موحدون، دروزیہ ایک اجمالی تعارف

Published by مفتی امجد عباس on

مفتی امجد عباس

موحدون یا دروزیہ کا تعلق بھی بنیادی طور پر اسماعیلیہ کے فاطمی سلسلے سے ہے۔ اِس کا شمار بھی دنیا کے اُن فرقوں میں ہوتا ہے جن کی تعداد بہت کم ہے۔موحدون، دروزیہ خالص عرب ہیں۔اِن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ملین سے دو ملین تک ہے۔موحدون، دروزیہ کی ایک بڑی تعداد لبنان، شام اور فلسطین میں آباد ہے؛ جبکہ دنیا کے دیگر ممالک خاص کر مغربی ممالک میں بھی اِن کی کچھ تعداد موجود ہےجو عرب خطوں سے ہجرت کر کے وہاں گئی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف براٹینیکا کے مطابق موحدون، دروزیہ کی تعداد لبنان میں تقریباً تین لاکھ سے زائد، شام میں اندازاً چھ لاکھ سے زائد جبکہ فلسطین میں ان کی تعدادکا تخمینہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ نفوس یا اس سے زائد پر مشتمل ہے، جبکہ موحدون،دروز کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد دو ملین سے کچھ زیادہ ہے۔

 موحدون، دروزیہ کا آغاز
اس اسماعیلی فرقے کی ابتدا مصر میں چھٹے فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ، ابو علی، منصور(۳۸۶۔۴۱۱ھ بمطابق ۹۹۶۔۱۰۲۱ء) کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ باقی اسماعیلی فرقوں کی طرح، یہ فرقہ بھی شیعہ اثنا عشریہ کے پہلے چھ اماموں؛ امام جعفر صادقؑ تک کی امامت کاقائل ہے، بعد ازاں یہ حضرت اسماعیل بن امام جعفر صادق کی امامت کے قائل ہیں، اِن کا اختلاف چھٹے فاطمی خلیفے الحاکم بامر اللہ کے بعد ہوا۔ موحدون یا دروز نے الحاکم کے بعد، اُس کے بیٹے کی امامت کو تسلیم نہ کیا اور الحاکم کو المنتظر، المہدی قرار دے کر اُسی کی امامت پر باقی رہنے کا اعلان کردیا، یوں یہ جمہور اسماعیلیہ سے جدا ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ چھٹے فاطمی خلیفے الحاکم کے عہد میں بعض اسماعیلی داعیوں نے ایسے نظریات کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ ، خلیفہ میں جلوہ گر ہے؛ یُوں بعض داعیوں نے خلیفہ کی شان میں غلو سے کام لیتے ہوئے الوہیت کا پرچار کرنا شروع کر دیا۔ معاصر دروزیہ ، الحاکم کی اُلوہیت کا انکار کرتے اور اِسے اپنے اوپر تہمت قرار دیتے اور ایسے داعیوں سے برائت کرتے ہیں جنھوں نے الحاکم کی الوہیت کا پرچار کیا۔
فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ کا مختصر احوال
 فاطمی خلیفے الحاکم بامر اللہ کی ولادت ۲۳ ربیع الاول ۳۷۵ھ میں قاہرہ میں ہوئی۔ ۳۸۳ھ میں آپ کی جانشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ خلیفہ عزیز کی وفات (۳۸۶ھ) کے بعد ، الحاکم کی بیعت کی گئی، اُس وقت الحاکم کی عمر گیارہ سال اور چند ماہ تھی۔ خلیفہ نے لڑکپن میں اقتدار سنبھالا اور شدت سے فاطمی دعوت کا اہتمام کیا۔
 مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ الحاکم علم دوست حکمران تھا۔ آپ نے ۳۹۵ھ بمطابق ۱۰۰۴ء میں ’’دار الحکمہ‘‘ کی بنیاد رکھی جو اپنے وقت کا بہترین علمی مرکز بن گیا۔ اُس میں آپ نے قاری، فقیہ، نحوی، ادیب، منجم، طبیب اور فلاسفر وغیرہ مقرر کیے جو یہاں ہمیشہ کتابوں کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے اور آپس میں مناظرہ و مباحثہ کیا کرتے تھے، اُنھیں مقرر کردہ تنخواہوں کے علاوہ وقتاً فوقتاً انعام بھی ملا کرتے تھے۔ اس علمی مرکز میں مختلف مذاہب اور فلسفے کے مطالعے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس دار العلم کے نگران قاضی عبد العزیز بن محمد بن نعمان تھے۔ دار الحکمہ، علمی مرکز ہونے کےساتھ دعوت کا تبلیغی مرکز بھی تھا۔ یہاں پر دُعاۃ کے ارد گرد طلباء جمع ہو کر مذہب سے متعلق علوم میں بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے اور داعی الدعاۃ داعیوں اور فقیہوں سے تنظیمِ دعوت کے متعلق مشورے کیا کرتے تھے۔ یہیں ایک عظیم الشان لائبریری بھی قائم کی گئی جس میں دنیا بھر سے مختلف علوم و فنون پر کتب جمع کی گئی تھیں۔ یہ لائبریری، مطالعہ کرنے والوں کے لیے کھلی رکھی جاتی۔ یہاں کاغذ، قلم اور دیگر سہولیات مفت مہیا کی جاتیں۔ خلیفہ کو علمِ فلکیات سے بھی خاصا شغف تھا، چنانچہ ایک رصد گاہ بھی تعمیر کروائی گئی، خلیفہ نے اپنے زمانے کے مشہور ماہرِ فلکیات، علی بن یونس کو حکم دیا کہ ایک مفصل زیچ (جنتری) تیار کرے؛ چنانچہ اُس نے چار جلدوں پر مشتمل ایک تفصیلی جنتری مرتب کی جسے زیچِ حاکمی یا زیچِ علی بن یونس بھی کہا جاتا ہے۔ مشہور ریاضی دان اور ماہرِ طبیعات ابن الہیثم کو خلیفہ نے عراق سے قاہرہ اپنے پاس بلوا لیا، یہاں اُس نے بہت سی کتب لکھیں جن میں ’’المناظر‘‘ جیسی بے نظیر کتاب بھی شامل ہے، جس سے صدیوں تک یورپ مستفید ہوتا رہاٍٍٍٍٍ۔ خلیفہ کو مساجد کی تعمیر و آرائش کا بھی بہت شوق تھا؛ چنانچہ بڑی بڑی مساجد بھی تعمیر کروائی گئیں۔ اِن میں سب سے بڑی اور یادگار مسجد ’’جامع الحاکم‘‘ ہے، جو اب تک قاہرہ میں موجود ہے۔ (1)
خلیفہ الحاکم نے ابتداء میں دیگر ادیان اور فرقوں کے پیروکاروں پر سختی برتی، جس سے سلطنت میں بے چینی پھیل گئی۔خلیفہ نے ایک بار اعلان کروایا کہ ماہ رمضان کے چاند کا اعلان رؤیت کے بجائے ، علمِ فلکیات کے حساب سے ماہ رمضان کے آغاز کا اعلان کیا جائے گا نیز عید کی تاریخ بھی پہلے ہی سے بتا دی گئی۔ (2)
خلیفہ کے علم میں لایا گیا کہ مذہبی معاملات میں مداخلت سے بعض مذہبی گروہ پریشان ہیں، نیز اِس سے مذہبی آزادی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے؛ یہ سُن کر خلیفہ نے، ماہ رمضان، ۳۹۳ھ میں مذہبی آزادی اور رواداری کے اصول پر مبنی ایک فرمان جاری کیا جو جامعِ مصر سے جمعہ کے دن، منبر سے پڑھ کر سنایا گیا:
امابعد! امیرالمومنین تمھارے روبرو اللہ تعالیٰ کی روشن کتاب (قرآن) کی آیات تلاوت کرتے ہیں۔ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت اور گمراہی واضح ہو چکی ہے۔ پس جو شخص کفر بات سے منکر ہو اور اللہ پر ایمان لایا ہو تو اس نے بیشک مضبوط رسی پکڑ لی ہے جو ٹوٹنے والی نہیں ہے اور اللہ سنتا ہے اور جانتا ہے۔ کل کا دن عافیت سے گزر گیا اور آج کا دن اپنی ضروریات کے ساتھ آ گیا۔ اے گروہ مسلمانان! ہم لوگ امیر ہیں اور تم لوگ امت ہو، بیشک تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں، پس بھائیوں میں میل کرا دو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ امید کی جاتی ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ جو شخص توحید و رسالت کا اقرار کرے اور دو شخصوں میں نفاق نہ ڈالے وہ سب اِس اخوت اسلامی میں داخل ہیں۔ اِس کے ذریعے سے جسے اللہ کو بچانا ہو، بچایا اور جسے روکنا ہوا اسے تمام حرام چیزوں؛ خون، مال اور محرم عورت سے روکا۔ صلاحیت اور اصلاح حق بہتر وعمدہ چیز ہے، فساد اور فتنہ پردازی خلائق نازیبا امرہے۔ گزشتہ باتوں کا تذکرہ نہ کیا جائے اور زمانہ ماضیہ سے اعراض کرکے اس کا ذکر ترک کردیا جائے اور جو اس سے بیشترگزر چکاہے اسے پیش نظر نہ رکھا جائے؛ ان امور اورواقعات سے جو زمانۂ ماسبق میں گزر گئے علیٰ الخصوص ہمارے آباء مہتدین کے عہد حکومت کے تذکرے سے۔ اللہ تعالیٰ کا سلام ان سب پر ہو۔ وہ کون ہیں کہ مہدی باللہ، قائم بامراللہ، منصور باللہ اور معزلدین اللہ وغیرہ ہیں اور وہ سب راہ راست پر تھے اور منصور تھے اور قیروان کا حال ظاہر ہے جو نہ ان لوگوں سے پوشیدہ ہے اور نہ سر بستہ راز ہے۔ روزہ دار اپنے اپنے مذہب کے مطابق روزے رکھیں اور افطار کریں، کوئی شخص کسی شخص سے خواہ روزہ دار ہو یا افطار کررہا ہو تعرض نہ کرے،۔نماز پنجگانہ جو مذہباً فرض ہے، ہر شخص ادا کرتا رہے۔ نماز چاشت اور نماز تراویح سے انھیں کوئی مانع نہ ہو اور نہ اس سےانھیں کوئی روکے۔ نماز جنازہ پر پانچ تکبیریں کہنے والے پانچ تکبیریں کہیں اور چار تکبیریں کہنے والے بھی چار تکبیرکہنے سے منع نہ کیے جائیں۔ مؤذن اذان میں حی علیٰ خیر العمل پکاریں اور جو شخص اذان میں یہ کلمہ نہ کہے وہ ستایا نہ جائے۔ گزشتہ اصحاب کو گالی نہ دی جائے اور نہ ان کی تعریف کرنے والوں سے جیسا کہ ان تعریف کی جاتی ہے، مواخذہ کیا جائے اور اس بارے میں جو ان کا مخالف ہو وہ مخالف رہے۔ ہر مسلمان مجتہد دینی معاملات میں اپنے اجتہاد کا ذمہ دار ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اسے جانا ہے، اس کے پاس اس کی کتاب ہے اور اسی پر اس کا حساب مناسب ہے۔ اے بندگان خدا! آج کے دن سے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے تم عمل کرو اور کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر اس کے اعتقادات میں دست اندازی نہ کرے اور نہ کوئی شخص اپنے دوست کے مذہبی خیالات سے متعرض ہو۔ ان سب باتوں کو امیرالمومنین نے اس فرمان میں تحریر فرمایا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا قول ہے اے ایمان والو! تم اپنی ذات کا خیال رکھو۔ جو شخص گمراہ ہو جائے گا وہ تمھیں کچھ ضرر نہیں پہنچائے گا جب کہ تم ہدایت پر ہو گے تم سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے پس وہ تمھیں آگاہ کرے گا جو تم کررہے ہو۔ (3)
سید رئیس احمد جعفری ندوی لکھتے ہیں کہ حاکم متضاد اوصاف اور خصائل کا حامل تھا۔ ایک طرف مزاج کی سختی اور قہر و جور کا یہ عالم ، دوسری طرف انتہائی سادہ زندگی بسر کرتا، سادہ لباس پہنتا، اپنے سامنے کسی کو سر بسجود ہونے کی سخت ممانعت کرتا، ہاتھ تک چومنے کی اجازت نہ دیتا۔ عدل پسندی کی یہ کیفیت تھی کہ ایک ملزم کی طرح اپنے قاضی کے سامنے حاضر ہوا اور اپنے خلاف فیصلہ سُن کر، اس کی تعمیل بہ خندہ پیشانی کی۔ حاکم کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ خدائی کا دعویٰ کر کے کافر بن بیٹھا تھا یا اس نے نمازیں ساقط کر دی تھیں، اس نے جملہ اسلامی فرقوں کے لیے آزادیِ کامل کا اعلان کر دیا تھا اور اس پر عامل بھی تھا۔ امتناعِ شراب اور قمار بازی کے خلاف اقدامات اور لہو و لعب سے متعلق احکامِ شدید، اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ پکا مسلمان تھا۔ موسیقی کو بھی گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ نجوم کا زبردست ماہر تھا۔ اہلِ کتاب کے ساتھ رواداری پر مائل ہوتا تو انھیں نوازنے میں ضرورت سے زیادہ اعلیٰ ظرفی اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتا۔ (4)
حاکم بامر اللہ کا معمول تھا کہ قاہرہ کے مضافات میں، کوہ مقطم پر ایک غار میں، رات کے وقت چلا جایا کرتا تھا؛ چنانچہ ۲۷ شوال ۴۱۱ھ کو اپنے گدھے پر سوار ہو کر خلیفہ دو ساتھیوں کے ہمراہ اُسی جانب چل دیا۔ رستے میں اُس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور خود غائب ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ دو، چار دن انتظار کے بعد حکومتی ارکان خلیفہ کو ڈھونڈنے کوہ مقطم کی جانب نکلے، راستے میں انھیں خلیفہ کا گدھا مردہ حالت میں ملا، جس کی ٹانگیں کاٹ دی گئی تھیں، مزید ایک مقام پر خلیفہ کا لباس بھی ملا جسے پارہ پارہ کر دیا گیا تھا؛ لیکن خلیفہ کا نشان نہ ملا ۔(5)
یُوں خلیفہ کی موت کا اعلان کر کے اُس کے بیٹے کو خلیفہ نامزد کر دیا گیا؛ تاہم بعض لوگوں نے خلیفہ کی موت کا انکار کردیا اور کہا کہ وہ غیبت میں چلے گئے ہیں اور قیامت سے پہلے لوٹ آئیں گے۔ اُسی گروہ کو آج دروزیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس فرقے کا درست نام موحدون یا دروزیہ اور اس کی وجہ تسمیہ
عصرِ حاضر میں یہ فرقہ دروز، دروزی یا دروزیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دروزی علماء خود کو موحدون کہلانا پسند کرتے ہیں۔ لبنان کے دروزی عالم شیخ مرسل نصر کا کہنا ہے کہ ہم (موحدون) لفظِ دروز کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ الحاکم کے عہد کے ایک داعی محمد بن اسماعیل نشتکین، الدرزی کی نسبت سے اُنھیں دروزی کہا جاتا ہے؛ جبکہ محمد بن اسماعیل نشتکین الدرزی نےاسلامی دعوتِ توحید کو بگاڑ کر پیش کیا، جس کی وجہ سے موحدون نے اُسے قتل کردیا۔ (6)
مصری سکالر، ڈاکٹر محمد کامل حسین نے لفظِ دروز پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشہور یہ ہے کہ موحدون، پسند نہیں کرتے کہ اُنھیں دروز کہا جائے۔ وہ ناپسند کرتے ہیں کہ اُنھیں نشتکین، الدرزی کی طرف منسوب کیا جائے، جسے وہ مُلحد اور اپنے عقیدے اور دعوت سے خارج سمجھتے ہیں۔ وہ خود کو ’’موحدون‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہی نام (موحدون) ان کی مقدس کتب میں بھی ان کے لیے آیا ہے۔ انھیں دروز کہنا، غلط ہے۔ انھیں موحدون ہی کہنا چاہیے؛ تاہم ڈاکٹر صاحب کا ماننا ہے کہ عصرِ حاضر میں یہ گروہ دروز کے نام سے ہی جانا، پہچانا جاتا ہے، اس لیے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم انھیں ’’دروز‘‘ ہی کہیں۔ (7)
فرقہ دروزیہ یا موحدون کےابتدائی داعی
دیگر فاطمی ائمہ کی طرح الحاکم کے دور میں بھی دعوتِ دین کا کام زور و شور سے جاری رہا۔ خلیفہ کی زیرِ نگرانی قائم ’’دار الحکمۃ‘‘ بھی دعوتی عمل کا حصہ تھا۔الحاکم کے عہد کے بڑے اسماعیلی داعی، کرمانی نے اس عہد میں دعوتی کاموں کا یوں تذکرہ کیا ہے إن دعوة الحاكم قائمة و دعاته في كل بقعة يدعون إلى طاعة الله بإمامته و إلى توحيدالله بواسطته و عدله يجمع الخاص والعام فهو قائم ليلا نهارا لتقوية كلمة الحق و إغاثة المظلوم، و نهيه عن المنكر شاع خبره في الآفاق كما ذاع خبر زهده و ورعه و سخائه في معونة ذوي الحاجات، هذا إلى جانب غزارة علمه بالكتاب و الشريعة و العلوم الدينية. کہ الحاکم کا دعوت کا سلسلہ جاری ہے اور اُس کے داعی، ہر علاقے میںاُس کی امامت کے ذریعے اللہ تعالیٰ ک اطاعت اور اُس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے ہیں۔ الحاکم کا عدل، خاص و عام کو شامل ہے۔ خلیفہ کلمہِ حق اور مظلوم کی مدد کے لیے دن، رات کام میں ہے اور اُس کا بُرائیوں سے روکنا، دنیا بھر میں مشہور ہو گیا ہے جیسے اُس کے زُہد، تقوے اور حاجت مندوں کی معاونت کے سلسلے میں سخاوت کے چرچے ہیں، اس کے ساتھ یہ بھی کہ الحاکم قرآن،شریعت اور دینی علوم میں علمی وسعت کا حامل ہے۔ (8)
 دروزی عالم، شیخ مرسل نصر کے مطابق، الحاکم کے دور میں پہلا داعی الدعاۃ، ختکین الضیف کو مقرر کیا گیا۔ یہ فارسی الاصل تھا۔ اسے قطب الاقطاب کہاگیا ہے۔ الحاکم نے اسے ’’الصادق، الامین‘‘ کا لقب بھی دیا۔ دوسرے بڑے داعی، حمید الکدین کرمانی تھے، یہ بہت بڑے فلسفی تھے۔ الحاکم نے انھیں ’’دار الحکمہ‘‘ کا سربراہ قرار دیا۔ انھوں نے بہت سے رسائل تالیف کیے۔ شیخ مرسل نصر کا مزید کہنا ہے کہ عہدِ الحاکم میں بہت سے فکری اور عقیدتی انحرافات پیدا ہو گئے تھے، داعی حمید الدین کرمانی نے اُن کی اصلاح کی بھی کوشش کی؛ چنانچہ آپ نے الحاکم کے عمدہ میں، خلیفہ کی معبودیت کے قائل، بعض دین سے خارج، گمراہ داعیوں؛ جیسے حسن فرغانی اجدع، جسے اخرم بھی کہا جاتا ہے کے رد میں ایک رسالہ لکھا جو ’’الرسالۃ الواعظۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، آپ نے اُس میں منطق اور دیگر دلائل سے یہ ثابت کیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں ہے اور الحاکم مثالی شیعہ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ آپ نے حسن فرغانی کو مخاطب کر کے ’’الرسالۃ الواعظۃ‘‘ میں لکھا کہ تیرے ساتھیوں کا یہ کہنا : معبود تعالیٰ، امیر المؤمنین علیہ السلام ہیں، یہ کفر ہے۔ (9)
جہاں تک مذکورہ بالا داعیوں کی بات ہے تو جمہور اسماعیلیہ، بھی اُنھیں مانتے ہیں۔ فاطمی مذہبی ادب میں کرمانی کی کتب کا بہت بڑا مقام ہے۔آپ نےاپنےاسماعیلی اعتقادات پر کُھل کر لکھا۔جمہور اسماعیلیہ سے دروزیہ کا اختلاف، شاید الحاکم کی روپوشی کے ساتھ شروع ہوا۔ بظاہر دروزیہ فرقے کی بنیاد اُن داعیوں نے رکھی یا اُسے مضبوطی دی جنھوں نے الحاکم کی روپوشی کے بعد، اُن کی غیبت کے نظریے کی ترویج کی اور اُنھیں مہدی منتظر قرار دے کر اُن کی موت کا انکار کیا اور اُن کے بیٹے، ساتویں فاطمی خلیفہ الظاہر کی امامت کو تسلیم نہ کیا۔ اس حوالے سے دروزی عالمہ، ڈاکٹر نجلاء نے دروزی عقیدے کی نشو و نما پر تفصیل سے لکھا ہے؛ وہ لکھتی ہیں نشأ مذهب الدروز في أحضان العقيدة الفاطمية. و محور هذه العقيدة الإمام المنصوص عليه والمهدي بهداية إلهية. إن النظرة إلى الإمام بصفته حامل النور الإلهي لازمتها فكرة الرجعة، ذلك عندما يحين الوقت سيعود القائم أو المهدي المنتظر ليملأ الأرض عدلا و بيسط ملكوت الله على الأرض.دروزی مذہب نے فاطمی عقیدے کے تحت نشو و نما پائی۔ اِس عقیدے کا محورامام منصوص اور الٰہی ہدایت یافتہ مہدی ہے۔ امام، نورِ الٰہی کا حامل ہے، اس نظریے کا لازمہ عقیدہ رجعت ہے اور وہ یہ کہ جب وقت ختم ہونے لگے گا (یعنی قیامت آنے والی ہوگی) قائم یا مہدی منتظر لوٹیں گے؛ تاکہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں اور زمین پر اللہ کی حکمرانی کو قائم کریں۔ (10)
ڈاکٹر نجلاء، دروزیہ کے ابتدائی داعی سے متعلق یوں روشنی ڈالتی ہیں کہ ۴۰۸ھ بمطابق ۱۰۱۷ء میں مذہبِ توحید (دروزیہ) سامنے آیا کہ امام الحاکم کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ لوگ بلا خوف و خطر، اپنے عقائد و نظریات کا اظہار کریں؛ انھیں روکا نہ جائے گا۔ جب ناسوت نے الحاکم میں تجلی کی تو امامت حمزہ کو منتقل ہوئی جو ۴۰۷ ھ میں مشرق سے قاہرہ آئے، اِن کا نام حمزہ بن علی بن احمد زوزنی تھا۔ امام حمزہ نے داعیوں اور ساتھیوں کو اپنے گرد جمع کیا اور اُن کے مراتب طے کیے۔ (11)
دروزی علماء اور دیگر حضرات جنھوں نے دروزیہ سے متعلق لکھا ہے، وہ بھی دروز فرقہ کے ابتدائی داعی، حمزہ بن علی زوزنی کو قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد علی (بوہرہ) لکھتے ہیں ’’ قرامطہ کے بعد، دوسرا اہم فرقہ، دروزیوں کا ہے۔ اس کے مشہور عجمی داعی حسن بن حیدرہ فرغانی، حمزہ بن علی زوزنی اور محمد بن اسماعیل درزی ہیں۔ گو یہ فرقہ درزی کی طرف منسوب ہونے سے دروزی کہلاتا ہے؛ لیکن اس کا حقیقی بانی حمزہ بن علی زوزنی ہے۔ یہی دروزیوں میں بہت معتبر اور مستند رہنما سمجھا جاتا ہے۔ ان کے اکثر رسالے بھی اسی کی طرف منسوب ہیں۔ اسی نے اپنا ایک نیا سن بھی جاری کیاجو ۴۰۸ھ سے شروع ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حمزہ بن علی کو حاکم نے اپنا وزیر بنایا تھا۔ (12)
آغا خانی مؤرخ ، رائی شیخ محمد اقبال نے بھی دروزی فرقے سے متعلق لکھتے ہوئے بانیانِ فرقہ کے عنوان کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس سلسلے میں مختلف لوگوں کے نام بتائے جاتے ہیں، جن میں سے ایک حمزہ بن علی بن احمد اللباد زوزنی تھا، جو ایران کے شہر زوزن سے تعلق رکھتا تھا۔ دروزیوں کی مذہبی کتابوں میں اسی کو بانی مبانی کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے، اس کے مختلف القاب تھے مثلاً ہادی المستجیبین، امام صاحب الزمان، امیر المؤمنین، مولانا، العقل اور الناطق وغیرہ۔ (13)
ایرانی دانشور، ڈاکٹر رضا برنجکار لکھتے ہیں: حمزہ نے کوشش کی کہ وہ دروزی مذہب کو عرفانی اور اسماعیلی، اصولوں کی بنیاد پر عمیق صورت میں تشکیل دے، اس لیے اس نے ’’تجلی‘‘ کی اصل سے استفادہ کیااور یہ اعلان کیا کہ خدا اور صادرارت اولیہ یعنی عقلِ کلی اور نفسِ کلی انسانوں میں تجلی کرتے ہیں، جس طرح خدا نے انبیاء اور دوسرے اولیاء میں تجلی فرمائی تھی، اسی طرح اُس نے الحاکم میں تجلی کی ہے اور الحاکم باللہ خدا کی آخری تجلی ہے۔ حمزہ نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ وہ عقلِ کلی کی تجلی ہے۔ اُس نے نئے مذہب کی تبلیغ کے لیے ایک انجمن قائم کی اور دروزی مذہب کے اصولِ عقائد کو اس انجمن کی بنیاد پر تشکیل دیا۔ اس انجمن کے ارکان حسبِ ذیل تھے
۱: عقل کہ حمزہ بن علی اس کی تجلی ہے اور عقل کی تجلی ہی کو امام اعظم، حقیقی انسان اور قائم الزمان کہا جاتا ہے۔
۲: نفس یا روحِ کلی، جس کی تجلی اسماعیل بن محمد تمیمیہ ہے اور وہ امام اعظم سے علم و دانش حاصل کرتا ہے۔
۳: کلمہ جو محمد بن وہاب (یا وہیب) قرشی ہے۔
۴:مقدم یعنی پیشرو جو جناح الایمن (دایاں پَر) ہے اور وہ مسلمہ (یا سلامہ) بن عبد الوہاب ہے۔
۵:تالی یعنی پیروکار اور جناح الایسر (بایاں پَر) ہے، یہ ابوالحسن علی بن احمد سموکی (یا سموقی) ہے جو بہاء الدین مقتضی، الضیف (مہمان) کے نام سے مشہور ہے۔ ان پانچ ارکان کو مبلغین، ماذونین (جنھیں تبلیغ کی اجازت ہے) اور مکاسرین (حق پر مطمئن رہنے والے) کہا جاتا ہے۔(14)
ابتدائی اختلافات اور دعوتِ توحید کا بند ہونا
دروزیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دعوت میں شدید اختلافات اور دھڑے بندیوں کے بعد، مزید تبلیغ سے روک دیا گیا ، بعد ازاں کسی نئے فرد کو اس فرقے میں داخل کرنا ممنوع ٹھہرا، یوں دروزی مذہب، غیر تبلیغی قرار پا گیا۔ مختلف دروزی سکالرز کی کتب کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عہدِ الحاکم کے دعوتِ توحید کے ابتدائی داعیوں؛ حمزہ بن علی زوزنی اور نشتکین درزی کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے۔ حمزہ بن علی کا کہنا تھا کہ الحاکم سے امامت اُسے منتقل ہوئی ہے؛ اس لیے نشتکین درزی کو اُس کی اتباع کرنا چاہیے جبکہ نشتکین درزی خود کو الحاکم کی جانب سے امام قرار دے کر، لوگوںکو اپنی طرف دعوت دیتا تھا۔ یُوں حمزہ بن علی اور نشتکین درزی کے درمیان اختلاف پیدا ہوا جو نشتکین درزی کے قتل پر ختم ہوا۔ دروزی عالمہ، ڈاکٹر نجلاء لکھتی ہیں کہ ۴۰۸ھ میں حمزہ نےاس نئے مذہب (دروزیہ) سے متعلق چند رسائل لکھے، بعد ازاں، اس نئے مذہب کی طرف دعوت کا کام اس لیے رُک گیا کہ اس مذہب کے پیروکاروں میں یوں اختلاف آگیا کہ ایک فریق نے نشتکین درزی کی اتباع کر لی۔  نشتکین درزی نے حمزہ بن علی زوزنی کی امامت کو مانا تھا؛ لیکن بعد میں وہ منحرف ہوگیا اور دعویٰ کرنے لگا کہ وہ ’’سید الھادین‘‘ اور ’’سیف الاسلام‘‘ ہے۔ درزی نے کوشش کی کہ اپنے مذہب کو قوت سے نافذ کرے تو حمزہ نے اُسے یہ کہتے ہوئے منع کیا کہ ایمان لانےکے لیے تلوار کی ضرورت نہیں ہوتی اور اُسے اس معاملے میں صبر و تحمل اور غور و فکر سے کام لینے کی وصیت کی۔ حمزہ بن علی نے یہ بھی کہا کہ نشتکین درزی گویا بغیر بنیاد کے عمارت بنا رہا ہے، دعوت کی بنیاد حقیقی علم ہے، جس سے درزی نابلد ہے۔ درزی اور اُس کے پیروکار، اہلِ تاویل تھے۔ وہ اس قدر تاویل میں مبالغے سے کام لیا کرتے تھے کہ ظاہر کا انکار کر دیتے۔ حمزہ بن علی نے نشتکین درزی سے کہا کہ ظاہر اور باطن، جسم و روح کی طرح ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں؛ کسی ایک کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ۴۰۹ھ میں درزی اور حمزہ بن علی کے درمیان لڑائیاں بھی ہوئیں بالآخر ۴۱۰ھ میں نشتکین درزی، حمزہ بن علی کے ساتھیوں کے ہاتھوں مار دیا گیا۔ (15)
ڈاکٹر نجلاء نے اس دعوتِ توحید کے آغاز اور بندش؛ دونوں پر اختصار سے لکھا ہے، وہ رقم طراز ہیں کہ پانچویں صدی ہجری کے پہلے نصف میں دروزی جماعت کی تشکیل ہوئی (یہ گیارہویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا) ۔ چھٹے فاطمی خلیفے الحاکم بامراللہ کے عہد میں، قاہرہ سے، دعوت کو پھیلانے کے سلسلے میں، یہ مذہب سامنے آیا۔ ۴۰۸ ہجری بمطابق ۱۰۱۷ء میں اس دعوت کا آغاز ہوا۔ سبھی لوگوں تک اسے پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اس دعوت کے داعی مختلف خطوں میں پھیل گئے ، لوگوں نے اسے قبول کرنا شروع کر دیا۔ ۴۱۱ھ بمطابق ۱۰۲۱ء میں الحاکم کی غیبت (روپوشی) کے بعد، اس دعوتی سلسلے میں تبدیلی آگئی، بہت سے لوگ، جو اس دعوت سے وابستہ ہو چکے تھے، منحرف ہو گئے۔ اس دعوتی کام کو ۴۳۶ھ، بمطابق ۱۰۴۴ء میں روک دیا گیا۔جو لوگ اس نئے مذہب سے منسلک رہے، اُن کی اکثریت پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر تھی جہاں نئے لوگوں کا آنا، جانا بہت مشکل تھا۔ ان کے اہم علاقے جہاں یہ شروع سے آباد ہیں؛ لبنان کا جنوبی پہاڑی علاقہ اور جبلِ شیخ کے قریب وادی تیم ہیں۔ اس وقت دروزیہ کی بڑی تعداد، حوران میں جبلِ دروز پر آباد ہے؛ لیکن یہاں یہ بعد میں آباد ہوئے ہیں(16)
موحدون یا دروزیہ کا عقیدہِ توحید
دروزیہ کا شمار باطنی فرقوں میں ہوتا ہے، اس کی تعلیمات ایک زمانے تک مخفی رہی ہیں۔ اس میں تبلیغ کا سلسلہ نہ ہونا بھی سبب بنا کہ دوسرے لوگ اس سے غافل رہیں۔ جرمن سکالر ماکس (Max Von Oppenheim) نے بھی دروزیہ سے متعلق ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں درزی قبیلہ اور مذہب کی بنیاد سے متعلق، قابلِ غور، مواد نہیں ملا۔ البتہ چند متفرق روایات ملتی ہیں، جو بسا اوقات باہم متضاد ہوتی ہیں۔ یورپ، دروز سے متعلق بہت بعد میں ، سترہویں صدی عیسوی میں، اٹلی میں، لبنانی درزی امیر فخر الدین معنی کے ذریعے سےمتوجہ ہوا۔یورپیوں کو ، اُنیسویں صدی میں، انتہائی مخفی درزی مذہب کی بعض کتب ملیں، اس کا سبب بھی لبنان کی خانہ جنگی قرار پائی تھی۔ درزی مذہب، باطنی مذہب ہے۔ اسی وجہ سے اس مذہب اور اس کے پیروکاروں سے متعلق بہت سے من گھڑت قصے بنائے گئے۔ دروزیوں پر اُن کے پڑوسیوں اور مخالفوں نے بہت تہمتیں لگائی ہیں۔ وہ معلومات جنھیں یورپیوں نے خود دروزیوں سے لیا، اُن سے استفادے کے وقت ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس عجیب، مشکل اور پیچیدہ و مخفی مذہب کی تفصیلات سے دروز میں سے بھی بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔ (17)
اس مقالے کو ترتیب دیتے ہوئے میں نے متعدد دروزی سکالرز کی کتب کو دیکھا؛ ڈاکٹر نجلاء کی کتاب ’’الدروز فی التاریخ‘‘ ، دروز کے حوالے سے مفید معلومات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا تعلق بھی اسی فرقے سے ہے۔ چنانچہ دروز کے عقیدہ توحید کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب لکھتی ہیں کہ دروز اپنے عقیدے کو ’’مذہبِ توحید‘‘ اور خود کو ’’موحدون‘‘ کہتے ہیں۔ اُن کے عقیدے کی بنیاد، اللہ تعالیٰ کی مطلق واحدانیت ہے۔اس واحدانیت میں اللہ تعالیٰ کی صفات، اُس کی ذات سے خارج نہیں؛ بلکہ اس کی صفات، عینِ ذات ہیں۔ کائنات میں کوئی چیز اُس کے مشابے نہیں ہے۔ وہ اسماء، صفات اور لُغات سے ماوراء ہے۔ وہ ذوالجلال والاکرام اس سے ماوراء ہے کہ عقلیں اور آنکھیں اُسے درک کریں۔وہ وصف اور تعریف سے منزہ و مبرا ہے۔ وہ واحد ہے، لیکن عدد کے لحاظ سے نہیں، وہ یکتا اور بے نیاز ہے۔ وہ تعطیل و تشبیہ دونوں سے پاک ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں ہے۔ مکان اور زمان کے اندر وہ قید نہیں ہے۔ وہ ایسا ازلی ہے جس کا آغاز نہیں اور ایسا ابدی ہے جس کی انتہاء نہیں ہے۔ وہ مخلوقات کا بنانے اور اُنھیں دوبارہ پلٹانے والا ہے۔ وہی حقیقت میں موجود ہے، اُس کا غیر وجود نہیں رکھتا۔(18)
اُن کا مزید کہنا ہے کہ دروز کا عقیدہِ توحید، فاطمیوں کے عقیدے سے مختلف نہیں ہے اور فاطمیوں کا عقیدہِ توحید، نو فلاطونیت سے متاثر ہےجیسا کہ عارف، فلسفی، داعی حمید الدین کرمانی کی کتاب ’’راحۃ العقل‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ وہ واحد جس کے لاہوت کو درک نہیں کیا جا سکتا ، اُس نے مختلف ادوار میں، مختلف ظہوروں میں تجلی کی۔۔۔اس تجلی کا آخری مقام، الحاکم بامر اللہ تھا، جیسا کہ اُس کے آباء و اجداد؛ العزیز، المعز، المنصور اور القائم کو بھی مقاماتِ ربانی حاصل تھے۔ یہ مقامات تجسم یا حلولِ خدا در بشر کے نہ تھے؛ بلکہ تجلی اور ظُہور کے تھے جیسے آئینے میں صورت منعکس ہوا کرتی ہے۔ صورت، آئینے میں حلول نہیں کرتی۔ حمزہ بن علی زوزنی کہتا ہے کہ اللہ کا بندہ، انسانوں میں کسی پر بھروسہ نہیں کرتا،نہ کسی شخص یا صورت کی عبادت کرتا ہے؛ بلکہ وہ لاہوتِ کُلی اور خالقِ بے نیاز کی عبادت کرتا ہے، جس کا ناسوت عالم کے لیے ظاہر ہے اور جس کے مقام کو الحاکم کہا جاتا ہے۔ لاہوت ذاتِ خدا ہے جسے کوئی انسان درک نہیں کر سکتا اور ناسوت وہ نورِ الٰہی ہے جو انسان پر، اُس کی صفات اور استعداد کے اعتبار سے، منعکس ہوتا ہے؛ پاکیزہ دل، پاک روح اور جسم کو ایک جانب کرتے ہوئے، وہ ایسا جوہر بن جاتا ہے جو صرف اللہ سے وابستہ ہوجاتا ہے اور اُس پر الٰہی صفات کا فیض ہوتا ہے اور اُس میں نورِ الٰہی تجلی کرتا ہے۔ اہلِ عرفان نے اپنی معراج میں صفات کے اس فیض اور انوارِ الٰہیہ کی خبر دی ہے اور الحاکم اس انعکاس اور تجلی کا مظہر ہے۔ (19)
دروزیہ اور حلول؛ ایک مختصر جائزہ
اس مقالے کی تکمیل کے سلسلے میں، میرے پیشِ نگاہ تین طرح کی کتب رہی ہیں؛ الف: دروزی سکالرز کی کتب، ب: مختلف فرقوں کے تعارف پر لکھی جانے والی کتب اور ج: دروزیہ سے متعلق لکھی گئی، غیر دروزی سکالرز کی کتب۔ میں نے متعدد دروزی ویب سائٹس دیکھیں نیز شام، فلسطین اور لبنان کے دروزی سکالرز سے واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے بھی معلومات حاصل کی ہیں۔مختلف فرق و مسالک سے متعلق لکھی گئی کتب ؛ جیسے کہ ڈاکٹر رضا برنجکار کی ’’اسلامی مذاہب کا تعارف‘‘  وغیرہ ، میں دروزیہ کو غالی فرقوں میں شمار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رضا برنجکار نے اس کا تذکرہ ’’غُلات‘‘ میں کیا ہے؛ تاہم شروع میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اِن (غالی) مذاہب کے کچھ حامی اپنے نظریات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انھیں غالی سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی وضاحتوں کی وجہ سے ان گروہوں کو غالی کہنے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ (20)
اسی طرح بوہرہ دانشور ڈاکٹر زاہد علی اور آغا خانی مؤرخ رائی شیخ اقبال نے بھی اپنی کتب ( تاریخِ فاطمیینِ مصر اور تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ ) میں لکھا ہے کہ دروزیہ الحاکم سے متعلق حلول کے قائل ہیں۔ ایرانی دانشور مہدی فرمانیان نے بھی ’’الاسماعیلیہ؛ تاریخ و عقائد‘‘ ( قم، نشر ادیان، ط۱، ۱۳۸۶) میں (صفحہ۸۹) پر دروزیہ کے عقائد سے متعلق لکھا ہے کہ وہ حلول کے قائل ہیں۔ لبنانی سکالر ڈاکٹر صالح زہر الدین نے دروزیہ سے متعلق اپنی کتاب میں ایک فصل قائم کی ہے جس کا عنوان ’’الدعاۃ المرتدون عن الدین‘‘ یعنی دین سے مرتد ہو جانے والے داعی، رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بہت سے داعیوں نے دروزیہ کو توحید سے ہٹانے میں بنیادی کردار ادا کیا، الحاکم اور حمزہ کے روپوش ہو جانے کے بعد، دروزیہ کو بہت سے عقیدتی انحرافات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر صالح زہر الدین نے محمد بن اسماعیل نشتکین درزی کو اس Category میں پہلے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک داعیوں کو انھوں نے منحرف اور مرتد شمار کیا ہے۔ (21)
جبکہ معاصر دروزی سکالرز کا نظریہ ہے کہ وہ حلول کے قائل نہیں؛ البتہ تجلی کے قائل ہیں جیسا کہ ہم سطور بالا میں ڈاکٹر نجلاء کا نظریہ لکھ چکے ہیں۔ دروزیوں سے متعلق لکھنے والوں میں سے بعض نے ماضی کے علماء کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے، اُنھیں غالی اور مشرک و ملحد تک لکھا ہے؛ جبکہ بعض انھیں اسلامی فرقہ شمار کرتے ہیں۔
معاصر دروز
بظاہر وقت کے گزرنے کے ساتھ دروز میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ بہت سے دروزی علماء نے کُھل کر کہا ہے کہ وہ اسی ملتِ اسلامیہ کا حصہ ہیں اور اُن کے عقائد و نظریات ، قرآن و سنت سے ہٹ کر نہیں ہیں۔ انھوں نے غیر دروزیوں اور خود دروزیوں کے لیے اپنے معتقدات اور مذہب پر تفصیل سے لکھا ہے۔ 
مصر کے ایک سکالر، ڈاکٹر محمد حسین نے دروز سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے، جس کا خاتمہ قابلِ مطالعہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے موحدین کا عقیدہ اپنایا، جنھیں دروز کی غلط نسبت سے یاد کیا جاتا ہے، یہ عرب قبائل میں سے ہیں، طولِ تاریخ میں ان کا عربی النسب ہونا معروف ہے۔یہ سیاسی مسائل میں شروع سے، اب تک اپنے عرب بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں؛ انھوں نے صلیبیوں، تاتاریوں اور یورپی استعماریت کے خلاف، عربوں کا ساتھ دیا ہے۔ تاریخ ان کی بہادری کی شاہد ہے، ہر موقع پر انھوں نے ڈٹ کر عربوںکا ساتھ دیا۔ انھیں اپنے عربی ہونے پر فخر ہے، اسی مناسبت سے انھوں نے اپنے علاقے ’’جبل الدروز‘‘ کا نام ’’جبل العرب‘‘ رکھ دیا۔ جب فرانسی استعماریت نے کوشش کی کہ دروز اور دیگر مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیں تو اُس وقت، دروزی رہنما عادل النکدی نے اپنے خطاب میں کہا تھا: اِن الدروز مسلمون کانوا و لا یزالون و انھم لو لم یکونوا کذلک لصیرتھم عربیتھم مسلمین کہ دروز مسلمان تھے اور مسلمان رہیں گے، وہ اگر مسلمان نہ بھی ہوتے تو بھی اُن کا عربی النسل ہونا انھیں مسلمان بنا دیتا۔ 
جہاں تک دروز کا مسلمانوں سے تعلق ہے تو اس سلسلے میں دروزیوں کے رہنماؤں میں سے شیخ شکیب ارسلان کا وہ بیان جو ۱۵ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ میں جریدہ الشوریٰ میں شائع ہوا ، اُسے نقل کر دیتے ہیں  الدروز  فرقۃ  من الفرق الاسلامیۃ أصلھم من الشیعۃ الاسماعیلیۃ الفاطمیۃ،  والشیعۃ الاسماعیلیۃ الفاطمیۃ أصلھا من الشیعۃ السبعیۃ القائلین  بالأئمۃ السبعۃ، وھؤلاء من جملۃ المسلمین کما لا یخفی، فاذا قیل ان الدروز ھم من الفرق الباطنیۃ التی لا یحکم لھابالاسلام ،فالجواب ان الدروز یقولون انہم مسلمون و یقیمون جمیع شعائر المسلمین ویتواصون بمرافقۃ الاسلام والمسلمین فی السراء والضراء ویقولون ان من خرج عن ذلک منہم فلیس بمسلم، وھذا أصبح من الصعب علی المسلم الذی فھم الاسلام کما فھمہ السلف الصالح والذی سمع حدیث (فلا شققت عن قلبہ) أن یخرج الدروز من الاسلام، وفی الشرع المحمدی قاعدۃ: نحن لنا الظاھر واللہ یتولی السرائر۔ وقد قال اللہ تعالیٰ: ’’ولا تقولوا من ألقی الیکم السلام لست مومناً تبتغون عرض الحیاۃ الدنیا‘‘ و ھولاء یلقون السلام فقط بل یلقون السلام ویقولون انہم مسلمون، ویحفظون القرآن، ویلقن ملقنہم المیت: اذا جائک منکر ونکیر وسألاک ما دینک ومن نبیک وما کتابک ومن اخوانک وما قبلتک، فقل لھما الاسلام دینی و محمد نبی والقرآن کتابی والکعبۃ قبلتی والمسلمون اخوتی۔ ولیس من شعائر السلام شی ء لایقیمہ أولا یوجب اقامتہ الدروز، واذا قیل انہ مع کل ھذہ المظاھر تحتوی عقیدتہم الباطنیۃ الی تعرفھا طبقۃ العقال علی ما یصادم أرکان عقیدۃ السنۃ والجماعۃ ولا یتفق معھا فی شیء فالجواب قد وجد بین المسلمین أئمۃ کبار یترضی عنہم عند ذکرھم ولھم قباب علی أضرحتہم الی تزار و تعلق فیہا القنادیل وکانوا یقولون بوحدۃ الوجود! فھل وحدۃ الوجود  ما یطابق القرآن والسنۃ کلا۔ فھل أخرج المسلمون ھؤلاء الأئمۃ من الاسلام؟  أما تجسد الالہ فلیس من عقیدۃ الدروز کما یتہمھم، بعضہم، والتجسد شیء ورؤیۃ الالہ شیء آخر۔۔۔
کہ دروز، اسلامی فرقوں میں ایک ہے، اس کی اصل شیعہ اسماعیلی فاطمی سلسلہ ہے اور شیعہ اسماعیلی فاطمیوں کی اصل شیعہ سبعیہ ہے جو سات اماموں کے قائل ہیں، یہ بلا شبہ مسلمانوں میںسے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ دروز کا تعلق اُن باطنی فرقوں میں سے ہے جن پر مسلمان ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ دروز کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ مسلمانوں کے سبھی شعائر کی پاس داری کرتے ہیں، وہ چپکے میں اور اعلانیہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں وصیت و نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن میں سے جو ایسا نہیں کرتا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ پس جس مسلمان نے اسلام کو سلف صالح کی طرح سمجھا ہے اور اِس حدیث کو (کہ کیا تو نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اُس نے دل سے کلمہ پڑھا تھا یا نہیں؟) سُن رکھا ہے، اُس کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ دروز کو اسلام سے خارج کرے۔ شریعتِ محمدی میں ایک کلیہ ہے کہ ہم ظاہر کو دیکھیں گے؛ جبکہ دلوںکا بھید اللہ جانتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ اور جو تمہیں سلام کرے تم اسے نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔ تم دنیاوی زندگی کا سازوسامان حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بڑی غنیمتیں ہیں‘‘ یہ تو نہ صرف سلام کرتے ہیں؛ بلکہ ساتھ میں کہتے بھی ہیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور اپنے میت کویوں تلقین کرتے ہیں کہ جب تمھارے پاس منکر و نکیر آئیں اور تجھ سے تمھارے دین، نبی، کتاب، بھائیوں اور قبلے کا سوال کریں تو اُن دونوں کے جواب میں کہ دینا کہ اسلام میرا دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے نبی ہیں، قرآن میری کتاب ہے، کعبہ میرا قبلہ اور مسلمان میرے بھائی ہیں۔ سبھی اسلامی شعائر کو قائم کرنا دروز، ضروری جانتے ہیں۔ اگر بایں ہمہ یہ کہا جائے کہ دروز کا باطنی عقیدہ، جسے اُن کا مذہبی سوجھ بوجھ والا طبقہ جانتا ہے، اہلِ سنت والجماعت کے عقیدے کے ارکان سے متصادم ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے موافق نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے بڑے ائمہ موجود ہیں، جن کا نام لیتے وقت رضی اللہ کہا جاتا اور اُن کی قبروں پر قبے بنے ہوئے ہیں، جن میں شمعیں روشن کی جاتیں اور اُن کی قبور کی زیارت کی جاتی ہے، جبکہ وہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ کیا وحدت الوجود کا نظریہ قرآن و سنت کے موافق ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا مسلمانوں نے ان ائمہ، اکابر علماء و شیوخ کو اسلام سے خارج کیا ہے؟ تجسمِ معبود کا عقیدہ، دروز کا نہیں ہے، جیسے بعض لوگوں نے یہ تہمت لگائی ہے۔ تجسم الگ ہے جبکہ معبود کی رؤیت الگ بات ہے۔ (22)
ڈاکٹر محمد کامل حسین کا مزید کہنا ہے کہ مرحوم شکیب ارسلان کی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ دروزی فرقہ، ہر لحاظ سے مسلمان فرقہ ہے۔ یہ اُن صوفی فرقوں سے ملتا جلتا ہے جن کی خاص تعلیمات اور مخصوص تاویلیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا گمان ہے کہ دروزیہ میں بابِ اجتہاد اور دعوت کے سلسلے کے رُک جانے کے باوجود (کہ بہاء الدین مقتنی کی روپوشی کےبعد دروزی فرقے میں کسی کو داخل نہیں کیا جاتا) وہ عقیدہ جسے حمزہ زوزنی اور بہاء الدین نے پیش کیا تھا، اُس میں بعض شارحین نے بہت سی تبدیلیں کی ہیں اور اُسے بہتر و معتدل بنایا ہے جیسے امیر عبداللہ تنوخی جسے سید کہا جاتا ہے، جس کی ۸۸۴ھ میں عبیہ نامی علاقے میں وفات ہوئی، آپ کا شمار اُن رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے دروزیہ کو سُنیوں کی طرف لوٹانے کی کوشش کی۔ امیر شکیب ارسلان، عارف بک النکدی اور بہت سے دیگر دروزی مذہبی پیش وا ہیں جو اسلام کے علاوہ کچھ قبول نہیںکرتے اور کہتے ہیں کہ دروز، سب سے پہلے، مسلمان فرقہ ہے۔ (23)
لبنان کے دروزی عالم، شیخ مرسل نصر کے مطابق، دروز، اللہ پر، نبی آخر الزمان پر، قرآن پر اور اسلامی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق دروزیہ اور دیگر مسلمان فرقوں میں محض چار بڑے اختلافات ہیں جو یہ ہیں:
۱: ایک ہی شادی کرنا
۲: طلاق یافتہ سے دوبارہ نکاح نہ کر سکنا
۳:وصیت کرنے میں آزادی (ایک تہائی مال میں وصیت کی قید نہیں، نہ یہ کہ کس کے حق میں کی جائے)
۴:تقمص کا  نظریہ ( کہ روح لا فانی ہے، بدن کی موت کے ساتھ، یہ دوسرے انسانی بدن میں منتقل ہو جایا کرتی ہے۔ یوں قیامت تک یہ مختلف جسموں سے گزرے گی۔وہ کہتے ہیں کہ بدن کی موت کے ساتھ ہی، مرنے والے کی روح، نئے پیدا ہونے والے انسان کے بدن میں داخل ہو جاتی ہے- بدن گویا وہ لباس ہے جسے روح اوڑھ لیتی ہے- انھوں نے یہ نظریہ اس بنا پر اپنایا کہ روح لا فانی ہے؛ نیز روح کو بدن کی احتیاج رہتی ہے- ایسا نظریہ تناسخ ارواح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو ہندو، بدھ اور بعض دیگر ادیان میں موجود ہے؛ تاہم دروزیہ کے نزدیک روح ایک سے دوسرے انسانی بدن میں ہی منتقل ہوتی ہے، یہ کسی اور ذی روح میں منتقل نہیں ہوتی-)(24)
شیخ مرسل نصر کے بقول، دروزیہ، فقہ حنفی پر عمل پیرا ہیں؛ البتہ چند مسائل میں اُن کا متداول فقہوں سے نظریہ جدا ہے۔ (25)
دروزیہ فرقے کا عَلَم یا ستارہ
دروزی یا موحدون نامی اسماعیلی فرقے میں پانچ کے عدد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دروزیہ کی مذہبی علامت، اُن کا پرچم اور ستارہ بھی پانچ رنگوں پر مشتمل ہے جو اُن کے دینی افکار و نظریات، ثقافت اور اِس نظریے کے پانچ ابتدائی داعیوں کی عکاسی کرتا ہے جنھوں نے 1017ء سے 1034ء تک اس فرقے کی ترویج کی۔
یہ پانچ رنگ یہ ہیں: سبز، سرخ، زرد، نیلا اور سفید۔
دروزی لٹریچر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سبز رنگ عقلِ کُلی کی علامت ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے صادر کیا۔ دروزی عقیدے کی رُو سے عقلِ کُلی کا مظہر، دروزی عقیدے کا پہلا مؤسس، داعی حمزہ بن علی زوزنی کو سمجھا جاتا ہے۔
سرخ رنگ نفسِ کُلی کی علامت ہے۔ اِس کا مظہر ابراہیم بن محمد تمیمی کو سمجھا جاتا ہے۔
زرد رنگ سے کلمہ مراد لیا جاتا ہے اور اس کا مظہر عبداللہ، محمد بن وہب قرشی کو جانا جاتا ہے۔
نیلا اور سفید رنگ ’’تقمصِ روح‘‘ کی علامت سمجھے جا سکتے ہیں کہ نیلے رنگ سے مراد سابق یا پیشرو لیا جاتا ہے، ابتدائی داعیوں میں سے اِس سے ابو الخیر سلامہ بن عبد الوہاب سامری مراد لیا جاتا ہے؛ جبکہ سفید رنگ سے لاحق، پیرو مراد لیا جاتا ہے، جس کا اولین مظہر ابو الحسن علی بن احمد ضیف کو سمجھا جاتا ہے۔
معاصر دروزی سماج
معاصر دروزی سماج سے متعلق ہم ڈاکٹر رضا برنجکار کیی تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں جو لکھتے ہیں کہ دروز کے پانچویں داعی، ابوالحسن علی بن احمد، مقتنی کے غائب ہونے کے ساتھ ہی شام کے دروزیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے اور وہ صبر و تحمل کے ساتھ الحاکم اور حمزہ کی واپسی کا انتظار کررہے ہیں۔ دروزی لوگ اپنے ہی علاقوں میں محدود اور صرف اپنے لوگوں سے میل جو رکھتے ہیں۔ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ شادی بیاہ اور گھلنے ملنے کو ناپسند کرتے ہیں اور اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مخصوص علاقوں میں اپنی محدود حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ طویل عرصہ قبل جب دروزیوں کی یہ حالت تھی تو ان میں متعدد نئی مذہبی تنظیمیں قائم ہوئیں جو حمزہ کی قائم کردہ انجمن سے مختلف تھیں۔ چنانچہ ان انتظامات کے تحت دروزیہ فرقہ دو حصوں(عقال اور جہال) میں تقسیم ہو چکا ہے۔ان میں کچھ لوگ عاقل اور دانشمند ہیں جنھوں نے حقائق ایمان تک رسائی حاصل کی ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ جاہل عوام پر مشتمل ہے جنھیں دینی حقائق سے آگاہی نہیں؛ چنانچہ اس فرقے کا ہر بالغ شخص زندگی کے مختلف مراحل میںکئی آزمائشوں سے گزرتا ہے اور جب وہ ان میںکامیابی حاصل کرکے دروازی مذہب کی اعلیٰ اقدار کا حامل ہوتا ہے تو وہ حقائق ایمان میں داخل ہو جاتا ہے اور علماءو عقلاءکے گروہ سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں داخل ہونے کے بعد اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ باقاعدہ روزمرہ کی نمازیں پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے اور دروزیوں کا عاقل گروہ مخصوص لباس اور سفید پگڑی باندھتا ہے اور اس کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئے اور زہد کے تقاضوںکا خیال رکھے اور مذہبی کتب کا مطالعہ کرے اور اپنے مذہب کے عقائد و احکام کو یاد کرے۔
جب کہ دروازی فرقے کے جاہل عوام اس طرح کی ذمہ داریوں سے آزاد ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس فرقے کے افراد کے قریب زندگی بسر کرتے ہیںان کا بیان ہے کہ دروزی عوام آزاد منش ہے۔
یہ تقسیم بندی پورے دروزی معاشرے میں رائج ہے۔ دروزی مذہب کی تبدیلی کو ناجائز سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر انسان کو اپنے مذہب پر باقی رہنا چاہیے۔ وہ کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے اور غیر دروزی کے دروزیت کے دائرے میں داخل ہونے کے بھی مخالف ہیں۔ ان کا یہ نظریہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب و ادیان میں توحید کا جوہر موجود ہے اور کائنات کے سارے مذاہب ایک ہی حقیقت کی تجلیات ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی اپنا مذہب تبدیل کر لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب سے جاہل تھا۔
دروزی تمام لوگوں کو یہ نصیحت کرتے ہیںکہ وہ اپنے دین میں زیادہ سے زیادہ غوروفکر کریں اور اپنے مذہب کے اوامر کی پابندی اور نواہی سے اجتناب کریں۔ اصل بات یہ ہے کہ دروزی ادیان الٰہی کی منسوخی کے قائل نہیںہیں۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کے ذریعے سے مخصوص افراد کے لیے مخصوص دین بھیجا ہے۔
یہ نظریہ کم و بیش یہودیوں کے عقیدے سے ملتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہودی مذہب کو بنی اسرائیل کے لیے بھیجا ہے اس لیے بنی اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اسی دین کی پیروی کرتے رہیں۔ اس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسروں کو اپنے دین کی تبلیغ نہ کی جائے اور نہ ہی اپنے دین میں نئے پیروکاروں کو داخل کیا جائے۔(26)
چند دروزی علماء و دانشور
دروزیہ کے ابتدائی داعیوں جنھیں وہ حدود خمسہ بھی کہتے ہیں، کے علاوہ بھی بہت سے علماء گزرے ہیں اور موجود بھی ہیں۔ اُنہی میں سے ایک سید جمال الدین عبداللہ التنوخی (م: ۱۴۷۹ء) ، الشیخ محمد ابو ہلال (م: ۱۰۵۰ھ) ، امین طریف (م: ۱۹۹۳ء)، کمال جنبلاط (م: ۱۹۷۷ء)، شکیب ارسلان (م: ۱۹۴۶ء)، الشیخ موفق طریف اور الشیخ مرسل نصر ہیں۔
عورتوں سے متعلق دروزیوں کا نظریہ
دروزیہ کے ہاں عورتوں کو بھی مردوں کے مساوی سمجھا جاتا ہے۔ عورت طلاق کا حق رکھتی ہے؛ تاہم مرد اور عورت میں سے جو بھی طلاق چاہے اسے مذہبی پیشوا کے پاس جانا ہوگا اور اپنی نصف جائیداد دوسرے کو دینا ہوگی۔
اختتامی کلمات
دروزیہ کا تعلق بھی اسماعیلی فاطمی سلسلے سے ہے۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ دولتِ فاطمیہ پر لکھی گئی، سید رئیس احمد جعفری ندوی کی کتاب سے ایک اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے فاطمیوں کو اُن کے سیاسی حریفوں نے بدنام کرنا چاہا۔ سید رئیس احمد لکھتے ہیں کہ فاطمیوں کے بارے میں، ان کے عقائد و افکار کے بارے میں، ان کی دعوت اور پیام کے بارے میں، ان کے حسب نسب کے بارے میں، ان کی قبول دعوت کے اسباب و محرکات کے بارے میں مؤرخین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان لکھنے والوں میں موافق بھی ہیں اور مخالف بھی۔ مخالفوں کے اندازِ تحریر میں عناد ہے۔ موافقوں کے اسلوب نگارش میں ہمدردی ہے لیکن اب تک اس سلسلے میں خود اسماعیلیوں کی طرف سے کوئی مستند بیان صفائی منظر عام پر نہیں آیا تھا، جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ خود فاطمی اپنے بارے میں اور اپنے خلاف الزامات اور نکتہ چینیوں کے جواب میں کیا کہتے ہیں؟ 
ہندوستان میں سورت اسماعیلیوں کے ایک بڑے فرقے (بوہرہ) کا مرکز ہے، وہاں کی جامعہ سیفیہ کی طرف سے ایک کتاب ’’عہد فاطمی میں علم و ادب‘‘ شائع ہوئی جس سے ہم نے بھی اپنی کتاب(تاریخ دولتِ فاطمیہ) میں استفادہ کیا ہے۔ یہ کتاب ہر اعتبار سے بواہیر کے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی کرتی ہے۔ لہٰذا نامناسب نہ ہوگا، اگر اس کتاب کا وہ حصہ ہم پیش کردیں جسے بجا طور پر بیان صفائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کی روشنی میں دوسرے اہل قلم مخالف یا موافق جو کچھ لکھیں گے اس کی نوعیت سنی سنائی باتوں پر نہ ہوگی، بلکہ ایک مستند ماخذ کو سامنے رکھ کر اظہار خیال کی ہوگی۔
ایک مستند دستاویز
’’عہد فاطمی میں علم و ادب‘‘ میں اسماعیلیوں کے بارے میں جو مواد ملتا ہے، حسب ذیل ہے۔ اس مواد کی حیثیت تمام تر ایک مستند دستاویز کی ہے:
مؤرخوں نے نہ صرف فاطمیین کے نسب پر حملے کیے بلکہ انھو ںنے فاطمی عقائد کو بھی غلط رنگ میں بیان کیا۔ متقدمین میں سے جنھوں نے فاطمیوں کے متعلق لکھا وہ یا تو ابن عذاری، نویری، عمری، قلقشندی، سیوطی وغیرہ تھے جو شیعوں سے عموماً اور فاطمیین سے خصوصاً تعصب رکھتے تھے۔ یا وہ مصنفین تھے جو شیعوں، فاطمیوں، قرامطہ اور دروزیوں وغیرہ کو خلط ملط کر گئے اور ان کے عقائد میں امتیاز  نہ کر سکے۔ متاخرین کے پیش نظر ان ہی کی تصنیفات تھیں جن کی وجہ سے وہ حقیقت بیان کرنے سے قاصر رہے۔
فاطمیوں نے اپنے اماموں کو بشر ہی جانا اور مانا ہے اور کبھی بھی ان کو الوہیت کے رنگ میں دیکھنے کا خیال تک نہیں کیا ہے۔ وہ اپنے اماموں کی حیات و وفات کے ایسے ہی قائل ہیں جیسے اپنی زندگی اور موت کے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق امام حسینؑ کے بعد امامت والد سے فرزند کی طرف منتقل ہوتی رہی ہے اور قیامت تک حضرت فاطمہؓ کی نسل میں امام حسینؑ  کے بعدامامت والد سے فرزند کی طرف منتقل ہوتی رہی ہے اور قیامت تک حضرت فاطمہؓ کی نسل میں امام حسینؑ کی اولاد میں جاری و ساری رہے گی۔ والد اپنے فرزند پر اپنی زندگی ہی میں نص کر دیتا ہے اور بغیر نص کیے کبھی امام کو وفات نہیں ہوسکتی۔ اس طرح سلسلۂ امامت میں کسی وقت فرق نہیں پڑ سکتا۔ زمین کبھی ظاہر امام یا امام مستور کی ہستی سے بے نیاز نہیں رہ سکتی ورنہ عالم کا ثبات نہ رہے اور وجود ہستی باطل ہو جائے۔
ائمہ علوم الٰہی کے خازن اور علم تاویل کے وارث ہوتے ہیں۔ تمام علوم شریعت پر حاوی ہونے کے علاوہ کلام مجید کے حروف مقطعات کے اسرارو رموز اور معانی سے واقف ہوتے ہیں۔
ہر مومن پر امام کی معرفت لازمی ہے اگر وہ دنیا سے بغیر معرفت امام کے چل بسا تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ امام کی معرفت کے بغیر مومن کی نجات ناممکن ہے۔
معرفت امام کی طرح اس کی ولایت بھی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اسلام کے سات دعا ئم شمار کرتے ہیں۔ (۱) ولایت، (۲) طہارت، (۳) صلوۃ، (۴) زکوۃ، (۵) صوم، (۶)حج اور (۷)جہاد۔ ان دعائم میں ولایت افضل ترین ہے اوراسے اولیت حاصل ہے اس کے بغیر کوئی عمل بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں ہوسکتا۔
اسماعیلی شیعہ نبی مرسل کو ’’ناطق‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے کتاب و شریعت لاتے ہیں اور ظاہر بیان کرتے ہیں۔ نبی کے قائم مقام کو جسے ’’اساس‘‘ اور ’’وصی‘‘ کہا جاتا ہے ’’صامت‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ظاہر کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ نبی صاحب تنزیل ہوتے ہیں اور وصی صاحب تاویل۔
شیعہ کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں اور وجوب تاویل کے ثبوت میں قرآن کریم کی بعض آیات بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں مثلاً ’’ولنعلم من تاویل الاحادیث‘‘۔
ہر علم کے دو پہلو ہوتے ہیں: جلی اور خفی، ظاہر اور باطن۔ عام اصول یہ ہے کہ مبتدی پہلے ظاہر کو سمجھتا ہے اور پھر ذوقِ تحقیق سے حقیقت اور باطن تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا اگر قرآنی تعلیم میں باطن اور خفی پہلو ہے تو اس میں حیرت و استعجاب اور انکار و اعتراض کو کون سی بات ہے۔ احادیث اور اقوال صحابہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیم میں ایک راز کا پہلو بھی ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تم بھی جانتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
توحید کے مسئلہ میں اسماعیلی خدا کی ذات پر لفظ واحد کا اطلاق بھی خدا کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کیونکہ وہ تو عاد (شمار کرنے والا) ہے اور واحد معدودات میں شامل ہے جو اس کی مخلوقات ہیں۔ خدا کسی صفت سے موصوف نہیں کیا جاتا ہے۔ اسے کسی صفت سے موصوف کرنا اس کی ذات میں کثرت ثابت کرنا ہے جو شرک کا مترادف ہے۔ اگر ہم اس کو صانع کہیں تو یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ صنعت اور مصنوع دونوں ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسماعیلیوں نے باطن پر بہت زور دیا ہے اور اہل سنت کو اہل ظاہر کہا ہے۔ مگر انھوں نے ظاہر سے کبھی تغافل نہیں برتا۔ جس طرح ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ہر ظاہر کا باطن ہے، اسی طرح ان کا یہ بھی ایمان ہے کہ ہر باطن کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ ظاہر و باطن دونوں میںچولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ آپس میں ان دونوں کا ربط جسم و روح کے تعلق کے مانند ہے۔ ان دونوں کے آپس میں لازم و ملزوم رہنے ہی سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ صلوٰۃ، زکوٰۃ صوم، حج، جہاد کی پابندی ہر مومن کے لیے واجب اور فرض ہے۔ ظاہر کی پابندی کے بعد باطن یعنی عبادت عملیہ لازم قرار دی گئی۔ فاطمیوں نے کبھی بھی ابطال عبادت کا ارتکاب نہیں کیا جیسا کہ عام طور سے مورخین نے ان پر الزام لگایا ہے۔ سیدنا القاضی النعمان کی مستند تصنیف ’’دعائم الاسلام‘‘ فقہ کی کتاب ہے جس میں عبادات کا بیان ہے۔ اگر فاطمی ائمہ ابطال عبادت کے مرتکب ہوتے تو امام معز، سیدنا القاضی النعمان کو مذکورہ کتاب کی تالیف کا حکم کبھی نہ فرماتے۔ امام مستنصر کے عہد کی تصنیف ’’المجالس المستنصریہ‘‘  میں پہلے عبادات کے ظواہر کا ذکر ہے اور پھر ان کی تاویل بیان کی گئی ہے۔ اگر فاطمیین ابطال عبادت ظاہرہ کے قائل ہوتے تو ان کے کسی داعی کی تصنیف میں نہ ظواہر کی پابندی کی تاکید ہوتی اور نہ ان کو بیان کیا جاتا۔ سیدنا احمد حمید الدین کرمانی نے اپنی فلسفیانہ کتاب ’’راحتہ العقل‘‘ کے مطالعہ سے قبل لوگوں کو ’’دعائم الاسلام‘‘ پڑھنے کی تاکید فرمائی تاکہ فلسفہ کے انہماک میں بھی عبادت کا خیال رہے۔
فاطمی ائمہ کی طرف سے تاویل کرنے والوں کو دیگر ہدایتوں کے علاوہ یہ بھی ہدایت تھی کہ وہ اس بات کی احتیاط کریں کہ تاویل سننے والا کہیں معرفت باطن کو کافی سمجھ کر ظاہری شریعت کے احکام کو معطل نہ کردے۔ سیدنا القاضی النعمان نے ہر مجلس کے آخر میں اماموں کی اس ہدایت کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ باطن کی معرفت کے ساتھ ظاہری اعمال بھی لازمی ہیں۔
اگر فاطمی ائمہ تعطیل کے قائل ہوتے تو وہ اپنے داعیوں کا پردہ عصیاں کیوں چاک کرتے جنھوں نے شرعی احکام کو معطل کیا۔ داعی علی بن فضل دور ستر کے اواخر میں یمن میں تبلیغ دعوت کا کام انجام دے رہے تھے لیکن جب وہ بہک گئے تو امام نے ان سے بیزاری ظاہر کی اور حسین بن فرح بن حوشب کو ان سے جنگ کرنے اور فتنہ و فساد فرو کرنے کا حکم دیا۔ قرامطہ نے جب محرمات کو مبا ح کر لیا تو امام مہدی نے انھیں دعوت سے خارج کر دیا اور ان سے جنگ کی۔ قیام سلطنت کے بعد بھی ہمیشہ فاطمیوں اور قرامطہ میں چپقلش رہی ہے۔ اسی طرح فاطمیوں نے فرقہ دروزیہ کی بھی شدید مخالفت کی اور امام کے حکم سے سیدنا احمد حمید الدین کرمانی نے دروزیوں کی تردید میں رسالہ لکھا۔
فاطمیوں کی تاریخ اور ان کے اعمال سے بھی تعطیل شریعت کے اتہام کی واضح تردید ہوتی ہے۔ مثلاً مساجد کی تعمیر جنھیں وہ عبادت گاہیں تصویر کرتے ہیں۔ سیدنا موید شیرازی اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں خدا کی پناہ مانگو اس قوم سے جو اپنے آپ کو شیعہ کہتی ہے مگر کفر والحاد کی بدترین پیش رو ہے، مرکب اباحت کی سوار ہے اور راحت کی خواہش مند۔ احکام شریعت کی بڑی بے پروائی سے خلاف ورزی کرتی ہے اور حرام کو حلال قرار دے کر وادی ہلاکت میں اترتی ہے۔ 
اسماعیلی داعی مستجیب سے بعض باتوں کا عہد لیتے ہیں جسے اسماعیلی ’’عہدالاولیاء‘‘ کہتے ہیں۔ مقریزی اور بغدادی دونوں مؤرخوں نے اپنی اپنی تاریخوں میں اسے نقل کیا ہے۔ اس عہد میں یہ بھی درج ہے کہ ’’تم اس بات کی شہادت دو کہ سوا خدا کے اور کوئی معبود نہیں ہے اور محمدؐ اس کے بندہ اور رسول ہیں اور اس بات کی شہادت دوکہ جنت حق ہے، جہنم حق ہے، موت حق ہے، بعث حق ہے اور اس بات کا اقرار کرو کہ تم اوقات مقررہ پر نماز پڑھو گے، برابر زکوٰۃ  ادا کرو گے، حج کرو گے، نبیؐ کی قبر کی زیارت سے مشرف ہو گے اور راہ خدا میں جس طرح جہاد کرنا چاہیے اسی طرح جہاد کرو گے۔ خدا کے فرائض اور رسولؐ کی سنتوں کی ظاہری و باطنی دونوں صورتوں میں پابندی کروگے۔‘‘ 
امام معز فرماتے ہیں ’’بعض ان لوگوں کے متعلق ہمیں خبر ملی ہے جو ہمارے بارے میں غلو و اغراق سے کام لیتے ہیں اور یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ ہماری محبت رکھتے ہیں اور ہماری طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں،یہ لوگ ایسی غلو آمیز باتیں کہتے ہیں جو نہ کبھی ہم نے کہی ہیں اور نہ کسی نے سنی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے متعلق ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ ہم ان کے کذب و افترا سے خدا کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم خدا کے بندوں میں سے ہیں ہم اس کی مخلوق ہیں۔ ہمیں خدا کے سکھائے ہوئے علم کے علاوہ اور کوئی علم نہیں۔ خدا نے جو علم ہمارے نانا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا ہے ہم اس کے وارث ہوئے ہیں اور اسی کو وراثت میں چھوڑ جائیں گے۔ ہم اس کے علم میں سے اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ وہ چاہتا ہے۔ ہمیں اس کے علم میں سے اتنی ہی آگاہی ہے جتنی کہ اس نے عطا کی۔ ہم نبوت اور رسالت کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ہم تو صرف امامت کے محافظ ہیں۔ ہمارا حلال و حرام کتاب اللہ ہی کے حکم سے ہے۔ (27)
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(1) تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: رائی شیخ محمد اقبال (کراچی، شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ برائے پاکستان،  ۲۰۰۶ء) حصہ دوم، صفحہ ۱۵۳
(2) تاریخِ فاطمیینِ مصر: ڈاکٹر زاہد علی (کراچی، میر محمد کتب خانہ، س۔ن) صفحہ ۱۹۵
(3 ) تاریخ ابن خلدون: عبد الرحمان ابن خلدون، اردو ترجمہ: حکیم احمد حسین الہ آبادی ( کراچی، نفیس اکیڈمی، ۲۰۰۳ء) حصہ پنجم، ششم، صفحہ ۱۲۹
(4) تاریخِ دولت فاطمیہ: سید رئیس احمد جعفری ندوی (لاہور، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، ط۲، ۲۰۰۴ء) صفحہ ۱۴۸
(5) تاریخ ابن خلدون، حصہ پنجم، ششم، صفحہ ۱۳۱
(6)  الموحدون ’’ الدروز‘‘ فی الاسلام: سماحۃ الشیخ مرسل نصر (بیروت، الدار الاسلامیہ، ط۲، ۱۹۹۷ء) صفحہ ۳۳، حاشیہ۱
(7) طائفۃ الدروز، تاریخھا و عقائدھا: ڈاکٹر محمد کامل حسین ( قاہرہ، دار المعارف بمصر، ۱۹۶۲ء) صفحہ ۱۰
(8 ) الدروز فی التاریخ: ڈاکٹر نجلاء ابو عزالدین (بیروت، دار العلم للملایین، ط۱، ۱۹۸۵ء) صفحہ ۱۰۵
(9) الموحدون ’’الدروز‘‘ فی الاسلام، صفحہ ۸۲
(10) الدروز فی التاریخ، صفحہ ۱۲۸
(11) الدروز فی التاریخ: ڈاکٹر نجلاء ابو عزالدین ، صفحہ ۱۳۰
(12) تاریخِ فاطمیین مصر، صفحہ ۴۵۰
(13) تاریخ ائمہ اسماعیلیہ، صفحہ ۱۶۶
(14) اسلامی مذاہب: ڈاکٹر رضا برنجکار، اردو ترجمہ: محمد حسن جعفری (کراچی، جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان، ط۱، ۲۰۱۵ء) صفحہ ۲۰۷
(15) الدروز فی التاریخ، صفحہ ۱۳۱
(16) الدروز فی التاریخ، صفحہ ۹
(17) الدُروز: ماکس فان اوبنھایم، عربی ترجمہ: محمود کبیبو (لندن، شرکۃ دار الوراق، ط۲، ۲۰۰۹ء) صفحہ ۱۱
(18) الدروز فی التاریخ، صفحہ ۱۴۰
(19) الدروز فی التاریخ، صفحہ ۱۴۱
(20) اسلامی مذاہب، صفحہ ۲۰۵
(21) تاریخ المسلمین الموحدین ’’الدروز‘‘: ڈاکٹر صالح زہر الدین ( بیروت، المرکز العربی للابحاث و التوثیق، ط۲، ۱۹۹۴ء) صفحہ ۶۵
(22) طائفۃ الدروز تاریخھا و عقائدھا: ڈاکٹر محمد کامل حسین (قاہرہ، دار المعارف بمصر، ۱۹۶۲ء) صفحہ ۱۲۶
(23) طائفۃ الدروز تاریخھا و عقائدھا، صفحہ ۱۲۷
(24) الموحدون ’’الدروز‘‘ فی الاسلام، صفحہ ۵۱
(25) الموحدون ’’الدروز‘‘ فی الاسلام، صفحہ ۱۴
(26) اسلامی مذاہب، صفحہ ۲۰۹
(27) تاریخ دولتِ فاطمیہ،صفحہ ۳۹۴
مصادر و مراجع
تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: رائی شیخ محمد اقبال (کراچی، شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ برائے پاکستان،  ۲۰۰۶ء)
تاریخِ فاطمیینِ مصر: ڈاکٹر زاہد علی (کراچی، میر محمد کتب خانہ، س۔ن) 
 تاریخ ابن خلدون: عبد الرحمان ابن خلدون، اردو ترجمہ: حکیم احمد حسین الہ آبادی ( کراچی، نفیس اکیڈمی، ۲۰۰۳ء)
تاریخِ دولت فاطمیہ: سید رئیس احمد جعفری ندوی (لاہور، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، ط۲، ۲۰۰۴ء) 
 الموحدون ’’ الدروز‘‘ فی الاسلام: سماحۃ الشیخ مرسل نصر (بیروت، الدار الاسلامیہ، ط۲، ۱۹۹۷ء) 
طائفۃ الدروز، تاریخھا و عقائدھا: ڈاکٹر محمد کامل حسین ( قاہرہ، دار المعارف بمصر، ۱۹۶۲ء)
 الدروز فی التاریخ: ڈاکٹر نجلاء ابو عزالدین (بیروت، دار العلم للملایین، ط۱، ۱۹۸۵ء) 
اسلامی مذاہب: ڈاکٹر رضا برنجکار، اردو ترجمہ: محمد حسن جعفری (کراچی، جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان، ط۱، ۲۰۱۵ء)
 الدُروز: ماکس فان اوبنھایم، عربی ترجمہ: محمود کبیبو (لندن، شرکۃ دار الوراق، ط۲، ۲۰۰۹ء) 
تاریخ المسلمین الموحدین ’’الدروز‘‘: ڈاکٹر صالح زہر الدین ( بیروت، المرکز العربی للابحاث و التوثیق، ط۲، ۱۹۹۴ء) 
طائفۃ الدروز تاریخھا و عقائدھا: ڈاکٹر محمد کامل حسین (قاہرہ، دار المعارف بمصر، ۱۹۶۲ء)