امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ایک نگاہ بازگشت
آج 22 مئی 2021ء ہے، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا آج پچاسواں یوم تاسیس ہے اور آج سے یہ تنظیم پچاسویں برس میں داخل ہوگئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کا ایک خاص مقام ہے اور معاشرے کی مجموعی حرکت میں ابھی اس کا مقام باقی ہے۔ ملک بھر میں اس کے فعال اور پرجوش کارکن، اس کے ادارے اور اس کے پروگرام اس امر کی حکایت کرتے ہیں کہ تاریخ سازی میں اس تنظیم کا کردار ابھی باقی ہے۔
اس تنظیم کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں اور کئی اہم پہلوئوں پر گفتگو کی گنجائش بھی موجود ہے، تاہم اس مضمون میں ہم اس کے بعض اہم پہلوئوں کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شیعہ مسلک کے نوجوانوں کی ایک ملک گیر نمائندہ تنظیم ہے، تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں اس کا بہت نمایاں کردار رہا ہے۔ اس کا کوئی پروگرام اور کوئی کام ایسا نہیں رہا جسے فرقہ وارانہ قرار دیا جاسکے۔ یہ نکتہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ایک مسلمان کسی خاص مسلک کی طرف رجحان رکھتا ہو اور کسی خاص مسلک کو اپنے فہم کے مطابق دوسرے مسالک پر ترجیح دیتا ہو، لیکن وہ مسلکی تفریق میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے تمام مسالک کے مابین قربت اور اتحاد کے لیے آرزو مند ہو اور اس کے لیے کوشاں ہو۔ آئی ایس او تنظیمی اعتبار سے اس نظریے اور فکر کی نمائندہ ہے۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ابتداء ہی سے کردار سازی اور اعلیٰ اخلاقی تربیت کی علمبردار رہی ہے۔ پاکستان کے لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جنھیں متدین بنانے میں آئی ایس او کا اہم کردار ہے۔ معاشرے میں نیکی اور پرہیزگاری، خدا خوفی، خدمت خلق اور سچائی کی ترویج میں آئی ایس او کے نقش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
عصری تعلیم کے شعبے سے بھی آئی ایس او نے صرفِ نظر نہیں کیا۔ آئی ایس او کے اعلیٰ ترین عہدے داروں نے تعلیم کے میدانوں میں بہترین روایتیں قائم کی ہیں۔ تعلیم کے تمام شعبوں سے فارغ التحصیل اس کے اراکین آج ہر شعبے کے ماہرین میں ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیکل کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ کا، قانون کا شعبہ ہو یا علوم انسانی کا، مذہبی تعلیم کا شعبہ ہو یا سائنسی علوم کا کوئی بھی اور شعبہ، آئی ایس او کے فارغ التحصیلان ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آئی ایس او میں کہا جاتا ہے کہ جو اچھا طالب علم نہیں ہے، وہ آئی ایس او کا اچھا ممبر نہیں ہے۔ اس نظریے کی تاثیر یہ ہے کہ آئی ایس او کے اہم عہدوں پر رہنے والے افراد نے اپنے شعبہ تعلیم میں بالعموم نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آئی ایس او کے بہت سے ساتھی گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ تعلیم، تدریس اور تحقیق کے مختلف شعبوں میں آئی ایس او کے سابقین ملک کے مختلف حصوں میں اور بیرون ملک بھی خدمات انجام دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
معاشرے میں اچھے دینی، مذہبی اور ادبی لٹریچر کی ترویج میں آئی ایس او کے ساتھیوں کا ہمیشہ سے اہم حصہ رہا ہے۔ معیاری دینی لٹریچر انہی جوانوں کے ذریعے لاکھوں گھروں میں پہنچا ہے۔ مختلف موضوعات پر اچھی کتابیں ان کے ذریعے نہ فقط معرض وجود میں آئی ہیں بلکہ انسانی فکر کی ساخت و پرداخت میں ان کتابوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئی ایس او کے وہ احباب جو دینی تعلیم کی طرف چلے گئے، انھوں نے اچھے اور معیاری دینی اور تحقیقی مراکز قائم کیے ہیں۔ تمام دینی اور تربیتی موضوعات پر ان کی لکھی ہوئی یا ترجمہ کی ہوئی کتابیں گھر گھر پہنچی ہیں اور پہنچ رہی ہیں۔ ان کے ذریعے جدید تعلیم یافتہ افراد کے ذہنوں میں دین کے حوالے سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کے قانع کنندہ جوابات پہنچ رہے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں بھی آئی ایس او کے جوانوں اور سابقین کا اپنا ایک مقام ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں نمایاں ادیبوں اور شعراء میں جستجو کی جائے تو آئی ایس او کے سابقین کی ایک قابل ذکر تعداد دکھائی دے گی۔
ملک میں بہت سے اچھے خطیب ایسے ہیں جنھوں نے خطابت کا فن آئی ایس او میں اپنے کیرئیر کے دوران میں سیکھا ہے۔ صحافت کی دنیا بھی آئی ایس او کے ساتھیوں سے خالی نہیں ہے۔ آئی ایس او نے اچھے قلم کار، تجزیہ کار، رپورٹر، ایڈیٹر اور اینکرز پیدا کیے ہیں۔ اس میں قابل افتخار بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر ان کا رول معاشرے میں خیر کی ترویج اور سچائی کی اشاعت کی راہ مستقیم پر دکھائی دیتا ہے۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن عالمی حالات سے کبھی بھی بیگانہ نہیں رہی بلکہ شاید کہا جاسکتا ہے کہ یہ امر آئی ایس او کے امتیازات میں سے ہے کہ اس نے عالم اسلام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام اور انسانیت کے دشمنوں کی چالوں سے معاشرے کو باخبر رکھنے کے لیے ہمیشہ جرأت مندانہ اقدامات کیے ہیں۔ اس نے معاشرے کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ہے۔
پاکستان میں ملک گیر سطح پر طلبہ تنظیمیں ایک ہاتھ کی انگلیوں کے برابر بھی شاید نہ ہوں۔ تاہم آئی ایس او ان میں سے ایک ہے اور بہت نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس او میں نہ فقط یہ کہ لسانی اور علاقائی تفریق کا نام و نشان نہیں ہے بلکہ اس تقسیم کے خاتمے میں آئی ایس او کا ہمیشہ سے ایک مثبت کردار رہا ہے۔ علاقائی ثقافتوں کے تمام رنگ آئی ایس او کے اندر اس طرح سے موجود ہیں جیسے ایک گلشن میں مختلف رنگ اور مہک کے پھول ہوتے ہیں اور سب آرائش گلستاں کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرتی تفریق کے خاتمے میں آئی ایس او کی خدمات بے مثال ہیں۔ بلاتفریق تمام اراکین کو ترقی اور پیش رفت کے مواقع مہیا ہونے کی وجہ سے معاشرے کے پسے ہوئے اور پسماندہ گھرانوں کے جوانوں کو بھی اس میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے، یہاں تک کہ ایسے گھرانوں کے بہت سے افراد تنظیم کے نمایاں ترین عہدوں پر جا پہنچتے ہیں۔
امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے پاکستان کے استحکام، ترقی، ملک کے تمام طبقوں میں ہم آہنگی اور ایک جامع خوشحالی کو ہمیشہ اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان میں قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ آئی ایس او بذات خود ایک جمہوری روایت پر قائم تنظیم ہے۔ ہر سال اس کی تمام سطحوں پر دستور کے مطابق انتخابات ہوتے ہیں، لہٰذا یہ تنظیم ملک میں بھی قانون اور آئین کی بالادستی کے ساتھ ساتھ جمہوری تسلسل کی علمبردار ہے۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو حکیم الامت علامہ اقبال اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے افکار کے مطابق چلانے اور ان کی تعلیمات کو عام کرنے پر زور دیتی ہے۔
امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے انسانی خدمت کے مختلف شعبوں میں ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیکل ایڈ کے کئی ادارے قائم ہیں۔ ضرورت مند طلبہ کی امداد کے ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ بعض ادارے باقاعدہ تنظیمی سیٹ اپ کا حصہ ہیں اور بعض آئی ایس او کے سابقین نے خدمت خلق کے جذبے سے قائم کر رکھے ہیں۔ سیلاب اور زلزلے جیسی قدرتی آفات کے موقع پر آئی ایس او کے ساتھیوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دی ہیں۔ کرونا کی وبا کے پھیلائو سے لے کر آج تک آئی ایس او کے سابقین کے قائم کردہ ادارے معاشرے میں بلاتفریق انسان دوستی کے جذبے سے مصروف خدمت ہیں۔ آئی ایس او کا سکائوٹنگ کا شعبہ بھی ہمیشہ مصروف خدمت رہتا ہے۔
سادگی، خدمت، نمائش سے پرہیز، خدا دوستی اور صداقت آئی ایس او کا شعار ہی نہیں بلکہ پہچان بھی ہے۔ ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئی ایس او ایک شجرۂ طیبہ ہے جس کے پھل، پھول اور شاخیں معاشرے میں خیر، فلاح اور صلاح کی ضمانت ہیں۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کے ذمہ دار اداروں نے آئی ایس او کی وہ قدر نہیں کی، جس کی یہ حق دار ہے۔ معاشرے میں اتنا بھرپور مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے والی تنظیم کو محبت سے سینے سے لگانے کی ضرورت تھی۔ افسوس ہم نے اس ملک میں ایسا نہیں دیکھا۔ عموماً مسلمان کسی خاص مکتب سے وابستہ تو ہوتے ہی ہیں، اصل بات یہ ہے کہ اس کے باوجود معاشرے میں ان کا کردار کیسا ہے۔ اگر آئی ایس او شیعہ گھرانوں کی دینی تربیت نہ کرتی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لاکھوں، کروڑوں گھرانوں کے یہ فرزند جو آج معاشرے کے لیے مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، ان کا کردار ملک و قوم کے لیے کیسا ہوتا۔
ہمارے ریاستی اداروں نے عالمی سیاست کی جن جکڑبندیوں کو اختیار کر رکھا ہے، ان کی بنا پر سوچ کے بعض زاویوں میں اختلاف ایک قدرتی اور فطری امر ہے۔ البتہ بدلتے عالمی حالات کے پیش نظر ریاستی اداروں کی حکمت عملی بھی تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے، جس کی بنا پر سوچ کے زاویوں میں ہم آہنگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس موضوع پر ہم یہاں اتنا ہی اشارہ کافی سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ بات ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ عالمی سیاست کے بارے میں آئی ایس او کا نقطہ نظر وطن دوستی اور حق شناسی کی بنیاد پر ہے۔ آنے والے حالات اس حقیقت کو مزید واشگاف انداز سے ثابت کر دیں گے، ان شاء اللہ۔
Share this content: