×

اسماعیلیہ ایک مختصر تعارف(2)

مفتی امجد عباس

اسماعیلیہ ایک مختصر تعارف(2)

اسماعیلیہ بھی دیگر شیعہ مسالک کی طرح امام علیؑ کو امامِ منصوص مانتے ہی وہ شیعہ اثنا عشریہ کے پہلے چھ اماموں کی امت کے قائل ہیں؛ بعدازاں وہ امام جعفر صادقؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل یا اسماعیل کے بیٹے محمد کی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔اس طرح وہ سات اماموں کی امامت کے قائل ہیں۔ یہ عقیدہ تمام اسماعیلی فرقوں میں مشترک ہے۔ گذشتہ قسط میں جناب مفتی امجد عباس نے اسماعیلیہ کی تاریخ، فرقوں اور ان کے بنیادی اعتقادات کا اجمالی جائزہ پیش کیا تھا۔ زیر نظر مقالے میں معاصر اسماعیلی فرقوں؛ آغا خانیوں اور بوہروں کی آبادی اور ان کے عقائد و نظریات کا اختصار سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آئندہ دروزیہ کے عقائد و نظریات کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔ مفتی امجد عباس اس سے قبل زیدیہ، اباضیہ اور نور بخشی فرقہ کے حوالے سے بھی ایسے مضامین تحریر کر چکے ہیں۔ یہ مضامین ان فرقوں کو جاننے کے لیے ایک اہم تعارفی منبع ہیں۔ (ادارہ)

اس وقت دو بڑے اسماعیلی فرقے ؛ آغا خانی اور بوہرے موجود ہیں۔ اِن دونوں کا تعلق مصر کے حکمران، فاطمی خاندان سے ہے۔ فاطمیوں کا تعلق اسماعیلیہ کے اُس گروہ سے ہے جو سلسلہ امامت کو جناب محمد بن اسماعیل کی اولاد میں جاری سمجھتے ہیں۔ ہم گزشتہ قسط میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ فاطمیوں نے ائمہ کو ظاہر اور مستور کی دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ پہلے ساتھ ائمہ کو ظاہر پھر دیگر ائمہ کو مستور جانتے ہیں، مستور ائمہ کے سلسلے کا آخری امام المھدی باللہ تھا، انھوں نے اپنی امامت کا کُھل کر اظہار کیا، یوں دوبارہ ظاہری ائمہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ المھدی نے مراکش میں فاطمی حکومت کی بنیاد رکھی۔ آٹھویں فاطمی ظاہر امام مستنصر باللہ کے جانشین کے سلسلے میں اختلاف پیدا ہوا۔ اُن کے بڑے بیٹے نزار کے بجائے جناب مستعلی کو باپ کا جانشین مقرر کردیا گیا، یوں فاطمیوں میں دو فرقے سامنے آئے؛ جنھوں نے نزار کو ہی خلیفہ مانا انھیں ’’نزاریہ‘‘ کہا گیا جبکہ جنھوں نے مستعلی کو خلیفہ مان لیا، اُنھیں ’’مستعلیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ نزاریہ کی تاریخ حسن بن صباح سے وابستہ ہے، جس نے قلعہ الموت پر قبضہ کر کے ایران میں نزاری حکومت قائم کی۔ مصری فاطمیوں کی دعوت کو دعوتِ قدیم جبکہ ایرانی نزاریوں کی دعوت کو دعوتِ جدید کہا جاتا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ نزاریہ مزید دو گروہوں؛ مومن شاہیہ اور قاسم شاہیہ میں بٹ گئے۔ قاسم شاہی آج بھی موجود اور امامت کے تسلسل کو مانتے ہیں، انھیں آج کل آغا خانی کہا جاتا ہے۔ مستعلیہ فرقہ بھی حافظیہ اور طیبیہ گروہوں میں بٹ گیا۔ طیبیہ وقت کے ساتھ داؤدی اور سلیمانی گروہوں میں تقسیم ہوگیا، جنھیں ہمارے ہاں بوہرے کہا جاتا ہے۔
نزاری اسماعیلیہ (آغا خانی) اور مستعلیہ اسماعیلیہ (بوہرے) کے اعتقادات پر بات کرنے سے پہلے، مصری فاطمیوں کی مذہبی تعلیم کو جاننا مفید ہے۔
فاطمیوں کی مذہبی تعلیم
پہلے ہم اُس پر بات کرتے ہیں۔ دوسرے اسماعیلی فرقوں کی طرح فاطمی بھی ظاہر اور باطن کے درمیان فرق کے قائل تھے؛ لیکن وہ قرامطہ کی مانند نہیں جو صرف باطن کو قبول کرتے تھے اور نہ ابتدائی اسماعیلیوں کی طرح تھے جو ہمیشہ باطن اور پوشیدہ حقائق کو ہی اہمیت دیتے تھے۔ فاطمی اسماعیلیہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ظاہر، باطن کی اور باطن، ظاہر کی تکمیل کرتا ہے اور وہ دونوں کے درمیان اعتدال کو قائم رکھنا واجب سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ شریعت پر عمل کے بغیر حقیقت تک رسائی ناممکن ہے اور حقیقت ہمیشہ شرائع اور دین کے ظواہر سے مربوط ہوتی ہے اور تفسیرِ قرآن کے حوالے سے وہ اسماعیلی امام کو قرآن ناطق اور قرآن کریم کے متن کو قرآن صامت کہتے تھے۔ اپنے اماموں کے اقوال کو احادیث کا درجہ دیتے ( اور انھیں واجب التعمیل سمجھتے تھے) فاطمی احادیث نبوی اور اولین ائمہ اہل بیت بالخصوص امام جعفر صادقؑ کا بے حد ادب اور احترام کرتے تھے۔ قاضی نعمان نے فقہ اسماعیلیہ کی بنیاد رکھی تھی اور اس کی تدوین کردہ فقہ، پہلے فاطمی خلیفہ عبداللہ المھدی سے لے کر 363ھ میں ان کی وفات تک فاطمیین کے زیرِ تصرف علاقوں میں رائج رہی۔ داعی نسفی، ابوحاتم رازی، ابو ایوب سجستانی جیسے قرمطی مفکرین نے نو فلاطونی فلسفے سے متاثر ہو کر ایک ایسی جہاں بینی کی تدوین کی تھی جو سرزمینِ مشرق کے تمام قرمطی گرہوں کے لیے قابلِ قبول تھی۔ یہ معز فاطمی کے دور حکومت میں اسماعیلی فاطمیوں کے لیےبھی قابلِ قبول قرار پائی۔(1)
ڈاکٹر زاہد علی، اسماعیلیہ کے مخصوص مذہبی علوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسماعیلیوں کے مخصوص مذہبی علوم تین بڑے حصوں پر منقسم ہیں:
(۱) طالب علم کو پہلے فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس فن میں متعدد علماءکی کتابیں رائج ہیں جن میں سب سے زیادہ مستند قاضی القضاہ نعمان بن محمد کی تصنیفیں ہیں جن کی تفصیل گزر چکی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں شرعی احکام کے ساتھ ساتھ ان کی اسناد بھی قلم بند کر دی گئی ہیں۔ اسماعیلی فقہ میں قیاس اور رائے کو بالکل دخل نہیں۔ اجتہاد گمراہی کا راستہ ہے۔ ہر شرعی حکم نص قطعی کا محتاج ہے۔
(۲) فقہ کے بعد شرعی احکام کی تاویل سکھائی جاتی ہے۔ اس فن میں بھی سب سے زیادہ معتبر تصنیفیں قاضی القضاہ نعمان بن محمد ہی کی ہیں۔ انبیاءکے قصوں کی تاویل اسی فن میں شامل ہے۔ علم تاویل کو علم باطن بھی کہتے ہیں۔ ان میں جو اسرار ہیں وہ عوام کو نہیں بتائے جاتے۔ اسماعیلیوں میں بھی جو ایک خاص درجے کو پہنچتا ہے وہی ان پر مطلع ہو سکتا ہے لیکن خوش قسمتی سے داعی ناصر خسرو کی کتاب ”وجہ دین“ جو تاویل میں لکھی گئی ہے چھپ چکی ہے۔
(۳) تاویل کے ختم ہونے کے بعد مذہبی فلسفے کی تعلیم شروع ہوتی ہے جسے اسماعیلی اپنی اصطلاح میں ”حقیقت“ کہتے ہیں۔ اس فن میں عالم کی ابتدا، انتہا، رسالت، وصایت، امامت، قیامت، بعث اور حشر وغیرہ کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔تاویل اور حقیقت کے مسائل پر ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ (2)
ڈاکٹر زاہد علی، تاویل اورحقیقت کو اسماعیلیہ کے مخصوص مذہبی علوم میں سے شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ جن علوم پر ہم ناز کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہمیں انھیں جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے ہمیں کو مخصوص کیا ہے وہ علم تاویل اور علمِ حقیقت ہیں۔ کتاب الافتخار کی تصنیف کا یہی سبب ہے جو اس کے نام سے ظاہر ہے۔ اس کے مصنف سیدنا یعقوب سبحستانی نے بار بار ہر بحث کے دوران میں یہ کہا ہے کہ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ہی علوم و معارف سچے ہیں اور ہمارے ہی عقائد درست ہیں۔ یہاں پہلے ہم تاویل کی حقیقت بیان کرکے اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالیں گے پھر علم حقیقت کی طرف متوجہ ہوئے۔
تاویل کی حقیقت
ہر دورمیں تنزیل یا شریعت کے ظاہر کے لیے ایک نبی ہوتا ہے جو شریعت کے اوضاع مثلاً طہارت، نماز وغیرہ سکھاتا ہے۔ اس نبی کو اس کے وصی کے مقابلے میں جس کا نام صامت ہے ناطق کہتے ہیں۔ یہ اپنے خاص پیروؤں میں سے ایک شخص کو اپنا وصی مقرر کرتا ہے جسے وہ شریعت کے باطن پر ،جسے تاویل کہتے ہیں ،آگاہ کرتا ہے۔ یہ تقرر خدا کی طرف سے ہوتا ہے یعنی نبی کو خدا حکم دیتا ہے کہ تم فلاں شخص ہی کو باطنی شریعت کی تعلیم کے لیے اپنا وصی مقرر کرو۔ اسے صامت، اساس اور سوس بھی کہتے ہیں۔ صامت کے معنی خاموش رہنے والے کے ہیں۔ یہ ظاہری شریعت سے خاموش رہتا ہے یعنی اسے نہیں بیان کرتا۔ اساس کے معنی پایہ اور سوس کے معنیٰ جڑ کے ہیں۔ چونکہ یہ ظاہری شریعت کا پایہ اور اس کی جڑ ہوتا ہے اس لیے اسے اساس اور سوس بھی کہتے ہیں۔ اس کا فرض ہے کہ نبی کے ماننے والوں میں سے جنھیں مستحق سمجھے اُن سے عہد و پیمان لے کر ان کو ظاہری شریعت کے اسرار سے آگاہ کرے۔ ناطق کا پورا علم اس کی وفات کے وقت اساس کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ کل ادوارسات ہوتے ہیں چھٹا دور آنحضرت صلعم کا اور ساتواں دور مولانا محمد بن اسماعیل کا ہے۔ آنحضرت صلعم نے ظاہری شریعت وضع کی۔ اس کے باطن یا تاویل کے لیے مولانا علی کو خدا کے حکم سے وصی بنایا تاکہ آپ تاویل کاکام انجام دیں۔ آپ رسول ناطق کے مقابلے میں وصی صامت کہتے جاتے ہیں۔
تاویل کا مقابلہ ظاہر سے
تاویل کے دوسرے نام باطن، رمز ،ممثول، حقیقت، حکمت اور سر وغیرہ ہیں۔ اس لحاظ سے ظاہر کو مرموز یا مثل کہتے ہیں۔ تاویل اللہ تعالیٰ اور راسخون فی العلم ہی جانتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ“ ان سے وہ ائمہ مراد ہیں جو اہل بیت سے ہیں۔ آیہ کریمہ ”فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ“ میں حکمت سے تاویل مراد ہے۔
تاویل کا علم خاص اولیاءکو بتایا جاتا ہے۔ دوسروں کو نہیں۔ تاویل اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جو مخزون ہے۔ تاویل اہل بیت کا معجزہ ہے۔
ظاہر ایک خواب ہے اور تاویل اس کی تعبیر ہے۔ باطن کا ارتباط اعمال سے نہیں ہے۔ وہ صرف ایک روحانی علم ہے جو عمل اور تکلیف کے بغیر ہے تاویل صورت ہے اور تنزیل ماوہ ہے۔ تاویل پھل ہے اور تنزیل چھلکا ہے تاویل کے مقابلے میں ظاہر میں اختلاف تناقض اور ٹیڑھا پن ہے۔ ظاہر علم کثیف ہے۔ ظاہر محض تقلید ہے جس میں کوئی دلیل نہیں۔ اہل ظاہر اہل کفر بلکہ اہل شرک ہیں۔ آیت کریمہ ”قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلََ “ میں تورات سے ظاہر اور انجیل سے باطن مراد ہے۔ آیت کریمہ ”مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ“ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو وصی کو تو مانتے ہیں لیکن تاویل کو جو وصی سے مخصوص ہے نہیں مانتے اور مشرکین سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو وصی ہی کی ولایت کا اعتراف نہیں کرتے۔
اسماعیلیہ کے ہاں تاویل کی چند مثالیں
تاویل کے معنی اول کی طرف رجوع کرنے کے ہیں۔ یعنی اصل اور ابتداءمیں دعوت کی ایک حد (رکن) یا قاعدہ ہے جو باطن ہے مثلاً امام یا اس کی اطاعت۔ اس کی طرف اشارہ کرنے یا اس کے سمجھانے کے لیے فلاں وضع ظاہری شریعت میں مقرر کی گئی ہے تمام ظاہری اوضاع کے اشارے خواہ وہ نماز یا روزہ یا عبادت کے کسی اور صیغہ سے متعلق ہوں حدود دعوت یا ان کے اقرار یا ان کی اطاعت یا قواعد و ضوابط کی طرف ہیں۔ہم یہاں چند مثالیں درج کرتے ہیں جو کتاب الشریعہ من کلام الامام المعنی، اساس ۱۱ تاویل الدعائمہ کی ابتداءمیں بیان کی گئی ہیں مثلاً:
۱۔ دعوت کے روحانی حدود، عقل اول، عقل ثانی اور دوسرے ساتھ عقول ہیں۔ ان کے مقابلے میں جسمانی حدود ناطق، اساس اور سات ائمہ ہیں جن کی بارہ حجتیں ہوتی ہیں۔ بندوں پر ان کا اقرار یا ان کی اطاعت فرض کرنے کے لیے کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ وضع کیا گیا۔ ہر بندہ پر فرض ہے کہ وہ کلمہ طیبہ کے باطن کو سمجھے کیونکہ ان کے الفاظ اور حروف میں تمام روحانی حدود اور جسمانی حدود بلکہ شام فرائض پنہاں ہیں۔ جو شخص انھیں نہ جانے گا اس کی شہادت خدا کے پاس مقبول نہ ہوگی۔ وہ اسے رد کرے دے گا۔ جیسا کہ آئندہ معلوم ہوگا۔
۲۔ دعوت کے بارہ آداب ہیں ان پر دلالت کرنے کے لیے بیت الخلاءکے بارہ آداب مرتب کیے گئے ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ ان پر دلالت کرنے کے لیے دوسرے اوضاع بھی ہو سکتے ہیں۔
۳۔ امام اور حجت کا اقرار کرنا ضروری ہے اس پر دلالت کرنے کے لیے وضو میں کلی کرنے ناک میں پانی لینے کی ہدایت کی گئی ہے کیونکہ امام اور ناک حجت پر مثل ہے۔ اس کے علاوہ امام اور حجت پر دلالت کرنے کے لیے متعد اوضاع ہیں۔
تاویل کی ایک خاص اصطلاح یعنی مثل و ممثول
جہاں کہیں تاویل کا بیان ہے وہاں ایسا ہی کہا گیا ہے کہ فلاں وضع شریعت، دعوت کے فلاں حد پر مثل ہے۔ مثلاً ظہر کی نماز آنحضرت صلعم پر اور عصر کی نماز مولانا علی ؑ پر مثل ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاتا ہے کہ آنحضرت نماز ظہر کے اور مولانا علیؑ نماز عصر کے ممثول ہیں گویا تمام اوضاع شریعت امثال ہیں اور دعوت کے حدود ان کے ممثولات یا عام طور پر ممثولات کا استعمال زیادہ ہے۔
تاویل میں اختلاف اور اس کے اسباب
تاویل میں یکسانی ضروری نہیں اسی وجہ سے اس میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ مختلف علمائ، مختلف تاویلیں کرتے ہیں بلکہ ایک ہی عالم ایک ہی مسئلہ کی الگ الگ وجوہات سے مختلف تاویلیں کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے استاذ نے اس بات کی اجازت دی ہو۔ اس کی تائید میں ایک روایت مولانا جعفر صادق سے نقل کی جاتی ہے۔ آپ نے ایک دفعہ ایک مسئلہ کی تاویل بیان فرمائی۔ دوسرے موقع پر کچھ اور تاویل سنائی۔ جو پہلی تاویل سے الگ تھی سائل نے اس کا سبب پوچھا آپ نے جواب دیا کہ تاویل کی وجوہات ستر ہو سکتی ہیں۔ مختصر یہ کہ دعوت کے اصول اور اس کے حدود (ارکان) کے مراتب کو قائم رکھ کر اگر مختلف تاویلیں بیان کی جائیں تو کوئی ہرج نہیں۔ مثلاً سیدھے اور بائیں ہاتھ دھونے کی تاویل نبی اور وصی کی طاعت ہے۔ اسی طرح اس کی تاویل امام اور حجت کی طاعت بھی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم آئندہ تختے میں واضح کریں گے کبھی رات کی تاویل باطن اور دن کی تاویل ظاہر اور کبھی اس کا برعکس ہو سکتا ہے۔ تاویل وقت اور امکان کے لحاظ سے ظاہر کی جاتی ہے۔
کلام مجید میں آیات کی تاویل کا ذکر
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ
اہل ظاہر کا ترجمہ: وہی (ذات پاک) ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری جس میں سے بعض آیتیں پکی یعنی صاف و صریح ہیں کہ وہی اصل کتاب ہیں اور (بعض) دوسری مبہم (کہ ان کے معنوں میں کئی پہلو نکل سکتے ہیں) تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو قرآن کی ان ہی مبہم آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فساد پیدا کریں اور ان کا اصلی مطلب کسی کو معلوم نہیں اور جو لوگ علم میں بڑی پائیگاہ رکھتے ہیں تو اتنا ہی کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ اس پر ہمارا ایمان ہے۔
ہمارا ترجمہ: حالانکہ اللہ اور جو لوگ علم میں بڑی پائیگاہ رکھتے ہیں ان کے سوا ان کا مطلب کسی کو معلوم نہیں۔ الراسخون فی العلم سے ہماری مراد ائمہ معصومین ہیں۔ اللہ کے ساتھ یہ حضرات بھی تاویل جانتے ہیں۔(3)
آغا خانیوں اور بوہروں کی آبادی
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اسماعیلیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے، ان میںبہت بڑی تعداد آغا خانیوں کی ہے۔ پاکستان میں اِن کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔ ویکی شیعہ، اردو ویب سائٹ کے مطابق اسماعیلیہ آج دو فرقوں؛ آغا خانیہ اور بوہرہ میں بٹے ہوئے ہیں جو بالترتیب نزاری اور مستعلوی فرقوں کا حصہ ہیں۔ اول الذکر فرقے کے لاکھوں افراد ایران، وسطی ایشیا، افریقہ ، بھارت اور پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کا پیشوا (پرنس) کریم آغا خان ہے مؤخر الذکر جماعت کے ایک گروہ (سلیمانی بوہرہ)کی آبادی تقریبا ًپچاس ہزار ہے جو جزیرہ نمائے عرب اور خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں اور شام میں سکونت پذیر ہیںجو بظاہراس جماعت کے دوسرے گروہ داؤدی بوہروں سے مختلف ہیں۔ اسماعیلیہ شام کے علاقوں قلعۂ مصیاف، قلعۂ القدموس اور سلمیہ اور ایران کے علاقوں؛ کہک، محلات، قم نیز خراسان کے شہروں بیرجند، قائن اور افغانستان کے علاقوں بلخ اور بدخشان جبکہ وسطی ایشیا کے شہروں خوقند اور قرہ تکین میں سکونت پذیر ہیں۔ افغانستان میں انھیں مفتدی کہا جاتا ہے اور ان کی خاصی آبادی کافرستان (نورستان)، جلال آباد، علاقۂ جیحون اعلی، ساری گل، خوان اور یاسین میں سکونت پذیر ہے۔ بھارت اور پاکستان میں اسماعیلی مراکز دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔ بھارت کے علاقوں مرواڑہ، اجمیر اور راجپوتانہ، بمبئی اور برودھا کھورج (Khoraj) نیز کشمیر میں اسماعیلی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ بوہرہ اسماعیلی بھارت کے علاوہ عمان ،مسقط ، زنگبار اور تنزانیہ میں بھی بکثرت آباد ہیں۔ حجیج ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کے مطابق داؤدی بوہروں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زیادہ ہے؛ جبکہ ایک اور ویب سائٹ کے مطابق بوہروں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ ملین (پندرہ لاکھ) کے لگ بھگ ہے، جس میں اکثریت داؤودی بوہروں کی ہے۔ پاکستان میں آغا خانیوں کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ بھارت میں داؤدی بوہرے اکثریت میں ہیں۔اسماعیلیہ کی حتمی تعدادکا تو علم نہیں ہے؛ تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بوہروں کی تعداد خاصی کم ہے۔ اوپر درج شدہ دونوں اعداد (ڈیڑھ لاکھ اور پندرہ لاکھ) کے بین بین اِن کی تعداد ہوگی۔ اپنی سخت مذہبی رسوم، تعلیمات اور مالی امورمیں اختلافات کی وجہ سے تقسیم در تقسیم کی وجہ سے اِن کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
آغا خانیوں (نزاریہ) اور بوہروں (مستعلیہ) کے عقائد و نظریات
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آغا خانیوں کے عقائد و نظریات بڑی حد تک مخفی ہیں۔ مزید برآں یہ کہ تاویل کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور باطنیت کے اثرات نے بڑی حد تک انھیں دیگر مسلمان مسالک سے الگ کردیا ہے۔ سربراہ البصیرہ سید ثاقب اکبرنے آغاخانیوں اور بوہروں کے عقائدو نظریات کو اپنی تالیف میں درج کیا ہے؛ چنانچہ اِن دونوں مسالک کے عقائد و نظریات ہم اُنھی کی کتاب سے پیش کرتے ہیں:
آغا خانیوں کے بنیادی عقائد
دور حاضر میں آغا خانیوں کے بنیادی عقائد بیان کرنے کا حق سب سے بڑھ کر ان کے امام پرنس کریم آغا خان کو پہنچتا ہے۔آغا خانی امام مختلف مواقع پر اپنی طرف سے اپنے ماننے والوں کے نام دستور جاری کرتے رہتے ہیں۔اسی دستور میں وہ بنیادی عقائد کا بھی ذکر کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کے لیے حکمت عملی بھی بیان کرتے ہیں۔ہم ذیل میں اسماعیلی امام پرنس کریم آغا خاں کی طرف سے جاری کیے گئے انگریزی زبان کے دستور کا اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جبکہ
(A)شیعہ امامیہ اسماعیلی مسلمان باقاعدہ شہادت دیتے ہیں :
لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ
میں موجود توحید کی اور اس امر کی کہ رسول پاک محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے آخری اورحتمی رسول ہیں۔ اسلام، جیسا کہ قرآن پاک میں وحی کیا گیا ہے، اللہ کا نوع انسانی کے لیے آخری پیغام ہے اوریہ آفاقی اور ابدی ہے۔ رسول پاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ آسمانی وحی کے مطابق روحانی اورمادی زندگی پر حکم فرما قوانین بیان کیے۔
(B)شیعہ نظریے، روایت اورتاریخ کی تعبیر کے مطابق رسول پاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا زاد اورداماد حضرت مولانا علی امیر المومنین(علیہ السلام) کواللہ کے حتمی پیغام کی تاویل اورتعلیم کے لیے اورمریدوں کی راہنمائی کے لیے منصوب اور مقرر کیا نیز اعلان کیا کہ امامت کو حضرت مولانا علی(علیہ السلام) اورآپ کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہ الزہرا، خاتون جنت(علیھا السلام) کے ذریعے وراثت میں جاری رہنا چاہیے۔
(C)امامت کی جانشینی نص کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ وقت کے امام کا کامل اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی مرد کو اپنا جانشین مقرر کرے چاہے وہ اس کا بیٹا ہو یا نسل در نسل بیٹا۔
(D)اسماعیلی طریقے میں امام کی اتھارٹی کی توثیق مرید کی طرف سے امام کی بیعت کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ مرید کی طرف سے امام اورمرید کے مابین مستقل روحانی تعلق کو قبول کرنے سے عبارت ہے۔ یہ اطاعت عالمی سطح پر اسلام کے عالمگیر تصور اخوت کے مطابق اسماعیلی مسلمانوں کو امام سے وفاداری، ایثار اور فرماں برداری کے رشتے سے منسلک کر دیتی ہے۔یہ انفرادی طور پر کسی مرید کے اپنے وطن سے رشتہ ¿ اتباع سے مختلف ہے۔
(E)حضرت مولانا علی (علیہ السلام) کے زمانے سے اسماعیلی اماموں نے دنیا کے مختلف علاقوں پر تاریخ کے مختلف اوقات میں سرزمینوں اورلوگوں پر حکومت کی ہے اورانھوں نے وقت کی ضروریات کے مطابق حکمرانی کے قوانین اوردستور دیے ہیں جو اسلام کے اخوت، انصاف، برداشت اور بھلائی کے تصورات کے مطابق تھے۔
(F)تاریخی طور پر اسماعیلی روایت کے مطابق وقت کے امام کو اپنے مریدوں کی روحانی ترقی اور اس کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے سے دلچسپی ہوتی ہے۔امام کی تعلیم مرید کے روحانی راستے اور شعور کو منور کرتی ہے۔ مادی امور میں امام اپنے مریدوں کی رہنمائی کرتا ہے اورانھیں اُن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ابھارتا ہے۔
(G)مولانا حاضر امام شاہ کریم الحسینی، عالی مرتبت پرنس آغا خان حضرت مولانا علی(علیہ السلام) اورحضرت بی بی فاطمہ(علیھاالسلام)کے ذریعے براہ راست خاندانی طور پر رسول پاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل سے اسماعیلی مسلمانوں کے انچاسویں امام ہیں۔
(H)اپنی حیثیت کے اعتبار سے اوراسماعیلی مسلمانوں کے ایمان اور یقین کے مطابق امام کو اسماعیلی مسلمانوں کے تمام مذہبی اورجماعتی امور پر تصرف کا اختیار حاصل ہے۔
(I)مولانا حاضر امام کی خواہش اور ہدایت ہے کہ مختلف ممالک میں اسماعیلی مسلمانوں پر اس وقت جو دساتیر نافذ ہیں اُن پر یہ دستور حاکم ہوگا اورانھیں یہ دستور دیا جائے گا اُن کے اتحاد اور مذہبی و سماجی بھلائی کے لیے مختلف لوگوں کے مابین ثمر بخش تعامل حاصل کرنے کے لیے، وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے کے لئے نیز اسماعیلی مسلمانوں کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ امہ اور جن معاشروں میں رہتے ہیں اُن کی زندگی کے معیار کوبہتر بنانے میں درست اورمعنی خیز حصہ ڈال سکیں۔
لہٰذاحاضر امام کی حیثیت سے اپنا مذکورہ اختیار بروئے کار لاتے ہوئے میں شاہ کریم الحسینی آغا خان حکم دیتا ہوں کہ شیعہ امامی اسماعیلی مسلمان جہاں بھی ہوں تمام اوقات میں اس دستور کے پابند رہیں گے، اس کی روش کے مطابق اُن پر حکم فرمائی ہوگی۔
اسے مولانا حاضر امام شاہ کریم الحسینی عالی مرتبت آغا خان نے تھیر ماؤٹ جنیوا میں 13دسمبر1986 بمطابق دس ربیع الثانی 1407ھ کو اپنی امامت کے تیسویں سال میں اپنے دستخط اورمہر کے ساتھ جاری کیا۔
اپنے امام کے اس دستور کے بارے میں ڈاکٹر امین والیانی لکھتے ہیں:
امام اسماعیلیوں کے مختلف اداروں کو باہمی دنیاوی امور کی انجام دہی کے لئے دستور وقوانین بھی دیتا ہے۔امام کی جانب سے یہ تحریر شدہ دستور موجود صدی کی وضع ہے تازہ ترین دستور جو کہ امام کی جانب سے جاری ہوا 1986کا دستور ہے جسے 1998میں دوبارہ جاری کیا گیا۔
امین والیانی دستور کے بارے میں مزید کہتے ہیں:موجودہ فرمان کے پیش لفظ کی روشنی میں امام اپنے مریدوں کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے احوال میں بہتری کا ذمہ دار ہے۔ امام کی تعلیمات مرید کی روحانی اور دنیاوی زندگی کو روشن کرتی ہیں۔امام مریدوں کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کی صلاحیات کے تکامل کی رغبت دلاتاہے۔ مریدوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام کی متعین کردہ راہ پر اسلامی قوانین کی روشنی میں زندگی گزاریں۔
ڈاکٹر امین والیانی نے خود بھی اپنے مقالے میں آغاخانیوں کے عقائد کا خلاصہ بیان کیا ہے ہم یہاں پر ان کی ایک عبارت کا ترجمہ درج کرتے ہیں:
اسماعیلیت کا ظہور بھی اسلام کی مانند جزیرہ عرب میں ہوا۔ اسماعیلی شیعیت کی ایک اہم شاخ پرمشتمل ہیں۔اہل تشیع کی مانند اسماعیلی بھی اسلامی تعلیمات کی ایک مخصوص شکل سے وابستہ ہیں۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ رسول خدا کے بعد آئمہ کا ایک سلسلہ ہے جس کی ابتدا حضرت علی ؑ سے ہوئی جو کہ رسول خدا کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق امامت نص کے ذریعے بڑھتی ہے۔ان کا عقیدہ ہے امام وقت کے لئے اپنے جانشین کا تقرر اولین ذمہ داری ہے جو کہ وہ اپنی نسل میں سے کرتا ہے۔ اس طرح آغا خان چہارم اسماعیلیوں کے انچاسویں امام ہیں۔
آغا خانیوں کا نظریہ امامت
آغا خانیوں کے عقائد،ان کے مذہبی اعمال اور ثقافتی امور سب کا سرچشمہ ان کا نظریہ امامت ہے ۔ان کی تمام مذہبی زندگی اپنے امام اورنظریہ امامت کے گرد گھومتی ہے۔ ڈاکٹرامین والیانی کی یہ عبارتیں اسی امرکی حکایت کرتی ہیں:
امام تمام تردینی اور دنیاوی معاملات پر اتھارٹی رکھتا ہے جیسا کہ ترقی کے ادوار کے ساتھ ساتھ اصول وقوانین میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تبدیلی کی ضرورت بد یہی ہے، امام اپنی دعوت کمیٹی کو اجازت دیتا ہے کہ وہ حالات کے تناظر میں اصول وقوانین کی شرح کرے اور دعوہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ان قوانین کی شرح کرتی ہے۔ اسماعیلیوں کے نزدیک امام سے تمسک اورامام کی ہدایات کی روشنی میں وضع کردہ راہ یعنی طریقت ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے مذہبی مقاصد کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔
امام ایک روحانی پیشوا کے طور پر عالمی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عقائد پر مبنی تبدیلی اور تسلسل کا ایک مفصل خاکہ پیش کرتے ہیں۔پچھلی نصف صدی میں مذہبی عقائد کے اظہار کے بہترین ذریعوں کی تلاش کے لئے متعدد کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں۔ان کانفرنسوں میں بعض عقائد جو کہ ابتدا سے ہی موجود ہیں کو سامنے لایا گیا، ان کے اطلاق پر زور دیا گیا تاکہ اسماعیلی کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔
امام سے تمسک اوروابستگی کے لیے ڈاکٹرامین والیانی بیعت کو ضروری قرار دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
امام سے تمسک رکھنے والے مرید کے لئے پہلا فرض بیعت ہے۔ بیعت کے بعد مرید اپنی زندگی امام کی ہدایات کی روشنی میں گزارتا ہے۔ بعض چیزیں مرید کے روزانہ کے واجبات میں سے ہیں۔ جن میں نماز،دعا اور مال امام کی ادائیگی شامل ہیں۔اس کے علاوہ مرید امام کی محبت اور عقیدت میں چند امور انجام دیتا ہے جو کہ واجب نہیں ہے۔
قرآن
قرآن حکیم پر ایمان کا ذکر تو آغا خانیوں کے امام پرنس کریم آغا خان کے مندرجہ بالا دستور میں بھی ہے تاہم قرآن سے استفادہ اوراس کے مطالب پر عمل درآمد آغا خانیوں کے نزدیک امام ہی کی معرفت سے ہوتا ہے جیسا کہ ڈاکٹرامین والیانی کہتے ہیں:
اسماعیلی فرقہ دوسرے اسلامی فرقوں کی مانند اسلامی اصول وقوانین سے ہی اپنے عقائد اخذ کرتے ہیں جیسا کہ قرآن میں درج کیے گئے ہیں۔تاہم اسماعیلیت میں امامت کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ امام ان اصول وقوانین پر روزمرہ زندگی میں عمل کرنے کے لئے راہ عمل واضح کرتا ہے۔
آغا خانی اورمذہبی احکام
مندرجہ بالا عبارات پڑھ کر ایک عام مسلمان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی احکام کے بارے میں آغا خانیوں کا طرز عمل کیا ہے۔ عام مسلمانوں کو جب آغا خانیوں سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں مسجد نہیں بلکہ جماعت خانہ ہوتا ہے، ان کی مسجد سے اذان کی آواز نہیں آتی اور وہ خانہ خدا میں حج پر بھی جاتے دکھائی نہیں دیتے جبکہ دوسری طرف بوہرے ان ظواہر اسلامی پر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔ کیا اسماعیلی نزاری مذہب کے احکام کو تسلیم نہیں کرتے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر کوئی آغاخانیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے کیونکہ آغاخانی مذہب کے ظاہری احکام میں دیگر مسلمانوں سے مختلف نظریہ رکھتے ہیں آج کے اسماعیلیہ نزاریہ دیگر مسلمانوں کی شریعت کی توضیح اور تشریح سے متفق نہ ہوتے ہوئے شریعت کی روحانی اور تمثیلی تشریح کے قائل ہیںجس کی بنیاد تاویل پر ہے۔ یہی وہ وجہ نظر آتی ہے کہ مذہب نزاریہ کے ماننے والے شریعت کے تمام احکامات کے ظواہرات کو قبول نہیں کرتے۔ان کے نزدیک شریعت کی جو توضیح امام الوقت کرتا ہے وہی ظاہر شریعت بھی ہے اور اس کی روح بھی ہے۔ بہرحال صورت حال کچھ بھی ہو، دور حاضر میں اسلام کے احکامات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ کار مذہب اسماعیلیہ کا دیگر مسلمانوں سے بالکل الگ اور مختلف ہے۔تاریخی طور پر ائمہ نزاریہ میں سے دو ائمہ ایسے گزرے ہیں۔ جنھوں نے اپنے محبین کو شریعت کی تاویلی حقیقت بتاتے ہوئے اپنے ماننے والوں کو دین کے ظاہری احکام سے آزادی دلادی۔ ان میں پہلے ائمہ الموت کے امام حسن بزرگ ہیں۔الموت کے امام حسن نے ایک منفرد نظریہ ”نظریہ قیامت“ پیش کیا،جس کو اسماعیلیہ ”عقیدئہ قیامت“ بھی کہتے ہیں۔اس کے مطابق دین کے ظواہر کی اہمیت مذہب اسماعیلیہ میں باقی نہیں رہی ۔ اس نظریہ کا خلاصہ فرہاد دفتری یوں تحریر کرتے ہیں:
حسن (بن محمد بن بزرگ ) نے رمضان ۵۵۹ھ میں الموت کے دامن میں نماز باجماعت کے میدان میں رو بغرب ایک منبر بنانے کا حکم دیا اور منبر کے چاروں ستونوں کے ساتھ چار رنگوں یعنی سفید، زرد اور سبز رنگ کے چار بڑے بڑے علم نصب کئے۔ اس کے بعد ۱۷ رمضان ۵۵۹ھ ۸ اگست ۱۱۶۴ءکو انھوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کو پہلے ہی الموت طلب کیا لیا تھا ،اس میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا ۔لوگ جمع ہوگئے تو حسن نے اعلان کیا ”زمانے کے امام نے تم پر اپنی برکات اور رحمتیں بھیجی ہیں، انھوں نے تمھیں اپنے خاص بندوں میں شامل کیا ہے اور تم کو اغلال شریعت سے رہا کیا ہے اور قیامت تک پہنچایا ہے“۔۔۔حسن اپنے خطبے کو مکمل کرنے کے بعد منبر سے نیچے اترے اور نماز عید کی دو رکعتیں ادا کیں۔ اس کے بعد حسن نے لوگوں کواپنے ساتھ دستر خوان پر بلایا اور افطار کرنے کا حکم دیا۔ حسن نے اسی دن کو ” عید القیامہ“ کا نام دیا اور لوگوں نے خوشیاں منائیں۔اس کے بعد ہر سال ۱۷رمضان کو نزاری عید القیامتہ مناتے تھے اور اس دن جشن منعقد کرتے تھے۔
اس روحانی روش میں منظم کرنے والی دوسری شخصیت امام حسن بن محمد بزرگ (آغاخان سوم) کی ہے جس نے اسماعیلیت کو ایک خاص انداز میں منظم کیا ۔یہ وہ شخصیت ہے جس نے مذہب نزاریہ کو ایک جماعت کے طور پر شناخت کروایا۔ یاد رہے کہ مذہب نزاریہ ایران سے برصغیر میں منتقل ہونے کے بعد آغاخانیت کے نام سے مشہور ہوا ۔ سر سلطان آغاخان سوم نے اپنی جماعت کو دیگر شیعوں سے ممتاز کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں ، فرہاد دفتری ان اقدمات کو یوں تحریر کرتے ہیں:
ان ہدایات کے مطابق ۱۹۱۰ءتک آغاخان سوم نے دوسرے ممالک کے قاسم شاہی نزاریوں کی طرح اپنے ایرانی مریدوں کے مذہبی اعمال و رسومات میں بھی بعض تبدیلیاں متعارف کروانے کا آغازکیا۔ انھوں نے بالخصوص ان مذہبی رسومات میں تبدیلی یا سادگی پیدا کی جن کو دوسرے مسلمانوں کی طرح ایرانی شیعہ بھی فروع دین کا درجہ دیتے تھے جو اسلامی شریعت کے ایجابی قواعد پر مشتمل تھیں مثلاََ عبادت، طہارت، صوم ، اور حج کی رسومات وغیرہ۔ اس وقت تک ایرانی نزاری یہ رسومات غالباََ تقیہ کی خاطر زیادہ تر اثنا عشری شیعہ طریقے کے مطابق انجام دیتے تھے۔ مگراب ان کے لئے لازم تھا کہ ایک مذہبی جماعت کی حیثیت سے اپنے آپ کو بڑی حد تک اثنا عشریوں سے جدا کریں اور اپنا تشخص بحال کریں۔ مثال کے طور پر اس کے بعد انھوں نے اپنی روزمرہ عبادات کے آخر میں تمام قاسم شاہی ائمہ کے ناموں کو پڑھنا لازم کیا ۔ اسی طرح مخصوص مواقع پرمسجدوں میں اثنا عشریوں کے ساتھ شامل ہونے اور محرم کے موقع پر شیعوں کے ساتھ ماتم کی رسم ادا کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی۔ اس لئے کہ نزاریوں کے پاس زندہ اور حاضر امام موجود تھے اور کسی متوفی امام کی یاد منانے کی انھیں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں صرف ان مذہبی فرائض پر عمل کرنے کی ضرورت تھی جن کی توثیق یا اجراءبراہ راست ان کے زندہ امام کرتے تھے۔ تاہم آغاخان نے اپنے مریدوں کو ہدایت کی کہ وہ ان رسومات کی حقیقی اور باطنی اہمیت سے آگاہ ہوں اور انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قطع نظر مسلک یا عقیدے کے تمام مسلمان اسلام کے بنیادی ارکان میں لازماََ شریک ہیں۔
مذہب سے جماعت تک
موجودہ دور کے آغا خانیوں کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے کہ وہ اس وقت ایک جماعت کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں بیان کیا گیا ہے اس کی ابتداءموجودہ آغا خانی پیشوا کے دادا سرسلطان محمد خان آغا خان سوم کے دور سے ہوتا ہے۔آغاخان سوم نے اپنی جماعت کی اصلاح اور تشخص کے لئے جو اقدامات کیے تھے ان کی حقیقت کا صحیح ادراک جماعت کا ممبر ہی کرسکتا ہے۔ بہرحال آغاخان سوم کے ان اقدامات سے جہاں جماعت کو منظم کرنے میں مدد ملی وہیں پر مذہب نزاریہ دیگر مسلمانوں سے الگ ہوگیا۔ اب نزاریہ مذہب کے بجائے ایک جماعت اور (Community) کی شکل اختیار کر گیاہے۔ آغاخان سوم کی طرح پرنس شاہ کریم آغاخان چہارم نے بھی ان اصلاحات کو جاری رکھا، البتہ شاہ کریم آغاخان کی موجودہ سیرت میں دین شناسی کے حوالے سے بعض ایسے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں، جن کی وجہ سے شیعہ اثنا عشری اور شیعہ اسماعیلیہ نزاری میں ایک بار پھرقدرے دین شناسی اور دین فہمی میں ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔ اس کا کچھ اظہار اس حصے میں عقائد کے بارے میںدیے گئے آغاخان چہارم کے دستور سے بھی ہوتا ہے ۔اس کی وضاحت ڈاکٹر امین والیانی کے ان مقالات سے بھی ہوتی ہے جن کا ذکر ہم نے اس باب میں مختلف مقامات پر کیا ہے۔علاوہ ازیں آغا خانیوں کی ویب سائٹس سے بھی اس امر کی تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہےں۔ان کا ذکر ہم اس باب کے آخری حصے میں کر یںگے۔
دیگر مسلمانوں سے اسماعیلیوں کے فرق کا خلاصہ
جیسا کہ اس باب میں دےے گئے اسماعیلی دانشوروں کے اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے اسماعیلی دیگر مسلمانوں سے عقائد میں خاصے اختلافات رکھتے ہیں البتہ احکامات میں یہ زیادہ مختلف نظر آتے ہیں۔کیونکہ عقائد اور اعمال کی بجا آوری حاضر امام کے احکامات کے تناظر میں ہوتی ہے۔ قرآن و احادیث کی حاضر امام کی روایات اور احکامات کے مطابق تشریح کرتے ہیںکیونکہ اسماعیلیت کی روح ” دین کو امام حاضر کی تشریح کے مطابق سمجھنا ہے“۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نزاری اسماعیلی اسلام کے ظواہرپر عمل پیرا نہیں۔امام کے احکامات کے مطابق دین کی اصلیت ، حقیقت اور روح اس کا باطن ہے ۔ عقائد اسماعیلیہ (جو تمام اسماعیلی فرقوں میں مشترک ہیں) کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ ائمہ منصوص من اللہ ہیں اور ان کا نسل حضرت علی سے ہی ہونا بھی ضروری ہے۔ امام پر نص کا ہونا لازمی ہے،یعنی سابقہ امام اپنے قائم مقام کا تعین کرے، تسلسل امامت کا ہونا بھی ضروری ہے لیکن نزاریوں کے علاوہ دیگر تمام اسماعیلی فرقوں میں امامت کا سلسلہ رک گیا ہے۔ جیسے قرامطہ کل سات(۷) ائمہ کو مانتے ہیں۔ساتویں امام محمد بن اسماعیل کو قائم القیامہ سمجھتے ہیں۔ دروزی سولہ (۱۶) ائمہ کو مانتے ہیں۔ حاکم بامراللہ کو قائم القیامہ اور آخری امام سمجھتے ہیں۔ مستعلوی اکیس (۲۱) ائمہ کو مانتے ہیں۔ امام طیب کوامام غائب تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح امامت بھائی سے بھائی کی طرف منتقل نہیں ہوتی ہے۔مستعلویوں کے نزدیک سوائے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے۔اسماعیلی اپنے عقائد کو فلسفیانہ انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ایک عام انسان کو ان کے عقائد اور نظریات کو سمجھنا کافی دشوار ہے ۔امامت ان کے عقائد میں اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔شیعہ اسماعیلی دین کے اصول اور فروع کا ایک منظم مجموعہ پیش کرتے ہیں جنھیں سات ستون،دعائم الدین اور ارکان الدین کا نام دیا جاتا ہے۔اس مجموعہ کو امام جعفر صادق ؑکی ایک حدیث کے مصداق قرار دیتے ہیں، جیسا کہ القاضی ابو حنیفہ النعمان بن محمد کی کتاب دعائم الاسلام کے مقدمہ میں تحریر ہے :
امام جعفر بن محمدصادق سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنیادسات ستونوں پر ہے۔ اوّل ولایت جو سب سے افضل ہے اور اسی ولایت ولی سے دوسرے تمام دعائم (ستون) کی معرفت تک پہنچا جاسکتا ہے۔ دوم طہارت، سوم نماز، چہارم زکات، پنجم روزہ، ششم حج، ہفتم جہاد
اصول دین کی یہ Category قدیم کتب میں پائی جاتی ہیں ، جنھیں موجودہ اسماعیلی مستعالی فرقہ من عن قبول کرتا ہے اور ان پر عمل پیرا بھی ہے جبکہ اس کے برعکس اسماعیلی نزاریہ کے تیسویں امام کے یوم القیامہ کے اعلان اور اسکی فلسفیانہ توضیح کے بعد اب نزاری اسماعیلی اسلام کے احکام کے ظواہرات پر عمل پیر ا نہیں ہیں،جس کی وجہ سے اصول دین اور فروع دین کی مندرجہ بالا ترتیب کی جگہ فلسفیانہ تشریحات اصول اور فروع کی شکل میںنزاریوں کے پاس موجود ہیں۔ اس حوالے سے آغا خانی دانشورنصیر الدین ہنزائی کی تالیفات کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔خصوصََا ان کی کتاب” سلسلہ نور امامت“ اس موضوع پراہم ترین کتاب ہے۔ موصوف نزاری مذہب کے موجودہ اصول دین اور فروع دین کے بارے میں رقم طراز ہیں:
اصول دین چار ہیں؛عقل کل،نفس کل، ناطق اور اساس۔ ان میں سے دو اصل :عقل کل اور نفس کل روحانی ہیں۔دو اصل ناطق اور اساس جسمانی ہیں۔ ۔۔ فروع دین چھ ہیں:جدّ، فتح، خیال، امام، حجت، داعی ان میں سے تین فرع: جد ،فتح اورخیال، روحانی ہیں اور تین فرع: امام، حجت اور داعی جسمانی ہیں۔ جدِّاسرافیل، فتح میکائیل اور خیال جبرائیل کے نام ہیں ۔امام سے مراد امامِ زمان، حجّت کا مطلب اٹھائیس حجتوں میں سب سے بڑا یعنی باب یا امام کا وہ فرزند جو لاحق نور ہو اور داعی سے مراد تین سو ساٹھ داعیوں میں سے وہ داعی ہے جو حجتِ اعظم کا لاحق ہو۔
بوہروں کے عقائد
بوہرے دیگر مسلمانوں کی طرح توحید،رسالت اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ رسول اکرم کے بعد وہ امام علیؑ کو اپنا پیشوا جانتے ہیں۔ ان کے بعد امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام علی زین العابدینؑ،امام محمد باقر اورامام جعفر صادقؑ کی امامت پراعتقاد رکھتے ہیں۔ان کے بعد تمام اسماعیلی حضرت اسماعیل بن جعفر کی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں اوران کے بعد مستنصر باللہ تک کی امامت میں اسماعیلیوں کے مابین اختلاف نہیں ۔مستنصر باللہ کے بعد بوہرے مستعلی باللہ کی امامت کو قبول کرتے ہیں۔مستعلی چھ سال کا تھا کہ تخت نشین ہوا اور۲۸ برس کی عمر میں وفات پا گیا۔ اس کے بعد الآمر باحکام اللہ ۴۹۵ھ میں ۵ برس کی عمر میں حکمران بنا۔ بوہروں کا عقیدہ ہے کہ اس کا کم سن بیٹا طیب تھا جس کے حق میں الآمر نے وصیت کی تھی۔بہروں کے امام طیب اوران کی اولاد سب پردہ غیبت میں ہیں۔ یہی نظریہ ان کا اہم ترین امتیازی عقیدہ ہے۔اس سلسلے میں ظ انصاری رقم طراز ہیں:
ایمان کے درجات کے ساتھ علم دین کے درجات مقرر ہیں جو بصیرت بڑھنے کے ساتھ ساتھ طے ہوتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے ظاہرہ الفاظ سے باطنی معانی تک پہنچانا علم وعمل کی طہارت کا ایک زینہ ہے جو فاطمی ائمہ کی ہدایت میں طے ہوتا ہے۔ قرآن،حدیث،احکام شریعت اورنیک اعمال کو اسماعیلی بھی تمام امت اسلامی کی طرح اولین درجہ دیتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ جہاں اشتباہ یا ابہام ہو یا تاویل وتفسیر کی ضرورت ہو، وہاں ”باب العلم“ سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ اگرامام زمانہ ظاہر ہوں تو وہ بذاتِ خود ورنہ ان کی طرف سے دعوت حق دینے اور دینی مسائل میں راہ دکھانے کے لیے ایسی ہستیاں موجود رہتی ہیں جنھیں امام کی طرف سے امت پر کامل اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
یہی ہستی”داعی مطلق“ کی ہے جو نائب امام ہے۔ امام اورامت کے درمیان ایک ظاہری واسطہ ہے۔ جب تک امام بہ نفس نفیس ظاہر نہ ہوں، داعی مطلق ان کی طرف سے نیابت اورہدایت کے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں اوران کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ اپنے زمانے کے اہل علم اوراہل تقویٰ میں سب سے بہتر انسان کو چن کر آئندہ کے لیے ”داعی مطلق“ مقرر کریں۔
”داعی مطلق“ علم،فضل اورتقویٰ میں نائب امام ہونے کے باوجود خود کو غلامانِ محمد وآل محمد سے شمار کرتے ہیں اوریہی الفاظ ”مملوک آلِ محمد“ اپنی شان میں استعمال کرنا قابل فخر سمجھتے ہیں۔
امام طیب کے بعد(بارھویںصدی عیسوی) ائمہ فاطمیین کا سلسلہ نسل درنسل جاری تو ہے۔ لیکن منظر عام پر نہیں بلکہ ستر میں ہے اور امام زمانہ کی ہدایات کی روشنی میں ”داعی مطلق“ نیابت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
عصمتِ امام
بوہرہ مسلک کے مطابق بھی امام معصوم ہوتا ہے جیسا کہ ظ انصاری لکھتے ہیں:
اسماعیلی عقیدہ ہے کہ تمام ائمہ طاہرین معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ صادر نہیں ہوسکتا اورجہاں قرآن مجید یا حدیثوں میں،بعض مقامات پر ایسے الفاظ آگئے ہیں جن سے ظاہربیں نظرکو مغالطہ ہوتا ہے کہ انبیا یا اماموں سے گناہ ہوسکتا تھا، وہاں علم اہل بیت کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ان الفاظ کے معنی کیا ہیں۔ رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ ”أَنَا مَدِینَةُ العِلمِ، وَعَلِيُّ بَابُھَا “ دراصل یہی دکھاتا ہے کہ علم دین کی کنجی ان تاویلات میں پوشیدہ ہے جو امیرالمومنین حضرت علیؑ اورائمہ فاطمیین کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں۔
ائمہ کی نیابت کا سلسلہ
بوہروں کے ہاں چونکہ اس وقت ائمہ کی نیابت کا سلسلہ جاری ہے ،ان کا نظریہ یہ ہے کہ نیابت کا یہ سلسلہ خود ان کے ائمہ کی زندگی میں بھی جاری تھااوران کی طرف سے نقیب یا ترجمان مقرر کیے جاتے تھے چنانچہ ظ انصاری اپنی کتاب فاطمی وراثت میں اس امر کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
حضرت علیؑ سے لے کرآج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے اور ہمیشہ برقرار رہے گا۔ ائمہ فاطمیین کا تعلیمی عمل اس کی شہادت دیتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کے سب سے ذی علم اورصاحب بصیرت لوگوںکو چن کر خود ان کی تعلیم وتربیت فرمایا کرتے تھے اور ان کے ذریعے اپنا علمی، دینی اور تنظیمی پیغام دوسرے علاقوں تک پہنچاتے تھے۔ یہ حضرات امام کے نقیب یا ترجمان ہوتے تھے۔ سیدنا قاضی نعمان، سیدنا موید شیرازی اورسیدنا حمید الدین کرمانی بھی انہی میں سے تھے۔ فقہ کی تاویل کلام پاک کی تفسیر اور فلسفے کی توضیح میں وہ دراصل امام کی ہدایت اورتعلیمات کی اشاعت کرتے تھے۔
مصر میں فاطمی حکومت قائم ہونے سے پہلے بھی یہ عمل جاری تھا، حکومت ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔ یمن کو خاص طورپراس مقصد کے لیے چنا گیا۔ بہت سا فاطمی ادب وہاں منتقل کردیا گیا۔ فاطمی امام المستنصر باللہ کی طرف سے سیدنا علی بن محمد الصلیحی یمن میں حجت تھے اورانھوں نے جب حج کی اجازت حاصل کرنے کے لیے اپنے خاص مدد گار سیدنا لملک بن مالک کے پاس روانہ کیا تو وہ وہیں روک لیے گئے اورسیدنا مو ¿ید شیرازی کے مکان میں رکھا گیا تاکہ اس عرصے میں ان کی ذہنی تربیت ہوجائے۔ اس کے بعد جب وہ یمن واپس آئے تو انھوں نے اپنے بیٹے سیدنا یحییٰ کو اس تعلیم خاص سے سرفراز کیا اوران کے بیٹے سیدنا یحییٰ بن ملک نے پہلے داعی مطلق سیدنا ذوئب بن موسیٰ کو اسی طرح فاطمی عقائد خصوصاً تاویل و حقیقت کی تعلیم دی۔غرض کہ اول امام سے ذہنی تربیت اور طہارت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تمام حالات میں سینہ بہ سینہ جاری رہا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ظ انصاری کی کتاب فاطمی وراثت بوہروں کے دینی مرکز الجامعہ السیفیہ کی طرف سے شائع کی گئی ہے ۔
بوہروں میں غائب امام کے نائب کی حیثیت ”تقریب بین المذاہب“اور دیگر شیعہ ادارے اسی طرح بیان کر تے ہیں، ملاحظہ ہو:
بوہروں کے امام اور ان کے جانشین سب غائب ہیں یہ بوہروں کا اہم ترین اصول عقیدہ ہے اور جو داعی ہیں وہ امام کے حکم سے اس کے جانشین بنتے ہیں ان کی پہلی دینی کتاب قرآن ہے۔ صرف داعی ہی قرآن کے باطن تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، حدیث و سنت رسول اکرم ﷺ بھی ان کے منابع دینی میں شامل ہیں ، بوہرے خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور مفہوم خدا نہایت مجرد اور دور از ذہن ہے، بوہرے رسول اکرمﷺ کو خاتم الانبیاءاور اپنے داعی کو رسول کی صلاحیتوں کا حامل سمجھتے ہیں ۔

بوہروں کے عقائد و فرا ئض
ذیل میں بوہروں کے ہاں رائج دینی عقائد و فرائض کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
بوہروں کے نزدیک رسول اسلام ﷺکے اہل بیت کی مودت و محبت رکن اسلام ہے۔ یہ لوگ قسم میثاق میں جس پر تمام بوہرے متفق ہیں کہتے ہیں کہ ”صدق دل سے امام ابو القاسم امیر المومنین جو تمھارے اما م ہیں پیروی کریں “ان کے فرائض پنجگانہ اس طرح ہیں :
نماز
ان کی اذان شیعہ اثنا عشری کی طرح ہے لیکن وضو کا طریقہ اہل سنت کی طرح ہے۔ بوہرے نماز کے دوران ہاتھ کھلے رکھتے ہیں ۔نماز کے لئے ان کا لباس مخصوص ہوتا ہے ۔یہ لوگ تین وقت نماز پڑھتے ہیں اور ہر نماز کے اختتام پر رسول اسلام ﷺ، حضرت علی ،حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھما اور اپنے اکیس اماموں کے نام لیتے ہیں ۔
بوہرے نماز جمعہ کے قائل نہیں ہیں ان کی دعاؤں کی کتاب کا نام ”صحیفہ الصلاہ“ ہے۔ بوہروں کے نزدیک شفاعت کا نہایت اہم مقام ہے۔
زکات
ہر بوہرے پر زکات واجب ہے۔ ان پرچھ طرح کی زکاتیں واجب ہیں جو حسب ذیل ہیں :
۱۔زکات صلات: اس کی مقدار چار آنہ ہے اور ہر فرد پر واجب ہے۔
۲ ۔زکات فطرہ :اس کی مقدار بھی چار آنے ہے۔
۳۔زکات حق النفس :یہ زکات عروج ارواح اموات ہے جس کی مقدار ایک سو انیس روپے ہے۔
۴۔حق نکاح : یہ زکات حق ازدواج کے طور پر ادا کی جاتی ہے ۔اس کی مقدار گیارہ روپے ہے۔
۵۔ زکات سلامی سیدنا :یہ داعی مطلق کے لئے نقدی تحفے ہیں ۔
۶۔ زکات دعوت :یہ زکات دعوت کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہے اور تین طرح کی ہے۔
الف ۔ آمدنی پر ٹیکس جو کہ تاجربرادری سے لی جاتی ہے۔
ب۔ خمس: جو کہ متوقع آمدنی کا ایک بٹاپانچ حصہ ہوتا ہے جیسے وراثت میں ملنے والے اموال۔
ج۔ وہ لوگ جو بیماری کی وجہ سے نماز و روزہ ادا نہیں کر سکتے ان پر بھی یہ زکات واجب ہے ۔
۷۔نذر مقام : امام غائب کی نذر کے لے جو پیسہ رکھا جاتا ہے اسے نذرمقام کہتے ہیں ۔
روزہ
بوہروں کا روزہ تیس دنوں کا ماہ رمضان میں ہوتا ہے یہ لوگ ہر مہینے کی پہلی اور آخری تاریخ اور ہر پنچ شنبہ کو بھی روزہ رکھتے ہیں اس کے علاوہ ہر مہینے کے درمیانی بدھ کو بھی روزہ رکھتے ہیں ۔ روزے اہل سنت سے چند روز قبل شروع کر کے چند روز پہلے ہی تما م کرتے ہیں۔
حج و زیارت
بوہروں کے نزدیک استطاعت رکھنے والوںپر حج واجب ہے اور اس فریضے کے لیے ضروری ہے کہ قسم میثاق کھائی جائے۔ یہ لوگ مکہ کے علاوہ کربلا کی زیارت کو بھی جاتے ہیںاور کچھ لوگ نجف وقاہرہ بھی جاتے ہیں۔بھارت میں بوہروں کی مشہور زیارت گاہیں احمد آباد،سورت ، جام نگر، مانڈوی،اجین اور برہان پور میں ہیں۔بوہروں کے مشاہد اولیاءمیں ان مقامات کا نام لیا جا سکتا ہے مقبرہ جندہ بھائی بمبئی، مقبرہ نتابھائی،مقبرہ مولانا وحید بھائی،مقبرہ مولانانور الدین بمبئی۔
نذر
بوہروں کے نزدیک محرم کے تابوتوں اور تعزیوں کے لئے نذر کرنا شرک ہے لیکن ان کے نزدیک اولیاءخدا کے مزارات پر نذر کرنا جائز ہے۔اس کے علاوہ وہ اور بھی نذورات کے قائل ہیں جیسے معین دنوں میں نذر کا روزہ رکھنا،بعض دعائیںبار بار پڑھنا،کھانا کھلانا،مذہبی مقامات تعمیر کرنا اور وقف کرنا۔
جہاد
بوہروںپر عہد اولیاءکی بنا پر جہاد واجب ہے اور جہاد ہر زمانے میں جب بھی امام یا داعی ضروری سمجھیں واجب ہے اور اس میں خلوص سے شرکت لازمی ہے۔
حشر و نشر
بوہرے حشر و نشر و قےامت کے بارے میں فاطمیوںکے عقائد کے تابع ہیں ۔سعادت کی واحد راہ امام کی راہ اور امام کی پیروی ہے۔موت کے بعد بھی سعادت کی راہ جاری رہتی ہے، ےہاں تک کہ مومن بوہرہ خدا سے جا ملتا ہے اور دونوںایک ہو جاتے ہیں بنابریںنیک بوہرے کی روح موت کے بعد اس کے نفس سے، جو ابھی دنیا میں ہے، نزدیک ہوتی جاتی ہے اس طرح زندہ شخص کو خیر وشر کا الہام ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس سے تعلیم بھی حاصل کرتی ہے۔
بینکنگ
بوہرہ مسلک کے نزدیک بینکنگ نظام کا سود جائز نہیں ہے۔ انھوں نے اس کے متبادل کے طور پر قرض الحسنہ کا اپنا نظام قائم کررکھا ہے۔
منشیات
بوہرہ مسلک کے لوگ منشیات اورشراب کو حرام جانتے ہیں بلکہ سیدنا برہان الدین کے فرمان کے مطابق تمباکو نوشی سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔
خصوصی لباس
بوہرہ مردوں اورعورتوں کا اپنا ایک خاص لباس ہوتا ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ مرد پاکستانی طرز کی شلوار قمیض پہنتے ہیں قمیض پر ایک خاص طرح کی زری کاری کی گئی ہوتی ہے۔ عورتوں کے مخصوص لباس میں ایک خاص طرح کا اسکارف ہوتا ہے۔ یہ ایک سادہ لباس ہوتا ہے۔
بوہرہ کیلنڈر
بوہروں کا اپنا ایک کیلنڈر ہے جو بہت حد تک قمری تقویم سے ملتا جلتا ہے۔اسے مصری کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ یہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور ذوالحجہ پر ختم ہوتاہے۔ اس میں رمضان المبارک کے دن ہمیشہ ۳۰ہوتے ہیں۔ ان کے مہینوں کے آغاز کا تعلق رویت ہلال سے نہیں بلکہ انھوں نے اپنے لیے خود سے ایک دائمی کیلنڈر ترتیب دے رکھا ہے۔
مراسم محرم
بوہروں کے نزدیک محرم انتہائی مقدس مہینہ ہے۔ محرم میں وہ خصوصی مراسم کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ مجالس عزا کا اہتمام کرتے ہیں۔ امام حسین کی یاد میں گریہ وزاری کرتے ہیں لیکن زنجیرزنی نہیں کرتے۔
بوہرے یکم محرم الحرام کو سال نو کی مناسبت سے جشن کا اہتمام کرتے ہیں اوردو محرم تا۰۱ محرم مجالس عزا منعقد کرتے ہیں۔ دس محرم الحرام کو اگرچہ روزہ نہیں رکھتے لیکن کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں۔
دس محرم الحرام کو داعی مطلق خصوصی خطاب کرتے ہیں دنیا بھر میں اس مسلک کے وابستگان اس تقریر کو سننے کی کوشش کرتے ہیں جسے جدید وسائل کے ذریعہ نشر کیا جاتا ہے۔
حج
حج کے معمولات بوہروں کے دیگر مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں البتہ منیٰ میں قربانی ایک دن پہلے کرتے ہیں۔(4)

حوالہ جات
(1) اسلامی مذاہب: ڈاکٹر رضا برنجکار، اردو ترجمہ: محمد حسن جعفری (کراچی، جامعہ تعلیماتِ اسلامی پاکستان، ط1، 2015) صفحہ 137، 138
(2) تاریخ فاطمیین مصر: ڈاکٹر زاہد علی (کراچی، میر محمد کتب خانہ، س۔ن) صفحہ 469، 470
(3) ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اُس کا نظام: ڈاکٹر زاہد علی (کراچی، مکتبہ بینات، س۔ن) صفحہ 395، 400
(4) پاکستان کے دینی مسالک: ثاقب اکبر ( اسلام آباد، البصیرہ، ط3، 2015ء) صفحہ 349، 362

Share this content: