×

انقلاب اسلامی کے ثمرات

nisartirmazi

انقلاب اسلامی کے ثمرات

تحریر: سید نثار علی ترمذی

جہاں جہاں اسلامی دنیا ہے، وہاں یہ تڑپ موجود ہے کہ ایک اسلامی حکومت قائم ہو اور شریعت محمدی زندگی کے ہر شعبہ پر لاگو ہو اور اس کے ثمرات سے ہر مسلمان بہرہ مند ہو۔ اس کے لیے کئی کوششیں تو ایسی ہیں کہ جن کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد یہ جذبہ ابھر کر آیا کہ امت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی کوشش کی جائے۔ سر فہرست سر سید احمد خان کی تحریک ہے کہ مسلمانوں کو دیگر اقوام کے مقابلے کے لیے تعلیم جدید کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیئے۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے، جس کے اثرات مرتب ہوئے۔ انہی دنوں ایک اور تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی، جسے زیادہ شہرت حاصل نہ ہوسکی، مگر یہ تحریک برصغیر میں ایک سیاسی جماعت کی اولین شکل ہے۔ اس کے بانی جسٹس امیر علی ہیں۔ آپ نے 1870ء میں ہی نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن قائم کر دی تھی، جب اس کی شاخیں ملک کے دیگر حصوں میں قائم ہوگئی تو اس کا نام سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن رکھ دیا، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس 1885ء میں معرضِ وجود میں آئی۔

جب 1906ء آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تو اس اجلاس میں جسٹس امیر علی بنیاد گزاروں کی حیثیت سے شامل تھے اور آپ نے اپنی یہ تنظیم جو اس وقت چھتیس اضلاع میں پھیل چکی تھی، اس کو مسلم لیگ میں ضم کر دیا تھا۔ 5 جولائی 1919ء میں تحریک خلافت کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا مقصد خلافت عثمانیہ کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ غلامی میں ڈوبے ہوئے مسلمان اسلام کی ظاہری مرکزیت کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ تھے۔ یہ ایک تاریخ ہے، جس کا مطالعہ کیا جانا چاہیئے۔ برصغیر میں ایک اور تنظیم کی بنیاد نومبر 1919ء میں رکھی گئی ہے، جس کا نام جمعیت علمائے ہند ہے، جس کے بنیاد گزاروں میں تمام مسالک کے لوگ شامل تھے اور اس نے کانگریس کو خلافت کی حمایت کے لیے آمادہ کر لیا۔ اس کے علاؤہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کیا۔ اگست 1942ء میں مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ اسلامی حکومت کا قیام۔ مسلم لیگ نے اسلامی نعروں سے جو عوامی حمایت حاصل کی، اس کے نتیجہ میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔

تاریخ پاکستان کی علیحدہ تاریخ ہے، مگر آغاز میں ہی اسلامی حکومت کے قیام کے ابتدائی کام ہوگئے۔ قرارداد مقاصد 1949ء میں منظور ہوگئی اور 1951ء میں تمام مسالک کے بتیس علماء نے بائیس نکات مرتب کرکے حکومت اسلامی کے قیام میں ایک بڑی روکاوٹ کو دور کر دیا، مگر ملک میں اقتدار کی ہوس نے کرسی کی دوڑ میں لگا دیا۔ اسی دوڑ میں ملک کا ایک حصہ علیحدہ ملک بن گیا۔ یہ ساری داستان سنانے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ضرورت۔ 1977ء میں ایک تحریک نظام مصطفیٰ چلی۔ عوام نے جانوں کی قربانیاں دیں۔ جیلیں بھر گئیں مگر کرسی درمیان میں پھر آگئی اور اب نام تو دین کا لیا جاتا مگر پس پردہ اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ تنظیمیں اور تحریکیں مایوسی کے دور سے گزر رہی تھیں کہ گیارہ فروری 1979ء کو حضرت امام خمینی (رح) نے شاہ ایران کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا اور نظریہ ولایت فقیہ کو متعارف کروایا۔ امام خمینی (رح) کے اقدام و افکار اور انقلاب اسلامی کی کامیابی نے دنیا کے تمام مایوس اسلامی قوتوں کو روشن امید نظر آئی۔ اس انقلاب اسلامی کے جو اثرات مرتب ہوئے، ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

حکومت اسلامی ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، جسے عملی طور پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ علماء کرام جنہیں ہر طرح کی تبدیلی کے لیے دیگر قوتوں کی طرف دیکھنے کی عادت تھی، ان میں اعتماد پیدا ہوا کہ یہ کام تو وہ خود بھی کرسکتے ہیں۔ علماء کرام بھی تبدیلی کی علامت بن کر ابھرے۔ ملک میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے مذہب نے ایک موثر عنصر و طاقت کی حیثیت سے کردار ادا کیا۔ طاقت کا سرچشمہ عوام کے ساتھ مذہب اور دین بھی ٹھہرے۔ سوشلزم اور کیمونزم کی طرف دیکھنے والوں نے خود اپنی طرف دیکھا تو اسلام ازم میں وہ سب کچھ نظر آیا، جو ایک خوش حال اور باوقار معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ علماء کی کی عزت و تکریم کی جانے لگی۔ علماء کی قیادت میں آگے بڑھنے کی تگ و دو ہونے لگی۔ انقلاب اسلامی نے عام عوام کو جو شعور بخشا، وہ اتحاد بین المسلمین کے فروغ کا ہے۔ اس شعور سے جہاں مسلمانوں کو ایک امت محمدی بننے کی راہ دکھلائی، جب مسلم دانشور ایک دوسرے سے ملنے لگے اور ایک دوسرے کے نظریات سے آشنا ہوئے تو خود بخود دوریاں کم ہوئیں اور محبتیں بڑھنے لگیں۔

جب انقلاب اسلامی کا سورج طلوع ہؤا، اس وقت "القدس کی آزادی” امت محمدی کا ایک بڑا مسئلہ تھا، جسے فقط زبانی حمایت تک محدود رکھا گیا تھا۔ انقلاب اسلامی نے اسے مرکزی نکتہ قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ یہ اعلان فقط زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے شعور کو اجاگر کرنے کے لیے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا، اسے یوم اللہ قرار دیا۔ اس دن مظاہروں کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اجتماعی آواز بلند ہوتی ہے۔ قرار دادوں کے بجائے جہاد سے اپنے مقبوضہ علاقے حاصل کرنے کے لیے نوجوانوں میں نیا جذبہ پیدا کیا۔ فلسطین کے اندر سے جو جذبہ بیدار ہؤا، اس نے جنگوں کی تاریخ میں منفرد باب رقم کیا۔ فلسطین کی بلا مشروط حمایت کے ردعمل کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، مگر ان کے موقف میں ذرا بھر فرق نہیں آیا۔ کشمیری مظلومین کے حق پر پاکستان کے علاؤہ اگر کہیں سے جان دار آواز بلند ہوتی ہے، وہ رہبر انقلاب اسلامی کی گرج دار آواز ہے۔

انقلاب اسلامی ایران نے لاشرقیہ، لا غربیہ کے بجائے اسلامیہ جمہوریہ کا انقلاب آفریں نظریہ دیا۔ یوں دنیا میں تیسری قوت کا عملی اظہار ہوا۔ شرق و غرب کی تقسیم میں پھنسے ہوئے عوام کو روشنی کی کرن دکھائی دی۔ انہوں نے اپنے ممالک میں اس تبدیلی کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ افغانستان کے جہاد کے پس منظر میں روشنی اسی منبع سے پھوٹتی نظر آئی۔ دنیا کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ معاشی، فوجی اور ثقافتی بندھنوں سے آزادی کی تحریکیں ہر ملک میں سر اٹھانے لگیں۔ بعض جگہ کامیاب ہوئیں اور بعض ممالک اسی تگ و دو میں ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک مسلسل و متواتر مختلف پابندیوں کی جکڑن میں ہے۔ ان ناروا پابندیوں نے اس انقلاب کی سرزمین کو خود انحصاری کی راہ پر ڈال دیا ہے۔

دنیا کی کونسی ٹیکنالوجی ہے، جس میں ایران نے پیشرفت نہیں کی۔ مشکلات میں اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ بہت سی سازشیں اچھی حکمت عملی سے ناکام بنائیں۔ اس سب میں بڑا کردار انقلاب اسلامی کے رہبروں کا ہے۔ جن میں سرفہرست حضرت امام خمینی (رح) اور رہبر معظم سید علی خامنہ ائ کا مثالی کردار ہے۔ بڑی سے بڑی مشکل رہبر معظم کا ایک فقرہ ان مشکلات کا حل پیش کر دیتا ہے۔ واقعی قیادت کا کردار کسی قوم کو اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔ یہ نعمت ایران کے عوام کو حاصل ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کا ایک پہلو اس کا علمی روشن چہرہ ہے۔ قرآن مجید کی ترویج و اشاعت و تفسیر میں امت اسلامیہ میں ایک اہم مقام ہے۔ علوم اسلامی میں تحقیق و تحریر و اشاعت میں قدیمی ماخد کو  جدید خطوط پر مرتب کرکے شائع کیا۔

جدید مسائل پر اجتہادی حل پیش کیا۔ نئی نسل اور جدید تعلیم کے نوجوانوں کے باعث رغبت و اطمینان کا باعث بنا۔ گو کہ اس مثبت اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے دنیا بھر کی استعماری طاقتوں نے سر توڑ کوششیں کیں، مگر انہوں نے منہ کی کھائی۔ اس سے انقلاب اسلامی کو پڑھنے، سمجھنے اور حقائق تک پہنچنے کے راستے ہموار ہوئے۔ ہمارے پیارے ملک میں جو بھی اسلامی حکومت کے لیے سعی کر رہا ہے، اس کی نظر میں انقلاب اسلامی ایران ہی باعث تقویت ہے۔ انقلاب اسلامی ایران تیزی سے گولڈن جوبلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اللہ کرے، یہ مبارک موقع دیکھنے کے لیے ہم بھی زندہ ہوں۔ آمین ثم آمین

Share this content: