نیتن یاہو پر مقدمے اور اسرائیل کا سیاسی عدم استحکام
نیتن یاہو کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2016ء میں ہوا۔ نیتن یاہو اور ان کے چند ساتھیوں پر اپنے دور حکومت میں کرپشن کا الزام لگا۔ 2019ء میں رسمی طور پر نیتن یاہو کو کرپشن، رشوت اور اعتماد شکستگی کے جرائم میں ملوث قرار د یا گیا، جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کے علاوہ باقی تمام وزارتوں کو چھوڑنے کا پابند ہے۔ نیتن یاہو پر لگنے والے فرد جرم کی تفصیل حسب ذیل ہے:
کیس 1000: نیتن یاہو اور اس کی بیوی نے کئی برسوں تک امیر لوگوں سے قیمتی تحائف وصول کیے۔ اس کیس کا آغاز 2016ء میں ہوا۔
کیس 2000: نیتن یاہو اور اسرائیل کے اخبار یدیوت اہرنوتھYedioth Ahronoth کے چیئرمین اور ایڈیٹر کے ہمراہ ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے، جس میں نیتن یاہو اہرنوتھ اخبار کے مدمقابل اخباروں کو نقصان پہنچانے کے لیے قانون سازی سے متعلق بات کر رہا ہے۔
کیس 3000: براہ راست نیتن یاہو سے متعلق نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے متعلق ہے، جو نیتن یاہو کے قریب ہیں اور انھوں نے جرمنی کے ساتھ ہونے والی ڈولفن کلاس سب میرین، جنگی کشتیوں کا سودا کیا۔
کیس 4000: نیتن یاہو کے پاس جب وزارت مواصلات کا قلمندان تھا، کے دوران Bezeq کمپنی سے تعلقات۔
کیس 1270: یہ کیس درج بالا کیس 4000 سے متعلق ہے، جس میں نیتن یاہو نے اپنی بیوی کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کے لیے اٹارنی جنرل کے امیدوار کو تعیناتی کا لالچ دیا۔ نیتن یاہو نے ان الزامات اور سزا سے بچنے کے لیے اسرائیلی اسمبلی میں یکم جنوری 2020ء کو استثنیٰ کی درخواست جمع کروائی۔ نیتن یاہو نے 28 دسمبر 2020ء کو استثنیٰ کی درخواست واپس لے لی۔
یاد رہے کہ کرونا وبا کے زمانے میں بھی نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ 18 فروری 2020ء کو اسرائیلی وزارت قانون نے اعلان کیا کہ نیتن یاہو کا مقدمہ 17 مارچ 2020ء سے یروشلم کی ضلعی کورٹ میں سنا جائے گا۔ یہ مقدمہ 17 مارچ کو نہ شروع ہوا بلکہ 24 مئی 2020ء تک ملتوی کر دیا گیا۔ اس کیس کی آخری پیشی 4 مئی 2021ء کو ہوئی، جس میں عدالت میں یہ مدعی پیش کیا گیا کہ نیتن یاہوں نے اخبار کی ویب سائٹ سے 2014ء غزہ جنگ میں مارے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کے خاندانوں سے متعلق رپورٹیں ہٹوائیں۔ ایک اسرائیلی فوجی Hadar Goldin کے اہل خانہ نے کہا کہ ہم پچھلے چار برسوں سے اپنے بیٹے کی باقیات کی واپسی کے لیے چلا رہے ہیں اور ادارہ حکام بالا کے کہنے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
درج بالا معروضات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نیتن یاہو فقط فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسرائیلیوں کے لیے بھی کسی خونخوار بھیڑئیے اور ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہے۔ 2016ء سے 2021ء تک نیتن یاہو پر لگنے والے الزامات تاحال مقدمات نہیں بن پائے۔ عدالتی کارروائی جس سرعت سے چل رہی ہے، اس کا اندازہ برسوں میں موجود دنوں سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ نیتن یاہو پر لگنے والے الزامات 2016ء سے ہی ثابت ہوچکے ہیں۔ نیتن یاہو کی دوسری بڑی مشکل اسمبلی میں اس کی جماعت کو اکثریت نہ حاصل ہونا ہے۔ اگر نیتن یاہو کی جماعت اسرائیلیوں کے مابین مقبول ہوتی تو نیتن یاہو کب سے پارلیمان سے استثنیٰ حاصل کر چکا ہوتا۔
گذشتہ 2 برسوں میں اسرائیل میں چار عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ دو بڑی جماعتوں بلیو اینڈ وائٹ اور نیتن یاہو کی جماعت لیدوخ نے برابر نشستیں حاصل کیں اور کوئی جماعت بھی 61 سیٹ کی برتری ظاہر کرنے سے تاحال قاصر ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف چلنے والے مقدمات اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام سے بچنے کی واحد راہ فلسطینیوں سے جنگ تھی۔ اب شاید کچھ وقت کے لیے مقدمہ کی کارروائی رک جائے اور اگر انتخابات ہوتے ہیں تو شاید بینی گینٹز کے مقابلے میں نیتن یاہو کچھ زیادہ سیٹیں یا اتحادی کما سکے۔ نیتن یاہو یا کوئی بھی اسرائیلی حکمران مسئلہ فلسطین کو اسی تناظر میں استعمال کرسکتا ہے، اس کا جواب یہی ہے کہ مقاومت مضبوط تر ہو اور اسرائیلی حکمرانوں کو اندازہ ہو کہ یہ اتنا سستا کھیل نہیں، جسے وہ آئے روز رچا سکیں۔
کیس 2000: نیتن یاہو اور اسرائیل کے اخبار یدیوت اہرنوتھYedioth Ahronoth کے چیئرمین اور ایڈیٹر کے ہمراہ ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے، جس میں نیتن یاہو اہرنوتھ اخبار کے مدمقابل اخباروں کو نقصان پہنچانے کے لیے قانون سازی سے متعلق بات کر رہا ہے۔
کیس 3000: براہ راست نیتن یاہو سے متعلق نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے متعلق ہے، جو نیتن یاہو کے قریب ہیں اور انھوں نے جرمنی کے ساتھ ہونے والی ڈولفن کلاس سب میرین، جنگی کشتیوں کا سودا کیا۔
کیس 4000: نیتن یاہو کے پاس جب وزارت مواصلات کا قلمندان تھا، کے دوران Bezeq کمپنی سے تعلقات۔
کیس 1270: یہ کیس درج بالا کیس 4000 سے متعلق ہے، جس میں نیتن یاہو نے اپنی بیوی کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کے لیے اٹارنی جنرل کے امیدوار کو تعیناتی کا لالچ دیا۔ نیتن یاہو نے ان الزامات اور سزا سے بچنے کے لیے اسرائیلی اسمبلی میں یکم جنوری 2020ء کو استثنیٰ کی درخواست جمع کروائی۔ نیتن یاہو نے 28 دسمبر 2020ء کو استثنیٰ کی درخواست واپس لے لی۔
یاد رہے کہ کرونا وبا کے زمانے میں بھی نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ 18 فروری 2020ء کو اسرائیلی وزارت قانون نے اعلان کیا کہ نیتن یاہو کا مقدمہ 17 مارچ 2020ء سے یروشلم کی ضلعی کورٹ میں سنا جائے گا۔ یہ مقدمہ 17 مارچ کو نہ شروع ہوا بلکہ 24 مئی 2020ء تک ملتوی کر دیا گیا۔ اس کیس کی آخری پیشی 4 مئی 2021ء کو ہوئی، جس میں عدالت میں یہ مدعی پیش کیا گیا کہ نیتن یاہوں نے اخبار کی ویب سائٹ سے 2014ء غزہ جنگ میں مارے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کے خاندانوں سے متعلق رپورٹیں ہٹوائیں۔ ایک اسرائیلی فوجی Hadar Goldin کے اہل خانہ نے کہا کہ ہم پچھلے چار برسوں سے اپنے بیٹے کی باقیات کی واپسی کے لیے چلا رہے ہیں اور ادارہ حکام بالا کے کہنے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
درج بالا معروضات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نیتن یاہو فقط فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسرائیلیوں کے لیے بھی کسی خونخوار بھیڑئیے اور ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہے۔ 2016ء سے 2021ء تک نیتن یاہو پر لگنے والے الزامات تاحال مقدمات نہیں بن پائے۔ عدالتی کارروائی جس سرعت سے چل رہی ہے، اس کا اندازہ برسوں میں موجود دنوں سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ نیتن یاہو پر لگنے والے الزامات 2016ء سے ہی ثابت ہوچکے ہیں۔ نیتن یاہو کی دوسری بڑی مشکل اسمبلی میں اس کی جماعت کو اکثریت نہ حاصل ہونا ہے۔ اگر نیتن یاہو کی جماعت اسرائیلیوں کے مابین مقبول ہوتی تو نیتن یاہو کب سے پارلیمان سے استثنیٰ حاصل کر چکا ہوتا۔
گذشتہ 2 برسوں میں اسرائیل میں چار عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ دو بڑی جماعتوں بلیو اینڈ وائٹ اور نیتن یاہو کی جماعت لیدوخ نے برابر نشستیں حاصل کیں اور کوئی جماعت بھی 61 سیٹ کی برتری ظاہر کرنے سے تاحال قاصر ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف چلنے والے مقدمات اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام سے بچنے کی واحد راہ فلسطینیوں سے جنگ تھی۔ اب شاید کچھ وقت کے لیے مقدمہ کی کارروائی رک جائے اور اگر انتخابات ہوتے ہیں تو شاید بینی گینٹز کے مقابلے میں نیتن یاہو کچھ زیادہ سیٹیں یا اتحادی کما سکے۔ نیتن یاہو یا کوئی بھی اسرائیلی حکمران مسئلہ فلسطین کو اسی تناظر میں استعمال کرسکتا ہے، اس کا جواب یہی ہے کہ مقاومت مضبوط تر ہو اور اسرائیلی حکمرانوں کو اندازہ ہو کہ یہ اتنا سستا کھیل نہیں، جسے وہ آئے روز رچا سکیں۔
Share this content: