اسرائیلی بربریت کا ایک برس

Published by Irfan Hussain on

تحریر: سید اسد عباس

syed asad abbas

“طوفان الاقصیٰ” نامی حماس کے اسرائیل پر انتہائی منظم اور کامیاب حملے کو تقریباً ایک برس مکمل

راقم نے اپنے 13 اکتوبر 2023ء کو شائع ہونے والے کالم بعنوان “کیا طوفان الاقصیٰ کی ہمہ جہت منصوبہ بندی کی گئی ہے” میں لکھا: “جنگیں فقط ایک بھرپور حملہ کرنے کا نام نہیں ہوتیں بلکہ گہری منصوبہ بندی سے لڑی جاتی ہیں اور اس میں تمام حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت غزہ کی صورتحال سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ شاید بعض جذباتی احباب میری ان باتوں سے اختلاف کریں، تاہم مجھے تو حالات اسی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ میں غلط ہوں، تاہم آج حماس سے کسی بہت بڑے سرپرائز کی توقع رکھنا درست نہیں ہے، کیونکہ جو سرپرائز انھوں نے دینا تھا، وہ دے چکے ہیں اور اب اسرائیل کے جواب دینے کی باری ہے۔”

ہوچکا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو ہونے والے اس حملے میں سرحدی رکاوٹیں گرا کر اسرائیلی چھاؤنیوں، شہروں میں داخل ہونا، راکٹ حملے، ڈرون حملے، فضائی راستوں سے اسرائیل میں داخلہ، سمندری راستے سے اسرائیل پر حملہ شامل تھے۔ راقم نے اپنے 8 اکتوبر 2023ء کے کالم میں اس حملے کے بارے لکھا: “سات اکتوبر 2023ء کو حماس، جہاد اسلامی اور فلسطینی مقاومتی گروہوں نے اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کیا، جسے طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیا۔ اس حملے کو لوہار کی چوٹ کہا جاسکتا ہے۔ جس میں اسرائیلی افواج کے مطابق تقریباً تین ہزار راکٹ فائر کیے گئے۔ دو سو سے زائد صیہونی قتل ہوئے، ہزار کے قریب زخمی ہیں اور درجنوں صہیونیوں کو حماس کے لوگ قیدی بنا کر لے گئے۔ اسرائیل کا جانی و مالی نقصان اگرچہ بہت زیادہ نہ ہوا، تاہم اندرونی اور بیرونی طور پر جو ساکھ کا نقصان ہوا ہے، وہ ناقابل تلافی تھا۔ ناقابل شکست، تربیت یافتہ، اسلحہ سے لیس، بہترین انٹیلیجنس کا حامل اسرائیل چند ابابیلوں کے سامنے پاش پاش ہوگیا۔ نہ موساد کو اندازہ ہوا کہ طوفان الاقصیٰ تیار ہو رہا ہے، نہ جدید ہتھیار اور آلات بتا سکے کہ کیا ہونے والا ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ فوج ان ابابیلوں کو روک سکی۔”

دراصل مجھے تیرہ اکتوبر کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ حماس کے حملے کا جواب انتہائی شدت سے دیا جا رہا ہے اور اس سے ہونے والا نقصان بہت زیادہ ہے، کیونکہ یہ آرٹیکل تحریر کرنے کے وقت تک غزہ میں تقریباً پندرہ سو شہری شہید اور سات ہزار زخمی ہوچکے تھے۔ 49 میڈیا ہیڈکوارٹرز، 57 سکول اور 15 مساجد برباد ہوچکی تھیں، پانچ لاکھ شہری نقل مکانی کرچکے تھے۔ یہ جملے تحریر کرنے کے بعد مجھے بہت سے دوستوں کی جانب سے حکمت عملی کے مختلف فلسفوں اور کامیابی کے مختلف دلائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، اکثر اپنی سوچ اور عقل پر بھی سوال اٹھے کہ ممکن ہے کہ جو دوسروں کو دکھائی دے رہا ہے، مجھے نظر نہ آرہا ہو، تاہم میں نے ضروری سمجھا کہ جو مجھے دکھائی دے رہا ہے، اس کو تحریر ضرور کروں، ممکن ہے کہ کل اس منطق کو کوئی قبول کرلے۔

20 اکتوبر 2023ء کو اپنے کالم “غزہ جنگ سے اسرائیل کیا چاہتا ہے” میں راقم نے لکھا: “اس وقت تک اطلاعات کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریباً چار ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن میں آدھی سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ ہسپتال، چرچ، میڈیا کے مراکز، مسجدیں، بازار کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے فلسطین میں پانی، بجلی، خوراک، ادویات کی ترسیل بند ہے۔ عمارات ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں مسمار ہوچکی ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد زخمی ہیں، جو اگر اپنے زخموں سے بچ بھی گئے تو پوری زندگی نارمل زندگی نہ گزار سکیں۔ یہ تمام واقعات حماس کے ایک حملے کا جواب ہیں، جو 7 اکتوبر 2023ء کو علی الصبح غزہ کے بارڈر کو کراس کرکے کیا گیا۔ مجھے اسی روز توقع تھی کہ اس حملے کا جواب انتہائی بھیانک ہوگا، کیونکہ وہ اسرائیل جو بغیر کسی ظاہری وجہ کے فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، اب تو اسے 1400 لاشیں مل چکی ہیں۔

ان لاشوں سے بڑا نقصان ٹیکنالوجی کی برتری کا بھرم، بہترین انٹیلیجنس اور ناقابل تسخیر ہونے کا مخمصہ تھا، جسے حماس کے جنگجوؤں نے چند ہی گھنٹوں میں ہوا میں اڑا دیا۔ اسرائیل کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے ان مخمصوں کی از حد ضرورت ہے۔ اندرونی طور پر بھی اسرائیل کا یہ بھرم ٹوٹ گیا کہ ہماری افواج ہر قسم کے بیرونی خطرے کے مقابل ہمارا دفاع کرسکتی ہیں۔” راقم نے اسی تحریر میں لکھا: “میرا نہیں خیال کہ اسرائیل کسی خاطر خواہ نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس جنگ کو ختم کرنا چاہے گا۔ اسے اپنی ساکھ، ناقابل تسخیر ہونے کے مخمصے، داخلی سکیورٹی میں ناکامی کے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔ گذشتہ دو برس سے نیتن یاہو سیاسی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے، جنگ کا خاتمہ نیتن یاہو کے حق میں بھی نہیں  ہے۔ مغربی ممالک کی ایک پریشانی فلسطینی پناہ گزین ہیں، جو شمالی غزہ کو ترک کرکے مصر اور غزہ کے مابین موجود رفح بارڈر کی جانب بڑھ رہے ہیں، دس لاکھ لوگ پہلے ہی اپنے گھروں کو چھوڑ کر خان یونس کے کیمپوں تک پہنچ چکے ہیں۔

اقوام متحدہ ان پناہ گزینوں تک امداد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے، جنگ بندی کی قرارداد سکیورٹی کونسل میں ویٹو ہوچکی ہے۔ میری نظر میں یہ حملہ جیسا کہ اسرائیل نے بیانیہ دیا ہے کہ “حماس کے خلاف ہے” بالکل درست نہیں ہے۔ یہ حملہ غزہ کے شہریوں کے خلاف ہے، اس کا مقصد غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا اور ان کو صحرائے سینا کی جانب دھکیلنا ہے۔” راقم نے 20 اکتوبر 2023ء کو لکھا تھا: “میری نظر میں اسرائیل حماس کے اس حملے کو حماس کی حکومت کے خاتمے اور فلسطینیوں کے غزہ سے انخلاء کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کرے گا، تاہم وہ تمام محاذ ایک ہی وقت پر نہیں کھولنا چاہے گا۔ یہ محاذ آہستہ آہستہ کھولیں جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ خفیہ کارروائیوں کے ذریعے دیگر مقاصد کو حاصل کیا جائے۔ یہ میری آراء ہیں، جن سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے۔”

26 اکتوبر 2023ء کو لکھے جانے والے کالم “فلسطینی مہاجرین کی داستان اور نئی ہجرت” میں راقم نے لکھا: “مجھے خوف ہے کہ جیسے 1948ء سے اب تک فلسطینی مہاجرین کو واپس فلسطین میں بسائے جانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا اور فلسطینی ہر برس یوم نکبہ منا کر اپنی ملکیت کی یاد تازہ کرتے ہیں، ایسے ہی آج غزہ سے غزہ میں ہی ہجرت کر جانے والے مہاجرین کو واپس نہیں لایا جائے گا اور شمالی غزہ اسرائیل کی چراگاہ بن جائے گا۔ خدا کرے کہ میری یہ بات غلط ثابت ہو، تاہم تاریخی شواہد اور اسرائیلی حملے کا حجم نیز مغربی قوتوں کی پشت پناہی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسا ہونے والا ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی فورم پر گفت و شنید کا سلسلہ پہلے کی مانند جاری رہے گا۔ اب نہ مصر اس جنگ میں کودے گا، نہ اردن جنگ کا حصہ بنے گا، لبنان کی جانب سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہے گا، تاہم شاید یہ جھڑپیں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہجرت کو نہ روک سکیں۔”

راقم کو اپنے ان نظریات کی وجہ سے سوشل میڈیا اور دوستوں میں اتنی باتیں سننے کو ملیں کہ میں نے اپنا موضوع ہی بدل لیا کہ بھائی یہ سیاسی پیشین گوئیاں یا تجزیہ میرے بس کی بات نہیں۔ پاکستان  اور دنیا بھر میں بہت سے ایسے تجزیہ کار اور جوتشی موجود ہیں، جو مجھ سے بہتر غزہ کی صورتحال پر تجزیہ اور تبصرہ کرسکتے ہیں۔ لہذا الحاد پر بات کرو، رچرڈ ڈاکن پر لکھو، مگر درد دل کا کیا کریں، دوبارہ اسی موضوع پر لکھنا شروع کیا۔ 22 دسمبر 2023ء کو راقم نے اپنے کالم “اسرائیل کا مجوزہ پلان بی” میں لکھا: “اس لیے اسرائیلی حکام نے پلان بی تیار کر رکھا ہے اور وہ ہے: ہزاروں ٹن بم گرا کر غزہ کی پٹی کو ناقابلِ رہائش بنانا۔ پلان بی کو غزہ میں بنیادی شہری ڈھانچے، جو شہری زندگی کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کو نشانہ بنا کر قابل عمل بنایا جا رہا ہے، جس میں اسکول، یونیورسٹیاں، اسپتال، بیکریاں، دکانیں، کھیتی، گرین ہاؤسز، واٹر اسٹیشن، سیوریج سسٹم، پاور اسٹیشن، سولر پینلز اور جنریٹرز شامل ہیں۔ طلبہ سے خالی الاقصیٰ یونیورسٹی، الازہر یونیورسٹی تباہ و برباد کی جاچکی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بنیادی ڈھانچے ختم ہوچکے ہیں۔”

راقم نے 12 اپریل 2024ء کو اپنی تحریر “اسرائیل غزہ میں کیا چاہتا ہے؟” میں لکھا:
“میرے خیال میں اسرائیل اس وقت اہل غزہ کی ظلم کے خلاف قیام کی طاقت کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اہل غزہ سے وسائل زندگی چھین کر انھیں فکر معاش و حیات میں مبتلا کر دیا جائے۔ وہ حقوق، ریاست، اقتدار، قانون کی حکمرانی، آزادی نامی چیزوں کو بھول کر روٹی، پانی، دوائی، پرامن رہائش جیسے بنیادی مسائل سے دوچار ہو جائیں۔ حقوق کے نعرے اسی وقت انسان کے ذہن میں آتے ہیں، جب موخر الذکر وسائل کسی حد تک میسر ہوں۔ جب موخر الذکر اشیاء اور خود زندگی کو ہی خطرات درپیش ہو جائیں تو اجتماعی بہبود، فلاحی ریاست، اقتدار اعلیٰ اور آزادی جیسی باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔”

راقم نے 19 جون 2024ء کو اپنی تحریر “اسرائیل اور لبنان کے مابین کشیدگی” میں لکھا: “میرے خیال میں اسرائیل اور حزب اللہ کی حالیہ کشیدگی کسی بڑی جنگ کی صورت نہیں اختیار کرے گی، تاہم چھوٹی جھڑپوں کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ اگر اسرائیل حزب اللہ پر زمینی حملے کی غلطی کرتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک ناقابل تلافی غلطی ہوگی، کیونکہ حزب اللہ پر زمینی حملے کی صورت میں ویسا ہی وار گیٹ کھل جائے گا، جیسا کہ داعش کے شام پر حملے کے وقت کھل گیا تھا، جسے کنٹرول کرنا کسی بھی طاقت کے بس میں نہیں ہوگا۔” آج میں کوئی نیا تجزیہ نہیں کرتا۔ ایک برس میں جو کچھ ہوا، قارئین کے سامنے ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کو پڑھ کر ضرور مطلع کریں کہ راقم کی رائے کتنے فیصد درست ثابت ہوئی، ان شاء اللہ جنگ کے حوالے سے مزید تجزیہ اپنے اگلے کالم میں پیش کروں گا۔