×

پنجاب میں قتل و غارت اور فسادات، تذکرہ کیوں ضروری ہے؟

پنجاب میں قتل و غارت اور فسادات، تذکرہ کیوں ضروری ہے؟

سید اسد عباس

تحریر: سید اسد عباس

1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی کل آبادی بشمول خودمختار ریاستیں 3 کروڑ 39 لاکھ 22 ہزار 373 تھی۔ مسلمان53.2 فیصد تھے، جن میں مسلمانوں کے تمام مسالک اور احمدی جو اب مسلمان نہیں ہیں، وہ بھی شامل تھے۔ ہندؤوں کی آبادی 29.1 فیصد تھی، سکھوں کی آبادی 14.9 فیصد تھی جبکہ عیسائی 1.4 فیصد تھے۔ برطانوی پنجاب میں کل 29 اضلاع تھے، جو 2 کروڑ 84 لاکھ 18 ہزار 819 نفوس پر مشتمل تھے۔ ان اعداد و شمار سے اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندو، سکھ اور دیگر اقلیتیں پنجاب میں تقریبا 45 فیصد تھیں۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند کے نتیجے میں برطانوی پنجاب کا بھی بٹوارا ہوا، جو برصغیر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک کروڑ سے زائد انسانوں نے اپنا مال و اسباب، اپنے گھر، اپنی زمینیں اپنے اجداد کی میراث چھوڑ کر سرحد پار ہجرت کی۔

اطلاعات کے مطابق ان مہاجرین میں چالیس لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ مغربی پنجاب سے مشرقی پاکستان گئے اور اسی طرح تقریباً ساٹھ لاکھ کے قریب مسلمان مشرقی پنجاب اور دیگر ہندوستانی علاقوں سے مغربی پنجاب اور پاکستان آئے۔ اس نقل مکانی یا انسانی ہجرت کے دوران لاکھوں انسان قتل ہوئے، جن کا تذکرہ یا تو بہت کم کیا جاتا ہے یا پھر یک طرفہ کہانی سنائی جاتی ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر ہم پاکستان کے قیام کے لیے قربانیاں دینے والے ان مہاجرین کو یاد تو کرتے ہیں، تاہم ہم نے ان کے درست اعداد و شمار اکٹھے کرنے یا ان کے لیے کوئی اقدام کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔

“اس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی” ملی نغمے کا یہ شعر ان تمام تر قربانیوں کا احاطہ کرتا ہے، جو ہم نے پاکستان کے قیام کے لیے دی تھیں، تاہم اس میں وہ خون شامل نہیں ہے، جو ہم نے پاکستان کے قیام کے لیے ہندؤوں اور سکھوں کا بہایا تھا۔ پنجاب ہسٹری کانفرنس منعقدہ 2003ء میں پیش کردہ ارومان سنگھ جھبل کے مقالے کے مطابق مشرقی پنجاب میں مسلمان زیادہ قتل کیے گئے۔ پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرل آفتاب احمد خان، جو پنجاب باونڈری فورس کا بھی حصہ رہے، انہوں نے مشرقی پنجاب میں قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ بتائی۔ انگریز افسران کے مطابق ہجرت کے دوران قتل ہونے والوں کی کل تعداد 6 سے10 لاکھ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ 90 ہزار خواتین اغواء کی گئیں، جن میں سے کم ہی بازیاب ہوئیں۔

درج بالا گواہیوں کے تناظر میں اگر پانچ لاکھ مسلمان قتل ہوئے ہیں تو تقریباً اتنے ہی ہندو اور سکھ بھی قتل ہوئے یا اگر قتل ہونے والوں کی تعداد 6 یا 8 لاکھ سمجھی جائے تو تقریباً دو سے تین لاکھ ہندو اور سکھ بھی ان واقعات میں قتل ہوئے۔ اپنی گذشتہ تحریروں میں، میں اس امر پر لکھ چکا ہوں کہ اس قتل و غارت کا آغاز کیسے ہوا اور کہاں کہاں یہ قتل و غارت کے واقعات ہوئے۔ ہم جانتے ہیں کہ آج پاکستان کے صوبہ پنجاب میں عیسائی تو موجود ہیں، تاہم ہندو اور سکھ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔ فقط چند ایک مقامات پر سکھوں کے اکا دکا خاندان موجود ہیں۔ یہی حال مشرقی پنجاب کا بھی ہے۔ وہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پٹیالہ، انبالہ، جلندھر سے لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے پاکستان میں آبسے۔ انسانوں کی اس عظیم ہجرت پر تاریخ میں بہت کم لکھا گیا ہے، اس ہجرت کے اسباب و عوامل پر بہت کم بات کی گئی ہے۔

ہم یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، فلسطین سے فلسطینیوں کی بے دخلی پر تو بہت کچھ سنتے ہیں، تاہم برصغیر سے ہونے والی انسانوں کی یہ ہجرت ہمار ے کانوں پر نہیں پڑتی۔ اگر افرادی حجم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پنجاب کی ہجرت یہودیوں کی نقل مکانی اور فلسطینیوں کی بے دخلی سے بہت بڑا واقعہ ہے۔ یہودیوں نے یورپ سے اپنی بے دخلی کو محفوظ کیا ہے، فلسطینی یوم نکبہ منا کر اپنی املاک پر قبضے کی یاد مناتے ہیں اور آج تک اپنے وطن کو واپسی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، تاہم برصغیر کے لاکھوں انسان تاریخ کی بھول بھلیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تاریخ انسانی میں ہونے والے ایسے اندوہناک واقعات کا ذکر ان واقعات کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ مجرموں کا تعین اور ان سے نفرت کااظہار اگر انسانی معاشرے میں پیدا ہو جائے تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ ایسے واقعات نہ دہرائے جائیں۔

واقعہ کربلا کے تذکرہ سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ اس ظلم کی تشہیر نے ہی اس کے مجرموں کے نام کو گالی بنا دیا اور آج کوئی بھی شخص اپنے آپ کو واقعہ کربلا کے ذمہ داروں سے جوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ یہودیوں نے ہولوکاسٹ کی کہانی کو اسی وجہ سے زندہ رکھا ہوا ہے، تاکہ یورپ یا دنیا کے کسی اور خطے میں دوبارہ یہودیوں کے ساتھ نسلی تعصب کا رویہ نہ رکھا جائے۔ نکبہ کی یاد کو منانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مجرم کی شناخت ہو، تاہم برصغیر میں ہونے والا تاریخ کا یہ عظیم جرم ہم نے فراموش کر دیا، ہم نے اس نقل مکانی اور قتل و غارت کے اسباب کو چھپایا، اس کے مجرموں کا تعین نہیں کیا، جس کے سبب قوی امکانات ہیں کہ یہ جرم دوبارہ بھی دہرایا جائے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟
https://albasirah.com/urdu/pakistan-siasi-mustaqbil/

Share this content: