ملا احمد ٹھٹھوی شہید
یہ دین ہم تک بہت قربانیوں اور مشکلات سے پہنچا ہے۔ اس میں علماء کرام کی جدو جہد و قربانیاں قابل ذکر ہیں۔ تاریخ ایسی بے مثال قربانیوں سے بھری پڑی ہے مگر ان سے آگاہی و آشنائی نہیں ہے۔ ہم ماضی میں اپنی مرضی کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں یا ہمیں جان بوجھ کر خاص ماضی ہی دکھایا جاتا ہے۔ یہ لا علمی ہے یا حکمت عملی کچھ کہنا مشکل ہے۔ ماضی سے مکمل آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے حال اور مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ آج کی ناکامی میں ایک وجہ ماضی سے ناآشنائی ہے۔ اس کے علاوہ نا تو ایسے مواقع میسر آتے ہیں کہ ان اصلی ہیروز کو یاد کیا جاسکے، اور نا تحقیق و مطالعہ کی روایت ذندہ رہی کہ آگاہی کا سلسلہ جاری رہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت ملا احمد ٹھٹھوی شہید کی ہے۔ یہ برصغیر کا شائد پہلا فرقہ وارانہ قتل ہے جو رپورٹ ہوا ہے۔
ملا احمد بن نصر اللہ فاروقی ٹھٹھہ سندھ کے سنی قاضی کے بیٹے تھے۔ آپ کے والد ٹھٹھے کے قاضی و عالم تھے۔ ملا احمد نے گھر میں تعلیم و تربیت حاصل کی اور مزید تعلیم شہر کے اساتذہ سے حاصل کی۔ انہوں نے بائیس سال کی عمر میں ایک عراقی تاجر جو عالم بھی تھے ٹھٹھہ آے اور ملا احمد سے ملے۔ ملا احمد ان سے متاثر ہوے۔عراقی عالم کی طرف سے ملنے والی چند شیعہ کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد شیعہ مسلک اختیار کیا تھا۔ وہ ایران کے شہر مشہد گئے اور بعد ازاں یزد اور شیراز چلے گئے جہاں انہوں نے بو علی سینا کی کتاب “القانون” کا درس حاصل کیا۔ وہاں مولانا افضل قائنی، حکیم مرزا جان اور کمال الدین طبیب سے تفسیر و حدیث، عقائد و فقہ، فلسفہ و ہیئت و طب وغیرہ کا درس لیا۔ ملا احمد ذہین،ذکی،خوش گفتار و فاضل آدمی تھے۔ ان کا رابط شاہ طہماسپ صفوی سے ہو گیا، اس نے آپ کو بہت عزت دی اور اپنے ساتھ قزوین میں رکھا۔ شاہ طہماسپ کی رحلت ہو گئی۔ اس کے بعد وہ حج و زیارات کے لیےحجاز و عراق چلے گئے اور عرب دنیا کے علما کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔مختلف علوم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد آپ واپس ہندوستان آئےاور گولکنڈہ میں شیعہ سلطان محمد قلی قطب شاہ اور بیجاپور علی عادل شاہ کے دربار کا حصہ بنے، یہاں حکیم فتح اللہ شیرازی و امیر نظام الدین جیسے اکابر علماء ساتھ رہا۔ دکن میں ملا صاحب کو,, ارسطوئے زماں ,, خطاب ملا۔ علی عادل شاہ کی رحلت سے یہ علمی انجمن کا شیرازہ بکھر گیا۔
جلال الدین اکبر نے ملا فتح اللہ شیرازی کو دارالسلطنت طلب کیا تو ملا احمد ان کے ہمراہ 990ھ میں فتح پور سیکری آ گئے۔ جہاں اکبر نے اسلام کے ہزار سال مکمل ہونے پر “تاریخ الفی” نامی کتاب کی تدوین کا منصوبہ شروع کر رکھا تھا۔ شہنشاہ نے آپ کو بھی اس کتاب کی تدوین میں شریک کر دیا۔ تاریخ کی ترتیب میں خلافتِ راشدہ کا آخری دور ملا احمد کو ملا۔ ملا صاحب نے یہ باب لکھا اور تاریخ نویسی کے بورڈ کے سامنے پیش کیا جس پر بڑی بحث ہوئی۔ بادشاہ نے ملا صاحب کی اطلاعات اور وسعت معلومات کے پیش نظر انہیں ہی پوری کتاب لکھنے کی زمہ داری دے دی۔ یہ کتاب ” تاریخ الفی ” کے نام سے مشہور ہے۔لیکن تاریخ نویسی کے سلسلے میں سنی مصنفین سے اختلاف پیدا ہو گئے۔
ملا احمد راسخ العقیدہ، نڈر، اور بے باک آدمی تھے۔ ہر صحبت میں وہ اپنے عقائد کی حمایت کرنے میں بے خوفی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
1588ء میں آپ لاہور آ گئے جہاں مرزا فولاد سے شیعہ سنی اختلافات پر بحث ہوئی اور اس نے 22 صفر 996ھ کی شام کو آپ کے گھر جا کر چاقو سے وار کیا جس ملا احمد شدید زخمی ہو گئے تو حکیم حسن اپنے گھر لے گئے جہاں آپ 25 صفر کو شہید ہو گئے۔آپ کے خلاف بعض علماء نے اس قدر نفرت پھیلا رکھی تھی کہ تدفین کے بعد رات کو ایک گروہ نے آپ کی میت قبر سے نکال کر آگ لگا دی اور راکھ دریا راوی میں بہا دی۔ اکبر نے تحقیق کا حکم دیا، مرزا فولاد گرفتار ہو کر قتل ہوا۔
فیضی نے ملا احمد کے قتل پر بڑا عمدہ مرثیہ لکھا ہے جو کلیات فیضی جلد اول طبع لاہور میں شائع ہوا۔
آثار
ملا احمد ٹھٹھوی کے آثار میں ایک کتاب “تحقیق تریاق”ہے جس میں اس زمانے کے علم طب اور تجربات کی روشنی میں مختلف بیماریوں کا علاج بیان کیا گیا ہے۔
تاریخ الفی اسلامی تقویم یا ہجری تقویم کے پہلے ہزار سال کی تاریخ جو شہنشاہ اکبر اعظم کے زیرِ اہتمام مدون ہوئی۔
عبد القادر بدایونی ( مولف منتخب التواریخ ) نے پہلی دو جلدیں بغور دیکھیں پھر آصف خان نے اسی اہتمام سے تیسری جلد ملاحظہ کی، بظاہر اس وقت تک یہ کتاب چھپی نہیں۔ احمد بن ابو الفتح شریف اصفہانی نے اس کی تلخیص کی۔ وہ بھی طبع نہیں ہوئی۔ اس کے بعض حصے انگریزی میں چھپ چکے ہیں۔
خلاصہ حیواہ فی الحکماء نامکمل
ترجمہ معجم البلدان نامکمل
رسالہ اخلاق
تریاق فاروق ( طب)
رسالہ اسرار حروف
( مطلع انوار از علامہ مرتضی حسین صدر الافاضل اور ویکیپیڈیا و دیگر سائٹ سے ماخوذ )
یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/shajar-hussain/
Share this content: