علامہ اقبال ، قائداعظم اور کشمیر

Published by محققین البصیرہ on

پیام فروری2021

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

مصوّرِ پاکستان ، دانائے راز، حکیم الامت، ڈاکٹر علامہ محمدا قبال نے 1930ء میں برعظیم پاک و ہند کے لا تعداد مسائل کا حل خطبۂ الٰہ آباد ” میں پیش کیا۔ علامہ محمد اقبال کا تعلق کشمیر سے تھا ، اس لئے وہ کشمیر اور اہلِ کشمیر کے تمام مسائل کو سمجھتے اور اُن کا حل تلاش کرنے میں معاونت کرتے رہے۔ چودھری رحمت علی نے علامہ اقبال کے خواب کو پاکستان کا نام دیا۔ اس جغرافیائی وحدت میں پنجاب ، سرحد، بلوچستان ، سندھ اور کشمیر کے علاقہ جات ہیں۔

کشمیر کی وادی سیکڑوں سالہ پرانی تاریخ اسلامی روایات کی امین ہے۔ یہ جنت نظیر وادی اپنا منفرد ثقافتی ورثہ رکھتی ہے ۔اس کی بنیاد صرف اور صرف اسلام پر ہے۔ یہاں کے آزاد منش مسلمانوں کے دلوں پر اسلام کی مہر ثبت ہے۔ رنگینیئِ فطرت کے اس خطے میں فنِ تعمیر، فنِ خطاطی، فنِ پیپر ماشی، فنِ چوب کاری، فنِ حرب، چاندی و پیتل کے ظروف پر بیل بوٹے کا کام، کڑھائی سلائی اور دیگر آلات میں اسلامی اقدار کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ وادیِٔ کشمیر کی مساجد، خانقاہیں، مزارات و عمارات حسن و زیبائش اور کاریگری کے نمونوں میں دل پذیر ہیں۔ شادی و غمی اور دیگر مواقع پر محبت و یگانگت کے جذبات کا انوکھا اور پرکشش اظہار اس وادی کا طرۂ امتیاز ہے۔
بھارت نے قیامِ پاکستان سے اب تک ہماری آزادی کو تسلیم نہیں کیا۔ 1947ء سے بھارت کشمیر پر شب خون مار رہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے جموں و کشمیر کے عوام کا حق سلب کر کے لاک ڈائون کے ذریعے اہلِ کشمیر کی آواز دبانے کے لئے طاقت کا استعمال شروع کر رکھا ہے ۔ہندوستانی آئین آرٹیکل 370اور آرٹیکل 35۔A، کے غلط استعمال سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ، ہٹلر ثانی بننے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ آج کشمیر تاریخ کے اہم ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔
سیکڑوں سالہ امن و آشتی اور پیار کی یہ وادی آج انگار وادی بنی ہوئی ہے جس کا ایک ایک پتہ خون کے آنسو رو رہا ہے، ہر سائبان لہولہان ہے اور ہر مسلمان کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے خون کے آنسو پی رہا ہے۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہئے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی نثر اور شاعر ی میں کشمیرکو بطور خاص موضوع بنایاہے۔ باقیات شعرِ اقبال، مرتبہ ڈاکٹر صابر کلوری کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہندوستاں میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر
دُرِ مطلب ہے اخوّت کے صدف میں پنہاں
ہے جو ہر لحظہ تجلی گہِ مولائے جلیل

بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور
مل کے دنیا میں رہو مثلِ حروفِ کشمیر
عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے
توڑ اس دستِ جفا کیش کو یا رب جس نے
کشمیر کا چمن جو مجھے دل پذیر ہے
دہر کی شانِ بقا خطۂ کشمیر میں دیکھ
ذرّے ذرّے میں ہے اِک حسن کا طوفاں بپا

روحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا
اس باغِ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے
باغِ جنت کی ہوا خطۂ کشمیر میں دیکھ
جوش میں لطفِ خدا خطۂ کشمیر میں دیکھ
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اہلِ کشمیر کی انقلابی تحریک کو اپنی شاعری کا پیرہن عطا ء کرتے ہوئے کلیاتِ اقبال ، اُردو اور فارسی میں کشمیر کے بارے میں اپنے حسنِ تخیل کا کچھ یوں اظہار کیا ہے ۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہِ سوز ناک
کہہ رہا ہے داستاں بیدردیٔ ایام کی
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
چہ بے پروا گذشتند از نوائے صبح گاہِ من

کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
مردِ حق ہوتا ہے مرعُوبِ سلطان و امیر
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقانِ پیر
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
کہ بردآں شورو مستی از سیہ چشمانِ کشمیری؟
غنی آں سخنگوے بلبل صفیر
نواسنجِ کشمیرِ مینو نظیر
*****
تنم گلے زخیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نواز شیراز است
*****
اصلِ شاں از خاکِ دامنگیرِ ماست!
مطلعِ ایں اختراں کشمیر ماست!
*****
جس خاک کے خمیر میں ہو آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
بابائے قوم ، قائداعظم محمد علی جناح ہمیں11 ستمبر 1948ء کو داغِ مفارقت دے گئے ۔ اُنھیں کشمیر میں ہونے والے مظالم کا بہت دکھ تھا۔ وہ پاکستان کو شاہراہِ ترقی پر گامزن کرنے کے خواب دیکھنے کے علاوہ کشمیر کی آزادی کے لئے سر گرداں تھے ۔ بانیٔ پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے فرمایا:
کشمیر ہماری شہ رگ:
کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم نظر انداز نہیں کر سکتی کہ کشمیر تمدنی ، ثقافتی ، جغرافیائی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ ہے ۔ جب بھی اور جس نقطۂ نظر سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے گی یہ حقیقت واضح ہوتی جائے گی کہ کشمیر سیاسی اور دفاعی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے کوئی ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے دے دے ۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ،ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ریڈ کلف ایوارڈ میں مسلمانوں کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہے ۔ گورداسپور کے ایک حصے کو جو آبادی کے لحاظ سے مسلم اکثریت کا علاقہ تھا ، محض اس لئے ہندوستان کے حوالے کردیا گیا کہ ہندوستان کو کشمیر کے معاملات میں مداخلت کی آزادی مل سکے۔ پاکستان نے ریڈ کلف کو دیانتداری سے تسلیم کرلیا تھا لیکن ہندوستان کی نظر میں فتور تھا اسی فتور کا مظہر کشمیر کا جھگڑا ہے۔
کشمیری مسلمانوں کی بیداری :
میں دیکھ کر خوش ہوا کہ ریاست کے مسلمان بیدار ہوگئے ہیںاور اب متحد ہیں جیسا کہ ایک لاکھ انسانوں کے اجتماع سے ظاہر ہے جس میں بوڑھے، جوان، امیر، غریب ، مزدور اور تاجر سب شامل ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مسلم کانفرنس کا مطالبہ ریاست میں مکمل ذمہ دار نظام حکومت کا ہے لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ آپ کا مقصد سخت جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
(19جون1944ء مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں تقریر)
بحیثیت مسلمان ہم کشمیریوں کی مدد کے پابند ہیں:
ہم نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ جو ہو سو ہو برطانوی ہند میں پاکستان قائم کر کے رہیں گے مگر ہماری جدوجہد صرف برطانوی ہند تک محدود ہے لیکن آپ کا مطالبہ یہ ہے کہ ریاست میں ذمہ دار نظام حکومت قائم کیا جائے اور اختیارات حکومت عوام کے ہاتھوں میں منتقل کر دیئے جائیں۔ یہ فیصلہ کرنا کہ آپ پاکستان میں شریک ہوں گے یا نہیں؟ ہمارا کام نہیں بلکہ آپ کا ہے ۔ آپ کی حکومت کا اور آپ کے حکمران کا کام ہے ۔ میں تو آپ کے ملک کے لئے کوئی آئینی حکمران دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں۔ اس لئے اسلامی برادری کے نام پر ہندوستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لئے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بے کار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوجائیں گے کیوںکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔ (مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سپاسناموں کے جواب میں کشمیر کے بارے میں تقریر )
کشمیر کے بارے میں خاموشی کیوں؟
ریاستوں میں یہ شورش کیوں ہے؟ حیدر آباد میں آریہ سماجیوں اور ہندو مہاسبھائیوں کی تمام طاقتیں کیوں جمع ہورہی ہیں۔ میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کر رہی ہے؟ آریہ سماجی ، ہندو مہاسبھائی، کانگریسی قوم پرست اور کانگریسی اخبار یہ سب کشمیر کے معاملے میں کیوں چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا اس وجہ سے کہ کشمیر ہندو ریاست ہے؟ اس وجہ سے کہ کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ (26دسمبر 1938ء اجلاس مسلم لیگ پٹنہ)
آپ کا پلیٹ فارم الگ ہو:
آپ کا بحیثیت مسلمان الگ کلچر ہے ۔ زندگی کے متعلق آپ کا خاص زاویۂ نظر ہے اور جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد کا منشایہ ہے کہ آپ کا پلیٹ فارم الگ ہو اور جدوجہد کے لئے اپنا جداگانہ پروگرام ہو۔ (جولائی 1944ء امر سنگھ کلب کشمیر میں دیئے گئے عصرانے میں)
کشمیر میں قائداعظم کا استقبال:
بلاشبہ میرا استقبال اس طریقے سے کیا گیا ہے جو بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ استقبال محمد علی جناح کا نہیں ، آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کا ہے، جو ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتاہے ۔ (نیشنل کانفرنس کی طرف سے پیش کردہ سپاسنامہ کے جواب میں مئی1944ء)
کشمیری مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت:
میں مختلف مکتب خیال کے لوگوں سے ملاہوں اور ان کی باتیں سنی ہیں ۔ مَیں نے جموں پہنچنے پر یہ کہا تھا کہ ہماری پالیسی یہ نہیں کہ ہم ریاستی نظام میں مداخلت کر کے حکومت اور عوام کے درمیان مشکلات پید ا کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے بڑی دلچسپی ہے۔ مَیں کہوں گا کہ یہاں کے مسلمانوں کی حالت ایسی ناگفتہ بہ ہے کہ اسے دیکھ کر ایک عام سیاح بھی صدمہ محسوس کرے گا۔ سر بی این رائو نئے وزیراعظم مقرر ہوئے ہیںاور عوام ان سے توقعات قائم کئے ہوئے ہیں کہ وہ ان کی بہتری کے لئے مؤثر اقدام کریں گے۔ (25 جولائی 1944ء پریس کو ایک بیان )
مسلمانوں کی ہمدردیاں کشمیری بھائیوں کے ساتھ:
کشمیر مسلم اکثریت کی ریاست ہے ۔ یہاں بتیس لاکھ مسلمان آباد ہیں، جن کا خدا ایک، رسولﷺ ایک ، کعبہ ایک اور قرآن ایک۔ لہٰذا ان کو تنظیم میں منسلک ہوکر آزادی کی جدوجہد کرنی چاہئے۔ برصغیر کے دس کروڑمسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر رہیں گے۔ (مسلم کانفرنس کی طرف سے پیش کردہ سپاسنامہ کے جواب میں ١٩٤٤ء )
کشمیر کی اس تحریکِ آزادی کا آغاز13 جولائی 1931ء کو ہوا تھا جب کشمیری فرزندانِ اسلام نے ڈوگرہ سامراج سے آزادی اور اسلام کی سربلندی و بقاء کے لئے اصولوں کی جنگ لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا ۔انھوں نے اپنے لہو سے تاریخ کا ایک باب رقم کرکے آزادی کا باب منور کیا ۔ آزادی کی مانگ میں لہو کا سیندور بھرنے والے مجاہدین نے قربانیوں کا آغاز کیا۔ 1940ء میں دو قومی نظریئے کی بناء پر جب ہم نے اپنی منزل کا تعین کیا اور ہم سوئے منزل، پاکستان، چلے’ تو ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھی مسلمانانِ برعظیم پاک و ہند کی تحریک آزادی کے ساتھ اپنے فکری اورنظریاتی رشتے جوڑ دیئے۔ 3جون 1947ء کو مہاراجہ کشمیر سے مطالبہ کیا تھا کہ اصولوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کرے۔ریاست جموں و کشمیر کے دشمن لارڈمائونٹ بیٹن اورنہرو نے مسلم دشمنی کے اظہار کے لئے ریاست کا الحاق پاکستان سے نہ ہونے دیا۔اس کے پس منظر میں تفرقہ ڈالو اور حکمرانی کرو کی پالیسی کارفرما رہی۔
یہ مسئلہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ‘ یہ مسئلہ برصغیر پاک و ہند کے ایک ارب عوام کا مسئلہ ہے۔ دو جنگوں میں بھارت نے جس جارحیت کا مظاہرہ کیا وہ تاریخِ عالم کا بھیانک باب ہے۔ دو جنگوں اور کارگل مہم کے بعد ‘ بابری مسجد”درگاہ حضرت بل” اور چرار شریف کے سانحے کے بعد بھارت کے گھنائونے عزائم کھل کر سامنے آ گئے ہیں کہ بھارت اس خطے میں ہندو راج کے قیام کی سازش کر رہا ہے۔اسرائیل اور امریکی حمایت کی وجہ سے مسئلہ کشمیر تعطل کا شکار ہے ۔ اقوام متحدہ میں نہ جانے یہ مسئلہ سرد خانے میں کیوں پڑا ہے ؟
کشمیر میں بھارتی فوج مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے۔ انسانی کھوپڑیوں پر شیطانی قہقہے بلند ہو رہے ہیں ۔ جذبۂ شوقِ شہادت لے کرچلنے والے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تیرگی میں روشنی کے استعارے بن رہے ہیں۔ جذبۂ حریت کے پاسدار’ ستاروں کے ہم سفر موت سے ٹکرا رہے ہیں۔ وادیِٔ کشمیر کے ہر مجاہد کا ایک ہی نعرہ ہے ،’ آزادی یا موت’ اس نعرے کی تکمیل کے لئے راہِ حق کے مجاہد رسمِ شبیری اداکر رہے ہیں۔
آج ہر کشمیری مسلمان بے وطن ہے ‘ اس وادی میں ماتم کناں سخن ہے ‘ یہ اجڑا ہوا چمن ہے ‘ زخموں کا بدن ہے ‘ بدلی ہوئی پھبن ہے ‘ حسن شعلہ زن ہے ‘ دریدہ پیرہن ہے ‘ قربانی عشق کا چلن ہے” ہر جواں مثلِ کوہ کن ہے” مفلسی کا بانکپن ہے ‘ سرسے باندھے کفن ہے ‘ حکایت محن ہے ‘ مجاہد خیمہ زن ہے ‘ دل میں جلن ہے “ماہتاب کو گرہن ہے ‘ اُجڑی انجمن ہے ‘ لیکن غازیوں کا کمال فن ہے۔کشمیری مجاہدین” قُرونِ اُولیٰ کے مجاہدین کی طرح سربکف ہیں۔آج کشمیر میں مساجد پر گولیاں چل رہی ہیں” عزتوں کی بولیاں لگ رہی ہیں” آنچل دریدہ اور چھلنی جھولیاں ہو رہی ہیں’ متحد کافروں کی ٹولیاں ہو رہی ہیں”خون کی ہولیاں ہو رہی ہیں” لہو لہو بولیاں ہو رہی ہیں۔ اپنے لہو سے تاریخ دہرانے والے مجاہدین نے عزم کر لیا ہے کہ وہ آزادی کی شمع روشن کرکے رہیں گے۔
بھارتی فوج نے 5اگست2019 سے ظلم و جبر کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ عنقریب اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم و تشدد کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ قوت ہار جاتی ہے اور جذبے فتح یاب ہوتے ہیں۔یہ بات قابلِ فخر ہے کہ کشمیر میں شہید ہونے والوں کو پاکستانی قومی پرچم میں لپیٹ کر آسودۂ خاک کیا جا رہا ہے ۔ 8جولائی2020ء کومجاہدِ کشمیر برہان وانی کے یومِ شہادت کے موقع پر بھارتی سنگینوں کے باوجود پورے کشمیر میں کشمیریوں نے پاکستانی پرچم لہر ا کر اپنی وابستگی کا اظہار کر دیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ اور سپر طاقتوں کو یقین کر لینا چاہئے کہ کشمیری حقِ خود ارادیت چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ انسانیت کا بے دریغ قتل دیکھتے ہوئے بھی اقوامِ متحدہ کی طرف سے مسلسل خاموشی کیوں ہے ؟
کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے ساتھ ساتھ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر متعدد بار اپنی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے ۔پاکستان نے اپنی روایتی امن پسندی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاک فوج نے اُن کے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا ہے ۔ 27فروری 2019ء کو بھارت کے دو طیارے گرا کر پاک فضائیہ نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔بھارتی پائلٹ ابھینندن کو بھارت کے حوالے کرنا بھی دنیا کے سامنے ہے۔ مزید برآں2020ء میں پاکستان نے کئی بھارتی جاسوسی ڈرون تباہ کر کے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر اب اپنے منطقی حل کی طرف گامزن ہوچکی ہے ۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام بھارت کے خلاف بھی برسرِ عمل ہیں۔ اندھیری رات کا سفر کٹنے والا ہے۔ صبحِ آزادی طلوع ہونے کو ہے۔ اِن حالات میں اہلِ وطن کو اپنے ذاتی مفادات قومی مفادات کے لئے قربان کر دینے چاہئیں۔ پاکستانی عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کشمیر کی آزادی تک پاکستان کا بچہ بچہ چوکس و بیدار ہے۔