×

پاکستان کا یوکرائن کو راکٹ فراہم کرنے کا معاملہ

پاکستان کا یوکرائن کو راکٹ فراہم کرنے کا معاملہ

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

بی بی سی کی ایک تازہ خبر کے مطابق یوکرائنی فوج کے ایک کمانڈر نے پاکستان سے ملنے والے اسلحے کے غیر معیاری ہونے کی شکایت کی ہے۔ یوکرائنی فوج کی 17 ٹینک بٹالین کے کمانڈر ولادمیر نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا کہ روس یوکرائن جنگ میں یوکرائن اپنا اسلحہ ختم کرچکا ہے، اس لیے اب اسے دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ اسی سلسلے میں یوکرائنی افواج چیک ریپبلک، رومانیہ اور پاکستان سے اسلحہ خرید رہی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ یوکرائن کی جانب سے ایسے دعوے سامنے آئے ہوں، اس سے قبل جنوری 2023ء میں بھی یوکرائن کے کئی ذرائع ابلاغ نے ذرائع کے حوالے سے ایسی خبریں شائع کی تھیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک خبر ہے۔ اس سے قبل مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر روس کو ڈرون ٹیکنالوجی دینے کے حوالے سے دعوے سامنے آچکے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بار پھر روس، یوکرائن جنگ میں یوکرائن کو اسلحہ فراہم کرنے کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ پاکستان اور یوکرائن کے ماضی میں اچھے دفاعی تعلقات رہے ہیں، تاہم موجودہ جنگ میں پاکستان مکمل طور پر غیر جانبدار ہے اور یوکرائن کو اسلحہ مہیا نہیں کر رہا۔ ہتھیاروں کے شعبہ میں یوکرائن اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ 1997ء سے شروع ہوتی ہے، جب یوکرائن نے ایک دفاعی معاہدے کے تحت پاکستان کو مالشیو خارکیؤ پلانٹ پر تیار کردہ 320 ٹی-80 یو ڈی ٹینک فراہم کیے تھے۔ 2010ء میں بھی پاکستان اور یوکرائن کے درمیان 90 کی دہائی میں دیئے جانے والے ٹینکوں کی مرمت کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔

نومبر 2016ء میں پاکستان کی ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اور یوکرائن کی یوکرسپکس ایکسپورٹ کے درمیان پاکستان کے ٹینکوں کی مرمت کا چھ سو ملین ڈالر کا معاہدہ طے پایا تھا۔ 2017ء میں یوکرائن کی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ یوکرائن کے مالشیو پلانٹ نے پاکستان میں ہی فوجی ٹینکوں کی مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے 320 ٹینکوں کی مرمت کا کام کیا جانا تھا۔ فروری 2021ء میں یوکرائن کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ 85.6 ملین ڈالر کی لاگت سے پاکستانی ٹی-80 ٹینکوں کی مرمت کرے گا۔ جس کے بعد جون 2021ء میں کہا گیا کہ انھوں نے اس معاہدے کے تحت کام شروع کر دیا ہے۔

یوکرائن نے پاکستان کو نوے کی دہائی میں ٹینک فراہم کرنے کے علاوہ پاکستان کو چین کی مدد سے تیار کردہ الخالد ٹینک کے پرزے فروخت کیے۔ یہ ٹینک موٹر ٹرانسمیشن یونٹس اور 6 ٹی ڈی-2 انجنوں کا استعمال کرتے ہیں، جنھیں یوکرائن کی خارخیو موروز ڈیزائن بیورو نے تیار کیا ہے۔ سنہ 2016-2020ء میں پاکستان کو ایسے انجنوں کی ڈیلیوری بار بار رپورٹ کی گئی۔ 2020ء میں یوکرائن کی کمپنی یوکربورنپروم نے پاکستان کی فضائیہ کے جہازوں کی مرمت کی 30 ملین ڈالر کی بولی جیتی تھی۔ مئی 2021ء میں پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوکرائن کے دورے کے دوران ڈیزائین بیورو کے تیار کردہ اوپلٹ ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کا معائنہ کیا تھا۔

ایک جانب پاکستان کے وزیراعظم کا روس یوکرائن جنگ کے آغاز کے وقت روس کا دورہ کرنا، اس دورے کے سبب ان کی حکومت کا خاتمہ اور پھر اسلحہ کی فراہمی کے خبریں۔ پاکستان کا دفتر خارجہ اگرچہ اس خبر کی تردید کر رہا ہے، تاہم یوکرائنی فوج کو کس پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ بار بار پاکستانی بارود کے غیر معیاری ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ خبریں یقیناً پاکستان، روس اور چین کے تعلقات کو بگاڑنے کے لیے نشر کروائی جا رہی ہوں گی۔ جیسا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایسی کسی فراہمی کی تردید کی ہے، تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے کو متعلقہ فورمز پر اٹھانا چاہیئے، تاکہ حقائق کا علم ہوسکے اور خطے کے اہم ممالک کے مابین غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

بی بی سی کی خبر کے مطابق دفاعی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سیکرٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے بھی یوکرائن کو ہتھیار فراہم کرنے کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور یوکرائن کے اچھے دفاعی تعلقات رہے ہیں، تاہم اس وقت پاکستان روس یوکرائن جنگ میں غیر جانبدار ہے اور ہم جانتے ہیں کہ چھپ چھپا کر یوکرائن کو ہتھیار سپلائی نہیں کیے جاسکتے۔ جنرل لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان عرصہ دراز سے چند یورپی، افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کر رہا ہے، ممکن ہے کہ ان ممالک سے یہ بارود یوکرائن کو پہنچ رہا ہو۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ اور امریکہ ہتھیاروں کی فراہمی کے معاملے میں یوکرائن کی مدد کر رہے ہیں۔

جنرل لودھی نے کہا کہ پاکستان میں عالمی معیار کا گولہ بارود تیار کیا جاتا ہے اور یہی گولہ بارود ہماری افواج بھی استعمال کرتی ہیں، تاہم یہ ممکن ہے کہ یوکرائنی افواج کو کسی ملک سے حاصل ہونے والا پاکستانی ساختہ گولہ بارود زائد المعیاد ملا ہو۔، جنرل لودھی نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ ملٹی بیرل راکٹ توپ خانے کے گولے ہوتے ہیں اور اس کے شیل کے استعمال کی مدت آٹھ یا نو برس ہوتی ہے، لیکن اس کے پروپیلینٹ کی مدت دو سال تک ہوتی ہے۔ پاکستان کے روس کے سستے تیل کی جانب جھکاؤ، چین سے دیرینہ دفاعی تعلقات کے تناظر میں بی بی سی کی اس اچانک خبر کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ یہ معمہ دفتر خارجہ کی تردید یا کسی سابق دفاعی سیکریٹری کی وضاحت سے حل ہونے والا نہیں ہے۔

یوکرائنی کمانڈرز کی جانب سے بار بار ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلانات اور ان کے غیر معیاری ہونے کی شکایات پاکستان کی سیاسی، سفارتی، ہمسائیگی اور دفاعی ساکھ کے لیے اچھی نہیں ہیں۔ ایران پر جب روس کو ڈرونز کی فراہمی کا الزام لگایا گیا تو ایران کی وزارت خارجہ نے یوکرائن نیز تمام مغربی ممالک کو کھلی آفر دی کہ یوکرائن اور ایران کے تکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے اور تمام ثبوت اس ٹیم کے سامنے پیش کیے جائیں۔ نہ یہ ٹیم تشکیل پائی اور نہ ہی ایرانی ڈرونز کی فراہمی کا کوئی ثبوت سامنے آیا۔ پاکستان کو بھی ایسی ہی کوئی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیئے، تاکہ خطے کے اہم ممالک اور پاکستان کے مابین غلط فہمی پیدا کرنے کی یہ کوشش طشت از بام ہوسکے۔ ہم کسی طور بھی افغان جنگ کی مانند یوکرائن جنگ میں امریکا اور یورپ کے اتحادیوں کی صف میں نہیں کھڑے ہوسکتے، نہ ہی ہم خطے کے طاقتور اور اہم ممالک سے دشمنی مول لے سکتے ہیں۔

Share this content: