محسن ملّت علامہ صفدر حسین نجفی

Published by سید نثار علی ترمذی on

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا۔ اگر لکھا گیا تو ان کے ایک یا دو پہلو ہی زیر بحث آئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ایسی شخصیات پر مفصل لکھا جائے اور انہیں آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کیا جائے۔ان جیسی شخصیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دھرتی بانجھ نہیں ہے، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

معروف ادیب اور دانشور پروفیسر مشکور حسین یاد کہتے ہیں : مولانا صفد حسین نجفی مرحوم کام کرنے میں جن اور دیو تھے، لیکن دیکھنے ایک معصوم سی مخلوق۔ جن اور دیو کے مقابلے میں ہم نے انہیں یہاں پری اور حور ، اس لیے نہیں کہا کہ ایک دفعہ ہم مولانا سےاپنا یہی جملہ دہرا رہے تھے کہ جناب آپ تو کام میں جن اور دیو واقع ہوئے ہیں تو اس مرحوم نے مسکراتے ہوئے ہمیں فورا یہ جواب دیا تھا کہ بھئی پری نہیں پرا کہو، جس پر ہم نے فورا جواباً عرض کیا ’’مولانا آپ نے خود کو پرا کہہ کر بھی بڑی استادی دکھائی ہے آپ جانتے ہیں پرا ہندی میں لشکر کو کہتے ہیں اور آپ ذات واقعی کسی فوج یالشکر سے کم نہیں تو حق بات یہ ہے کہ مولاناذات میں اپنی انجمن کیا ایک لشکر تھے ، جو ہر وقت باطل سے نبرد آزما ہونے کو تیار رہتا ہو۔‘‘

یہ بات مبنی حقیقت کہ مولانا نے اپنی پوری زندگی میں جو کام کئے انہیں جان کر انسان اس طرح حیران رہ جاتا ہے کہ ایک انسان اتنے کام بھی کر سکتا ہے ۔ مگر ایک انسان نے یہ کارہائے نمایاں اسی سرزمین پر انجام دیئے ۔ اس مضمون میں ان کے ناتو تمام کارناموں کا تذکرہ ہوسکے گا، اور نہ ہی ہر ایک عنوان پر مفصل بات ہوسکے گی۔ ضرورت ہے ایسی عظیم الشان شخصیت ان کے شایان شان سوانح عمری تحریر کی جائے۔ ان کے کاموں اور ان کے اثرات کو ضبط تحریر میں لایا جائے۔ یہ مرحوم کو ایک ادنٰی ساخراج عقیدت بھی ہوگا اور آئندہ نسلوں پر احسان عظیم بھی۔ محسن ملت کا ایک کارنامہ تویہ ہے کہ علم دین کو انتہائی ذوق و شوق سے حاصل کیا۔ 1933ء آپ اس دنیا میں تشریف لائے ، اسی سال مولانا سید محمد یار شاہ قبلہ مرحوم حصول علم کیلئے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ پھر قبلہ یارشاہ صاحب جہاں درس و ردریس کیلئے گئے آپ کو ہمراہ لے گئے۔ جب آپ سرگودھا میں تھے،تو نجف اشرف جانے کا ارادہ کرکے لاہور آئے ۔ یہاں کسی نے بتایا کہ یہ ریلوے لائن کراچی جارہی ہے، وہاں سے بحری جہاں کے ذریعے جاسکتے ہیں۔ عزم و حوصلہ تو تھا مگر کرایہ نہ تھا۔ اس لیے پیدل ہی چل پڑے۔ جب تین دن کے بعد چیچہ وطنی پہنچے تو نڈھال ہوگئے۔ کسی نے سمجھا بجھا کر واپس بھیجا ، مگر ان کا جذبہ انہیں باب علم کے دروازے تک لے ہی گیا ۔ یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ نجف میں ہی آپ کی شادی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی پھوپھواور علامہ امیر حسین نقوی مرحوم کی ہمشیرہ سے ہوگئی۔ جامعۃ المنتظر، لاہور

