×

جمہوریت، گوسالہ پرستی یا اصلاح امور مملکت کی ایک کوشش

syed asad abbas

جمہوریت، گوسالہ پرستی یا اصلاح امور مملکت کی ایک کوشش


تحریر: سید اسد عباس

نبی کریم کی اصطلاح میں طاغوت اسے کہا جاتا ہے، جو اللہ کے مقرر کردہ نظام سے باہر ہو جائے یا ہر وہ چیز طاغوت و طغیان ہے، جو اللہ کی مقرر کردہ حدود سے باہر نکل جائے۔ مسیحیت کے اکثریتی مذہب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تبلیغ کو ایک مشن کے طور پر اختیار کیا گیا، جبکہ شیعہ نے اس کو پیشہ بنا لیا ہے۔ امام زین العابدینؑ کے زمانے میں عوام کے تین گروہ تھے، ایک وہ جو کہ بنی امیہ کا حامی تھا، دوسرا گروہ عبد اللہ ابن زبیر کا حامی تھا اور تیسرا گروہ کوفی تھے، جو مزید دھڑوں میں تقسیم تھے۔ ایک دھڑا مختار ثقفی کا دھڑا تھا، جو پہلے تو عبد اللہ ابن زبیر کا حامی بنا اور اس کے بعد وہ انہی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ دوسرا دھڑا سلمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں دمشق کے راستے میں قتل ہوگیا۔ توابین اور مختار ثقفی کے دھڑوں کے مابین ہمیشہ اختلاف رہا۔

امام سید سجاد ؑ کے وفادار پیروکاروں کی تعداد مختلف روایات کے مطابق تین سے چھے تک تھی۔ امام زین العابدین ؑ نے کوفیوں کو مکار اور غدار کہا اور انھیں نصیحت کی کہ نہ وہ کسی کا ساتھ دیں اور نہ ہی ان کی حمایت کریں۔ یہ خلاصہ ہے قبلہ جواد نقوی کے خطبہ جمعہ کا جو انھوں نے 16 فروری 2024ء کو جامعہ العروۃ الوثقیٰ میں ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں پیش کی گئی معروضات کو بنیاد بناتے ہوئے انھوں نے تجزیہ کیا کہ آج پاکستان میں امامت کا نام لینے والوں کی بھی کوفیوں جیسی حالت ہے۔ کتنے ہیں کہ جو امامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اقامت دین، اقامت عدل اور امامت کے قیام کے لیے کتنے موجود ہیں۔ آج ہم کہتے ہیں کہ امام ظہور فرمائیں، جیسے کوفہ والے امام زین العابدین کو کہہ رہے تھے کہ آپ قیام فرمائیں۔ حالانکہ امام کو ہمارا رویہ پسند نہیں، ہم سامری کے گوسالہ کے پیچھے ہیں، طاغوت جب آپ کو بلاتا ہے تو ووٹ دینے آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے مابین کوفیوں جیسے مکار موجود ہیں، جو غیر محسوس انداز سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں، خیانت کرکے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اقتدار پسند مولوی، شہرت پسند مولوی اور ہوس دنیا میں ڈوبے ہوئے مولوی قرآن سے جمہوریت نکال کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی نگاہ سے لوگوں کو حق حکومت حاصل ہے۔ ان کو حاکم چننے کا اختیار ہے اور ان کا چنا ہوا حاکم، حاکم شرع ہے۔جمہوریت قرآن میں اطاعت کا نام ہے، ولایت اختیار کا نام ہے، جو اللہ کی طرف سے ہے اور اطاعت ہے جمہور کا کام اطاعت کرنا ہے۔ اللہ کے فرمان کی اطاعت کرنا رسول اللہ کے فرمان کی اطاعت کرنا اولی الامر کے فرمان کی اطاعت کرنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امامت کے بغیر ہمارا ہر دن خطرے میں ہے، یہی غداری ہے، ہر دن امامت کے بغیر ہر دن جو امامت کے سائے سے باہر گزرتا ہے، امامت کے پرچم سے باہر گزرتا ہے اور امامت کے فرامین کی اطاعت سے باہر گزرتا ہے، یہ غدر ہے۔

اس گفتگو میں سے بہت سی ایسی باتیں موجود ہیں، جن کا علمی جواب دیا جانا چاہیئے، تاہم اس گفتگو میں جو چیز اظہر من الشمس ہے، یہی ہے کہ جو لوگ بھی اس گفتگو کو عرصہ دراز سے سن رہے ہیں، وہ اپنے مقابل نظریہ اور شخصیت کو کوفی، شامی، خائن، غدار اور مکر کرنے والے، ہوس پرست، اقتدار پرست، قرآن و سنت کے مخالف سمجھیں گے۔ یہ خطبہ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے اذہان میں نفرت کے جو بیج بو رہا ہے، اس کے شواہد ہم اپنے معاشرے میں محسوس کرسکتے ہیں۔ قبلہ نے اپنے خطبے میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کو آڑے ہاتھوں لیا، 9 فروری 2024ء کا خطبہ اور اس کے بعد 16 فروری کا خطبہ دونوں نظام حکومت پر بحث سے متعلق ہے۔ قبلہ طاغوت، استعمار، سامری کے گوسالہ کی رٹ ایک عرصے سے لگائے ہوئے ہیں، اس پر انھوں نے فوجی جمہوریت کا بھی تڑکہ لگایا، یہ وہی باتیں ہیں، جو اس خطبے میں بھی ایک الگ انداز سے دوہرائی گئی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، اس عنوان سے ایران کے سپریم لیڈر اپنی گذشتہ کئی ایک تقاریر میں انتخابات میں عوامی شرکت، جمہور کے نظام کے لیے کردار اور انتخابی سلسلے میں عوامی شرکت کی اہمیت و ضرورت پر بات کرچکے ہیں۔ رہبر انقلاب کے کچھ فرمودات میں نے اپنی گذشتہ تحریر میں رقم کیے۔ کل یعنی 18 فروری 2024ء کو رہبر انقلاب نے آذربائیجان شرقی کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “انتخابات جمہوری نظام کا مظہر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ استکباری لوگ اور امریکہ جو اس نظام کی جمہوریت اور اسلام دونوں کے خلاف ہیں، انتخابات اور پولنگ بوتھ پر عوام کی پرجوش شرکت کے خلاف ہیں۔ ہم سب کو الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ جو لوگ مسائل کو ٹھیک کرنے اور حل کرنے کے درپے ہیں، ان کا صحیح راستہ الیکشن ہے اور انھیں الیکشن میں جانا چاہیئے۔ عوام ہی ملک اور نظام کے مالک ہیں اور ملک کے اہم عہدیداروں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ منتخب کرکے ملک کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔”(Leader.ir)

رہبر انقلاب کے انتخابات اور جمہور کی رائے کی اہمیت کے حوالے سے مزید بیانات حسب ذیل ہیں: سپریم لیڈر ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ابھی چند روز قبل فضائیہ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا “انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ملک کے اقتدار اور سکیورٹی کے ضامن ہیں۔” (رسالت اخبار ایران)۔ اسی طرح ایک اور خطاب میں کہا “انتخابات میں شرکت کرنا عوام کا حق ہے۔” (صبح نو اخبار) آئمہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا “انقلاب اسلامی عوام کی موجودگی، خواہش اور اقدام کے بغیر ممکن نہیں۔” (جوان اخبار ایران)۔ اگر مراجع عظام بالخصوص آیت اللہ سید علی خامنہ ای، آیت اللہ سید روح اللہ موسوی الخمینی، آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی کے جمہوریت کے حق میں اور انتخابات میں عوامی شرکت پر مشتمل بیانات کو اکٹھا کر لیا جائے تو ایک پوری کتاب مرتب ہوسکتی ہے، تاہم عروۃ الوثقی کے سامری گر کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

میں نے اپنی گذشتہ تحریر میں مشروطہ تحریک کے روح رواں مرجع شیعان جہان آیت اللہ آخوند خراسانی، آیت اللہ عبداللہ مازندرانی اور آیت اللہ اسماعیل محلاتی کے جمہوریت کے حق میں فتاویٰ کا تذکرہ کیا تھا۔ ان شخصیات کے فتاویٰ اور بیانات کی ایک طویل فہرست ہے، جو ایک کالم میں جمع نہیں کی جاسکتی۔ آخوند خراسانی کا یہ جملہ ہی کافی ہے: “آئینی جمہوریت کے لیے ہماری حمایت دراصل اسلام کے جوہر کا تحفظ کرنا ہے۔” مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اسے جملے کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا: “جمہوریت کی اصل شوریٰ اور استخلاف صالح پر ہے اور یہ دونوں چیزیں قرآن، سنت رسولؐ اور سنت خلفائے راشدین سے ثابت ہیں۔ پس اگرچہ جمہوریت کی کسی خاص شکل کو ہم اسلام کا طریق حکومت نہیں کہہ سکتے، لیکن نفس جمہوریت کے متعلق ہم بلاشک و ریب کہہ سکتے ہیں کہ وہ اور صرف وہی اسلام کا بتایا ہوا طریق حکومت ہے اور ملوکیت یقیناً ایک جاہلی نظام ہے، جس کے بت کو توڑنا اسلام کے اصلاحی پروگرام کے سب سے پہلی دفعہ ہے۔(ابو الاعلی مودودی، جلوہ نور، جمہوریت و ملوکیت، ناشر معارف اسلامی، لاہور،۱۹۹۳ء، ص ۱۱۰)

نہ فقط مولانا مودودی پاکستان کے مختلف مسالک کے اکتیس اکابر علماء نے آئینی جمہوریت کو قبول کرتے ہوئے سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے جو بنیادی اصول وضع کیے وہ حسب ذیل ہیں: “رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے، جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت ِرائے پر ان کے جمہوری منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔ رئیس مملکت ہی نظم ِمملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔ البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتا ہے۔ رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی، یعنی وہ ارکان ِحکومت اور منتخب نمائندگان ِجمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔ رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کْلاً یا جزواً معطل کرکے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔ جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی، وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔ رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔”

قبلہ امام کی غیبت کے زمانے میں امامت کا نام لے کر جو مغالطہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں وارد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ اگرچہ نظام امامت تو قائم نہیں کرسکے گا، لیکن ملت کو دھڑوں میں تقسیم ضرور کرے گا۔ قبلہ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ پاکستان مختلف مسالک کے باسیوں کی آماجگاہ ہے، یہاں ایک مسلک کی جانب سے پیش کردہ نظام کو اپنی تشریحات کے ہمراہ پڑھانا اور اس کے مخالفین کو یہودیوں، سامریوں، غداروں اور مکاروں، ہوس پرستوں، اقتدار پرستوں سے تشبیہ دینا اپنے مخالفین کے خلاف برین واشنگ کہلاتا ہے۔ اگر آپ واقعی لوگوں کے علم میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسلامی حکومت کے حوالے سے مختلف تشریحات کو بیان کرنا چاہیئے اور اپنے پیروکاروں کو بتانا چاہیئے کہ ہر طبقہ کی تشریحات کچھ اصولوں پر استوار ہیں۔

کسی دوسرے کی تشریح کو نہ مان کر کوئی غدار، مکار، سامری، طاغوتی نہیں ہو جاتا ہے۔ ناپختہ اور کم خواندہ اذہان کو یہ مت بتائیں کہ جمہوریت کے ذریعے منتخب ہونے والا سربراہ مملکت حاکم شرع بن جاتا ہے۔ یہ بھی مت بتائیں کہ جمہوریت سے منتخب ہونے والا حکمران مطلق العنان حاکم ہوتا ہے اور وہ احکام و قوانین کو مطلقاً ختم کر سکتا ہے۔ یہ بھی مت بتائیں کہ جمہوری حاکم معزول نہیں کیا جاسکتا۔ قبلہ سے گزارش ہے کہ تاریخ سے درست عبرتیں حاصل کریں، تشیع کی تبلیغ میں کمرشلزم ہمیشہ سے نہیں ہے، لوگوں نے اس مکتب کی ترویج کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، بھوک پیاس کاٹی ہے ، میلوں کا سفر کیا ہے۔ آج بھی بہت سے ایسے افراد موجود ہیں، جو للہیت کے جذبے سے مکتب اہل بیت ؑ کی ترویج کر رہے ہیں۔ ہمیں مکھی نہیں شہد کی مکھی کا رویہ اختیار کرنا چاہیئے، جو ہمیشہ پھولوں پر بیٹھتی ہے اور معاشرے کو شہد جیسی شیریں نعمت سے بہرہ مند کرتی ہے۔

Share this content: