ارشد شریف کا قتل ملک کیخلاف ایک سازش ہے

Published by سید اسد عباس تقوی on

syed asad abbas

پاکستان کے ایک معروف اینکر پرسن ارشد شریف جو ایک باخبر صحافی کے طور پر جانے جاتے تھے، حقائق اور خفیہ معلومات کو پیش کرنے کے حوالے سے ان کا پاکستان کے صحافتی حلقوں میں ایک مقام تھا، 23 اکتوبر2022ء کو کینیا میں بظاہر ایک اتفاقی حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔ ارشد شریف فقط ایک صحافی ہی نہیں بلکہ شہید والد اور شہید بھائی کے وارث بھی تھے، جنھوں نے ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان وطن پر نچھاور کر دی۔ ارشد شریف وہی کام اپنے علم، قلم اور زبان سے کر رہے تھے، جو ان کے والد اور بھائی نے بندوق سے انجام دیا۔ ارشد کے بارے جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ ایک دیانتدار اور نڈر انسان تھا۔ انھوں نے اے آر وائی میں ایک لمبا عرصہ خدمات سرانجام دیں۔ پاناما لیکس، اس سے جڑے ہوئے کیسز کے حوالے سے ارشد شریف نے بہت سے پروگرام کیے۔ آج پاکستان کے سیاستدانوں پر بننے والے کرپشن کے کیسز کے حوالے سے ارشد نے متعدد پروگرام کیے۔ ایوین فیلڈ، حدیبیہ پیپر ملز، پاناما لیکس، کیلیبری فونٹ سمیت بہت سے ایسے معاملات ہیں، جن کے مخفی حقائق پر سے ارشد نے ہی پردہ اٹھایا۔

رواں برس میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ارشد شریف نے حکومت کے خاتمے کے پیچھے چھپی قوتوں کے حوالے سے پروگرام کرنے شروع کیے۔ ارشد شریف کی مانند دیگر کئی صحافی اس سلسلے میں شامل ہوئے، تاہم اچانک ان صحافیوں کے خلاف مقدمات بننے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعض صحافیوں کو دھمکیاں ملنی شروع ہوئیں۔ ارشد نے اس موضوع پر بھی ایک پروگرام کر ڈالا، جو بہت معروف ہوا۔ اس پروگرام کا ایک انتہائی اہم سوال ’’وہ کون تھا؟‘‘ تھا۔ میڈیا بالخصوص اے آر وائی کے کئی ایک اینکر پرسنز اور رپورٹرز جو عمران خان کے بیانیہ کی حمایت کر رہے تھے، مشکلات کا شکار ہونے لگے۔ اے آر وائی کے رپورٹر صابر شاکر دھکمیوں سے پریشان ہو کر ملک سے نکل گئے، اب وہ کسی عرب ملک میں رہ کر وی لاگ چلاتے ہیں، عمران ریاض جو سماء ٹی وی پر پروگرام کر رہے تھے، ان کو گرفتار کرکے ایک عدالت سے دوسری عدالت میں پھرایا گیا۔

ارشد شریف کا یقیناً اگلا نمبر تھا۔ جیسا کہ عمران خان نے آج بتایا کہ مجھے معلوم ہوا کہ ارشد کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے، میں نے اسے فوراً ملک چھوڑنے کے لیے کہا۔ ارشد گھنٹوں میں دبئی کے لیے پرواز کر گئے۔ سینیٹر بیگ جو ارشد شریف سے تقریباً روزانہ رابطہ کرتے تھے، کہتے ہیں کہ ارشد کو ہمیشہ کہا کہ وہ برطانیہ یا امریکہ کا ویزا لے لیں، تاکہ اگر اچانک ملک سے نکلنا پڑے تو وہ نکل سکیں، لیکن ارشد نے ہمیشہ یہی کہا کہ مجھے کسی ویزا کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کسی مغربی ملک کے ویزا کے لیے اپلائی نہ کیا اور جب ان کو اچانک جان بچانے کے لیے ملک سے جانے کی ضرورت پڑی تو وہ دبئی گئے۔ سینیٹر بیگ کے مطابق ارشد کو دبئی کے سکیورٹی اداروں کی جانب سے چھے دن کے اندر ملک چھوڑنے کا کہا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ارشد نے دبئی میں امریکہ کے ویزے کے لیے اپلائی کیا، جو مسترد کر دیا گیا۔ کینیا جانے کا فیصلہ ارشد نے خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں کیا، کیونکہ دنیا میں تین ممالک پاکستانیوں کو ائیرپورٹ آمد پر ویزا مہیا کرتے ہیں، ان میں سے ایک ملک کینیا بھی ہے۔

سینیٹر بیگ کے مطابق ارشد کینیا میں برطانیہ کی سم استعمال کر رہا تھا اور وہ عموماً اپنی جائے پناہ میں ہی رہتا تھا، باہر نہیں نکلتا تھا۔ قتل کی رات وہ نہیں معلوم کس لیے باہر نکلا۔ سینیٹر بیگ کے مطابق ارشد نے رات 9 بجے کے قریب مجھے کال کی اور کال کے دوران ہی اچانک اس نے کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں کال کرتا ہے۔ ارشد نے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ سینیٹر بیگ کے مطابق کچھ دیر بعد اس کا میسیج آیا کہ وہ تین گھنٹے بعد کال کرے گا۔ جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اس وقت تک میں سو چکا ہوں گا۔ جس کے فوراً بعد میسیج آیا کہ میں ایسے علاقے میں ہوں، جہاں سگنل نہیں ہیں اور اس کے بعد اس کا فون بند ہوگیا۔

ارشد شریف

ارشد کا قتل بھی ایک معمہ ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ارشد کو کینیا کی پولیس نے غلط شناخت کی بنا پر قتل کیا۔ پولیس کو ایک گاڑی کی چوری کی اطلاع ملی، جس میں ایک بچہ بھی تھا۔ اس گاڑی کا نمبر KDJ700F تھا جبکہ ارشد شریف اپنے ساتھی ڈرائیور کے ہمراہ KDG200M پر سوار تھے۔ پولیس نے بچے کے اغواء کی معلومات کے باوجود گاڑی کے ٹائروں پر نہیں بلکہ پیسنجر سیٹ پر فائر کیے۔ یعنی کوئی فائر بھی ڈروائیور سیٹ کی جانب نہیں کیا گیا۔ نو گولیوں میں سے ایک گولی ارشد شریف کے سر پر لگی اور سامنے سے خارج ہوگئی۔ کینیا کا میڈیا سوال کر رہا ہے کہ گاڑی کا نمبر، اس کا ماڈل، اس کا کلر، بچے کی گاڑی میں موجودگی کی اطلاع کے باوجود گولیوں کی بوچھاڑ، ڈرائیور کے بجائے پیسنجر پر فائر کرنا، یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے، جسے پولیس ایک غلطی کی شکل دے رہی ہے۔

پاکستان میں اس قتل کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، اکثر لوگوں کا غم و غصہ ان لوگوں کی جانب ہے، جن کے خوف سے ارشد شریف ملک چھوڑ کر چلا گیا اور اس نے اپنی آخری ٹویٹس بھی ان کے بارے میں کیں، تاہم میری نظر میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ آج آئی ایس پی آر کے سربراہ نے نہ صرف اس واقعہ کی مذمت کی ہے بلکہ اس کی جامع تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا کہ فوج پر بےبنیاد الزام تراشی کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے اور یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ اس مہم سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ اس واقعے کے حوالے سے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، اسے بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

کہتے ہیں کہ انسان کی بعض غلطیوں کی سزا نسلوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان میں ہم سیاست کے کھیل میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نظریاتی ملک کے دشمن کم نہیں ہیں۔ اس ملک میں بدامنی، اختلاف، افتراق پیدا کرنے والی بہت سی طاقتیں موجود ہیں۔ ہم ملک کے اندر تسلط کی جنگ لڑتے رہتے ہیں اور ہمارا دشمن اس ملک پر تسلط کے منصوبے تیار کرتا ہے۔ راشد کے قتل کے پیچھے موساد، را، سی آئی اے، ایم آئی سکس کسی کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اس معروف صحافی کے قتل کا ملبہ کس پر ڈالا جائے گا۔ اگر اس واقعہ کا کوئی بھی نتیجہ نہ نکلے، ایک نتیجہ تو حتمی ہے کہ پاکستانی عوام اور اداروں کے مابین خلیج وسیع تر ہو جائے گی۔ لہذا نہایت ضروری ہے کہ اس قتل کی تحقیقات کروائی جائیں۔

تاہم یہ ایک عالمی قضیہ ہے، جس میں نہ تو ہم حقائق کو سامنے لا سکیں گے اور نہ ہی اصل مجرموں تک پہنچ سکیں گے۔ ہم تو اپنے ملک کے دو وزرائے اعظم کے قاتلوں کو نہیں پکڑ سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں اور اقدامات کی اصلاح کریں، تاکہ ہم کسی غیر کو اپنے معاملات کو ہاتھوں میں لینے کا موقع فراہم نہ کریں۔ اگر ہمیں یہ ملک واقعاً عزیز ہے تو اس پر اقتدار کی جنگ کو ترک کرتے ہوئے اس کے دفاع کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ملک کو آئین و قانون کے مطابق چلانا ہے۔ اگر اس ملک میں دو قانون رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ خاکم بدہن ہم پاکستان کو مشرقی پاکستان کی مانند دو لخت ہوتا دیکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: تجربات، تجربات اور تجربات https://albasirah.com/urdu/tajarbat/