صدر رئیسی کے دورہ پاکستان کی اہمیت اور وقت

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ چند ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ایران سے درآمدات میں اضافہ ہوا، نئی حکومت کے پہلے ماہ ایران سے سالانہ بنیادوں پر درآمدات میں 25 فیصد کا بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایران سے درآمدات 16 فیصد بڑھ گئیں، مارچ 2024ء میں ایران سے درآمدات کا حجم 9 کروڑ 56 لاکھ ڈالرز رہا۔ ذرائع نے بتایا کہ مارچ 2023ء میں ایران سے درآمدات 7 کروڑ 64 لاکھ ڈالرز تھیں، فروری 2024ء میں ایران سے درآمدات کا حجم 8 کروڑ 61 لاکھ ڈالرز تھا، جولائی تا مارچ ایران سے درآمدات 77 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز ریکارڈ کی گئیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال اسی مدت میں ایران سے درآمدات کا حجم 66 کروڑ 91 لاکھ ڈالرز تھا، اقتصادی پابندیوں کے دوران تین سالوں میں ایران کے لیے پاکستانی برآمدات صفر رہیں، امریکی پابندیوں کے باعث بینکنگ چینلز کا نہ ہونا برآمدات صفر رہنے کی بڑی وجہ ہے۔

صدر ایران حجت الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی جو اس وقت پاکستان کے تین روزہ دورے کے سلسلے میں پاکستان میں موجود ہیں، انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے ہمراہ پریس بریفنگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کے مابین اقتصادی و تجارتی حجم ناکافی ہے۔ اس حجم کو اگلے پانچ برسوں میں 10 بلین ڈالر تک بڑھایا جانا چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد موجود ہے، جو تجارتی ارتقاء کے لیے ہمارے پاس بہترین موقع ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی عوام بالخصوص سرحد پر رہنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر دھیان دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے ہمراہ ایران پاکستان سرحد کا ایک مختصر دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ سرحدی منڈیوں میں وسعت کا باعث تھا۔ اس کام کو مزید توسیع دی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں بارڈز کی سکیورٹی اور عوام کی فلاح کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ مجھے اسلام آباد آنے پر خوشی ہو رہی ہے۔ پاکستانی شریف اور دین دار قوم ہیں، میں ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اُس پاکستانی قوم کو سلام پیش کرتا ہوں، جو ہمیشہ اسلام اور اسلامی اقدار کا دفاع کرتی ہے، جو مظلومین غزہ و فلسطین کے حق میں باہر آتی ہے، جو پاکستان کے گلی کوچوں میں قدس کی آزادی کے نعرے لگاتی ہے اور ہمیشہ حق و انصاف کے لیے آواز اٹھاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس چیز نے دنیا بھر کے لوگوں کو مشتعل کر دیا ہے، وہ یہ کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ سلامتی کونسل اپنا کام انجام نہیں دے رہی۔ دنیا کے مسلمان اور آزاد سوچ کے حامل اس سے تنگ آچکے ہیں۔ اس عالمی بے انصافی پر پاکستان کی قوم اٹھ کھڑی ہوگی اور یہ امر عالمی انصاف کی بنیاد بنے گا۔

ڈاکٹر رئیسی نے کہا کہ ہم اپنے دوست، بھائی اور پڑوسی پاکستان کے صرف ہمسایے ہی نہیں بلکہ ہمارے درمیان تاریخی، ثقافتی اور گہرا دینی رشتہ ہے، جس نے ہم دو عظیم اقوام کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ یہ رشتہ اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بے شمار نسبتیں موجود ہیں کہ جن کو زندہ رکھ کر دونوں ممالک اور عوام کو نفع پہنچایا جا سکتا ہے۔ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اقتصادی، سیاسی، تجارتی اور ثقافتی سمیت مختلف شعبوں کو وسعت دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے دونوں ممالک کا موقف ایک ہی ہے۔ ہم دونوں بدامنی، منظم منشیات فروشی اور دیگر جرائم سے لڑنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ ہمارا مشترکہ نقطہ نظر ہے۔ ایک جملے میں کہتا ہوں کہ انسانی حقوق کا دفاع دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا محور ہے، چاہے یہ تعاون دوطرفہ ہو، علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ایران اور پاکستان کے مابین ہم آہنگی کو پسند نہ کریں، مگر یہ اہم نہیں۔ جو چیز اہم ہے، وہ یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی نمائندگی میں یہ تعاون جاری رہنا چاہیئے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس تعاون کی سطح کو مزید بڑھائیں گے۔ اپنے تین روزہ دورے کے پہلے روز صدر ایران ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر کے علاوہ اہم حکومتی عہدیداروں اور شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں صدر کی اہلیہ اور بیٹی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ ان خواتین نے بھی خواتین کے متعدد اجتماعات میں شرکت ہے۔ اس دورے میں صدر رئیسی کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی موجود ہے، جس نے حکومت پاکستان کے ساتھ سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات، دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں اضافے، نئے اقتصادی زونز قائم کرنے سمیت آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔

