×

ٹرمپ ٹو پوائنٹ زیرو، اپڈیٹڈ ورژن

syedasadabbas

ٹرمپ ٹو پوائنٹ زیرو، اپڈیٹڈ ورژن

تحریر: سید اسد عباس

ٹرمپ کے گذشتہ دور حکومت میں امریکی صدر ٹرمپ نے متعدد عالمی معاہدوں اور اداروں سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا، جن میں عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی (2020ء)، پیرس ماحولیاتی معاہدہ سے لاتعلقی(2017ء)، ایران ایٹمی ڈیل سے لاتعلقی(2018ء)، ٹی پی پی (ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ) سے علیحدگی(2017ء)، یونیسکو اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے علیحدگی(2018ء)، ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے معاہدہ آئی این ایف سے لاتعلقی، نیٹو اور جی سیون اتحاد سے علیحدگی کی دھمکیاں شامل ہیں۔ ٹرمپ نے جب عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی کا اعلان کیا تو چین نے اس ادارے کو دی جانے والی امداد میں 50 ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا۔ اگرچہ یہ رقم امریکی فنڈنگ کے برابر تو نہ تھی، تاہم ٹرمپ کے اس فیصلے کے سبب چین کا عالمی ادارہ صحت میں رسوخ بڑھا اور اس ادارے نے کووڈ کے ماخذ کے بارے ہونے والی تحقیق کو روک دیا اور چینی ویکسینز کی دنیا بھر میں تشہیر کی گئی۔

امریکا کے پیرس ماحولیاتی معاہدہ سے علیحدگی کے بعد چین اس فورم کا سب سے بڑا رکن بن گیا اور اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کے باوجود خود کو زیادہ سرسبز ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسی طرح جب امریکا نے یکطرفہ طور پر ایران کے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تو چین نے تہران سے روابط کو مضبوط کیا اور ایران اور چین کے مابین مختلف شعبوں میں ہم آہنگی کے حوالے سے 25 برس کا تزویراتی معاہدہ طے پایا۔ چین نے امریکی پابندیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایران سے تیل کی امپورٹس میں بھی اضافہ کیا۔ امریکا نے جب ٹرانس پیسیفک معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تو چین نے RCEP کی رکنیت اختیار کی، امریکا اس معاہدے کا رکن نہیں۔ اب ایشیاء کے زیادہ ممالک امریکا کے بجائے چین سے تجارت کرتے ہیں۔ یہ امور اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ٹرمپ کا امریکا پہلے کا نعرہ اور عالمی معاہدوں کو ترک کرنا فطری طور پر دنیا کی قیادت کو کسی اور ملک کے ہاتھوں میں دیتا ہے اور یہ ملک کوئی اور نہیں چین ہے۔ چین اقوام متحدہ کے اہم اداروں میں کلیدی مقام کا حامل ہے۔

ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور اقتدار کا حلف 20 جنوری 2025ء کو اٹھایا اور 20 جنوری 2025ء سے ہی اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کا سلسلہ شروع کیا، جو کہ تاحال جاری ہے۔ اب تک تقریباً 61 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے جا چکے ہیں۔ ان فیصلوں میں سے کچھ کا تعلق امریکا کے داخلی مسائل سے ہے اور کچھ کے عالمی اثرات ہیں۔ ٹرمپ کے بعض فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج بھی کیا جا رہا ہے، جیسے کہ فیڈرل فنڈگ کو تا حکم ثانی روکنا، وفاق میں ضروری اداروں جیسا کہ امریکی افواج اور چند دیگر اداروں کے علاوہ تمام اداروں میں بھرتی کو تا حکم ثانی معطل کرنا، وفاقی ملازمین کو دفاتر آنے کا حکم یعنی اب وہ گھر سے کام نہیں کرسکتے۔ امریکا کے لیے آئرن ڈوم کی تشکیل کا حکم، امریکا کی جنوبی سرحدوں پر ایمرجنسی کا اطلاق، میکسیکو کے بارڈر پر دیوار کی تعمیر، امریکہ میں آنے والے تارکین وطن کے بچوں کو امریکی شہریت نہ دینے کا حکم، مہاجرین کی بحالی کے پروگروام کی معطلی۔

چین، کینیڈا، میکسیکو اور برازیل کی مصنوعات پر اضافی ٹیرف کا اطلاق (ٹیرف وہ حکومتی ٹیکس ہے، جو غیر ملکی مصنوعات پر کسی ملک کی جانب سے لگایا جاتا ہے، اضافی سے مراد پہلے سے موجود ٹیرف اور حکومتی فیسوں کے ساتھ ٹیرف کا مزید اضافہ ہے)۔ دوسری مرتبہ امریکہ کے عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی اور فنڈنگ روکنے کا اعلان۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2024ء میں امریکہ کی عالمی ادارہ صحت کے لیے امداد 950 ملین ڈالر تھی، جو کہ تنظیم کے بجٹ کا 15 فیصد بنتا ہے۔ بائیڈن حکومت کے دوران امریکہ دوبارہ اس ادارے کا رکن بن گیا تھا۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے بھی دوسری مرتبہ علیحدگی۔ ٹرمپ نے امریکی کی جانب سے دی جانے والی بیرونی امداد پر 90 دن کے لیے پابندی عائد کر دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ ان پروگراموں کے بارے غور کریں گے۔

ان اداروں میں اقوام متحدہ کی پانچ امدادی ایجنسیاں UNHCR، ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسف، عالمی ادارہ صحت، یو این ڈی پی شامل ہیں۔ یو ایس ایڈ، ڈی سی ایچ اے اور پی آر ایم وہ ادارے ہیں، جن کے ذریعے امریکی حکومت براہ راست امداد مہیا کرتی ہے۔ 4 فروری 2025ء کے آرڈر کے مطابق امریکہ اقوام متحدہ کی تین ایجنسیوں  UNHCR  UNESCO اور UNRWA سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہے اور ان تینوں ایجنسیوں کو ملنے والی امریکی امداد بند کی جاتی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے حکم دیا ہے کہ تمام عالمی امدادی اداروں کے بارے میں 180 دن کے اندر اندر رپورٹ جمع کروائی جائے کہ ان کو کتنی امداد دی جا رہی ہے اور اس سے امریکا کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کا ایک خوش آئند اقدام وائٹ ہاؤس میں "ایمانیات کے دفتر” کا قیام ہے۔ ان کے خیال میں مذہبی لوگ زیادہ بہتر طور پر لوگوں کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ اس دفتر میں کٹر صہیونی مسیحی براجمان ہوں گے۔

امریکی صدر نے ایک آرڈر میں یمن کی اسلامی مزاحمتی تنظیم انصاراللہ کو غیر ملکی دہشتگر د تنظیم قرار دیا۔ اس آرڈر میں درج ہے کہ اس تنظیم کو سپاہ تربیت دے رہی ہے اور اس تنظیم نے باب المندب میں سینکڑوں مرتبہ امریکی اور تجارتی کشتیوں پر حملہ کیا ہے۔ پالیسی یہ ہے کہ انصاراللہ کی استعداد اور صلاحیتوں پر حملے کیے جائیں۔ ٹرمپ نے ایک حکم نامے میں جو 12 فروری 2025ء کو جاری کیا گیا، اس میں عالمی عدالت انصاف کے ججوں اور دیگر عملے پر اقتصادی اور سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ امریکہ کے اتحادی اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ہے۔ یہ تو ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے تھے، جہاں تک ٹرمپ کے بیانات کا سوال ہے تو وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ فلسطینیوں کو غزہ واپس آنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے، ہم غزہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے، اردن اور مصر کو فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسانا چاہیئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کو ملنے والی امریکی امداد بند کر دی جائے گی۔

اگر ایک ہفتے میں اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو جنگ بندی ختم کر دی جائے گی اور پھر کچھ نہیں بچے گا، ایران نے اگر ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی تو امریکا طاقت کا استعمال کرے گا۔ ایران کے پاس بمب اور ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے، ایران پر اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دباؤ مزید بڑھایا جائے گا اور اس کی تیل کی برآمدات کو صفر کی سطح پر لایا جائے گا۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کے سربراہ اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ایرانی مندوب نے کہا کہ ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر بالخصوص آرٹیکل 2 (4) کی صریح خلاف ورزی ہیں، جو خود مختار ریاستوں کے خلاف دھمکیوں یا طاقت کے استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے۔

سفارت کار نے ایران کے خلاف ٹرمپ کی نام نہاد زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کو بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایران کے مستقل مندوب نے اپنے خط میں لکھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس طرح کی کھلم کھلا بیان بازی کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ جو کہ امریکی صدر بھی ہے، پاگل ہے یا جان بوجھ کر پاگل پن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا انداز جارحانہ ہے، جو کام اس نے اپنے پچھلے دور حکومت میں کیے اور جن کو بائیڈن نے اپنے دور حکومت میں کالعدم کیا، وہی اقدامات ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور حکومت کے آغاز میں ہی دوبارہ انجام دے دیئے ہیں۔ دنیا کو اسی جارحانہ پالیسی کے ساتھ امریکہ میں آنے والی کسی تبدیلی کا انتظار کرنا ہے۔

ٹرمپ اپنی جارحیت سے نتائج حاصل کرنے کے لیے دنیا میں موجود امریکی اثر و رسوخ کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات سے امریکا کو عالمی سطح پر فائدہ ہوگا یا نقصان، اس دیوانگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے، یہ اہم سوالات ہیں، جن کا جواب چین کے پاس ہے۔ آیا چین عالمی سطح پر سپر پاور کا تشخص حاصل کرنے کے لیے اپنے وسائل کا ایسے ہی استعمال کرتا ہے، جیسے امریکا کر رہا ہے۔؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال چینی معیشت اور معاشرے پر کیا اثر ڈالے گا۔؟ چین بطور عالمی داروغہ کیسا ملک ہوگا۔؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب دنیا کے لیے حاصل کرنا ضروری ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر پھیلاؤ عروج کی ہی علامت ہو اور ہر سکڑاؤ زوال کا عندیہ دے۔ سوویت یونین کا  وسائل کا پھیلاؤ ہی اس کے لیے وبال جان بن گیا تھا۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Share this content: