پنجاب کی تقسیم، فراموش شدہ تاریخ اور عبرتیں(1)
تحریر: سید اسد عباس
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین، لہلہاتے کھیت، سرسبز و شاداب میدان، چراگاہوں اور مویشیوں سے لبریز علاقہ ہے۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند سے قبل پنجاب پانچ ڈویژنز پر مشتمل تھا، جس میں لاہور ڈویژن، راولپنڈی ڈویژن، ملتان ڈویژن، جالندھر ڈویژن اور انبالہ ڈویژن شامل تھے۔ راولپنڈی ڈویژن میں اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، میانوالی اور شاہ پور کے اضلاع تھے۔ لاہور ڈویژن میں گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع شامل تھے۔ ملتان ڈویژن میں مینٹگمری (ساہیوال)، لائل پور(فیصل آباد)، ملتان، جھنگ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع تھے۔ جالندھر ڈویژن میں فیروز پور، لدھیانہ، ہوشیار پور، کانگڑہ کے اضلاع شامل تھے، جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں مہاجرین میں زیادہ تر لدھیانوی، جالندھری، ہوشیار پوری دکھائی دیتے ہیں۔ انبالہ ڈویژن میں انبالہ، حصار، روہتک، کرتال اور شملہ کے اضلاع شامل تھے۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.2 فیصد، ہندو 29.1 فیصد، سکھوں کی آبادی 14.9 فیصد جبکہ عیسائیوں کی آبادی 1.4 فیصد تھی۔ ہندو، سکھ اور مسلمان پنجاب کے مختلف اضلاع میں مل کر رہ رہے تھے۔ نسل، زبان اور مشترکہ ثقافت ان کے درمیان وجہ اشتراک تھی، جبکہ تمام ادیان کے ماننے والے دوسرے کے دینی جذبات اور رسومات کا بھی احترام کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ مسلمان پیروں کے مرید تھے اور مسلمان ہندو اور سکھ ویدوں اور حکیموں سے علاج کروانے میں جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ ہندو کھانے کے حوالے سے احتیاط کرتے تھے، تاہم مسلمانوں سے پکانے کی اشیاء لے لیتے تھے۔ آج بھی پنجاب بھر کے مختلف اضلاع میں ہندؤوں اور سکھوں کے مکانات، ماڑیاں اور حویلیاں موجود ہیں۔
انسان ان مکانات، ماڑیوں اور حویلیوں کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ ان مکانات کے مکین آخر کیوں کر اتنے عالی شان مکانات چھوڑ کر چلے گئے۔؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہندوستان کی محبت میں ان ماڑیوں کو چھوڑ گئے یا ان کو جبراً یہاں سے نکالا گیا۔؟ انسانی ذہن کے ان سوالات پر ہماری تاریخ خاموش ہے، ہماری درسی کتب، تاریخ کی کتابوں میں اس حوالے سے کوئی جواب موجود نہیں اور وہ لوگ خود تو رہے نہیں کہ ان سے پوچھا جائے کہ اتنے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کیوں کی گئی۔ سوشل میڈیا نے اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ اب ہم پاکستان میں محل اور ماڑیاں چھوڑ جانے والوں کے پیغامات کو دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سکھوں نے باقاعدہ رپورٹس مرتب کرنی شروع کیں ہیں اور یہ رپورٹس آن لائن موجود ہیں۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ Muslim League Attack on Sikhs and Hindus in the Punjab 1947 گربچن سنگھ طالب کی ہے۔
ممکن ہے کسی قاری کو یہ رپورٹ پڑھنے میں دلچسپی نہ ہو اور وہ کہے کہ سکھ کا بیان ہمارے لیے حجت نہیں تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے دوران ہونے والے واقعات کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتاب پاکستانی نژاد سویڈش پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی ہے، جو انگریزی زبان میں تحریر کی گئی اور اس کا اس وقت تک اردو، ہندی اور گرمکھی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب The Punjab Bloodied Partitioned And Cleansed کو اس انداز سے تحریر کیا ہے کہ اگر مولف کا نام معلوم نہ ہو تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مصنف مسلمان ہے، ہندو ہے یا سکھ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ “پنجاب کا بٹوارہ: ایک المیہ ہزار داستان” کے عنوان سے ہوچکا ہے اور پاکستان کے بڑے کتاب خانوں میں دستیاب ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق انھوں نے اس کتاب میں برٹش آرکائیو ریکارڈ، برطانوی حکومت کی خفیہ دستاویزات، سرحد کے دونوں طرف انٹرویوز سے استفادہ کیا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق ان کا سارا کام لمز یونیورسٹی لاہور کے آرکائیو سیکشن میں محفوظ ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ایک یونیورسٹی استاد اور سیاسیات کے ڈاکٹر کی حیثیت سے نہ فقط پنجاب کی تقسیم کے واقعات کو جمع کیا ہے بلکہ ان واقعات کے پس منظر، اسباب، معاشرتی صورتحال اور نظریاتی عناصر پر بھی روشنی ڈالی ہے، جس سے انسان کو پنجاب میں ہونے والے حادثات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ ایک پاکستانی صحافی اور مصنف سجاد اظہر بھی پنجاب میں فسادات پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے راولپنڈی ڈویژن میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے ایک کتاب مرتب کی ہے، جو جلد ہی شائع ہونے والی ہے۔
سجاد اظہر کا راولپنڈی میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے بیان کردہ ایک واقعہ قابل توجہ ہے، جسے میں قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ سجاد اظہر نے بلیک ہول چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ برطانوی دور میں راولپنڈی شہر کی آبادی 43 فیصد مسلمان، سترہ فیصد سکھ، تینتیس فیصد ہندو افراد پر مشتمل تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سجاد اظہر نے اپنی کتاب کی تحریر کے لیے برٹش آرکائیو، برطانوی اداروں کی خفیہ دستاویزات اور ڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتاب کے علاوہ علاقوں کے دورہ جات کے ذریعے معلومات اکٹھی کیں۔ سجاد اظہر کہتے ہیں کہ راولپنڈی شہر میں ہندو کاروباری اور سکھ جاگیردار تھے۔ اس شہر میں سوجان سنگھ ایک بااثر انسان تھا، جس نے اس شہر میں بہت سے فلاحی کام کیے اور لائبریری بھی قائم کی۔
سجاد اظہر کے مطابق 1896ء میں امان اللہ خان افغان بادشاہ کا بیٹا پنڈی آیا۔ امان اللہ خان نے مسلمانوں سے علاقے میں بڑی مسجد تعمیر کرنے کا کہا۔ اس مقصد کے لیے باغ سرداراں پنڈی میں اٹھارہ کنال زمین خریدی گئی، چونکہ اس مسجد کی جگہ کے بالکل پیچھے سکھوں کا ایک گردوارا تھا، لہذا اس مسجد کے حوالے سے سکھوں نے اعتراض کیا، بالخصوص سوجان سنگھ اس کا مخالف تھا۔ سکھوں کا کہنا تھا کہ مسجد اور گردوارے کے قریب ہونے کی وجہ سے آئندہ تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔ پیر مہر علی گولڑوی نے سوجان سنگھ سے اس مسجد کے حوالے سے مذاکرات کئے کہ چونکہ ہمارا آج تک باہم کوئی تنازعہ نہیں ہوا، لہذا اس مسجد کے بننے سے آئندہ بھی کوئی تنازعہ نہیں ہوگا۔ سکھ چونکہ پیر مہر علی شاہ کا احترام کیا کرتے تھے، لہذا مسجد بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ مسجد 1901ء میں تعمیر ہوئی۔ 1926ء تک مسلمان اس مسجد کے سامنے ہندوؤں اور سکھوں کے قومی تہواروں کے موقع پر سبیلیں لگایا کرتے تھے۔
1926ء میں مسجد کے پیچھے موجودہ خورشید سینما جو پہلے لکشمی سینما کہلاتا تھا، بنانے کی بات کی گئی۔ مسلمانوں نے اس سلسلے میں عدالت میں کیس کیا کہ مسجد کے قریب سینما نہیں ہونا چاہیئے، حالانکہ خورشید سینما جو آج بھی موجود ہے، اس کے درمیان اور مسجد میں کافی فاصلہ ہے۔ عدالت نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کیا اور سینما گھر بن گیا۔ اسی دوران کلکتہ میں ایک تحریک چلی، جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی مساجد کے سامنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے جلوس نہیں گزرنے چاہییں، اگر گزریں گے بھی تو مذہبی وعظ نہیں کریں گے۔ یہ آواز پنڈی بھی پہنچی، اس آواز کے پیچھے سینما گھر والی ٹینشن بھی موجود تھی۔ سجاد اظہر کے بقول سکھوں کے پانچویں گرو، گرو ارجن کی یاد میں سکھ سالانہ ایک جلوس نکالتے تھے۔
اس حوالے سے گرو ارجن کا جلوس باغ سرداراں میں 13 جون 1926ء کو نکلنا تھا، جس کے حوالے سے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ آپ یہ جلوس مسجد کے سامنے سے مت گزاریں اور اگر آپ کو مسجد کے سامنے سے گزرنا بھی ہے تو خاموشی سے گزریں۔ اس جلوس میں عموماً پانچ ہزار سکھ ہوتے تھے، اس روز چونکہ اتوار کا روز تھا تو سکھوں کی تعداد تقریباً دس ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ شاید ہمارے منع کرنے کے باوجود اتنی تعداد میں سکھوں کا آنا کسی خاص مقصد کے تحت ہے، لہذا جب وہ مسجد کے سامنے سے گزرے تو شام سات بجے مسجد سے ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ جس سے پنڈی میں فسادات پھوٹ پڑے۔ گنج منڈی، غلہ منڈی میں 172 دکانیں جلا دی گئیں، گردوارے کا گھیراؤ ہوا، فائرنگ ہوئی۔ سینکڑوں لوگ قتل ہوئے، حتی سید پور گاؤں میں پانچ امیر ہندو اور سکھ قتل ہوئے۔
سجاد اظہر کی تحقیق کے مطابق ان فسادات کی وجہ ایک مولوی صاحب تھے، جن کا نام راولپنڈی کے معروف ادیب عزیز ملک نے اپنی 1970ء میں شائع ہونے والی کتاب “راول دیس” میں مولوی اسحاق مانسہروی لکھا ہے۔ اسحاق مانسہروی انگریز حکومت کا ناقد تھا اور جنگ عظیم اول کے لیے مانسہرہ میں ہونے والی بھرتیوں کے خلاف اس نے آواز بلند کی تھی۔ مولوی اسحاق کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا اور اس کے بعد صوبہ بدر کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1901ء میں آج کے خیبر پختونخوا کے علاقوں کو پنجاب سے جدا کرکے این ڈبلیو ایف پی کے نام سے الگ صوبہ بنایا گیا تھا۔ مولوی مانسہروی، مانسہرہ سے بے دخل ہونے کے بعد راولپنڈی آیا اور باغ سرداراں کی جامعہ مسجد کا امام بن گیا۔ مولوی مانسہروی تحریک خلافت کا سرگرم رکن تھا، اسی طرح مجلس احرار تحریک میں بھی فعال تھا اور شہید گنج کمیٹی کا بھی رکن تھا۔ عزیز ملک کے مطابق مولوی مانسہروی رمضان کے ایام میں ہندو دکان داروں کو کھاتا پیتا دیکھ کر گھوڑے سمیت دکانوں میں گھس جاتا تھا اور ہر چیز کو تہ و بالا کر دیتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کی تقسیم، فراموش شدہ تاریخ اور عبرتیں(2)
https://albasirah.com/urdu/punjab-ki-taqseem-tareekh/
بشکریہ اسلام ٹائمز