ذمہ داریاں قبول کرنے والے یقیناً روز قیامت رسوائی کا سامنا کریں گے۔ محمد الشیبانی کہتے ہیں رسول اللہؐ نے ابوذر سے استفہامیہ انداز سے یہ بھی کہا کہ اے ابوذر! کیا کسی شخص کے لیے ان بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ممکن ہے(۹) ۔یہ دو رجحانات آگے چل کر اسلامی Pacifismکی بنیاد بن گئے۔ اولاً تاریخ خدائی اسکیم کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ثانیاً اگر اصلاحِ احوال کے ذریعے سماجی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑے تو اس سے بہ کمال عہدہ برآ ہونا ایک امر محال ہے، اس لیے عام ذہن یہ بنتا گیا کہ اب اپنے ایمان کی سلامتی کا راستہ صرف یہ ہے کہ گھر بیٹھا جائے جوباتیں اچھی لگیں ان پر عمل کیا جائے اور جس بارے میں شبہ ہو اس پر کلام نہ کیا جائے۔ اپنے کام سے کام رکھا جائے اوراجتماعی ذمہ داریوں سے حتی الامکان پہلو تہی کی جائے۔ اس غیر عملی رویے کے لیے بھی احادیث کے ذخیرے میں بنیاد ڈھونڈ نکالی گئی۔(۱۰) آگے چل کراسی Pacifist رویے نے امت میں انفرادی دینداری کی ایک مکمل دینیات تیار کردی۔ اہل ایمان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ زندگی کے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیے بغیر کامیاب آخرت کی توقع کر سکیں اورانھیں گھر بیٹھے انفرادی نجات کی ضمانت مل جائے۔

حواشی
۱) Bertrand Russel,”Dialectical Materialism” in Theories of History,(ed.) Patrick Gardiner, 1963,p.294
۲) { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ}(الفتح:۲۹)
۳) سراقہ بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ ؐ سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول! ہمیں کچھ ہمارے دین کے بارے میں بتائیے۔کیا ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہونا طے پا چکا ہے اوراس بارے میں فیصلے کی روشنائی خشک ہوچکی ہے، یاہم جوکچھ کررہے ہیں اس کے بارے میں ابھی فیصلے کا لیا جانا باقی ہے۔ اس کے جواب میں رسولِ خدا نے فرمایا کہ اس بارے میں اللہ کا فیصلہ ہوچکا ہے اوراس کی سیاہی خشک ہوچکی ہے۔ تو پھرہماری سرگرمیوں کی معنویت کیا رہ جاتی ہے، سراقہ کے جواب میں رسول اللہؐ نے کہا: عمل کیے جائو، اس لیے کہ ہر شخص کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے، اور پھر رسول خدا نے یہ آیت پڑھی{فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی O وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی )الآیۃ۔
مذکورہ حدیث کا متن یوں ہے:
فحدثناعن دینناھذا کأنا خلقنا لہ الساعۃ نعمل لشیٔ قد جرت بہ المقادیر وجفت بہ الأقلام أم لشیٔ یستقبل قال: بل لشیٔ قد جرت بہ المقادیر وجفت بہ الاقلام،قال ففیم العمل یا رسول اللہؐ، قال اعملوافکل میسر لما خلق، قال ثم قرأھذہ الآیۃ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی O وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔۔۔(الی آخر الآیۃ)۔(ابویوسف،آثار،قاہرہ ۱۳۵۵ھ نمبر۵۸۱)
۴) مشکٰوۃ المصابیح، دہلی ۱۹۳۲،ص۲۲
متن: القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ مرضوافلا تعودوھم وان ماتوافلا تشھدوھم۔(رواہ احمد وابودائودعن عبداللہ بن عمر)
۵) مشکوٰۃ المصابیح،دہلی ۱۹۳۲،ص۲۲
متن: لا تجالسوا اھل القدرولا تفاتحوھم۔(رواہ ابودائود)
۶) مشکوٰۃ المصابیح،دہلی ۱۹۳۲،ص۲۰
متن: ان اللہ کتب علی ابن آدم حظہ من الزنا ادرک ذلک لا محالۃ فزناالعین النظروزنااللسان المنطق والنفس تتمنیٰ وتشتھی والفرج یصدق ذک ویکذبہ۔(متفق علیہ)
۷) مشکوٰۃ المصابیح،دہلی ۱۹۳۲،ص۲۲
متن: ارأیت رقی نستریقھا ودواء ننذاوی بہ وتقاۃ نتقیھا ھل ترد من قدر اللہ شیئاً؟ قال: ھی من قدر اللہ۔(رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ)
۸) مشکوٰۃ المصابیح،دہلی ۱۹۳۲،ص۴۶۲
متن: قال رسول اللہ ستکون فن القاعد فیھا خیر من القائم والقائم فیھا خیر من الماشی والماشی فیھا خیر من الساعی۔۔۔(الخ)۔(رواہ مسلم)
۹) ابویوسف،کتاب الآثار،قاہرہ ۱۳۵۵ھ، نمبر۹۴۷اورحاشیہ
متن: یا اباذر الامارۃ امانۃ وھی یوم القیامۃ خزی وندامۃ الامن اخذھا بحقھاوادی الذی علیہ فیھا۔
۱۰) مشکوٰۃ المصابیح،دہلی ۱۹۳۲،ص۴۶۴
متن: کیف بک اذا ابقیت فی حثالۃ من الناس مرجت عھودھم واماناتھم واختلفوافکانواھکذاوشبک بین اصابعہ قال: ماتأمرنی قال: علیک بما تعرف ودع ماتنکر وعلیک بخاصۃ نفسک وایاک وعوامھم وفی روایۃ الزم فی بیتک واملک علیک لسانک وخذماتعرف ودع ماتنکروعلیک بامر خاصۃ نفسک ودع امرالعامۃ۔(رواہ الترمذی)

Share this content: