×

مصر کا تعمیر نو منصوبہ اور غزہ کا انسانی المیہ

syedasadabbas

مصر کا تعمیر نو منصوبہ اور غزہ کا انسانی المیہ

تحریر: سید اسد عباس

انروا جو کہ غزہ، مغربی کنارے، شام، لبنان، اردن اور مصر میں فلسطینیوں کے پناہ گزین کیمپ چلاتی ہے، اس نے اپنی 163 ویں رپورٹ، جو آج ہی جاری ہوئی ہے، میں بتایا ہے کہ اس وقت تک تقریباً چھے لاکھ فلسطینی شمالی غزہ کی جانب لوٹ چکے ہیں ، انروا کے 311 مراکز تباہ ہوچکے ہیں، جب سے جنگ بندی کا آغاز ہوا ہے، غزہ کی پٹی کی مکمل آبادی کو انروا کی جانب سے غذائی امداد مہیا کی جاری ہے، غزہ کی پٹی میں انروا کے فقط 11 مراکز کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے 11 مارچ 2025ء کے درمیان غزہ میں مبینہ طور پر کم از کم 48,503 فلسطینی ہلاک اور 111,927 زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں کم از کم 1.9 ملین افراد یا تقریباً 90 فیصد آبادی بے گھر ہوئی۔ بہت سے لوگ بار بار بے گھر ہوئے ہیں، کچھ 10 بار یا اس سے زیادہ۔ جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے، آبادی کی نئی نقل و حرکت کی اطلاع ملی ہے، لوگ اپنے بچے کھچے گھروں میں واپس جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیادہ تر گھر (وزارت تعمیرات عامہ اور ہاؤسنگ (MoPWH) کے مطابق 92 فیصد) تباہ ہوچکے ہیں۔

انروا کی رپورٹ نمبر 163 کے مطابق 2 مارچ 2025ء کو اسرائیلی حکام نے ایندھن سمیت غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی انسانی امداد کو روکنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے کوئی سامان "امدادی یا تجارتی” غزہ میں داخل نہیں ہوا ہے۔ سرحد کی بندش اور موجودہ چیلنجوں کے باوجود، UNRWA گذشتہ 15 ماہ کی مسلسل بمباری، جبری نقل مکانی اور اہم وسائل کی کمی سے مغلوب کمیونٹیوں کی آبادی کو اہم امداد اور خدمات فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے، غزہ کے پانچوں گورنریٹس میں نصف ملین سے زیادہ لوگوں کو نان فوڈ آئٹمز، بشمول کمبل، گدے، فرش میٹ، کپڑے، کچن کا سامان اور بارش سے بچاؤ کے لیے ترپال مل چکے ہیں۔ 9 مارچ تک، 100,000 سے زیادہ خاندانوں (یا ایک اندازے کے مطابق 600,000 سے زیادہ افراد) کو UNRWA کے ذریعے بستر کی اشیاء مل چکی ہیں، تقریباً 63,000 خاندانوں (یا تقریباً 416,000 افراد) کو ترپالیں پہنچائی گئی ہیں اور 31,000 سے زائد موسم سرما کے کپڑوں کی کٹس تقسیم کی جا چکی ہیں۔ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے 14,400 خاندانوں (یا لگ بھگ 72,000 افراد) تک UNRWA ٹیمیں خیموں کے ساتھ پہنچ چکی ہیں۔

انروا رپورٹ کے مطابق جنگ کے آغاز سے، جنگ بندی کے آغاز تک (19 جنوری 2025ء)، 388,000 خاندانوں (تقریباً 1.9 ملین افراد) تک خوراک تقسیم کی گئی۔ لاکھوں لوگوں کو طبی سہولیات مہیا کی گئی ہیں، لاکھوں افراد نفسیاتی کونسلنگ حاصل کرچکے ہیں۔ انروا کے ساتھ ساتھ ریڈ کریسنٹ یعنی ہلال احمر فلسطین بھی فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اسلامی ممالک کے خیراتی اداروں کی جانب سے فلسطینیوں کو ملنے والی امداد اس کے علاوہ ہے۔ انروا اور انسانی حقوق کے اداروں کا فلسطینیوں کی مدد کے لیے پہنچنا نہایت خوش آئند ہے، اگر یہ ادارے فوری طور پر فلسطینیوں کی مدد کو نہ پہنچتے تو لاکھوں انسان بارود کے ساتھ ساتھ بھوک، بیماری اور موسم کی سختیوں کے سبب مارے جاتے۔ انروا کے مطابق انھوں نے جنگ کے پندرہ ماہ میں اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔

درج بالا اعداد و شمار اور دنیا کے بعض خطوں میں انسانوں کی محرومیوں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ عالمی امدادی اداروں کی نظر میں انسانوں کی مظلومیت، بھوک، لاچاری کا معیار کیا ہے۔؟ کیا بعض خطوں کے انسانوں کا خون دوسرے خطے کے انسانوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔؟ کیا کسی ایک خطے کے انسانوں کی بھوک دوسرے خطے کے انسانوں کی بھوک سے اہم ہوتی ہے۔؟ ہم جانتے ہیں کہ پاڑہ چنار کے راستے گذشتہ پانچ ماہ سے بند ہیں۔ اس خطے میں موجود پانچ لاکھ انسان بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، حکومت وقت متعدد کوششوں کے باوجود راستے کھولنے میں ناکام ہوئی ہے۔ پندرہ ماہ نہ سہی، اسرائیلی بمباری نہ سہی، تاہم پانچ لاکھ انسانوں کی بھوک، علاج اور تعلیم سے محرومی کسی طور پر اہل غزہ یا دنیا کے کسی بھی خطے کے انسانوں کی محرومی سے مختلف نہیں ہے۔ یہاں نہ ہلال احمر آتی ہے نہ ہی کوئی اور ملکی یا غیر ملکی امدادی ادارہ۔ پاڑہ چنار کے لوگ غیرت مند ہیں، ان کو امداد کی ضرورت نہیں، ان کا تقاضا فقط یہ ہے کہ ان کے راستے کھولے جائیں، تاکہ وہ اپنے لیے اشیائے ضرورت کو پاکستان کے پرامن علاقوں سے خرید سکیں۔

دوسری جانب ٹرمپ کی غزہ کو ہتھیانے کی دھمکی کام کر گئی ہے اور عرب لیگ نے غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے۔ ٹرمپ بھی اہل غزہ کو غزہ سے بے دخل کرنے بیان سے پیچھے ہٹ چکے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ اہل غزہ کو کوئی غزہ سے نہیں نکال رہا۔ مصر کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے پیش کردہ منصوبہ تین بڑے مراحل پر مشتمل ہے: عبوری اقدامات، تعمیر نو اور گورننس۔ پہلا مرحلہ تقریباً چھ ماہ تک جاری رہے گا، جبکہ اگلے دو مراحل چار سے پانچ سالوں میں ہوں گے۔ اس منصوبے کا مقصد غزہ کی تعمیر نو کرنا ہے، جسے اسرائیل نے تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، امن و سلامتی کو برقرار رکھنا اور اس علاقے میں فلسطینی اتھارٹی (PA) کی حکمرانی کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔

چھ ماہ کی عبوری مدت میں فلسطینی ٹیکنو کریٹس کی ایک کمیٹی کی ضرورت ہوگی۔۔۔ جو فلسطینی اتھارٹی کے انتظام کے تحت کام کرے گی۔۔۔۔ شاہراہ صلاح الدین سے ملبے کو ہٹانے کے بعد، 1.2 ملین لوگوں کی رہائش کے لیے 200,000 عارضی ہاؤسنگ یونٹ بنائے جائیں گے اور تقریباً 60,000 تباہ شدہ عمارتوں کو بحال کیا جائے گا۔ بلیو پرنٹ کے مطابق، عبوری اقدامات مکمل ہونے کے بعد طویل مدتی تعمیر نو کے لیے مزید چار سے پانچ سال درکار ہیں۔ اس مدت کے دوران، اس منصوبے کا مقصد کم از کم 400,000 مستقل مکانات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ غزہ کی بندرگاہ اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر نو کرنا ہے۔ دھیرے دھیرے پانی، فضلہ کا نظام، ٹیلی کمیونیکیشن سروسز اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات بھی بحال ہو جائیں گی۔ اس منصوبے میں مزید ایک اسٹیئرنگ اینڈ مینجمنٹ کونسل کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو کہ غزہ میں عبوری گورننگ باڈی کی مدد کرنے والا ایک مالیاتی فنڈ ہوگا۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے لیے کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی، تاکہ پٹی میں تعمیر نو اور طویل مدتی ترقی کے لیے ضروری فنڈ فراہم کیا جاسکے۔

مصر غزہ کی تعمیر نو کے لیے 53 بلین ڈالر کا مطالبہ کر رہا ہے، یہ رقم تین مرحلوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے چھ ماہ کے مرحلے میں شاہراہ صلاح الدین سے ملبہ ہٹانے، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر اور جزوی طور پر تباہ شدہ گھروں کی بحالی پر 3 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ دوسرے مرحلے میں دو سال لگیں گے اور اس پر 20 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس مرحلے میں ملبہ ہٹانے کا کام جاری رہے گا، ساتھ ہی یوٹیلیٹی نیٹ ورکس کا قیام اور مزید ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر بھی جاری رہے گی۔تیسرے مرحلے پر 30 بلین ڈالر لاگت آئے گی اور اس میں اڑھائی سال لگیں گے۔ اس میں غزہ کی پوری آبادی کے لیے رہائش کی تکمیل، صنعتی زون کے پہلے مرحلے کا قیام، ماہی گیری اور تجارتی بندرگاہوں کی تعمیر، اور دیگر خدمات کے علاوہ ہوائی اڈے کی تعمیر شامل ہے۔ منصوبے کے مطابق یہ رقم متعدد بین الاقوامی ذرائع سے حاصل کی جائے گی، جس میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔

حماس نے تعمیر نو کے منصوبے کا خیرمقدم کیا اور اس سے قبل تکنیکی حکومت سے اتفاق کیا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی کو قبول کرے گی یا نہیں۔ حماس حکمرانی سے ہٹانے کے بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہوسکتی ہے، لیکن تخفیف اسلحہ کے خلاف ہے۔ اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک سرخ لکیر ہے اور حماس کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو دوبارہ غزہ نہیں آنے دیں گے۔ مصر کا غزہ منصوبہ بہت سی اگر مگر کا حامل ہے، تاہم اس وقت اس منصوبے کو سامنے رکھ کر ٹرمپ نے اپنے منصوبے سے یوٹرن لے لیا ہے اور حماس و اسرائیل کے مابین مذاکرات کا اگلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ غزہ اس وقت ایک ایسی دیگ ہے، جسے متعدد باورچی تیار کر رہے ہیں، غزہ کے حقیقی مالکوں کی صورتحال ہم نے قبل ازیں بیان کی، یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے، خداوند کریم امت کی مشکلات کو حل فرمائے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین

بشکریہ: اسلام ٹائمز

Share this content: