قرآن کے ساتھ دوسرے نظریات کو ملانے کی اصلاح
ڈاکٹر علی عباس نقوی
مقدمہ:
سورتوں اور آیتوں کے سلسلہ میں تجزیہ و تحلیل کے دوران ایک مشکل جو پیش آتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ انسان اس مشکل کو اچھی طرح محسوس بھی نہ کر سکےاور اس میں گرفتار بھی رہے وہ قرآن کے اپنے فکری نظام کی تطبیق سے متعلق ہے۔
مثلاً۔ انسان کے بارے میں سورہ بلد کی اس آیت سے کیا سمجھتے ہیں؟
لقد خلقنا الانسان فی کبد ہم نے انسان کو محنت و مشقت میں رہنے والا بنایا ہے۔
اگر جواب یہ ہو
•میں نے اسلامی مدارس کی ایک بہت بڑی شخصیت سے سنا ہے ان کی کتاب میں پڑھا ہے کہ سختیاں اٹھانا انسان کی طبیعت میں نہیں ہے۔اس لئے آیت کا مطلب سختی اٹھانا تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔
•انسان سختیاں اٹھانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ دوسرے مکاتب فکربھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں (جب کہ آیت رنج اٹھانے کے بارے میں نہیں ہے)
ان مثالوں سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ یہاں پر قرآن پڑھنے والا قرآن کی بیان کردہ بات اور جو کچھ اس نے پہلے سے جان رکھا ہے سن رکھا ہے یا پڑھ رکھا ہے کے درمیان مقائسہ کر رہا ہے اور اسی موازنہ کی بنیاد پر طے کر رہا ہےکہ کیا غلط ہے کیا صحیح ہے۔
جب کہ ہمیں چاہیٔے کہ جب ہم قرآن میں تدبر کریں اس کی آیات میں غور و فکر کریں تو سب سے پہلے مرحلہ میں ہم خود قرآن کی بات کو سمجھیں اور اس کو درک کریں۔ اور اس سے کسی دوسری بات جو سن رکھی ہے یا پڑھ رکھی ہے سے مقائسہ نہ کریں۔ جب ہم قرآن کریم کا مقصود درک کر لیں تو پھر اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو دوسروں کے کلام کا اس قرآن کریم سے مقائسہ کریں۔
اگر کوئی قرآن کو سننےسمجھنے سے بیشتر ہی دوسروں کے کلام کا قرآن سے مقائسہ کرے یا اس سے ارتباط کی راہیں تلاش کرے تو وہ بہت بڑی فکری غلطی کر رہا ہے۔ قرآن اور تفکر قرآن کی بارگاہ میں طہارت ذہنی کے ساتھ کسب مطالب کے لیے آنا بے انتہا ضروری ہے اس لیے ذہن کا تزکیہ اور اس کی مکمل صفائی ضروری ہے
اور جب انسان صحیح راہ سے بارگاہ قرآن میں آئے گا تو تفکر کے دروازے اس پر کھلے گیں اور اعجاز قرآن کے نئے نئے دریچہ اس کے ذہن میں وا ہوں گے۔
قرآن سیکھنے میں سب سے بڑی اور اہم رکاوٹ جلد بازی ہے۔جلد بازی کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہ ہے کہ انسان کلام خدا اور کلام غیر خدا کو بغیر سمجھے ہی آپس میں مرتبط کرنے لگتا ہے۔
بعض لوگ جیسے ہی کسی آیت کا مطالعہ کرتے ہیں اس کے کسی ایک کلمہ یا لفظ یا کسی عبارت کو دیکھتے ہیں فوراً کسی دوسرے نظریات کی طرف ان کا ذہن منتقل ہو جاتا ہے جس کو وہ اپنے گمان میں قران جیسا سمجھتے ہیں اور پھر وہ اس آیت کو اس نظریے سے جوڑنے لگتے ہیں۔ نتیجہ میں پروردگار کےمقصودِ اصلی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ خطا کبھی سیکھتے وقت کبھی استنباط شدہ مطالب کو لکھتے وقت تو کبھی مجموعی پیغام کی تنظیم و ترتیب کے وقت نظر آتی ہے ۔
آیات اور سورہ کے مطالعہ کے وقت توجہ صرف قرآنی مطالب کی طرف مرکوز رہنی چاہیئے اور اپنی فکری ہدایت کے لیے صرف قرآن کو اپنا ہادی اور رہنما بنانا چاہیے اور خود قرآن سے ہی استخراج مطالب کی سعی ہونی چاہیے۔
انسان اس طرح سے خلق ہوا ہے کہ اس کے اختیاری اعمال اس کے مجموعہ افکار کا حاصل ہوتے ہیں اور اس لئے انسان کے افکار ہی اس کے اعمال کا مقدمہ بنتے ہیں اگر افکار میں ذرہ برابر بھی نقص ہوا تو اعمال میں اس نقص کی جھلک دیکھنے کو ملے گی، اس لیے اعمال صالحہ کے لیے افکار صالحہ کی ضرورت ہے۔
اور افکار کی صحت کے لیے قرآن مجید بہترین مرجع ہے اس لیے قرآن کی طرف مراجعہ کرنے سے پہلے ذہن کا ادھر ادھر کی بڑی چھوٹی تمام باتوں سے خالی ہونا ضروری ہے اور خانہ ذہن میں صرف قرآن کریم کی آیات کا چراغ جلانا لازم ہے۔
ان باتوں سے فکری تصفیہ کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے ذہن کو مذکورہ مقائسہ سے محفوظ رکھنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے ذہن کو اس بے جا مقائسہ و موازنہ کی آفت سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں دو کام کرنا ہو گا۔
ایک :- دامن ذہن کو آیات کے سلسلہ میں تمام سنے سنائے فرضی باتوں سے پاک و صاف کرنا۔
دوسرا :- ہر روز خود کو زیادہ سے زیادہ قرآن کے مخصوص لہجے اور انوکھے انداز بیان سے نزدیک کریں مزید آشنائی حاصل کریں ۔
١-غیر مناسب فرضیوں سے خالی ہونا
جب انسان اپنے ذہن کو پہلے سے ہی دوسرے بہت سارے فرضی باتوں کی آماجگاہ بنا کے قرآن کی بارگاہ میں آتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنی سمجھ اور ان فرضی اقوال کو قرآن کا نام دے دیتا ہے۔
اس آفت سے بچنے کے لئے قرآن کے حضور خالص ہوکے آنا ہوگا۔ تدبر کے لیے ہمیں اپنے ذہن کو ہر طرح کی تقاریر، نظریات، فرضی نظریات اور کتابوں وغیرہ سے خالی کر کے قرآن کے مفاہیم کے حوالے کرنا ہو گا۔
ہمیں قرآن پر اطمینان اور یقین ہونا چاہیئے اور یہ چیز ہمیں کلام خدا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس یقین اور اطمینان کے سبب انسان غلطی سے بھی دوسرے نظریات کو قرآن پر ترجیح دینے سے بچ جاتا ہے ۔ اس موضوع پر ہم گزشتہ فصل میں گفتگو کر چکے ہیں۔
٢-کلمات قرآن کریم کے حروف سے آشنائی
ہر متن کچھ کلمات سے تشکیل پاتا ہے اور اس متن کو لکھنے یا ایجاد کرنے والا ان کلمات کو اپنی علمی سطح کے اعتبار سے بانتخاب کرتا ہے متکلم یا مصنف اپنے علم کے اعتبار سے جتنا جتنا بلند ہوتا جائے گا اس کے کلمات کے انتخاب میں مضبوطی آتی جائے گی۔
واضح ہے کہ قرآنی متن کے بارےمیں یہ بات اپنا کامل ترین مصداق پا تی ہے ۔چنانچہ قرآنی عبارتوں کا موجد لا متناہی علم و حکمت والا ہے ۔اس کے منتخب کردہ کلمات و جملات کا کوئی متبادل قابل تصور نہیں ۔دوسرا کوئی بھی متن اس سے مقایسہ کے لائق نہیں ہے۔ اس بنیاد پر قرآن کا ہر کلمہ اپنا ممتاز انداز رکھتا ہے اور قرآن مخصوص ہے جس کو سمجھنا پہچنا ضروری ہے ۔ اس راہ میں خود قرآن ہی اپنے الفاظ کی بہترین تبیین و تشریح کرنے والا ہے۔ قرآن کا اپنا یہ خاص طریقہ عربی لغت ، خود قرآن کریم اور کبھی کبھی ان روایات کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے ۔اس لئے لازم ہے کہ لغت کے مراجعہ کے ساتھ ساتھ قرآن کا مسلسل مطالعہ کیا جائے تاکہ قرآن میں اس لفظ کے زیادہ غالب معنی کو حاصل کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں کسی مرد آگاہ سے مدد لی جاسکتی ہے۔
کلمات کےمخصوص معنی کی طرف توجہ ، انسان کو کلمات کی ترکیب کے ذریعہ ایجاد ہونے والے خاص معنی اورتعبیر تک پہنچاسکتی ہے اور ان تعبیرات اور اصطلاحات کا علم آیات میں مسلسل تفکر اور بار بار قرآن کریم کی طرف مراجعہ سے حاصل ہوتا ہے۔
٣-قرآنی موضوعات کے باطنی ارتباط پر توجہ
قرآن میں متعدد موضوعات بیان ہوئے ہیں اور ان کے درمیان باہمی ربط و تعلق کا ایک وسیع سلسلہ ہے ان تک رسائی صرف اور صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے قرآن کریم سے انس و لگاؤ۔ قرآن سے مانوس ہونے کے بعد ہی بعد ہی انسان موضوعات قرآن کے درمیان موجود نظم کا عرفان حاصل کرسکتا ہے۔
موضوعات کے درمیان پایا جانے والا یہ نظم کوئی پیچیدہ یا مبہم چیز نہیں ہے بلکہ اس نظم و ارتباط کو اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ موضوعات کے بارے میں ایسا صحیح اور کامل علم حاصل کیا جا سکےجس کو میدان عمل میں بھی اپنایا جا سکے۔
اگر ایسا نہ ہو تو زندگی کے مسائل ان موضوعات سے متعلق نہیں ہو سکے گیں اور نہ ہی کسی مسئلہ کے سلسلہ میں کو کامل بات کہی جا سکتی ہے اور نہ ہی بہتر طریقہ سے عمل کیا جا سکتا ہے۔
٤-ایک سورہ اور دوسرے تمام سورؤں میں کسی ایک موضوع پر توجہ
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی چھوٹا سا حصہ پڑھنا انسان کی زندگی کی اصلاح کے لئے کافی ہے۔ یہ بات اگر چہ عظمت قرآن پہ نگاہ کرتے ہوئے صحیح ہے اور بہت سے لوگ ہیں بھی جنہوں نے اس طرح سے ہدایت پائی بھی ہے اور سعادت ابدی تک رسائی بھی حاصل کی ہے لیکن اگر اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان قرآن کے دیگر تمام حصوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ ایسا انسان جس نے قرآن کے ایک حصہ کو پڑھا اور ہدایت حاصل کی ابھی بھی دوسری ان تمام ہدایات و کمالات سے محروم ہے جس کو پروردگار نے قرآن کریم کے دوسرے تمام حصوں میں رکھا ہے۔ پروردگار عالم نے قرآن کو ایک مکمل کتاب کی شکل میں بھیجا ہے اس کی تمام آیتیں ، ساری سورتیں مجموعا ایسے علم کی حامل ہیں جس پر عمل سے انسانی زندگی سنورتی ہے ۔ اس لئے قرآن کریم کی کسی ایک آیت ، کسی ایک سورہ میں یا کسی ایک موضوع پہ غور و فکر کرنے اور بقیہ سے بے توجہ رہ کر انسان اپنی حقیقی ضرورتوں ، ان تک رسائی کے راستوں بلکہ کسی ایک موضوع کی بھی کامل معرفت حاصل نہیں کر سکتا ہے۔
خداوندعالم نے بعض موضوعات کو مختلف سوروں میں الگ الگ انداز بیان میں واضح کیا ہے اور اس طرح وہ موضوع کامل طرح سے دقیق اور گہرائی سے بیان کیا گیا ہے اس لئے کسی ایک سورہ میں کسی ایک موضوع پر غور و فکر کرنا اور بقیہ سوروں سے خود کو بے نیاز سمجھنا انحراف کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
٥- مقایسہ سے پہلے موضوع کو مکمل سمجھنا
کبھی کبھی علمی گفتگو اور خاص طور پر نظری بحثوں میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کسی موضوع کے متعلق جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے اسے کسی ایک خاص مکتب فکر یا کسی شخص کے تناظر میں دیکھا جائے اور مقایسہ کیا جائے لیکن یہ مقایسہ اسی وقت انجام دینا چاہئے جب اس موضوع کو پورے قرآن سے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔
٦-قرآن کے مخصوص اسلوب بیان کو سمجھنےکے لئے ایک مجوزہ لائمہ عمل
قرآن سے دائمی انس، قرآن میں تدبر کی مداومت سے حاصل ہوسکتا ہے مطالعات قرآنی کے عمیق مطالعہ کے لئے ایک معین اور مسلسل لائمہ عمل کا ہونا ضروری ہے
تدبر قرآن کی تعلیم دینے والی کتابوں کے مطالعہ کے درمیان مندرجہ ذیل طریقوں کو اپنا کر انسان اپنی زندگی کے مختلف موضوعات کے متعلق قرآنی نظریہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
۱- اپنی زندگی میں مطالعہ قرآن کی مداومت :
ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ قرآن سے انس کو اپنی زندگی کا جزء قرار دے مطالعہ قرآن کی ابتدائی کتاب کے میں اس کی صحیح راہ و روش بیان کی گئی ہیں۔
۲۔سورہ کے مطالب ومضمون کو سمجھنے اور اس کے پس منظر کی صحیح تحلیل نیز پہلے سےاپنے ذھنی فریضوں سے بچنے کا طریقہ : اس موضوع کے متعلق جلد دوم کی پانچویں اور چھٹے درس میں تفکر کی صحیح راہ و روش کو بیان کیا گیا ہے۔
۳- مفردات اور الفاظ قرآن کا گہرامطالعہ تاکہ قرآن کے مطالب پر گہرائی سے نظر کی جاسکے بالخصوص سوروں میں انکا خاص معنی اور استعمال۔
۴- قرآنی موضوعات کی خصوصیات اور باریکیوں کو سمجھنے کے لئے سوروں کا تفصیلی مطالعہ: تدبر کی راہ و روش سکھانی والی کتب کے مطالعہ کے دوران بہت سے سوروں کا گہرا مطالعہ انجام پا جاتا ہے ، جس کے نتیجہ میں باقی دوسرے سوروں کے صحیح اور دقیق مطالعہ کی روش سمجھ مین آ جا تی ہے۔
۵۔ قرآن سوروں کے ذریعہ اسلامی عقائد تک رسائی
تدبر کی راہ و روش سکھانی والی کتب کے مطالعہ کے درمیان سوروں میں بیان شدہ موضوعات کی بنیاد پر قرآن و عترت کی بتائی ہوئی توحید، ہستی شناسی، انسان شناسی، اور جامعہ شناسی کے مبانی کا مطالعہ بھی ہو جاتا ہے ۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ان موضوعات کی تعریف کہیں اور سے بیان کرتے ہیں اور ان کو اسلامی عقائد کا عنوان دے دیتے ہیں درحالیکہ قرآن ان بنیادی عقائد کو بیان کرنے کا حقیقی اور سب سے بہترین منبع و مصدر ہے۔قرآن کا ہر سورہ اپنے موضوعات کی تشریح و توضیح کے ساتھ ہم کو ان صحیح عقائد سے آشنا کرتا جاتا ہے جن پر ایمان لانا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
۶۔ قرآنی ابواب کا تفسیری مطالعہ
آیات کے بارے میں صحیح اور غلط نتیجہ کی تفہیم و تشخیص اور قرآن کا ایک جامع تجزیاتی نقطہ نظر حاصل کرنے کے لیے تفسیر المیزان کا مطالعہ کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
حضرت علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیری گفتگو کے دوران اسلام کے بنیادی نظریات کے بارے میں قرآنی نقطہ نظر سے بحث کی ہے ۔اگر کوئی اس کا عمیق مطالعہ کرےتو قرآن اور دین شناسی کے میدان میں تحلیل و تجزیہ کی زبردست صلاحیت والا بن سکتا ہے ۔ تدبر قرآن کے طریقوں کی کتب میں مطالعہ کرنے والے ان موضوعات سے واقف ہوتے جاتےہیں جن پر علامہ نے اپنی تفسیر میں گفتگو کی ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ان مطالب پر عبور حاصل ہوتا جاتا ہے۔ ان موضوعات پر تسلط کے لئے مسلسل اور منظم مطالعہ کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قرآن اور عقل
https://albasirah.com/urdu/quran-aur-aqal/
Share this content: