کیا وہ غور نہیں کرتے یا اللہ سے نہیں ڈرتے۔۔۔؟

Published by محققین البصیرہ on

سیدہ تسنیم اعجاز
اختلاف بنیادی طور پر آزادیٔ فکر کا فطری نتیجہ ہے۔ کہیں بھی دو انسان ہوں وہ ایک نقطے پر اپنی الگ رائے رکھتے ہیں لیکن اپنی رائے کو مقدم جان کر دوسرے کو دبانے کے لیے شدید ردعمل کا اظہار درست نہیں اور اسے کوئی بھی ذی عقل درست نہیں سمجھتا اختلاف دراصل انسانی وجدان کی ایسی صلاحیت اور الٰہی نعمت ہے جو انسان کو جمود سے نکال کر کائنات کی وسعتوں تک لے جاتی ہے۔ لہٰذا اختلاف بری چیز نہیں البتہ اسے مثبت انسانی رویوں کی ضرورت ہے کسی نقطے کی بابت ایک دوسرے کے دلائل پر وسعت قلبی کے ساتھ دقت نظر کرنا اور اگر صحیح ثابت ہوجائے تو اسے بلا چون وچرا تسلیم کر لینا انسانی کمال کی دلیل ہے۔ یہی رویہ معاشروں میں صلاح و آشتی اور ترقی و ارتقاء کا ضامن ہے۔ انسانی معاشرے میں گروہ بندی کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ سوچ اور نظریے کا اختلاف بھی انسانی معاشروں میں گروہ کو جنم دیتا ہے۔


ایک ہی سوچ اور نظریے کے حامی افراد ایک گروہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دین اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ تعلیم فرمایا ہے۔ دین میں اکثر باتیں بالکل صاف اور واضح بیان کی گئی ہیں جن میں ہمیں اختلاف رائے کی جرات نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ بعض نقاط، تفسیر وتوضیح کے متحاج ہیں جنھیں ہم دیگر آیات یا احادیث نبوی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس جب ہماری ناقص عقل ان نقاط سے مطالب اخذ کرنے کی کوشش کرتی ہے اختلاف تبھی جنم لیتا ہے۔ ہمیں اپنی عقلی و فکری محدودیت کا اعتراف ہونا چاہیے ایک دوسرے کی آراء کا احترام کرنا چاہیے تاکہ مختلف اخذ شدہ مفاہیم سے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔


سورہ الجاثیہ کی آیت نمبر پانچ میں ارشاد رب العزت ہے:
رات اور دن کے ا ختلاف(بدلنے) میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے اس میں اور ہوائوں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں۔(الجاثیہ:۵)
یعنی رات دن کا اختلاف حتیٰ کہ مختلف ہوائوں کا چلنا جو کبھی بشیر اور کبھی نذیر بن کر چلتی ہیں دراصل خدا کی وحدانیت تک پہنچنے میں انسانی شعور کی مددگار ثابت ہوتی ہیں البتہ اگر یہی اختلاف ایک دوسرے کی مخالفت اورعداوت میں بدل جائے تو تباہی و بربادی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آ جانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے۔ (آل عمران :۱۰۵)
روشن دلائل آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ انسان اپنے نفس کا پجاری ہو اور حقیقت کو جاننے کے باوجود تسکین نفس کے لیے اس سے انکار پر اڑا رہے۔ یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلاف کی وجہ بھی یہ نہ تھی کہ انھیں حق کا پتہ نہ تھا یا وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے بلکہ محض اپنے بنیادی مفاد اور نفسانی اغراض کے لیے اختلاف اور تفرقہ کی راہ پر مُصر تھے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بالکل ایسی ہی روش اس امت کے فتنہ گروں نے بھی اختیار کر رکھی ہے حق و حقیقت ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہے اس کے باوجود فرقہ بندیوں پر اڑے ہوئے ہیں اور اپنی ساری صلاحیتیں گذشتہ امتوں کی طرح تاویل و تحریف جیسے مکروہ کام میں ضائع کررہے ہیں۔
اور کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے تو کیا تم اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہو؟(الفرقان:۴۳)
بے شک ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اس کا رائی برابر عمل بھی اس کے نامہ اعمال میں شامل کیا جائے گا اور تب یہ جان لے گا جو کچھ اس نے دنیا میں کمایا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد انسان مزاج اور فطرت کے بھی خلاف ہے۔ انسان فطری طور پر امن پسند اور صلح جو ہے۔ نفس امارہ اور شیطانی وسوسے دنیا میں اس کی آزمائش کے لیے رکھے گئے ہیں اسی لیے ایک مرتبہ جب صحابہؓ میدان جنگ سے فتح یاب ہوکر لوٹے تو رسول اللہؐ سے عرض کیا ہم جہاد اکبر سے لوٹے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹے ہیں۔ پس نفس کا جہاد جہاد اکبر ہے۔ یہ تعلیمات ہمارے پیارے دین اسلام کی ہیں جس پر بلا تفریق ہر مسلمان ایمان اوراعتقاد رکھتا ہے۔

     ہم جانتے ہیں کہ صدر اسلام میں مسلمان توحید کی وحدت پر متحد تھے کوئی فرقہ یا گروہ نہیں تھا سوائے گروہ محمدؐ کے بقول شاعر

ع اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
ہاں البتہ ایک شیطانی فرقے نے جنم لیا تھا جو منافقین کے نام سے جانا جاتا تھا اور جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو بارہا آگاہ بھی کیا۔ اگر غور کیا جائے تو آج بھی انہی منافقین کا گروہ اسلام کے نام پر مسلمانوں ہی کے جان و مال کے درپے ہے اور سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلام کو بدنام کرنے پر تلا ہے۔ ایک کم تعلیم یافتہ مسلمان بھی جانتا ہے کہ نہتے لوگوں پر وار کرنا اور انھیں موت کے گھاٹ اتاردینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور خالق کائنات جس نے اپنے رسولؐ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا انسان کے اس گھنائو نے فعل پر کبھی راضی اور خوش نہیں ہوسکتا۔


علماء کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں موجود مختلف مسالک کے درمیان مشترکات، متفرقات سے کہیں بڑھ کر ہیں اور بنیادی اراکین اور عقائد تو تقریباً ایک ہی ہیں لہٰذا کوئی دانش مند یہ نہیں چاہے گا کہ چند اجتہادی مسائل کو لے کر امت مسلمہ میں پھوٹ ڈالی جائے سوائے اس کے کہ وہ اسلام کا دشمن ہوگا۔


دہشت گردی کی شعلہ بارانیوں سے پہلے بھی پاکستان میں یہ مسالک موجود تھے جو پرامن زندگی بسر کررہے تھے اور آج بھی یہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں پھر کون ہے جو ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے، مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے، ہمارا ایمان ہے کہ ایک مسلمان جو رحمت للعالمین کا سچا پیروکار ہو وہ انسان تو کیا کسی حیوان پر بھی ظلم گوارا نہیں کر سکتا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مذہب کے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دینے والا گروہ استعمار کا پروردہ ایک اقلیتی گروہ ہے اور امن و آشتی کے آرزو مند اکثریت میں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھاری اکثریت پر اقلیت غالب آتی جارہی ہے جب کہ وہ ظالم حق پر نہیں ہیں پس ہم پر لازم ہے کہ قرآن اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنے فکر و عمل کا مسلسل جائزہ لیںاپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات میں ڈھالیں تاکہ منافق گروہ کو پہچاننے میں آسانی ہوجائے اور ہم سب مل کر اس کا خاتمہ کرسکیں۔


مصلحت اندیش اور مفاد پرست حکمران بھی کسی منافق ٹولے سے کم نہیں۔ ان کی بیمار پالیسیاں اور کمزور فیصلے انھیں عوام کا مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں پانچ سال میں اگر گیس پائپ لائن کا فیصلہ کر پائے ہیں تو خدا جانے تیزی سے وطن کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے دہشت گردوں کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرنے میں کتناعرصہ درکار ہو گا۔۔۔؟

یہ بھی پڑھیں: دینی خدمت کا غیر انسانی رویہ https://albasirah.com/urdu/deeni-khidmat-ka-gher-insani-rawaia/
فرقہ واریت پرمبنی اذہان کی پرورش کرنے والے اکثر حضرات ہمارے دینی تعلیمی مدارس میں براجمان ہیں وہ معاشرے میں کوئی اور مثبت کردار ادا کرنے کے قابل تو ہوتے نہیں لہٰذا اپنی منفی سوچ کا زہر اسلام کا نام لے لے کر معصوم ذہنوں میں بھرتے ہیں البتہ ہماری اس ناچاری اور لاچاری کے پیچھے بھی ہماری بے ضمیر سیاست کا بڑا ہاتھ ہے جو عوام کو ووٹ کے بدلے روپ بدل بدل کر غربت افلاس بے روزگاری، بے کاری اور ناخواندگی ہی دیتے رہے ہیں۔ انتہا پسند جماعتیں عوام میں جہالت اور معاشی مشکلات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیت اور غم و غصہ سے فائدہ اٹھا کر انھیں اپنے اثرورسوخ اور تعداد میں اضافے کی غرض سے استعمال کرتی ہیں۔
لہٰذا اپنی مشکلات کے ادراک اوراس کے صحیح حل تک پہنچنے کی صلاحیت سے محروم عام انسان کہیں بے ضمیر ملاّوں اور کہیں عیار سیاستدانوں کی خواہشات پر قربان ہوتا ہے۔ ملّا ان سے جنت کے وعدے کرتے ہیں اور سیاستدان دنیا ہی میں انھیں سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن کبھی مجھے اس قوم پر بھی حیرت ہوتی ہے جن کی امیدیں ان سے کبھی ڈگمگاتی نہیں یہ دن بھر مار کھاتے اور رات بھر اگلے دن کی کٹائی کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرنے میں گزارتے ہیں۔
معلوم نہیں ظاہراً بے نیاز نظر آنے والی اس قوم کو کون سا مرد قلندر بے نیازی کا سبق پڑھائے گا انسانیت کا درس دے کر اپنے اوپر بھروسہ کرنا سکھائے گا البتہ یہ اشعار ہمیں ازبر ہیں ۔


ع خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(ظفر علی خان)