یہ بھی پڑھیں: خلوص، سادگی اور عمل کا نمونہ، مولانا سید صفدر حسین نجفی https://albasirah.com/urdu/molana-safdar-najfi/

شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس مرحوم نے شیخ محمد طفیل مرحوم کے تعاون سے 1954میں جامعۃ المنتظر کے نام سے حسینیہ ہال موچی دروازہ میں مدرسہ قائم کیا۔ جو بعد میں وسن پورہ منتقل ہوگیا۔ 1956میں محسن ملت واپس آئے تو اسی مدرسہ میں بطور معلم درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ 1966ء میں اسی مدرسہ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ آپ کے دوست اور خطہ لاہور کے مایہ ناز عالم دین آغا علامہ علی الموسوی مرحوم فرماتے ہیں : ’’مولانا صفدر حسین نے فرمایا کہ اب ہمیں لاہور میں عظیم دینی درس گاہ بنانی چاہیے۔ چنانچہ موصوف کے ایمان و خلوص کی بدولت ہمیں بہت سے ایثار پیشہ رفقا میسر آگئے۔ جن میں صوفی انور مرحوم، حاجی محمد حسین رضوان مرحوم، حاجی شریف حسین مرحوم، حاجی امیر علی مرحوم، سیٹھ نوازش علی، خواجہ محمد اشرف اور خالو کرامت علی کے اسماء گرامی قابل زکر ہیں۔ راقم الحروف (آغا علی الموسوی) اور علامہ نجفی سمیت یہ تمام جامعۃالمنتظر کی تعمیر و ترقی کیلئے اس کے ٹرسٹی بن گئے اورانتہائی سرگرمی کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھاتے رہے‘‘ یوں جامعۃ المنتظر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگیا، ’’جب جامع المنتظر قائم ہوا تو یہ پانچواں مدرسہ تھا۔ آپ نے مدارس کے قیام میں قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔ کوئی چالیس کے قریب مدارس کی تاسیس کی ۔ ان کی خواہش تھی کہ ہر پچاس کلومیٹر کے فاصلےپر ایک معیاری مدرسہ قائم ہونا چاہیے۔

امام خمینی کی ترویج 1970ءمیں آیت اللہ محسن الحکیم کے وصال پر جامع مسجد کشمیریاں موچی دروازہ، لاہور میں مجلس ترحیم منعقد ہوئی۔ اس موقع پر امام خمینی کی مرجعیت کا اعلان کیا گیا۔ آغا علی الموسوی مرحوم فرماتے ہیں ’’ مولانا سید مرتضیٰ حسین، علامہ صفدر حسین نجفی اور میں نے آپس میں طے کیا کہ اب ہم آیت اللہ خمینی کی مرجعیت کا اعلان کریں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ایام میں ہماری نگاہ میں ان سے عالم کوئی نہ تھا۔ لہذا مسجد میں اعلان کردیا گیا کہ آیت اللہ الحکیم کی رحلت کے بعد شیعان پاکستان کو آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ اسی شام کو علامہ نجفی میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ دوست جلدی کریں تاکہ ہم آیت اللہ خمینی کی توضیع المسائل کا ترجمہ کردیں، پھر کیا تھا اسی وقت توضیع المسائل کے دو حصے کئے اور ہم دونوں نے ایک ایک حصے کا ترجمہ کرنا شروع کردیا ۔ چنانچہ دو ماہ کے قلیل عرصے میں ہم نے یہ ترجمہ مکمل کرلیا اور اسے شائع بھی کرادیا۔ اس دوران بعض حلقوں نے ہمیں ڈریا، دھمکایا اور اس کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے لالچ بھی دیئے اور ہم سے کہا کہ آیت اللہ خمینی کے لیے کام نہ کرو ، مگر کسی پہاڑ کی طرح ڈٹ گئے اور ہمارے قدم ذرا بھی نہ ڈگمگائے۔

علما ء کے درمیان اتحاد علامہ حافظ ریاض حسین نجفی لکھتے ہیں ’’بدقسمتی سے پاکستان کے شیعہ علماء لگ بھگ 1960ء سے دو مخالف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کا باہمی علمی اختلاف رائے ذاتی عناد کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ علامہ نجفی نے بارش کے پہلے قطرے کی حیثیت سے اس راہ میں قدم بڑھایا اور دونوں گروہوں کے سربرآور علماء سے رابطہ فرما کر انہیں احساس دلایا کہ ہمارے اس جھگڑے سے ملت جعفریہ کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہے اور ہمارے حقیقی مخالفین گھی کے چراغ جلارہے ہیں‘‘ علامہ صفدر نجفی مرحوم نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر انہیں ایک معاہدے پر لے آئے ۔ معاہدہ یہ ہے کہ جس پر تمام فریقین کے علماء نے دستخط کئے۔ ۱۔ تمام شیعہ علماء کرام آج کے بعد مذہبی اور قومی امور میں متحد اور متفق ہوکر باہمی تعاون فرمائیں گے۔ ۲۔ ایک دوسرے کے خلاف تحریر و تقریر کے ذریعہ کسی قسم کا پراپگنڈہ نہیںکریں گے۔ ۳۔ اگر بعض نظریات کی تعبیر میں کچھ باہمی اختلاف ہے تو اس کو صرف مثبت اور مہذب پیرائے میں پیش کریں گے۔ ۴۔اس معاہدہ کے اگر بعض ، اختلا فی امور کے متعلق طرفین کوئی باہمی گفتگو کرنا چاہیں گے تو دوستانہ ماحول اور علمی سطح پر کرسکیں گے۔ ۵۔ اس معاہدہ کے بعد سے ہم باہمی دوستانہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری کردینگے اور اسے جاری رکھیں گے اور ایسے مواقع کو ضائع نہیں کریں گے۔ آج کے اس دور ابتلاء میں محسن ملت کے کردار کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تنظیمات محسن ملت نے اس ملت کو تنظیموں کا بے بہا تحفہ دیا۔ ان میں امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، امامیہ آرگنائزیشن، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، وفاق علماء شیعہ اور جمعیت طلباء جعفریہ، ان سب کے قیام میں بنیادی و مرکزی کردار مرحوم کا تھا آئی ایس او کے تو آغاز سے لے کر اپنی آخری سانس تک اس کے سرپرست اور مربی رہے۔ ان سب تنظیموں کے حوالے سے مفصل لکھا جاناچاہئے اس میں مضمون میں ممکن نہیں ہے۔

قومیات قومیات کا ہر دور محسن ملت کی موجودگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیعہ دینیات کا مسئلہ ہو یا مطالبات کا ۔ یا دیگر مسائل آپ پیش پیش رہے۔ ایک دور مفتی جعفر حسین مرحوم سے شروع ہوتا ہے ۔ اس میں مرکزی کردار آپ نے ادا کیا۔ مفتی صاحب کو قائد بنانے اور تسلیم کرانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ آپ مفتی صاحب کے ساتھ سینئر نائب صدر رہے۔ جب ان کے رحلت بعد نئے قائد کا انتخاب کا مرحلہ پیش آیا تو اس پر بھی آپ کی پہچان کی تعریف نہ کرنا بخل ہوگا ۔ آپ نے ہی علامہ عارف حسین الحسینی شہید کو متعارف کروایا۔ شہید نے پھر قیادت اور قومیات کا معیار ہی بدل دیا۔ ان کی شہادت کے بعد کا انتخاب بھی آپ کی تجویز کردہ شخصیت کا ہوا۔

مصباح الحق ٹرسٹ مرحوم اکثر یہ گلہ کرتے تھے کہ ’’ہمارا دین سنا سنایا ہے، پڑھا ہوا نہیں ہے‘‘ اس کے لیے انہوں نے متعدد کاوشیں کیں ۔ انہوں نے امامیہ پبلیکیشنز کے قیام میں اساسی کردار ادا کیا۔ اس ادارےنے آپ کی اکثر کتب کو شائع کیا۔ آپ نے لگ بھگ 80سے زائد کتب کے تراجم شائع کراکے کتب کی کمی پورا کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قرآنیات کے حوالے سے بھی ملت کا دامن پر ہونا چاہیے۔ اس کے لیے آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی شہرہ آفاق تفسیر نمونہ جو کہ27جلدوں پر مشتمل تھی کے ترجمہ اور اشاعت کا پروگرام بنایا۔ قرآنیات کے فروغ کیلئے مصباح القرآن ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قبلہ نے26جلدو ں کا خود ترجمہ کیا اور ایک جلد کا ترجمہ ان کے شاگرد نے کیا ، جبکہ تفسیر موضوعی کا بھی ترجمہ کیا۔

علامہ صفدر حسین نجفی

امام خمینی اور انقلاب اسلامی محسن ملت ان چند آگاہ افراد میں سے تھے جنہوں نے امام خمینی کی اس وقت تقلید کی جب کہ ان کا اس علاقہ میں تعارف بھی نہیں تھا۔ اس دوران انہوں نے امام خمینی کی توضیع المسائل اور حکومت اسلامی کا ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ 1975 میں جب سیٹھ نوازش علی زیارات کیلئے نجف گئے تو ان کے توسط سے امام خمینی کو پیغام بھجوایا کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں کیونکہ عراق میں بعثی حکومت نے آپ پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔ اس دعوت کے جواب میں امام خمینی نے فرمایا ’’حوزہ علمیہ نجف اشرف میں میرا موجود رہنا واجب ہے، اگر حکومت عراق میرے یہاں سے چلے جانے کا وقت مقرر کردے تو بھی اپنی روانگی میں کچھ نہ کچھ تاخیر کردونگا۔ ‘‘ اس طرح جب امام خمینی فرانس میں تھے تو آپ نے علامہ امیر حسین نقوی مرحوم اور سیٹھ نوازش کے ہمراہ پیر س جاکر امام خمینی کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔

امام خمینی نے فرمایا’’میں اسلام کی خدمت کیلئے نکلا ہوں، آپ بھی نکلیں‘‘ جب انقلاب اسلامی کامیاب ہوگیا تو آپ پھر امام خمینی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں پاکستان کی ضروریات سے آگاہ کرتےہوئے ایک مجتہد کو نامزد کرنے کی درخواست کی ۔تاکہ یہاں بھی درس خارج کا اجراءہوسکے۔ اس طرح آپ پہلے آیت حسین نوری پھر آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی کو لانے کامیاب ہوئے۔

راقم کی رائے میں محسن ملت علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم ان علماء میں سے ہیں کہ جن کی نظر ملت کے مستقبل پر تھی۔ انہوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے چند افراد کی ذمہ داری لگائی اور اپنے لیے مدارس و اشاعت علوم قرآن و اہلبیت کا میدان چنا، جبکہ دیگر پہلو کی نظارت فرمائی اہل افراد کے ذمہ کام لگاکر ان کی سرپرستی فرماتے رہے۔ آج جو مدارس و کتب اور تنظیموں کی بہار ہے وہ انہی کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ آپ میں احساس ذمہ داری و مسئولیت حددرجہ کی تھی اوروہ اس سے عہدہ برا ہونے کیلئے اپنی ذاتی و خاندانی زندگی کو بھی پس پشت ڈال دیتے تھے۔ اللہ ان کے درجات کو مزید بلند فرمائے۔ آمین۔