صدر رئیسی نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے خصوصی ملاقات کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بتایا کہ کہ آرمی چیف اور ایرانی صدر نے علاقائی استحکام، اقتصادی خوشحالی کے لیے مشترکہ کوششوں اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات کے موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاک ایران بارڈر دوستی اور امن کی سرحد ہے، پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے مزید کہا ہے کہ دہشت گرد پاک ایران تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، دونوں ملکوں میں بہتر روابط سے دہشت گرد اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں مسلح افواج کے درمیان تعاون کے فروغ سے دونوں ممالک اور خطے میں امن و استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

صدر ایران اپنے تین روزہ دورے کے سلسلے میں آج مزار اقبال پر گئے، اسی طرح انھوں نے جی سی یونیورسٹی لاہور میں بھی طلبہ سے خطاب کیا۔ مزار اقبال پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ کو نئی راہ دکھائی، جیسے آپ کو اپنی قوم پر ناز ہے، ویسے ہمیں بھی اپنی قوم پر ناز ہے، ہمیں اپنے مجاہدین پر بہت زیادہ ناز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سپریم لیڈر بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جنگ میں غزہ اور فلسطین والے جیتنے والوں میں سے ہوں گے، اس جنگ میں تباہی صیہونیوں اور اسرائیلیوں کی ہوگی، غزہ سے متعلق اصولی موقف پر پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں آکر اجنبیت کا بالکل احساس نہیں ہوا، خواہش تھی کہ پاکستان میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتا۔

صدر ایران کے اس دورے کا وقت اگرچہ پہلے سے متعین تھا، تاہم “وعدہ صادق” کے بعد اس دورے نے اور بھی اہمیت اختیار کر لی۔ ایران کے اسرائیل کے خلاف حملے کے بعد ایرانی صدر مملکت کا یہ پہلا بیرون ملک دورہ ہے۔ اس حملے کے اثرات اس دورے میں محسوس ہوئے۔ پاکستانی قوم اور حکومت کا ایرانی صدر کا استقبال اس امر کی غمازی کر رہا تھا کہ عوام پاکستان ایران کے اس جرات مندانہ اقدام سے خوش ہیں۔ سوشل میڈیا پر استقبالی پوسٹیں، علماء و زعمائے ملت کی صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ نشستیں، خواتین کی نشستیں سبھی بھرپور تھیں۔ سیرینا ہوٹل میں صدر رئیسی کے خطاب کے دوران تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی عوامی اجتماع ہے۔ استقبالیہ نعرے اور شعار اس نشست کا خاصہ تھے۔

اگرچہ صدر رئیسی اور پاکستانی عوام کی خواہش تھی کہ ان کی براہ راست ملاقات بھی ہوتی، تاہم سکیورٹی وجوہات کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان میں بھی ایک عرصہ سے کسی بھی ملک کے سربراہ کی آمد نہیں ہوئی ہے، یہ دورہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے ایک اچھی نوید ہے۔ ایران اپنے اوپر عائد پابندیوں کا سامنا علاقائی اور ہمسایہ ممالک سے تجارت کو فروغ دے کر، کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی میں اسے خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ایران کے ہمسایہ ریاستوں سے تجارتی روابط پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوچکے ہیں اور پابندیوں کے باوجود ریکارڈ زرمبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔

پاکستان اور ایران کی تجارت میں بہتری کے آثار ایک خوش آئند امر ہیں، صدر رئیسی کا یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین بلوچستان میں ہونے والی ایک معمولی جھڑپ کے بعد انجام پایا ہے۔ اس دورے میں صدر ایران کو ملنے والی اہمیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس غلط فہمی نے دونوں ممالک پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑا۔ دنوں ملک کی قیادتیں اپنی ہمسائیگی کے حقوق اور ایک دوسرے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یقیناً دونوں ممالک کے مایبن تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہیں، اگر خلوص نیت سے کام کیا جائے تو دونوں ممالک اپنے عوام کی بہت سے مشکلات ایک دوسرے کی مدد سے حل کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں خطے کے لیے بھی یہ ممالک اپنا کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