قائد اعظم اور کشمیر
محمد صادق جرال
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ان کی اہمیت کا اعتراف مخالفین بھی کرتے تھے ۔ قائد اعظم غیر معمولی انسان تھے۔ انہوں نے منتشرالخیال مسلمانوں کو یکجاء کیا۔ بیک وقت ہندو کی عیاری اور انگریز کی مکاری کا مقابلہ کیا۔ حسن سیرت اور کردار کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے ثابت کر دیا کہ ایک لیڈر اور سیاسی رہنماء کی زندگی بھی بے عیب ہو تی ہے۔ آپ کی صاف گوئی ، قوت فیصلہ اور جرأت نہیںمسلمانوں میں قومیت کا حقیقی شعور پیدا کیا۔ چرچل اور گاندھی کی چالوں کا صاف گوئی سے مقابلہ کیا۔ جھوٹی سیاست کو صاف ستھری سیاست سے مات دی۔ انہوںنے ثابت کیا کہ بڑے وسائل اور طاقتور حکمرانوں کا مقابلہ کم وسائل عزم اور یقین کامل سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے جیل جائے ، لاٹھی مارے اور کھائے بغیر آزادی کی جنگ آئینی حدود میں رہتے ہوئے لڑ کر مخالفین کو شکست دی۔
تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت سب سے بڑی اسلامی اور مدینہ شریف کے بعد دوسری نظریاتی ریاست کی بنیاد رکھی۔ قائد اعظم کشمیر اور کشمیری مسلمانوں سے بے پناہ محبت اوران پر اعتماد کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل کشمیر کے طویل دورے کیے جو کہ مہینوں پر محیط تھے۔ آپ نے آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس اور اس کے رہنماء رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کی رہنمائی اور سرپرستی کی۔ گاندھی اور نیشنلزم کے پیروکار شیخ عبداللہ کی سرزنش کی اور مستقبل کے خطرناک و نتائج سے آگاہ کیا۔ ان غلطیوں کا اعتراف شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب آتش چنار میں بھی کیا ہے۔ چوہدری غلام عباس کی جموں جیل سے رہائی اور پاکستان آمد کے بعد نہ صرف قائد اعظم نے خوشی کا اظہار کیا بلکہ عزت و مرتبہ عطاء کیا اور ان کی رائے کو ہمیشہ اہمیت دی۔ تحریک پاکستان کے دوران رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کو اپنے جانشینوں کی فہرست میں شامل کیا۔ کشمیر کے سپوت کے ایچ خورشید کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا جو کہ اہلیان کشمیر کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ جس کا اعتراف ہم سب کرتے ہیں۔ کشمیری مسلمان بھی آپ سے بے پناہ عقیدت و احترام کرتے تھے۔ قائد اعظم مملکت خدا داد پاکستان میں جمہوریت کے علمبردار تھے۔ مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے لیکن عمر نے وفا نہ کی۔ وہ ایک عظیم اعتدال پسند انقلابی رہنماء تھے۔
آج کے حکمران ان کے ہر پہلو سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ماضی میں ایسا نہ کیا گیا۔ آج ملک سیاسی ، آئینی ، معاشرتی اور بالخصوص اخلاقی اور مالی بحران سے دوچار ہے۔ جس سے ملک میں خلفشار ، بے چینی بڑھ رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کرپشن ، اقربا پروری ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت سیاست صنعت کا روپ دھار چکی ہے ۔ قائد اعظم کی مختصر حکومتی زندگی ہمارے لئے مثال ہے۔ مثلاً ان کے بھانجے جو بیرسٹر تھے ۔ پیر اکبر بھائی بمبئی میں وکالت کرتے تھے انہوں نے گورنر جنرل ہائوس کراچی میں ملاقات کی اور کہا کہ میں مستقل کراچی میں رہ کر پریکٹس کرنا چاہتا ہوں۔
قائد اعظم نے کہا کہ تمہاری اہلیت اور ہماری ضرورت کے باوجود میں تمہیں پاکستان میں کوئی عہدہ نہیں دے سکتا۔ پیر بھائی نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ملازمت کا خواہشمند نہیں ۔ الگ تھلگ رہ کر وکالت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے کہا میری قرابت کی وجہ سے اہل مقدمہ تمہارے حق میں رجوع خارج از امکان نہیں یوںبمبئی جا کر پریکٹس کرنے پر مجبور کیا۔ آپ کی پیاری بہن اور رفیق کار مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جنہوں نے تحریک پاکستان میں آپ کے شانہ بشانہ کام کیا۔ ان کی کوششوں سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ جس کا کئی بار قائد اعظم نے اعتراف بھی کیا لیکن فاطمہ جناح کو کوئی سرکاری عہدہ نہ دیا۔ قائد اعظم کے وزیر صنعت آئی آئی چندریگر کے بیٹے نے امپورٹ ، ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کیا۔ قائد اعظم کو پتہ چلا تو آپ نے چندریگر کو طلب فرمایا۔ کہا مسٹر چندریگر یا اپنی وزارت رکھیں یا اپنے بیٹے کا کاروبار،انہوں نے قائد اعظم کی رفاقت رکھی۔ بیٹے کا کاروبار ختم کرا دیا۔ ایسے ہی بے شمار واقعات ہیں کہ قائد اعظم کے رفقاء کار نے حکومتی عہدوں کے دوران کوئی منافع بخش کاروبار نہیں کیا۔ 1953ء تک پاکستان خود کفیل تھا۔ کسی ملک کا مقروض نہ تھا۔ آج وطن عزیز کی معیشت زبوں حالی کا شکار اور ہچکولے کھا رہی ہے۔ عوام کی ہمدردی کی آڑ میں کھلواڑ کیا گیا۔ موجودہ حکمرانوں کو عوام نے ملکی خزانہ واپس لانے کے لئے مینڈیٹ دیا ہے ۔ کشمیری اور پاکستانی قائد اعظم کی شخصیت اور عظمت کو سلوٹ اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کی خاطر اپنی صحت ، مال اور جان سب کچھ قربان کر دیا۔ آج تجدید عہد کا دن بھی ہے۔